• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لیری کنگ، بابرا والٹز، کرسٹیانا امن پور، چارلی روز اور اوپرا وینفری سمیت کئی صحافیوں، میزبانوں نے عالمی سیاسی شخصیات سے انٹرویوز کے سلسلے میں خاصی شہرت پائی، تاہم ان میں اطالوی خاتون صحافی اور مصنّفہ، اوریانا فلاسی(29جون 1929ء تا 15 ستمبر 2006ء ) کا نام بھی سرِفہرست ہے۔ اوریانا فلاسی کو حُکم رانوں اور اہم سیاسی شخصیات سے تند وتیز انٹرویو کرنے میں خاص ملکہ حاصل تھا۔ وہ برجستہ اور تیکھے سوالات کے ذریعے اہم شخصیات سے بات اگلوانے کا گُر جانتی تھیں۔

اوریانا فلاسی نے 29جون1929ء کو فلورنس، اٹلی میں جنم لیا۔ اُن کے والد، ایڈوارڈو فلاسی پیشے کے لحاظ سے ایک کیبنٹ ساز اور سرگرم سیاسی کارکن تھے، جو اطالوی فسطائی رہنما، بینٹومسولینی کی آمریت کے خاتمے کے لیے جدوجہد کر رہے تھے۔ اوریانا نے بھی جنگِ عظیم دوم کے دَوران اپنے والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے فسطائیت مخالف مزاحمتی تحریک میں شمولیت اختیار کی۔

اُنہوں نے اپنا ثانوی تعلیمی ڈپلوما مکمل کرنے کے بعد مختصر عرصے کے لیے یونی ورسٹی آف فلورنس میں میڈیسن اور کیمسٹری کی تعلیم کے لیے داخلہ لیا، لیکن بعد میں ان بے لطف سائنسی مضامین سے اُکتا کر ادب کے شعبے میں داخلہ لے لیا، تاہم اپنی مخصوص افتادِ طبع سے مجبور ہو کر کچھ وقت کے بعد اسے بھی نامکمل چھوڑدیا۔ یوں ان کی باقاعدہ تعلیم مکمل نہ ہوسکی۔

اوریانا کے ایک چچا، برونو فلاسی صحافی تھے، چناں چہ اُنہوں نے اپنی نوجوان بھتیجی کا ذہنی رحجان دیکھتے ہوئے اُنہیں مشورہ دیا کہ وہ شعبۂ صحافت میں آجائیں اور اِس طرح اوریانا نے 1946ء میں اپنے صحافتی کیریئر کا آغاز کردیا۔ وہ ایک اطالوی اخبار سے نمائندۂ خصوصی کے طور پر وابستہ ہوئیں۔

اوریانا فلاسی کو ان کی پہلی شناخت جنگِ عظیم دوم کے بعد ایک فاشزم مخالف صحافی کے طور پر ملی۔ نوجوان اور پُرعزم صحافی اوریانا الفاظ کی طاقت پر گہرا یقین رکھتی تھیں۔اُن کا کہنا تھا کہ’’ جب مَیں پہلی بار ٹائپ رائٹر کے سامنے بیٹھی، تو مجھے ان الفاظ سے پیار ہوگیا، جو سفید کاغذ پر قطروں کی طرح اُبھر رہے تھے اور کاغذ پر ایسے ثبت ہوتے جارہے تھے، گویا ہر قطرے کو وجود مل رہا ہو۔ 

مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ اگر اُنہیں کچھ کہا گیا، تو یہ فضا میں بکھر جائیں گے، لیکن کاغذ پر ثبت ہونے سے انہیں اَن مِٹ وجود مل رہا تھا، خواہ وہ الفاظ اچھے تھے یا بُرے۔‘‘ اوریانا نے1960ء میں اپنے طویل صحافتی کیریئر کے پہلے مرحلے میں ادب اور سنیما کی صنعت سے تعلق رکھنے والی معروف شخصیات سے انٹرویوز کا سلسلہ شروع کیا۔ 

بعدازاں، یہ سلسلہ معروف عالمی سیاسی شخصیات کے مقبول ترین انٹرویوز تک وسعت اختیار کرگیا۔وہ ایک طویل عرصے تک معروف سیاسی جریدے’’ L'Europeo ‘‘کی نمائندۂ خصوصی رہنے کے ساتھ، ایک اور جریدے ’’Epoca ‘‘سمیت بے شمار اخبارات کے لیے تجزیئے بھی تحریر کرتی رہیں۔ 

