ایّامِ عزا کے روز و شب، محرّم کی نویں تاریخ، کراچی کے شہری، جن کے دِلوں میں حُبِ اہلِ بیتؓ، لبوں پر یاحُسینؓ اور سینوں میں غمِ نواسۂ رسولؓ، جُوق در جُوق، جذبۂ عقیدت سے سرشار، دیوانہ وار نشتر پارک کی طرف اُمڈے چلے جا رہے ہیں کہ بنتِ رسولؓ کو اُن کے پیارے اور سہ روز کے پیاسے تہہِ تیغ کیے جانے والے جنّت کے شہہ زادے کا پُرسہ دیں۔
تاریخی نشتر پارک کی حدود سے کچھ پہلے ہی لاؤڈ اسپیکر پر سوز خواں، علی اوسط زیدی کی اپنے ساتھیوں کی سنگت میں سوز و غم میں ڈوبی آواز گویا سماعتوں پر محیط ہو چلی؎ ’’جب ہوئے بازوئے عبّاس قلم دریا پر…‘‘ لوگوں کے قدم کچھ اور تیز۔ جو پہلے سے فرشِ عزا پر موجود، اُن کی بلند ہونے والی صدائے گریہ نے فضا کو کچھ اور پُر سوز کیا۔نشتر پارک کی حدود پر اُداسی کچھ اور شدّت سے غلبہ کرتی ہے۔ یوں محسوس ہوا کہ قُرب و جوار کا چپّا چپّا، ذرّہ ذرّہ زہراؓ کو اُن کے لال کا پُرسہ دینے میں مصروف و مشغول ہے۔
علی اوسط زیدی سیاہ شیروانی میں ملبوس، جس کے گلے کے دو تین بٹن کُھلے ہیں، آستینیں کہنیوں تک چڑھی ہیں، سر تا پہ اُداسی کا پیکر، اپنے پُر سوز لحن کے ساتھ عزاداروں کو مائل بہ گریہ کرنے پر کمر بستہ۔ کلام پُر درد، آواز پُر محن، انداز پُر از گریہ، فضا ماتمی۔ سوز خواں بین کی آوازوں کے ساتھ شدّتِ غم کے اظہار کے لیے پوری طرح تیار۔؎ جب ہوئے بازوئے عبّاس قلم دریا پر…گِر کے ٹھنڈا ہوا حضرت کا عَلَم دریا پر…غرقِ خوں ہو گیا وہ بحرِ کرم دریا پر…غُل تھا زخمی ہوا سقّائے حَرَم دریا پر…مشک کو دانتوں میں پکڑے ہوئے یوں لاتا ہے…دہنِ شیر میں جس طرح شکار آتا ہے۔‘‘
سماعتوں پر محیط آواز سکوت میں تبدیل۔ سوزخوانی کا اختتام۔ سلام گزار اشرف عبّاس اب منبر کی جانب بڑھتے ہیں۔ نشتر پارک کا پنڈال پوری طرح بَھر چُکا۔ تِل دھرنے کی جگہ باقی نہیں، تاہم عزاداروں کی آمد کا سلسلہ بدستور اور متواتر جاری۔ آنے والے اس کوشش میں کہ اُنہیں فرشِ عزا پر بیٹھنے کی جگہ مل جائے۔اشرف عبّاس ایک سلام عزادارانِ حُسینؓ کو سنا چُکے۔
دِلوں میں جوش اور ولولہ پیدا کرتی’’نعرۂ حیدری، یا علیؓ ‘‘کی صدائیں نشتر پارک سے نکل کر سولجر بازار اور شاہِ خُراسان کے گلی کوچوں میں سُنائی دیتی ہیں۔ نعروں کے درمیان اشرف عبّاس کی آوازکی گونج’’مولانا حسن امداد کا کلام آپ کی سماعتوں کی نذر۔‘‘
یہ لیجیے، کلام کی ابتدا ہو چلی۔؎ ’’ کربلا ہو چُکی تیار تقدّم ولدی۔‘‘آواز کیا بلند ہوئی کہ پورے نشتر پارک میں گویا کہرام سا بپا ہوگیا۔ لوگ زار و قطار گریہ و زاری میں مشغول۔پُر سوز آواز مع کلام سماعتوں پر محیط۔؎ ’’بڑھے آتے ہیں جفا کار تقدّم ولدی…چاروں جانب سے ہے یلغار تقدّم ولدی…ہوتی ہے تیروں کی بوچھار تقدّم ولدی…زد پہ ہیں سب مرے انصار تقدّم ولدی…ان پہ آنچ آئے نہ زنہار تقدّم ولدی…دین ناناؐ کا مِٹے اور نواسہؓ سہہ لے…یہ نہ ہو گا کبھی ہم سے، کوئی کچھ بھی کہہ لے…خون بہتا ہے تو ہم لوگوں کا اس پر بہہ لے…بھیجتا جنگ پہ عابد کو میں تم سے پہلے…مگر عابد تو ہیں بیمار تقدّم ولدی…کربلا ہو چکی تیار تقدّم ولدی۔‘‘
کلام ختم۔ اشرف عبّاس زیرِ منبر۔لوگوں کی نظریں مسلسل اپنی گھڑیوں کی طرف۔ لیجیے بارہ بج چُکے۔اب منتظمین میں سے ایک ہاتھ میں مائک تھامے اعلان کرتا ہے۔’’ پاک محرّم کے رضا کار اپنی جھولیاں پھیلائے آپ کی خدمت میں حاضر ہو رہے ہیں۔ مولا حسینؓ کے نام پر دل کھول کر عطیات دیں۔‘‘آواز ایک بار پھر سماعتوں پر محیط۔ لوگ بے اختیارانہ و بے تکلّفانہ اپنی اپنی جیبوں میں موجود نقدی نامِ حسینؓ پر نچھاور کرنے میں مصروف۔رضا کاران نقدی کو چادروں میں جمع کرنے کے بعد شامیانے سے باہر جانے کے لیے عزداران کے ہجوم سے راستہ بنانے کے لیے کوشاں۔
