• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قارئین !جون کے مہینے میں پاکستان میں گرمی اپنے جوبن پر تھی، میں اور میری بیگم نے سوچا کیوں نہ لندن اپنی صاحبزادی کے ہاں کچھ ہفتے گزار لیں۔ چنانچہ بیگم کے ہمراہ لندن پہنچے یہاں موسم بہت خوشگوار تھا اور ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی۔ خوب انجوائے کیا، ہماری صاحبزادی صبوحی اور اُن کے شوہر ذیشان الطاف لوہیانے 4دن کے لئے ناروے Norwayجانے کا پروگرام بنایا۔ لندن سے اوسلو کی فلائٹ تھی جو ڈیڑھ گھنٹے کی تھی، یہاں اگر ایک ہفتے پہلے ٹکٹ بک کروائیں گے تو 40پچاس پونڈ کرایہ لگتا ہے۔ ہم 5افراد کے جانے کا کرایہ 17پونڈفی کس تھا اور واپسی کا کرایہ 16پونڈفی کس تھا ایسے سستے کرائے یہاں Budget Air Line کہلاتے ہیں۔ سامان میں ایک کندھے کا بیگ مفت ہوتا ہے۔ البتہ ٹرالی بیگ اور سوٹ کیس 20کلو تک 20پونڈ فی بیگ الگ الگ دینا پڑتا ہے، جوںجوں دن قریب ہوتے ہیں کرائے میں اضافہ ہوتا رہتا ہے ۔اگر آپ خود بورڈنگ کارڈ 2گھنٹے فلائٹ سے پہلے نہیں نکالیں گے تو 25پونڈ کا چارج لگ جاتا ہے۔ اسی طرح سامان کے بیگ بھی خود آٹو مشین سے نکالنا پڑتے ہیں ورنہ اس کے بھی چارجز دینا پڑتے ہیں ۔ہم ڈیڑھ گھنٹے میں اوسلو پہنچ گئے۔ ہم نے ایک گاڑی بھی بک کروائی ہوئی تھی جو 50پونڈ روز انہ کی بنیاد پر ملی تھی۔ اوسلو ایئر پورٹ سے شہر 125کلو میٹر دور تھا ۔99فی صد ہوٹل نارو یجن تھے، صرف ایک 4اسٹار ہوٹل تھاجس کا فی کمرہ کرایہ 200پونڈ تھا۔ 2کمروں کا کرایہ اور گاڑی کی پارکنگ 20ڈالر فی دن کے چارجز الگ تھے، ایک دن کے بعد ہم نے وہاں سے 550کلو میٹردور پہاڑی پر جانا تھا، اس پہاڑی سلسلے پر آبشاروں کا شہر GEIRANGERFJORD ہے۔ چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں پر خوبصورت بنگلے نما ہٹ بنے ہوئے تھے، جہاں سے پہاڑ اور آبشاروں کا نظارہ بے حد دلکش ہوتا ہے۔ 4یہاں کمروں سے لے کر7سے 8کمروں کے بنگلے ملتے ہیں ، ہفتے کے آخری دنوں کا کرایہ تقریباََدوگنا ہو جاتا ہے۔ عام دنوں میں 250ڈالر 4کمروں کا کرایہ ہوتا ہے، مگر ہمیں ہفتے کے آخری دن یعنی جمعہ، ہفتہ اور اتوار کا کرایہ 1500ڈالر دینا پڑا مگر فلیٹ میں پوری فیملی ٹھہر سکتی ہے تو وہ سستا پڑ تا ہے۔ پورے سفر میں اور پہاڑی علاقے کی چڑھائی میں ہم نے ایک کاغذ کا ٹکڑا بھی نہیں دیکھا۔ اتنے صاف ستھرے علاقے ہم نے پہلے کہیں نہیں دیکھے تھے، کیونکہ ہم سب پہلی مرتبہ ناروے آئے تھے۔