اوریانا نے فیلڈ رپورٹنگ کے شعبے میں بھی اپنے قدم جمائے اور اپنے طویل صحافتی کیریئر کے دوران مختلف علاقائی جنگوں، خانہ جنگی، فسادات اور مختلف ممالک میں رُونما ہونے والے انقلابات کی نہایت بے خوفی کے ساتھ، موثر اور حقائق سے بھرپور رپورٹنگ کی۔ ایک جنگی نامہ نگار کی حیثیت سے 1965ء کی پاک، بھارت جنگ اور پھر مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی امریکا کی خانہ جنگی کی بھی بھرپور کوریج کی۔

اُنہوں نے 1967ء کے آغاز میں جنگِ ویت نام کے دوران مختلف عسکری محاذوں پر نمایاں خدمات انجام دیں۔اوریانا فلاسی نے ایک خاتون صحافی ہونے کے باوجود نہایت دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی جان خطرے میں ڈال کر 1968ء میں میکسیکو سٹی میں حکومت مخالف شہریوں کے قتلِ عام کی فیلڈ رپورٹنگ کی، جس کے دوران اُنھیں میکسیکن فوجیوں کی جانب سے تین بار گولیوں کا نشانہ بنایا گیا اور سیڑھیوں پر بالوں سے پکڑ کر گھسیٹا بھی گیا، لیکن اُن کی سردھڑ کی بازی لگا کر کی گئی رپورٹنگ دنیا کے سامنے ایک اہم شہادت اختیار کرگئی۔ اِس حقائق پر مبنی رپورٹنگ ہی نے حکومت کی جانب سے معصوم شہریوں کے قتلِ عام سے متعلق انکاری بیان کو دنیا کے سامنے مسترد کرکے رکھ دیا۔

اوریانا فلاسی کو یہ منفرداعزاز حاصل ہے کہ اُنہوں نے اپنے صحافتی کیریئر کے دوران دنیا کی معروف ترین، متنازع اور سخت گیر تصوّر کی جانے والی 14عالمی سیاسی شخصیات سے تہلکہ خیز انٹرویوز کیے، جن میں بُدھ مت کے روحانی پیشوا دلائی لامہ، امریکی وزیرِ خارجہ اور معروف سفارت کار ہنری کسنجر، عوامی جمہوریہ چین کے رہنما چیئرمین ماؤزے تنگ، ڈینگ زیاؤ پنگ، کیوبا کے فیڈرل کاسترو، روسی صدر لیونڈ برزنیف، فرانسیسی مدبّر اور صدر جارج پامپیڈو، برطانوی وزیرِ اعظم ایڈورڈ ہیتھ، شہنشاہِ ایران محمّد رضا شاہ پہلوی، جمہوری اسلامی ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ خمینی، جرمن چانسلر ولی برانڈٹ، بھارتی وزیرِ اعظم اندرا گاندھی، پاکستان کے وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹّو، فلسطینی رہنما یاسر عرفات، امریکی سیاست دان رابرٹ کنیڈی، اسرائیلی خاتون وزیرِ اعظم گولڈا میئر، ایریئل شیرون اور نوبیل انعام یافتہ مدبّر لیخ ویلیسا قابلِ ذکر ہیں۔

اوریانا فلاسی نے جب 1972ء میں امریکی وزیرِ خارجہ، ہنری کسنجر سے انٹرویو کیا، تو اس سے قبل اُن کی پُراسرار شخصیت اور ذاتی زندگی سے متعلق بہت کم معلومات دست یاب تھیں۔ اس انٹرویو کے دَوران ہنری کسنجر اپنی شخصیت سے متعلق ذاتی نوعیت کے سوالات بڑی خُوب صُورتی سے ٹالتے رہے، مگر بالآخر اوریانا فلاسی نے اُنہیں یہ کہنے پر مجبور کردیا کہ’’ بعض اوقات مجھے لگتا ہے، جیسے مَیں ایک کاؤ بوائے ہوں، جو اکیلا گھوڑے پر سوار ایک قافلے کی قیادت کر رہا ہو۔‘‘ جب یہ انٹرویو منظرِ عام پر آیا، تو مغربی دنیا میں تہلکہ مچ گیا کہ جسے وہ عالمی مدبّر سمجھتے ہیں، وہ خود اپنے بارے میں کیا سوچتا ہے۔ ہنری کسنجر کو مہینوں سخت تنقید کا نشانہ بننا پڑا۔ 

