• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ٹرمپ پر قاتلانہ حملہ: امریکی صدارتی انتخابات پر مرتب ہونے والے اثرات

امریکا کے سابق صدر، ڈونلڈ ٹرمپ پر گزشتہ دنوں پینسلوینیا کے ایک انتخابی جلسے میں قاتلانہ حملہ ہوا، جس میں گولی اُن کے کان کو زخمی کرتے ہوئے گزر گئی۔ حملے کے وقت وہ اپنے حامیوں سے خطاب کر رہے تھے۔گولی لگنے کے بعد وہ نیچے بیٹھے اور پھر کچھ دیر بعد کھڑے ہوکر، زخمی حالت میں مکّا لہراتے ہوئے دھاڑے’’ فائٹ، فائٹ، فائٹ۔‘‘ 

وہاں موجود امریکی سیکرٹ سروس ایجینٹس نے اُنہیں فوراً قریبی اسپتال پہنچایا اور مرہم پٹّی کے بعد وہ گھر چلے گئے۔ بعدازاں، ری پبلکن پارٹی کی طرف سے ڈونلڈ ٹرمپ کو باقاعدہ پارٹی کا صدارتی اُمیدوار نام زد کردیا گیا اور اگر جوبائیڈن ڈیمو کریٹک پارٹی سے نام زدگی حاصل کرنے میں کام یاب ہوئے، تو ڈونلڈ ٹرمپ اُن سے مقابلہ کریں گے۔

ٹرمپ پر قاتلانہ حملے نے امریکی انتخابات پر غیر معمولی اثرات مرتّب کیے ہیں۔وہ اُن امریکی صدور یا صدارتی اُمیدواروں کی صف میں شامل ہوگئے ہیں، جنہیں قتل یا حملے کا نشانہ بنایا گیا۔ان میں ابراہم لنکن اور جان ایف کینڈی جیسے بڑے نام شامل ہیں۔ آج تک امریکی قوم ان خون آشام، پُرتشدّد اور تکلیف دہ واقعات کو بڑے دُکھ سے یاد کرتی ہے، جنہوں نے اُن کی تاریخ پر گہرے زخم لگائے۔ 

زیادہ خطرناک بات یہ ہوئی کہ امریکی صدارتی مہم ایک مرتبہ پھر تشدّد کی زد میں ہے۔ یہ نہیں کہ ایسی کُھلے عام فائرنگ امریکا میں کوئی انوکھی بات ہے، وہاں ایک عرصے سے بڑھتے گن کلچر اور اسلحے کے آزادنہ استعمال پر بحث جاری ہے، لیکن انتخابی سیاست اِس طرح کے پُرتشدّد واقعات سے دُور ہی رہی ہے۔حال ہی میں بھارت، برطانیہ اور فرانس میں بھی الیکشنز ہوئے، جن کے دوران بہت تلخ انتخابی مہمّات چلیں، لیکن بات بندوق یا گولی تک نہیں پہنچی۔ آخر امریکا میں ایسا کیا ہوا کہ سیاسی تلخی مرنے مارنے تک پہنچ گئی۔ پھر یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ اس واقعے پر حکومت اور عام افراد کا ردّ ِعمل کیا رہا۔کیا وہ اس کی آڑ میں حکومت پر چڑھ دوڑے یا صبر سے انتخابی عمل مکمل ہونے دے رہے ہیں۔

اب تک جو تفصیلات سامنے آئی ہیں، اُن کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ سنیچر13 جولائی کو پینسلوینیا کے بٹلر ٹاؤن میں ایک بڑے انتخابی جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔اِس جلسے کے دو دن بعد انہیں ری پبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار کی نام زگی کے لیے ملواکی جانا تھا، جہاں اُسی دن ٹرمپ اپنے نائب صدارتی امیدوار کے نام کا بھی اعلان کرتے، جسے امریکا میں’’ رنگ میٹ‘‘ کہا جاتا ہے۔جس طرح ٹرمپ کی مقبولیت بڑھ رہی ہے، یہ امر یقینی تھا کہ پارٹی اُنہیں صدارتی امیدوار نامزد کردے گی۔ زیادہ تر تجزیہ کاروں اور رائے عامّہ کے جائزوں سے بھی یہی ظاہر ہو رہا تھا کہ اگر کوئی بڑا اَپ سیٹ نہیں ہوتا، تو ٹرمپ دوسری بار بھی امریکا کے صدر منتخب ہوجائیں گے۔

