مرتب: محمّد ہمایوں ظفر
؎ ہم کو دیتا ہے، تازگی ہر دم.....ماں کا آنچل، ہوائوں جیسا ہے.....ہے کڑی دھوپ، ہرطرف لیکن.....ماں کا احساس، چھائوں جیسا ہے.....ربّ بھی، کتنا شفیق ہے ہم پر.....ربّ کا انداز، مائوں جیسا ہے۔ ماں کی عظمت اور اس کی شان کے اظہار کے لیے پیار و محبت سے لب ریز، نرم گداز دل چاہیے۔ مَیں اپنی ممّی پر روایتی انداز میں لکھنا نہیں چاہتی۔ سو، بچپن سے لے کر اب تک جو کچھ دیکھا اور محسوس کیا، ان احساسات و جذبات کو قلم بند کرنے کی ایک کوشش کررہی ہوں۔
یہ میرے خالص جذبات و احساسات ہیں، جن میں سلاست و روانی سے زیادہ عقیدت و محبّت کا جذبہ شامل ہے۔ بلاشبہ، ماں ایک ایسی پاکیزہ ہستی ہے، جس کے ہونے ہی سے ساری کائنات پُرنور نظر آتی ہے۔ اس کے وجود سے سارا خاندان گل و گل زار معلوم ہوتا ہے اور جب وہ نہیں رہتی، تو بَھرا پُرا گھر بھی ویران لگتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ گھر میں چاہے رشتے داروں کا جمگھٹا ہو، لیکن اگر ماں نہ ہو، تو گھر ویرانی اور خالی پن کے احساس سے بھر جاتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ماں کا وجود بذاتِ خود ایک کائنات ہے۔ اُس کے دَم سے زندگی کے چہرے پر بہار ہے۔
اگر گھر میں کوئی نہ ہو، صرف ماں ہو، تب بھی گھرشاد و آباد نظر آتا ہے۔ ماں کے بغیر گھر کا کونا کونا، اور آنگن، منڈیریں تک ویران لگتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو بے پناہ نعمتوں سے نوازا ہے، لیکن ان سب نعمتوں میں بلاشبہ، ماں ایک عظیم ترین نعمت ہے۔ ماں نہ ہو، تو زندگی گزارنا مشکل ہوجائے۔ بچّوں کے لیے ماں کی آغوش ہی پہلی درس گاہ ہوتی ہے۔
میری ممّی،نزہت نسیم رضوی بھی ایک مثالی ماں تھیں، جنہوں نے ہمارے لیے بے پناہ قربانیاں دیں۔ ممّی، شعبۂ درس و تدریس سے وابستہ تھیں۔ انہوں نے بھرپور انداز میں امور ِ خانہ داری نبھانے کے ساتھ ہمیشہ ہماری خوشیوں کو بھی مقدّم رکھا اور اپنی پوری زندگی بہت بے نیازی سے گزاردی۔ جب تک صحت نے اجازت دی، شوہر کی خدمت اور بال بچّوں کی دیکھ بھال میں مشغول رہیں۔ ہمارے لیے اُن کی شخصیت، ایک سائبان کی مانند تھی۔ وہ جس سے بھی ملتیں، اخلاق و اخلاص سے پیش آتیں۔ ممّی نے انتقال سے قبل ایک طویل عرصہ، بسترِ علالت پر بھی گزارا۔
میرے والد، پیرزادہ سیّد خالد حسن رضوی امروہوی کو اس بات کا ادراک تھا کہ انجام ِکارکیا ہوگا، لیکن انہوں نے والدہ کے علاج کے ضمن میں کبھی کوئی کوتاہی نہیں کی۔ انھوں نے ممّی کی دیکھ بھال کے لیے تین ملازمائیں رکھی ہوئی تھیں، تاکہ اُنھیں کسی قسم کی کوئی تکلیف نہ ہو، اس دوران وہ خود بھی اپنی دیگر مصروفیات چھوڑ کر صرف ممّی کی تیمار داری میں لگے رہتے۔ اپنے شوہر کی بے لوث خدمت اور جذبہ دیکھ کر ممّی ہمیشہ اُن کی صحت و سلامتی اور تادیر اُن کا سایہ ہمارے سروں پر سلامت رکھنے کی دُعائیں کرتی رہتی تھیں۔
بیماری کے دوران ممّی کی حالت دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اُنھیں اپنے مقرّب بندوں میں شامل کرلیا ہے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ اپنے پسندیدہ بندوں ہی سے امتحان لیتا ہے۔ وہ طویل بیماری کے باوجود ہمیشہ ثابت قدم رہیں۔ مَیں نے کبھی انھیں کوئی شکوہ شکایت کرتے نہیں دیکھا، ہر حال میں خوش رہتیں۔ ہم اُن کی طہارت کا بہت خیال رکھتے تھے۔
صاحب ِ فراش ہونے کے باوجود ممّی نے کبھی کوئی نماز قضا نہیں کی۔ درود شریف کا ورد، اُن کا محبوب مشغلہ تھا اور یہ عمل انہوں نے آخری سانسوں تک جاری رکھا۔ اب اُن کے بعد ہماری یہ کیفیت ہے کہ؎ کیا کہوں، کیا صورتِ حالات ہے، تیرے بغیر.....زندگی کی ہر سحر، اِک رات ہے، تیرے بغیر۔
واقعی، بڑے خوش نصیب ہوتے ہیں وہ لوگ، جو اپنے والدین کی خدمت کرتے اوراُن کی دُعائیں لیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو اللہ کا شُکر گزار ہونا چاہیے، جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی ماں کے قدموں تلے موجود جنّت سے لُطف اندوز ہونے کی توفیق عطا کی اور دنیا و آخرت سنوارنے کا موقع عنایت کیا۔ ہم نے بھی حتی الامکان ممّی کی خدمت کی، لیکن اُن کی خدمات کا حق تو بہرحال ادا نہیں کرسکے۔
آج اُن کے بغیر بام و دَر خاموش ہیں، گھر ، ویران ہے، آنکھیں آب دیدہ ہیں، دل افسردہ ہے کہ اُن کی یادوں کا سیل ِ رواں، ہر دم ہمارے تعاقب میں رہتا ہے۔ بچپن سے جوانی تک اُن کے سائے میں زندگی گزاری، اب اُن کی یادوں کے ساتھ زندگی بسر کریں گے۔ دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ میری ممّی کو جنّت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور مجھ سمیت اُن کے تمام لواحقین کو صبرِ جمیل کی توفیق دے، وہ کیا ہے کہ؎ چلتی، پھرتی ہوئی آنکھوں سے اذاں دیکھی ہے.....میں نے جنّت تو نہیں دیکھی ہے، ماں دیکھی ہے۔ (ڈاکٹر سیّدہ قرۃ العین رضوی، کراچی)