ہر سال امریکہ بھر میں چار جولائی کو یومِ آزادی نہایت دھوم دھام سے منایا جاتا ہے،آج سےٹھیک 248سال قبل 1776ء میں جولائی کی چار تاریخ کو شمالی امریکہ کی13محکوم ریاستوں نے برطانوی سامراج سے متفقہ طور پر آزادی حاصل کرنے کا تاریخی اعلان کیا ۔ دستاویزآزادی کے تحت امریکی عوام کے مابین مساوی حقوق، آزادی اظہارِ رائے اور خوشحال زندگی کے حصول کے ایجنڈے پر دیگر امریکی ریاستیں بھی شامل ہوتی گئیں اور پھر وقت نے دیکھا کہ سرزمین امریکہ میں بسنے والوں کی ریاست یونائیٹڈ اسٹیٹس آف امریکہ عالمی منظرنامے پر ایک سپرپاور بن کر اُبھری۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد ایک طرف امریکہ بطور فاتح بن کر سامنے آیا تو برطانوی سامراج کی نوآبادیاتی کالونیوں میں قدم اکھڑنے لگ گئے اور پاکستان سمیت مختلف آزاد خودمختار ریاستیں معرض وجود میں آگئیں۔ پاکستان اور امریکہ کومتعدد مشترکہ اقدار کی وجہ سے سفارتی سطح پر ایک دوسرے کا فطری اتحادی سمجھاجاتا ہے، امریکہ کا شمار ان چند ممالک میں کیا جاتا ہے جنہوں نے سب سے پہلے پاکستان کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کیے،،دو عالمی طاقتوں کی اس رسہ کشی میں پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان نےامریکہ کو فوقیت دی، سپرپاور امریکہ کے ساتھ دوطرفہ خوشگوار تعلقات کا آغاز کرنے کیلئے نوزائیدہ مملکت پاکستان کایہ اہم اقدام جمہوری اقدار، آزادی اظہاررائے اور انسانی حقوق کے علمبردار امریکہ پر اظہارِ اعتماد تھا۔قیام پاکستان سے لیکر آج تک پاکستانی قیادت ہمیشہ سے امریکہ کیساتھ خوشگوار تعلقات کے فروغ کی خواہاں رہی ہے، تاہم دونوں اتحادی ممالک کے مابین دوطرفہ تعلقات مختلف عوامل کی بنا پر نشیب و فراز کا شکار بھی رہے ہیں، ماضی میں ایسے بے شمار مواقع آئے ہیں جب امریکہ اور پاکستان ایک دوسرے کے بہت زیادہ قریب آئے اور ایسا بھی ہوتا رہا کہ دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے خلاف بدظنی اور بداعتمادی کا کھلم کھلا اظہار کیا۔ پاک امریکہ تعلقات کے حوالے سے ایک تازہ مثال امریکی کانگریس میں قرارداد 901ہے جسے امریکی ایوان نمائندگان نے 25 جون 2024ءکو بھاری اکثریت کے ساتھ منظور کیاہے،قرارداد میں پاکستان کو امریکہ کا ایک اہم اور قابلِ قدر پارٹنر قرار دیتے ہوئے جمہوری عمل کی حمایت بشمول آزاد اور شفاف انتخابات کی ضرورت کا اعادہ کیا گیا ہے، قرارداد میں اعتراف کیا گیاہے کہ رواں برس آٹھ فروری کولاکھوں پاکستانیوں نے عام انتخابات میں حصہ لیا، جس میں خواتین، نوجوانوں، اور مذہبی اور نسلی اقلیتی گروہوں کے اراکین کی ریکارڈ تعداداپنا ووٹ ڈالنےکیلئے رجسٹرڈ ہوئی، قرارداد کے متن کے مطابق امریکی صدر اور سیکرٹری آف اسٹیٹ سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ جمہوریت، انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے کیلئے حکومت پاکستان کے ساتھ روابط کو مضبوط کریں،حکومت پاکستان پر زور دیا گیا ہے کہ ملک میں جمہوری اور انتخابی اداروں، انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھا جائے اور پاکستانی عوام کیلئے آزادی صحافت، آزادیِ اجتماع اور آزادی اظہارِ رائے کی بنیادی ضمانتوں کا احترام یقینی بنایا جائے، مذکورہ قرارداد میں پاکستان میں انٹرنیٹ اور ٹیلی کام رسائی پر پابندی کا بطور خاص تذکرہ کرتے ہوئےپاکستان کے سیاسی، انتخابی یا عدالتی عمل کومتاثرکرنے کی کسی بھی کوشش کی مذمت کی گئی ہے اور آٹھ فروری الیکشن میں مبینہ مداخلت یا بے ضابطگیوں کے دعووں کی مکمل اور آزادانہ تحقیقات پر زور دیا گیا ہے۔ امریکی ایوان میں مذکورہ قرارداد کی منظوری کو عالمی میڈیا پر نمایاں کوریج حاصل ہوئی اورعالمی سفارتی سطح پر ایک نئی بحث چھڑ گئی، کچھ مبصرین نے اسے جمہوری اقدار اور انسانی حقوق کیلئے بین الاقوامی حمایت کی ایک مثبت علامت کے طور پر دیکھاجبکہ بیشتر تجزیہ نگاروں نے اسے پاکستان کے اندرونی معاملات میں امریکی مداخلت کے طور پر تنقید کا نشانہ بنایا،تاہم اس حوالے سے کوئی دو رائے نہیں کہ سفارتی سطح پر امریکی قرارداد پاکستان اور امریکہ کے دیرینہ قریبی تعلقات میں دراڑ ڈالنے میں کارگر ثابت ہوئی ہے اور عمومی طور پر پاکستان میں امریکی قرارداد کو ایک منفی پیش رفت کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔حکومت پاکستان کی جانب سے آٹھ فروری الیکشن میں مبینہ انتخابی بے ضابطگیوں کے الزامات کی تحقیقات کیلئے باضابطہ طور پر سخت ردعمل سامنے آیاہے،دفتر خارجہ نے امریکی قرار داد کو دو طرفہ تعلقات کیلئے نقصان دہ اور اسکا محرک غلط معلومات کو قرار دیا، قومی اسمبلی نے بھی امریکی قراردادکو مسترد کرتے ہوئے جوابی قرارداد منظور کرلی ہے جس میں امریکی اقدام کو افسوسناک ،مکمل طور پر خلافِ حقیقت اوراندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیا گیا ہے۔ میں نے گزشتہ برس الیکشن سے قبل دسمبر میں ویدک علم نجوم کی روشنی میں پاکستان میں الیکشن کے بعد کی صورتحال کے حوالے سے کچھ پیش گوئیاں کی تھیں،نجی ٹی وی چینل کو اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ علمِ نجوم کی رُو سے جولائی سے پاکستان کے موجودہ حالات ٹف ہوتے نظر آرہے ہیں، امریکی ایوان میں قرارداد 901کی منظوری نے میری بیان کردہ پیش گوئیوں کو حرف بحرف درست ثابت کردکھایا ہے، میں اپنے موقف پر قائم ہوں کہ گزشتہ چند ماہ میں جو کچھ ہوا اورجو کچھ ہونے جارہا ہے، وہ پاکستان کی عالمی مشکلات میں اضافہ کرتے ہوئے نت نئے چیلنج لیکر آئے گا۔آج وقت کا تقاضا ہے کہ اس امریکی اقدام کے محرکات پر ٹھنڈے دماغ سے غور کرکے لائحہ عمل مرتب کیا جائے، ہمارا سوچےسمجھے بغیر جذباتی ردعمل نہ صرف امریکی خارجہ پالیسی اورعالمی امدادی فیصلوں پر اثرانداز ہوسکتا ہے بلکہ امریکی اتحادی ممالک بشمول بھارت، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات بھی اس قرارداد کو پاکستان کے ساتھ دوطرفہ تعلقات پر نظرثانی کا جواز بناسکتے ہیں۔ میری نظر میں رائٹ پرسن ایٹ رائٹ جاب کے تحت قابل افراد ہی خدا کی رحمت کی بدولت ہماری پاک دھرتی کو بحرانات سے نکال سکتے ہیں۔ آج میں امریکی عوام کو یومِ آزادی کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے توقع کرتا ہوں کہ دونوں فطری اتحادی ممالک کی اعلیٰ قیادت اس حساس ایشو پر سمجھدار ی ، سنجیدگی اور بردباری کا مظاہرہ کرے گی اور ایسا کوئی انتہائی قدم نہیں اٹھائیں گےجس سے دونوں ممالک کے مابین دُوریاں بڑھنے کے خدشات مزیدبڑھ جائیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)