آسمان بالکل صاف تھا یا پھر بادلوں میں گھرِا ہوا۔ ہر طرف سے آبشاروں سے جھرنے کی آوازیں آتی تھیں، یہاں کی کل آبادی صرف 50لاکھ افراد پر مشتمل ہے۔ جس میں تقریباََ10لاکھ امیگرنٹس آباد ہیں۔ مقامی لو گ کرسچن اور 10لاکھ امیگرنٹس مسلمان ہیں۔ ایک جامع مسجد بھی اوسلو شہر میں دیکھی یہ بہت خوبصورت اور کا فی بڑی تھی۔ آپ کوحلال گوشت اور کھانے اوسلو میں تو مل جاتے ہیں مگر پہاڑی علاقوں میں مچھلی اور سی فوڈ پر گزارہ کرنا پڑے گا کیونکہ ہم لوگ لندن سے اپنا سامان ساتھ لے کر گئے تھے اورہم نے فلیٹ بھی بک کر وایا تھا۔ اُس میں برتن سمیت کچن ملا تھا تو ہمیں پکانے کی سہولت مل گئی تھی، ہم روزانہ تازہ کھانا پکاکر کھاتے تھے ۔3دن اس پہاڑی علاقے میں بہت زبر دست گزرے، چونکہ پیر کو ہماری نواسی کی کلاس تھی تو مجبوراََ واپسی یقینی تھی۔ ورنہ ایک ہفتہ بھی کچھ نہیں تھا۔سب سے اہم اور اچھی بات یہ ہے کہ یہاں کے مقامی باشندے بے حد خوش اخلاق اور بے حد خوبصورت تھے، بہت ہنس ہنس کر بات کرتے ہیںاوربے حدفرینڈلی ماحول ہوتا ہے۔ اس پہاڑی شہر کے علاوہ 125کلو میٹر دور اسکائی لفٹ بھی تھی۔ جس دن ہم اسکائی لفٹ دیکھنے گئے تو بارش شروع ہو گئی اور بادلوں سے پہاڑ ڈھک گئے۔ اس کی وجہ سے لفٹس تو چلتی رہیں مگر علاقے چھپ گئے تو ہم اوپر نہیں جا سکے، جس کا کرایہ فی کس 50ڈالر تھا اور وہ بیکار جاتا کیونکہ آپ کو کچھ نظر نہیں آنا تھا، لہٰذا واپس اپنے فلیٹ پر آگئے یہاں کی سب سے خوبصورت بات پورے ناروے میں جھیلوں کا جال بچھا ہوا ہے یعنی ایئر پورٹ سے لے کر 750کلومیٹر کے سفر میں ہر جگہ جھیلوں کا نظارہ ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ یہاں مچھلی پکڑنے یا پانی کی سیر کے لئے کشتی کرایہ پر ملتی ہے اور ہر آدھے گھنٹے کے بعد سیرو تفریح کیلئے بڑے کروز بھی آتے جاتے رہتے ہیں۔ یہاں کشتیوں سے ہوبر ڈائیونگ بھی کراتے ہیں۔ ناروے کی تشہیر نہیں ہے اسلئے زیادہ تر لوگ سوئٹزر لینڈ کو ہی سب سے خوبصورت ملک سمجھ کر جاتے ہیں۔ حقیقت میں ناروے ہر لحاظ سے سوئٹزر لینڈ سے کئی گنا خوبصورت ملک ہے اور میں یہاں کے عوام کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ یہاں کے ہر موسم میں ہم نے سورج غروب نہیں دیکھا یہاں فجر صبح 2بجے ہوتی ہے اور عشاء رات 12بجے ہوتی ہے یعنی 22گھنٹے کا روزہ ہو تا ہے، صرف 6ماہ گرمی ہوتی ہے، 6ماہ برف ہی برف۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر سیاحوں نے ناورے نہیں دیکھا تو سمجھیں ایک بہترین ملک دیکھنے سے محروم رہ گئے۔ لندن واپس آکر ہم سب ناروے کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکے۔ لندن اس کے آگے ہر لحاظ سے گندگی کا ڈھیر لگا کیونکہ برٹش حکومت کووڈ کے بعد غریب ہو چکی ہے۔ گندگی کے جگہ جگہ ڈھیر لگ چکے ہیں کیونکہ کچرا اٹھانے کا نظام بہت کمزور ہو گیا ہے۔ گاڑیوں کی چوری میں دنیا میں لندن اب دوسرے نمبر تک آپہنچا ہے۔ لوگ اب گاڑی میں لوہے کا لمبا تالا اسٹرنگ لاک لگا کر جاتے ہیں ورنہ اچھے برانڈ والی گاڑیاں منٹوں میں اٹھا لی جاتی ہیں۔

تازہ ترین