اب اس پس منظر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ اس قاتلانہ حملے کے کیا مقاصد ہوسکتے ہیں۔اگر یہ حملہ کام یاب ہوجاتا، تو اس سے امریکی ریاست اور سیاست تلپٹ ہو کر رہ جاتی، جو پہلے ہی تقسیم ہے۔حملہ آور صرف دو سو میٹر کے فاصلے پر ایک چھت پر موجود تھا، جہاں سے اُس نے ٹرمپ کا نشانہ لیا۔ اس کے پاس ایم۔16 قسم کی رائفل تھی، جس کا نشانہ مشکل ہی سے چُوکتا ہے۔ ٹرمپ اپنی تقریر کے چھٹے منٹ میں تھے کہ فائر ہوا۔

خود اُن کے الفاظ میں’’ ایسا محسوس ہوا کہ کچھ گڑ بڑ ہوئی ہے اور کان کو ہاتھ لگایا، تو خون بہہ رہا تھا۔‘‘یعنی گولی کان کو چُھوتی ہوئی گزر گئی۔ماہرین کے مطابق، حملہ آور یہ تہیّہ کر کے آیا تھا کہ اپنے ٹارگٹ کو انجام تک پہنچائے گا۔سیکرٹ سروس اہل کاروں نے فوری جوابی کارروائی میں حملہ آور کو ہلاک کردیا،جس کی شناخت تھامس کروکس کے نام سے ہوئی۔20 سالہ کروکس اُسی شہر، یعنی بٹلر کے ایک محلّے کا مکین تھا۔ 

سیکرٹ سروس نے بتایا کہ اُس کی کار سے دھماکا خیز مواد بھی ملا۔ اِس امر پر ایف بی آئی بھی حیران ہے کہ گولی لائن آف سائٹ سے چلائی گئی، یعنی ٹارگٹ بالکل سیدھ میں تھا۔ جوابی فائرنگ سے حملہ آور کے علاوہ وہاں موجود ایک کارکن اور فائر چیف بھی ہلاک ہوگیا۔ ٹرمپ حملے کے بعد نیچے بیٹھ گئے، تاہم کچھ دیر بعد کھڑے ہوئے اور مکّا لہراتے ہوئے حامیوں کو اپنی ثابت قدمی کا یقین دِلایا۔

جسے مختلف ویڈیوز، کلپس اور پوسٹرز میں دیکھا جاسکتا ہے۔ اُن کے حامیوں نے اسے اُن کی غیر معمولی بہادری قرار دیتے ہوئے کہا کہ’’ امریکا کو ایسے ہی بہادر شخص کی ضرورت ہے۔‘‘جلسہ کور کرنے والے میڈیا رپورٹرز نے اپنی رپورٹس میں بتایا کہ پہلے تو جلسے کے شرکاء کو کچھ سمجھ ہی نہیں آیا کہ ہوا کیا ہے، لیکن جب اُنہیں معلوم ہوا کہ اُن کے اُمیدوار پر حملہ ہوا ہے، تو وہ شدید تشویش، پریشانی اور غصّے کا اظہار کرتے پائے گئے، تاہم کوئی بھگدڑ یا ہنگامے کی کیفیت پیدا نہیں ہوئی۔

ٹرمپ پر حملے کی خبر آگ کی طرح امریکا ہی نہیں، دنیا بَھر میں پھیل گئی۔صدر جوبائیڈن نے اس کی مذمّت کی اور ٹرمپ کو ٹیلی فون کرکے خیریت بھی دریافت کی۔ دنیا کا شاید ہی کوئی چھوٹا، بڑا لیڈر ہو، جس نے حملے کی مذمّت، تشدّد کی سیاست کو ناقابلِ برداشت قرار نہ دیا ہو اور ٹرمپ کی خیریت کے حوالے سے بیانات نہ دیئے ہوں۔ پاکستان کے وزیرِ اعظم، شہباز شریف نے اپنے پیغام میں کہا کہ’’ سیاست میں تشدّد کی کوئی جگہ نہیں۔‘‘

پہلے بات ہوچکی ہے کہ امریکی تاریخ میں ایسے سانحات نئے نہیں ہیں۔ ابراہام لنکن جیسے مقبول اور عوامی صدر، جنہوں نے امریکا کو دوبارہ متحد کرنے کا کارنامہ انجام دیا، ایک تھیٹر میں قاتل کا نشانہ بنے۔ صدر کینڈی بیچ سڑک اپنے صدارتی کارواں میں گولی کا نشانہ بنے۔ مارٹن لوتھر کنگ جیسے امریکی خواب کے موجد اور سیاسی و سماجی رہنما قتل ہوئے۔ جارج بش سینئیر گولی سے زخمی ہوئے، لیکن جان بچ گئی۔ دوسری طرف، بندوق برداروں کے ہاتھوں عام افراد کا قتل امریکی معاشرے میں عام بات ہے۔