کسنجر کا اِس انٹرویو سے متعلق کہنا تھا کہ’’مَیں نے پریس کے سامنے کبھی اِتنی بڑی غلطی نہیں کی۔‘‘ اُنھوں نے اس انٹرویو کو اپنی زندگی میں کسی صحافی سے ہونے والی’’ انتہائی تباہ کُن گفتگو‘‘ قرار دیا۔اوریانا فلاسی نے جتنی بھی نام وَرعالمی شخصیات کے سوانحی انٹرویوز کیے، اُن میں ایک بات قدرے مشترک نظر آتی ہے کہ وہ اِس نکتے پر اپنی گفتگو مرکوز رکھتیں کہ طاقت کا استعمال کیسے ہوتا ہے اور اسے کیسے غلط طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

اوریانا کے بے باک سوالات کئی عظیم شخصیات سے برداشت نہ ہوسکے اور اُنہوں نے انٹرویو کے دَوران اُن سے بدسلوکی کا مظاہرہ کیا۔ اس کی ایک مثال عالمی ہیوی ویٹ باکسر، محمّد علی کی ہے، جنہوں نے اپنے انٹرویو کے دوران اوریانا سے بدتہذیبی کی، جس پر اُنھیں درمیان ہی میں انٹرویو چھوڑنا پڑا۔

اوریانا فلاسی1979ء میں رونما ہونے والے ایرانی انقلاب کے بعد اس اُمید پر وہاں گئیں کہ اُنھیں آیت اللہ خمینی کے انٹرویو کا موقع مل سکے۔ اِس مقصد کے حصول کے لیے وہ دس دن تک قُم میں انٹرویو کے لیے انتظار کرتی رہیں اور بالآخر 12 ستمبر 1979ء کو ایرانی حکّام اُنھیں مدرسہ فظیہ لے گئے، جہاں امام خمینی، عوام سے ملاقات کیا کرتے تھے۔اس موقعے پر اوریانا کے ساتھ دو ایرانی مترجّم بھی تھے۔ 

جب امام خمینی وہاں آئے، تو اوریانا فلاسی ننگے پاؤں اور چادر میں لپٹ کر قالین پر بیٹھی ہوئی تھیں۔ فلاسی نے دو نشستوں میں یہ انٹرویو مکمل کیا، جس کی پہلی نشست کا اختتام خاصے ڈرامائی انداز میں ہوا۔ ہوا یوں کہ انٹرویو کے دوران اوریانا فلاسی نے ایران میں حقوقِ نسواں، خصوصاً پردے سے متعلق سوال کرتے ہوئے آیت اللہ خمینی سے تنقیدی لہجے میں دریافت کیا’’ کیا آپ نے ایرانی خواتین کو مجبور نہیں کیا کہ وہ خود کو سَر سے پاؤں تک ڈھانپیں، جب کہ وہ انقلابِ ایران کے دَوران مَردوں کے شانہ بشانہ شریک تھیں۔‘‘ 

امام خمینی نے دھیمے لہجے میں جواب دیا’’ جو خواتین اسلامی انقلاب میں حصّہ لیتی رہیں، وہ اسلامی لباس میں تھیں اور وہ تمہاری جیسی نہیں، جو جسم کو اچھی طرح ڈھانپے بغیر باہر پِھرتی ہیں اور ان کے پیچھے مرد دُم چَھلّا بنے ہوتے ہیں۔‘‘ اوریانا نے ایک اور سوال داغ دیا’’مگر چادر اوڑھ کر تیراکی کیسے کی جاسکتی ہے؟‘‘امام خمینی نے جواب دیا’’ یہ تمہارا مسئلہ نہیں ہے۔ ہماری رسوم تمہارا مسئلہ نہیں ہیں۔ اگر تم اسلامی لباس کو پسند نہیں کرتیں، تو یہ ضروری نہیں کہ تم اسے پہنو۔‘‘

