• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرتب: محمّد ہمایوں ظفر

دادا، دادی یا نانا، نانی کے رشتے کے ساتھ بھرپور اپنائیت کا احساس مشروط ہے۔ والدین کی محبّت تو فطری ہوتی ہے، مگر دادا، دادی اور نانا، نانی کا لاڈ و پیار بھی کچھ خاص ہی ہوتا ہے۔ ان بزرگوں کا گھنیرا سایہ ایک پُرسکون احساس دلاتا ہے۔ نیز، والدین کے، والدین اپنے تجربات سے اپنے پوتے، پوتیوں، نواسے، نواسیوں کو بہت کچھ سِکھاتے ہیں، جو شاید ہی کوئی دوسرا سکھا سکے۔ 

میرے نانا جان، کھتری یوسف صالح محمد پاروانی بھی ایک ایسے ہی نانا تھے۔ رشتوں سے پیار کرنے والے، رشتوں پر جان چھڑکنے والے اور جانے، اَن جانے سب کی مدد کے لیے ہمہ وقت تیار۔ اُن کی پیدائش بمبئی (ممبئی) کی تھی اور چوں کہ ان کے والد، صالح محمد حسن پاروانی کا بمبئی میں کپڑوں کا کاروبار تھا، تواس وجہ سے وہ کچھ عرصے بمبئی قیام کرتے اور کچھ عرصے مانڈوی کی دکان سنبھالتے۔

میری والدہ، عائشہ زوجہ عبدﷲ پٹیل اور چھوٹے ماموں، حسین پاروانی، نانا جان سے متعلق اپنی یادداشتوں کے حوالے سے گاہے بگاہے واقعات سناتے رہتے تھے، جو میں اپنی ڈائری میں لکھ لیا کرتا۔ میرے ماموں کے پاس نانا جان کا برطانوی دَور کا پاسپورٹ اب تک محفوظ ہے۔ نانا اور نانی کی شادی20 جولائی 1915ء میں ہوئی۔ نانا جان نے ابتدائی تعلیم کَچھ، مانڈوی کے انجمن ہائی اسکول سے حاصل کی۔ اگرچہ محض 6جماعتیں گجراتی میں اور 5جماعتیں انگریزی میں پڑھیں، تاہم اس واجبی تعلیم کے باوجود اُن کی علمی قابلیت کسی گریجویٹ سے کم نہ تھی۔ 

عملی زندگی میں قدم رکھا، تو آغاز،اپنے خاندانی کام اناج اور کپڑے کی تجارت سے کیا۔ بعدازاں، اُس دَور کی رائج الوقت کرنسی ’’کوریوں‘‘ کے کاروبار سے منسلک ہوگئے۔ (یاد رہے، اُس زمانے میں روپے کو کوری کہا جاتا تھا)۔ نانا جان نے کوریوں کے کام میں نہ صرف وسیع تجربہ حاصل کیا، بلکہ اس کو خاصی وسعت بھی دی۔ ہمہ دَم متحرک رہنا پسندکرتے، لہٰذا مزید ترقی کے حصول کے لیے 2فروری 1929ء کو بمبئی سے پور بندرگاہ چلے گئے اور1931ء میں وہاں سے پاسپورٹ بنوانے کے بعد تجارت کی غرض سے پہلے شمالی افریقا کے ملک موزمبیق اور پھر پرتگال پہنچ گئے۔ 

پرتگال میں کپڑے کی دکان کے ساتھ ایک سیٹ اَپ موزمبیق میں بھی قائم کیا۔23ستمبر1932ء کو موزمبیق سے بذریعہ بحری جہاز وطن واپس آگئے اور بمبئی سے موزمبیق تک کاروبار کو توسیع دینے کے بعد برطانیہ جانے کا ارادہ کیا۔ وہاں بھی کچھ عرصے مختلف کاروبار سے منسلک رہے اور بعدازاں وطن واپس لوٹ آئے۔

میرے نانا ایک نہایت ہم درد، نیک دل انسان تھے، یہاں تک کہ آج بھی خاندان کے لوگ اُن کی نیکی اور انسان دوستی کے قصّے آج بھی بڑے فخر سے سُناتے ہیں۔ وہ دوسروں کی مالی مدد اور دادرسی کرکے بہت خوش ہوتے بلکہ ان کی آمدنی کا بیش ترحصّہ خاندان کے افراد کی فلاح و بہبود اور دُکھی انسانیت کی خدمت ہی پرصرف ہوتا۔ مساجد کی تعمیر اور دینی مدارس کی اعانت میں بھی پیش پیش رہتے۔ اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ میرے قابلِ فخر نانا کو جنّت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، آمین۔ (کھتری عصمت علی پٹیل، کراچی)