• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان اور افغانستان کے مابین اب تک دو باقاعدہ جنگیں لڑی جا چُکی ہیں۔ پہلی جنگ 1950ء میں اور دوسری 1960ءمیں لڑی گئی۔ دِل چسپ بات یہ ہے کہ پاک، بھارت جنگوں کی طرح ان کا ذکر ہماری نصابی کُتب میں زور و شور سے نہیں کیا جاتا اور پاکستانی قوم کو ابتدا ہی سے یہ بتایا جا رہا ہے کہ بھارت ہمارا ازلی دشمن، جب کہ افغانستان ہمارا ’’برادر اسلامی ملک‘‘ ہے۔

پاک، افغان دشمنی کا سبب

درحقیقت، افغان حُکم رانوں کی نظریں ہمیشہ ہی سے پاکستان کے صوبہ خیبر پختون خوا اور اس میں ضم ہونے والے قبائلی علاقوں پر رہی ہیں ،مگر وہ کبھی بھی اس قابل نہ ہوئے کہ ان علاقوں کو افغانستان میں شامل کر سکیں، چاہے وہ زمانہ ہندوستان پر مسلمانوں کی بادشاہت کا ہو یا انگریز راج کا۔1893ء میں برٹش انڈیا کے ایک انگریز افسر، مارٹیمر ڈیورینڈ نے افغانستان اور ہندوستان کے مابین باقاعدہ حد بندی کی، جسے ’’ڈیورینڈ لائن‘‘ کہا جاتا ہے۔ 

قیامِ پاکستان کے بعد پاکستان نے تو ڈیورینڈ لائن کو ایک انٹرنیشنل بارڈر کے طور پر تسلیم کر لیا، مگر افغانستان نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا اور افغانستان کے موجودہ حُکم ران یعنی طالبان بھی ڈیورینڈ لائن کو تسلیم نہیں کرتے۔ 

بہرکیف، جب پاکستان کی تخلیق کا وقت قریب آیا، تو افغان حُکم رانوں کو خوش فہمی لاحق ہو گئی کہ اب صوبۂ سرحد اور فاٹا (موجودہ خیبر پختون خوا اور ضم قبائلی علاقہ جات) ان کی جھولی میں آ گریں گے ، لیکن ایسا کچھ نہ ہوا اور یہ صورتِ حال افغانستان پر خاصی گراں گزری۔ لہٰذا، اگر یہ کہا جائے کہ افغانستان کی پاکستان سے دشمنی قیامِ پاکستان سے پہلے کی ہے، تو بے جا نہ ہوگا۔

1950ء کی پاک ،افغان جنگ

قیامِ پاکستان کے ساتھ ہی افغانستان نے پاکستان کی پختون بیلٹ (بالخصوص تیرہ اور رزمک کے علاقوں میں) پراکسی جنگیں شروع کردیں اور ان علاقوں میں مسلسل دہشت گردی کے واقعات رُونما ہونے لگے۔ 1950ء میں افغانستان کی شاہی فوج نے پاکستانی گاؤں، دوباندی پر بھاری توپ خانے کی مدد سے حملہ کیا اور انٹرنیشنل بارڈر پار کرتے ہوئے کوئٹہ اور چمن سے گزرنے والی ایک اہم ریلوے لائن پر قبضہ کرلیا۔ افغان فوج کی اس دراندازی پر پاک فوج حرکت میں آئی اور ایک ہفتے کی شدید جنگ کے بعد افغان فوج کو پیچھے دھکیل کر اپنا علاقہ واپس لے لیا۔

قائدِ ملّت، لیاقت علی خان کا قتل

پاکستان کے پہلے وزیرِ اعظم اور قائدِ ملّت، لیاقت علی خان کو 1951ء میں راول پنڈی میں ایک جلسے کے دوران شہید کردیا گیا۔ ان کا قاتل سعد اکبر ببرک تھا، جو ایک افغان باشندہ اور پیشہ وَر قاتل تھا۔

1960 ء کی پاک ،افغان جنگ

1960 ء اور 1961ء کے دوران افغان فوج دیگر افغان قبائل کے ساتھ مل کر پاکستانی علاقے، باجوڑ پر حملہ آور ہوئی تاکہ اسے افغانستان میں شامل کیا جا سکے۔ اس دوران افغانستان نے پاک افغان سرحد پر بہت سے ٹینکس اور توپیں بھی نصب کر دیں اور اس سے واضح ہوتا ہے کہ افغانستان، پاکستان کے خلاف باقاعدہ جنگ پر آمادہ تھا۔ 