اس پر اوریانا نے انتہائی جارحانہ انداز اختیار کرتے ہوئے کہا’’ آپ کا بہت شُکریہ۔اب جب کہ آپ نے خود ہی کہہ دیا ہے، تو مَیں یہ فضول اور قدامت کا نشان، چادر اُتار رہی ہوں۔‘‘ اور یہ کہتے ہوئے اُس نے یک دَم اپنی چادر اُتار پھینکی۔فلاسی لکھتی ہیں کہ’’ امام خمینی ناراض ہو کر تیزی سے اپنی نشست سے اُٹھے، اپنی پالتو بلی کو اُٹھایا اور تمکنت کے ساتھ کمرے سے باہر چلے گئے۔ مجھے اس بڑھاپے میں اُن سے اتنے تحمّل اور تمکنت کی توقّع نہ تھی۔ اس کے بعد مجھے اپنا انٹرویو مکمل کرنے کے لیے مزید چوبیس گھنٹے انتظار کرنا پڑا۔‘‘ 

اوریانا اس یادگار انٹرویو کو یاد کرتے ہوئے مزید لکھتی ہیں کہ’’ جب مَیں نے انٹرویو کی دوسری نشست کا آغاز کیا، تو امام خمینی کے چہرے پر مسکراہٹ کا ایک سایہ نظر آیا اور پھر یہ سایہ ایک مسکراہٹ میں بدل گیا اور پھر یہ مسکراہٹ ایک قہقہے میں تبدیل گئی۔جب مَیں نے انٹرویو ختم کیا، تو اُن کے بیٹے، احمد خمینی نے مجھے بتایا کہ اُس نے اپنے باپ کو کبھی ہنستے نہیں دیکھا۔ اُس کا خیال تھا کہ اس دنیا میں، مَیں واحد انسان ہوں کہ جس نے اُن کے والد کو ہنسا دیا تھا۔‘‘ 

اوریانا نے امام خمینی سے متعلق اپنے تاثرات یوں بیان کیے۔’’امام ایک ذہین اور بردبار شخصیت ہیں، مَیں نے اپنی زندگی میں اُن سے زیادہ وجیہہ اور پُروقار بزرگ نہیں دیکھا،وہ مائیکل اینجلو کے تراشیدہ ایک قدیم مجسمے سے مشابہت رکھتے تھے۔ وہ اسلامی دنیا میں یاسرعرفات، قذافی یا دوسرے آمروں کی طرح کٹھ پتلی نہیں ہیں۔ 

وہ مقدّس پوپ کی طرح ایک ہستی ہیں، ایک رحم دل بادشاہ کی خُو لیے، ایک سچّا روحانی پیشوا،جس سے ایرانی عوام بے پناہ محبّت کرتے ہیں، کیوں کہ لوگوں کو امام خمینی کی شکل میں ایک نجات دہندہ نظر آتا ہے۔‘‘ اوریانا لکھتی ہیں کہ’’ جب مَیں انٹرویو کرکے باہر نکلی، تو عوام میرے پیچھے پڑ گئے۔ وہ مجھے چُھونا چاہتے تھے کہ مَیں امام خمینی سے مِل کر آئی تھی اور اِس لیے مَیں بھی اُن کے لیے ایک متبرّک ہستی ہوگئی تھی۔‘‘

اوریانا نے بھارتی وزیرِ اعظم اندرا گاندھی سے فروری1972 ء میں دو نشستوں کے دوران انٹرویو کیا، جس کے دوران اُنہوں نے 46چُبھتے ہوئے سوالات پوچھے،جن کے اندرا نے نہایت تحمّل سے مفصّل جواب دیئے۔ اوریانا نے کہا’’ مسز گاندھی! مجھے آپ سے بہت سے سوالات پوچھنے ہیں، ذاتی اور سیاسی۔ 