منتظمین میں سے ایک اب بر سرِ منبر۔معلّن اپنی سال بَھر کی کارگزاری پر روشنی ڈالتا ہے۔مجالس کے انتظامات، شہر میں نکلنے والے جلوسوں کے لیے حکمتِ عملی۔یتیم، بے آسرا و بے سہارا بچّوں کی کفالت کے لیے قائم اداروں کی سرپرستی کے لیے کی جانے والی کوششوں کا بیان۔ سال بَھر کے دوران ہونے والی مذہبی اور تبلیغی اشاعتوں کی تفصیل۔عزاداروں کی کثیر تعداد، سالانہ کارکردگی پر مبنی اعلان کو سُننے کے بجائے زیرِ منبر، علّامہ طالب جوہری پر مسلسل نظریں جمائے ہوئے، بے صبری سے اِس بات کی منتظر کہ کب وہ زیبِ منبر ہوں۔
علّامہ کے ارد گرد چند اور بھی ذی علم اور ممتاز شخصیات موجود۔تاہم، علّامہ طالب جوہری اُن کے درمیان یوں جیسے ستاروں کے جُھرمٹ میں چاند۔لیجیے، سالانہ کارکردگی کا اعلان ختم۔بارہ بج کر پندرہ منٹ، گرم موسم کی شدّت اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی۔ شامیانے کے اندر فرشِ عزا پر بیٹھنے والوں کو گرمی بہ شدّت محسوس ہوتی ہے۔
شامیانے کے باہر دھوپ میں کھڑے سیکڑوں عزادارانِ حُسینؓ اپنی پیشانیوں پر اپنے ہاتھوں کا سایہ کیے دھوپ کی شدّت سے نبرد آزما۔ تاہم، اندر و باہر موجود سب افراد کربلا کے ریگ زار پر تین دن کی بھوک پیاس میں سر کٹانے والے زہراؓ کے لال اور محمدﷺ کے پیارے نواسے کی یاد میں مسلسل آنسو بہاتے ہوئے۔
لیجیے، علّامہ طالب جوہری بر سرِ منبر۔سفید کُرتا، پاجاما، سیاہ شیروانی، سیاہ ٹوپی، ہاتھوں میں تسبیح۔شخصیت میں علم کی شان، یکتا و اعلیٰ اسلوبِ بیان۔ایک آواز، ایک مانوس آواز، منبر کا بَھرم قائم رکھتی ہوئی آواز۔ سماعتوں پر محیط ہوتی ہوئی آواز۔آواز، جس میں وقار۔ آواز، جس میں اعتبار۔آواز، جس میں عہدِ حاضر کے مسائل۔آواز، جس میں مضبوط دلائل۔آواز، جس میں استحکام۔ آواز، جس میں فقط قرآنی کلام۔ خلاصۂ کلام محمدﷺ اور اُن کی آل سے اُلفت، محبّت، مودّت۔ قرآن میں اُن کی فضیلت، فضائل کے دلائل۔ خطاب کے دَوران نعروں کا شور۔
ایک آواز، سماعتوں پر محیط۔ آیاتِ الٰہیہ کی مسلسل تکرار سے خطابت کا زور۔محمدیؐ و علویؓ و فاطمیؓ و حسنیؓ و حسینیؓ افکار و کردار کا متواتر بیان۔کیفیت یہ کہ نامِ حُسینؓ ابنِ علیؓ صفحۂ دل پر نقش بن کر مرتسم ہونا شروع۔از جُنبشِ لب تا دست و بازو شبیری کردار، فرشِ عزا سجائے سوگوار کے لیے بِنائے لا الہ است کی صُورت میں جلوہ افروز۔فضائل کے بعد گُریز کرتے ہوئے منزلِ مصائب کی جانب آتی آواز’’ مَیں نے بڑی زحمت دی‘‘،ایک بار پھر سماعتوں پر محیط۔’’ بتلاؤں مقامِ محمدؐ کیا ہے؟ ‘‘’’ حُسینؓ کو پہچانتے ہو ناں‘‘،’’ تم نے گریہ کیا ، مجلس تمام ہو گئی،‘‘ ’’ فقط دو جملوں کی زحمت اور۔‘‘لیجیے، یہ دو جملے بھی تمام۔سماعتوں پر محیط آواز ظاہر میں خاموش، تاہم باطن میں اُس کی گونج باقی۔
نشتر پارک کے مرکزی دروازے سے عَلَم، تابوت، ذوالجناح اور زیارات کی برآمدگی کا سلسلہ شروع۔ اب ایک اور آواز سماعتوں پر محیط۔؎ ’’بڑھے چلیے، ادب اور قاعدے سے…سواری ہے شہیدِ کربلا ؓ کی… سواری ہے یہ جانِ مصطفیٰ ؓکی…سواری ہے یہ شانِ مرتضیٰ ؓ کی…وہ جس کی شمر نے گردن جُدا کی…بڑھے چلیے، ادب اور قاعدے سے۔‘‘