جب حکومتِ پاکستان کو افغانستان کے ناپاک عزائم کا ادراک ہوا، تو پاک فضائیہ نے افغان صوبے، کُنّڑ میں افغان فوج کے ٹھکانوں پر شدید بم باری شروع کر دی، جس کے نتیجے میں افغان فوج کو پسپا ہونا پڑا۔ اس جنگ کے دوران ایک حیرت انگیز واقعہ یہ رُونما ہوا کہ افغان ایئر فورس کے پاس بڑی تعداد میں رُوسی ساختہ مِگ 17اور مِگ 21جنگی طیّارے موجود تھے، مگر یہ پاکستانی طیّاروں کے مقابل نہیں آئے۔ 

نیز، اس کے علاوہ بھی کوئی ایسا ثبوت دست یاب نہیں کہ جس سے یہ پتا چلتا ہو کہ مذکورہ جنگ کے دوران پاکستان اور افغان ایئر فورسز کے مابین کوئی ڈاگ فائٹ ہوئی ہو۔

حالیہ پاک، افغان کشیدگی

15 اگست 2021ء کو جب طالبان نے کابل فتح کیا، تو اس وقت پاکستانی حُکّام سمیت عام شہریوں نے بھی مسرّت کا اظہار کیا۔ نیز، اس موقعے پر بعض پاکستانیوں نے بھارت کو یہ کہتے ہوئے دھمکانا شروع کر دیا کہ ’’پہلے کابل فتح کیا تھا، اب کشمیر فتح کریں گے۔‘‘ اس کی وجہ یہ تھی کہ اکثر پاکستانی سمجھتے تھے کہ طالبان کا کنٹرول پاکستان کے پاس ہے۔

تاہم، کچھ عرصے بعد ہی طالبان نے پاکستانیوں کی یہ خوش فہمی یہ بیان دے کر دُور کر دی کہ کشمیر بھارت اور پاکستان کا باہمی تنازع ہے اور افغان طالبان لڑنے کے لیے کشمیر نہیں جائیں گے۔ کچھ عرصے بعد جب افغانستان پر طالبان کا کنٹرول مضبوط ہو گیا، تو انہوں نے پاکستان میں دہشت گردی میں ملوّث کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کے کارندوں کو جیل سے با عزّت رہا کرکے ’’غزوۂ پاکستان ‘‘کے مشن پر روانہ کر دیا اور اب پاکستان کے سیکیورٹی ماہرین یہ اعتراف کرتے ہیں کہ افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان میں دہشت گردی میں کئی گُنا اضافہ ہوا ہے۔ 

پاکستان کے دفاعی ماہرین اب طالبان کو دُشمن کی نگاہ سے دیکھنے لگے ہیں، جب کہ پاکستان تحریکِ انصاف، جماعتِ اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام (فے) جیسی سیاسی جماعتیں طالبان کی وکیل بنی ہوئی ہیں۔

دوسری جانب 2021ء سے لےکر تاحال پاکستان میں جتنی بھی حکومتیں آئیں، سب نے طالبان سے افغانستان میں موجود پاکستان دشمن دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا، مگر طالبان حکومت تحریکِ طالبان پاکستان کے دہشت گردوں کو اپنا اثاثہ گردانتی ہے۔ 

یاد رہے کہ جب افغانستان میں نیٹو افواج طالبان کے خلاف برسرِ پیکار تھیں، تو پاکستان میں موجود طالبان کے حمایتی یہ کہتے تھے کہ اگر نیٹو افواج افغانستان سے چلی جائیں اور طالبان برسرِ اقتدار آجائیں، تو پاکستان میں امن قائم ہو جائے گا، مگر موجودہ حالات اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ طالبان کے اقتدار میں آنے سے پاکستان کا بچا کھچا امن بھی تباہ ہو چکا ہے اور اب یہ حالت ہے کہ پاکستان کو پاک، افغان بارڈر پر کشمیر کی نسبت زیادہ فوج تعینات اور قیامِ امن کے لیے بار بار فوجی آپریشنز کرنا پڑرہے ہیں۔

سنڈے میگزین سے مزید