پہلا سوال ذاتی ہے، حالاں کہ مجھے اسے بعد میں پوچھنا چاہیے تھا، بہت سے لوگ آپ سے کیوں خوف کھاتے ہیں، وہ آپ کو سرد مہر کہتے ہیں، بلکہ برف کی طرح سخت…‘‘اندرا گاندھی نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ’’ وہ ایسا اِس لیے کہتے ہیں کہ مَیں اگرچہ اُن سے مخلص ہوں، حتیٰ کہ بہت زیادہ مخلص، لیکن مَیں وزیرِ اعظم کے منصب پر رہتے ہوئے ان سے بھارت کے روایتی لوگوں کی طرح پھول دار مسکراہٹ والی باتوں میں وقت ضائع نہیں کرتی۔ جہاں مقصد کی بات سے قبل آدھ گھنٹہ شکایات میں گزرتا ہے۔

پھر آپ کیسی ہیں، آپ کے بچّے کیسے ہیں، آپ کے نواسے کیسے ہیں اور اس سے آگے تک۔ مَیں چھوٹی باتوں میں الجھنے اور بلاجواز شکایات سے لُطف اندوز ہونے سے گریز کرتی ہوں۔ ‘‘اندرا گاندھی کے انٹرویو کے بعد ذوالفقار علی بھٹّو سے انٹرویو کی داستان بھی بہت دل چسپ ہے۔ اندرا گاندھی کا انٹرویو ہوا، تو ذوالفقار علی بھٹّو نے اوریانا فلاسی کو اپنے انٹرویو کے لیے پاکستان آنے کی دعوت دی۔ اوریانا اپنی کتاب میں لکھتی ہیں کہ’’ وہ( ذوالفقار بھٹّو) بے شک ہمارے عہد کی ایک پیچیدہ شخصیت تھے اور وہ واحد دل چسپ انسان، جسے اب تک اُن کے مُلک نے پیدا کیا۔

میرے لیے اُن کا دعوت نامہ ایک مخمصے کا باعث تھا۔ مجھے کہا گیا تھا کہ جلد از جلد راول پنڈی پہنچیں۔ مجھے تعجّب تھا کہ بھٹّو آخر مجھ سے کیوں ملنا چاہتا تھا؟ کیا وہ میرے ذریعے اندرا گاندھی کو کوئی پیغام بھجوانا چاہتا تھا یا مجھے کوئی سزا دینا چاہتا تھا کہ مَیں نے اندرا گاندھی کے انٹرویو کے دوران اُن کی شخصیت سے ہم دردی دکھائی تھی اور اُنہیں عزّت دی تھی۔

لیکن اس مفروضے کو مَیں نے فوراً ہی رَد کردیا، کیوں کہ بھٹّو کو اپنے دشمن تک پیغام رسانی کے لیے میرے جیسے پیغام رساں کی ضرورت نہیں تھی، اِس کام کے لیے روسی اور سوئس سفارت کار ہی کافی تھے۔مَیں نے اپنا دوسرا مفروضہ بھی رَد کردیا، کیوں کہ بھٹّو کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ ایک مہذّب اور شائستہ شخص ہے اور مہذّب لوگ اپنے مہمانوں کو سزا نہیں دیتے یا قتل نہیں کرواتے۔ 

میرا تیسرا مفروضہ یہ تھا کہ بھٹو مجھے خود یہ موقع دینا چاہتا ہے کہ مَیں اس سے انٹرویو کروں،کیا وہ مجھے حیران کرنا چاہتا ہے اور حقیقت میں کچھ ایسا ہی تھا،اُس نے میرا بنگلا دیش کے وزیرِ اعظم سے متعلق مضمون ’’بدقسمت مجیب الرحمٰن‘‘ بھی پڑھ رکھا تھا۔ چناں چہ مَیں نے بھٹّو کی دعوت قبول کرلی، لیکن اُن پر یہ بھی واضح کردیا کہ گو مَیں بھٹّو کی مہمان ہوں گی، لیکن لکھتے وقت اُن سے کوئی رعایت نہیں برتوں گی۔‘‘

اوریانا فلاسی نے مزید بیان کیا کہ’’ راول پنڈی ایئرپورٹ پر دو پاکستانی حکّام نے میرا خیرمقدم کیا اور مجھے بتایا کہ جنابِ صدر ایک گھنٹے بعد مجھ سے ملاقات کریں گے۔(واضح رہے، ذوالفقار علی بھٹّو اُس وقت صدرِ مملکت کے عُہدے پر فائز تھے۔ وہ دسمبر 1971ء تا 13 اگست 1973 ء تک اس عُہدے پر فائز رہے)۔ یہ صبح دس بجے کا وقت تھا اور مَیں ایک طویل فضائی سفر کے باعث گزشتہ48 گھنٹوں سے سوئی تک نہیں تھی۔مَیں نے احتجاج کیا کہ مجھے تازہ دَم ہونے کے لیے غسل اور گہری نیند کی سخت ضرورت ہے۔

جب مَیں ایوانِ صدر پہنچی، تو بھٹّو نے گرم جوشی سے میرا خیر مقدم کیا۔‘‘اوریانا فلاسی نے اپنی کتاب میں ذوالفقار علی بھٹّو کے سراپے کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا کہ’’ بھٹّو اپنے لمبے قد، مضبوط پتلی ٹانگوں اور نازک پاؤں کے ساتھ ایک ایسے بینکر نظر آتے تھے، جو اپنے بینک میں آپ کا اکاؤنٹ کھولنے کی خواہش رکھتا ہو۔

وہ دیکھنے میں اپنی44 سالہ عُمر سے بڑے نظر آتے تھے۔ اُن کے سر کا گنج پن کی جانب آغاز تھا، جب کہ اُن کے بقیہ بال سرمئی اور سلیقے سے بنے ہوئے تھے۔ اُن کی بھاری پلکوں کے نیچے اُن کا بھاری نظر آنے والا چہرہ، بھاری گال اور بھاری ہونٹ تھے اور اُن کی آنکھوں میں ایک پُراسرار سی اداسی پوشیدہ تھی، جب کہ مسکراہٹ میں ایک قسم کی شرماہٹ تھی۔ بھٹّو کی شخصیت کے کئی دل چسپ پہلو ہیں اور سب اپنی جگہ سچ ہیں۔ وہ لبرل ہے، مطلق العنان ہے، کمیونسٹ ہے، مخلص ہے، لیکن مکمل سچ بھی نہیں بولتا۔‘‘ اوریانا فلاسی نے ذوالفقار علی بھٹّو کا طویل انٹرویو اپریل 1972ء میں پانچ نشستوں میں لیا تھا۔

ان کی یہ نشستیں راول پنڈی کے ایوانِ صدر میں، لاہور کے سفر کے دوران ہوائی جہاز میں، ہالا اور بھٹّو کی رہائش گاہ70 کلفٹن کراچی میں ہوئیں۔ اوریانا فلاسی کا آخری سوال تھا’’ ایک آخری سوال، جنابِ صدر! اور اس سوال کے جارحانہ ہونے پر معافی کی درخواست گزار بھی ہوں۔کیا آپ سمجھتے کہ آپ اپنا اقتدار قائم رکھ سکیں گے؟‘‘ جس کا جواب بھٹّو نے یوں دیا۔’’ اس کو اس طرح دیکھتے ہیں کہ مَیں کل بھی ختم ہوسکتا ہوں، لیکن میرا خیال ہے کہ اب تک، جتنے لوگوں نے اِس مُلک پر حکومت کی ہے، مَیں اُن سے زیادہ دیر تک حکومت کرسکوں گا۔ 

سب سے پہلے مَیں صحت مند ہوں، توانائی سے بھرپور ہوں، مَیں کام کرسکتا ہوں، جیسے کہ مَیں اب بھی دن میں اٹھارہ گھنٹے کام کررہا ہوں، پھر یہ کہ مَیں ابھی جوان ہوں اور بمشکل چوالیس سال کا ہوں گا، مسز اندرا گاندھی سے دس برس چھوٹا، آخری وجہ یہ کہ مَیں جانتا ہوں کہ مَیں کیا چاہتا ہوں۔‘‘ اوریانا فلاسی نے یہ طویل انٹرویو کرنے کے لیے بھٹّو کے ساتھ چھے دن گزارے اور اندرا گاندھی اور ذوالفقار علی بھٹّو کے ساتھ کیے گئے یہ انٹرویوز سفارتی سطح پر تہلکہ خیز ثابت ہوئے۔ اندرا گاندھی نے اپنے انٹرویو میں بھٹّو کو ایک غیر متوازن شخصیت قرار دیا تھا، جب کہ بھٹّو نے اندرا کو ایک عام سطح کی ذہانت رکھنے والی اوسط درجے کی عورت کہا تھا۔ 

اوریانا فلاسی نے جس دَور میں اندرا گاندھی اور ذوالفقار علی بھٹّو کا انٹرویو کیا تھا، اِس دَوران دونوں ممالک کے تعلقات میں سخت تناؤ اور تلخی پائی جاتی تھی اور دونوں جانب سے سفارتی سطح پر یہ کوششیں کی جارہی تھیں کہ کسی طرح دونوں سربراہان کی ملاقات کا اہتمام کیا جائے، لیکن اندرا گاندھی نے ذوالفقار علی بھٹّو کے کہے گئے الفاظ کا اِتنا بُرا منایا کہ ایک موقعے پر سفارت کاروں کی ملاقات اچانک منسوخ کردی گئی۔اوریانا فلاسی بتاتی ہیں کہ’’ جب تک اِن دونوں رہنماؤں کی آپس میں ملاقات نہیں ہوگئی، اٹلی میں پاکستان کا سفیر مجھ سے برابر التجا کرتا رہا کہ مَیں اِس بات کی تردید کروں کہ بھٹّو نے اندرا گاندھی سے متعلق یہ توہین آمیز الفاظ نہیں کہے تھے۔

مَیں جہاں بھی جاتی، کوئی نہ کوئی اہم پاکستانی شخصیت مجھے ایسا کرنے کی ترغیب دیتی اور میرا پیچھا تب چُھٹا کہ جب ان دونوں رہنماؤں کی ملاقات ہوگئی اور ان کے درمیان شملہ معاہدے پر دست خط ہوگئے۔ میرے لیے انہیں ٹی وی اسکرین پر اکٹھے دیکھنا خاصا دل چسپ تھا۔ جب وہ ہاتھ ملا رہے تھے اور مُسکرا رہے تھے۔ اس موقعے پر اندرا گاندھی کی مسکراہٹ میں فتح جھلک رہی تھی، جب کہ بھٹّو کی مسکراہٹ خجالت آمیز تھی۔‘‘

اوریانا فلاسی کی دنیا کی14نام وَر شخصیات کے انٹرویو پر مشتمل کتاب Intervista con la storia"‘‘اطالوی زبان میں 1974ء میں شائع ہوئی، جس نے کتابوں کی دنیا میں تہلکہ مچادیا تھا۔ 1976ء میں اِس کتاب کا انگریزی زبان میں ایڈیشن’’An Interview with History‘‘ کے نام سے شائع ہوا، جب کہ اس سے قبل اوریانا فلاسی کی سات کتابیں شائع ہوچکی تھیں۔ 1976ء میں اوریانا کی کتاب’’ Letters to a child never born ‘‘شائع ہوئی تھی۔1979ء میں اُن کا ناول’’A Man ‘‘سامنے آیا، جو یونان میں آزادی کے جیالے الیگزیڈر پانا گولیس کی زندگی کی کہانی ہے۔ 

پانا گولیس فلاسی کا ہیرو تھا اور اس نے اپنی زندگی کے چند برس پانا گولیس کے ساتھ بھی بتائے تھے۔1992ء میں اس کا ناول ’’ Inshallah ‘‘ شایع ہوا، 2000ء میں ’’ The Rage and the Pride‘‘، 2005ء میں’’The Force of Reason‘‘ اور 2006ء میں اوریانا کی آخری کتاب’’ The Apocalypse ‘‘شائع ہوئی۔اوریانا فلاسی کو ان کی غیر معمولی اور منفرد صحافتی خدمات کے اعتراف میں متعدّد عالمی انعامات اور اعلیٰ اعزازات سے نوازا گیا۔

کئی عشروں تک عالمی سیاسی شخصیات کو اپنے جارحانہ سوالات سے لاجواب کردینے والی اور اُن سے دل کی بات اگلوانے والی یہ جرّی خاتون صحافی عُمر کے آخری حصّے میں گلے کے سرطان کے موذی مرض میں مبتلا ہوگئیں اور اسی بیماری کے باعث15 ستمبر2006ء کو 77 برس کی عُمر میں اپنے آبائی شہر، فلورنس کے ایک اسپتال میں خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