اِسی لیے مسلسل یہ بحث جاری ہے کہ کیا عام امریکی شہریوں کو اسلحہ رکھنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ حامیوں کا کہنا ہے کہ امریکی اسے معاشرتی طور پر اپنا ٹریڈ مارک سمجھتے ہیں، تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ اسلحہ بنانے اور فروخت کرنے والا مافیا اِتنا طاقت وَر ہے کہ وہ ایوانِ نمائندگان میں اِس پر پابندی سے متعلق ہر بل کو ناکام بنا دیتا ہے۔ کوئی جوان ہو یا بوڑھا، مرد ہو یا عورت، سب کے پاس اسلحہ ہے اور وہ جب کسی خاص ذہنی کیفیت، جذبات کی رو میں ہوں یا دشمنی کی حدیں پار کرلیں، تو ٹریگر دبانے میں دیر نہیں کرتے۔

پہلی صدارتی ڈیبیٹ میں صدر بائیڈن کی کارکردگی انتہائی ناقص رہی تھی، علاوہ ازیں ان کا بڑھاپا اور جسمانی ضعف بھی کُھل کر سامنے آگیا۔ خود اُن کی پارٹی میں سے آوازیں اُٹھ رہی ہیں ہے کہ اُنہیں صدارتی انتخابی مہم سے دست بردار ہوجانا چاہیے اور عین ممکن ہے کہ وہ دست بردار بھی ہوجائیں، اب اگر ایسے میں ٹرمپ کا یہ امیج سامنے آئے کہ گولی لگنے کے باوجود مکّا لہرا کر اعتماد سے کھڑے ہیں، تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امریکی عوام تک کیا پیغام گیا ہوگا۔ امریکا میں کوئی انقلاب نہیں آ رہا، معمول کے انتخابات ہیں، وہاں کی معیشت بہترین ہے اور اس کا سُپر پاور کا اسٹیٹس بھی برقرار ہے۔ عوام کو صرف ایسا لیڈر درکار ہے، جو اسے قائم رکھ سکے یا کچھ آگے لے جائے۔

ٹرمپ کے حمایتی، حملے کے بعد اُن کے رویّے کو غیر معمولی بہادری قرار دے رہے ہیں۔ جو لوگ شخصیت پرستی میں مبتلا ہوں، مسیحا کے متلاشی رہتے ہوں اور اُنھیں اُس کی خرابیوں میں بھی عظمت نظر آتی ہو، اُن کے لیے اِس سے بہتر مثال کیا ہوگی۔ ٹرمپ ذاتی زندگی میں جیسے بھی ہیں، تارکینِ وطن سے متعلق کیا رائے رکھتے ہیں، مسلمانوں سے کیا سلوک روا رکھنا چاہتے ہیں،یہ سب پسِ پُشت چلا گیا اور وہ امریکی قوم کے لیے بہادری و جرأت کی علامت میں ڈھل گئے ہیں۔

ایک ہیرو اور لیجنڈ کے رُوپ میں۔ عوامی مُوڈ کا مظاہرہ دو دن بعد ریاست وسکونسن ملواکی میں دیکھا جاسکتا ہے، جو صدارتی انتخابات میں فیصلہ کُن ووٹ رکھتی ہے۔ وہاں منعقدہ جلسے میں ایک سینیٹر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ’’گولی کھا کر بھی امریکی شیر اُٹھا اور چنگھاڑا۔‘‘جب کہ خود ٹرمپ بھی عوامی جذبات سے بہت متاثر نظر آئے، جو اُن کی فطرت کے خلاف ہے۔وہ بار بار کھڑے ہوتے اور جُھک کر کہتے رہے’’ آپ سب کا شُکریہ اور گاڈ بلیس امریکا۔‘‘یہ جلسہ ٹرمپ اور ری پبلکن پارٹی کے نقطۂ نظر سے انتہائی کام یاب رہا، تمام مخالف اُمیدواروں نے اُن کے حق میں دست برداری کا اعلان کیا اور ساتھ ہی اُنہیں اتحاد کی علامت قرار دیا۔

امریکی سیاست میں قوم پرست ٹرمپ اور روایتی سیاست کے مقلّدین کے سبب واضح تقسیم موجود ہے۔ ایک بار ٹرمپ جیتے اور ایک بار روایتی سیاست دان بائیڈن۔ گویا بازی برابر رہی۔ ٹرمپ نے سیاست میں کئی نئی اختراعات کیں، جن کی اس سے پہلے مثال نہیں ملتی۔ جیسے حد سے گزرتی بداخلاقی، جس کا نشانہ اُن کے حریف بنتے ہیں، خواہ وہ خواتین ہی کیوں نہ ہوں۔ امریکی پاکستانی عمومی طور پر ٹرمپ سے نفرت کرتے ہیں اور اس کی وجہ اُن کی مسلم مخالف پالیسیز ہیں۔ 

واضح رہے، ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا تھا۔پھر یہ کہ وہ برملا کہتے ہیں کہ’’مسلم تارکینِ وطن پر امریکا کے دروازے بند کردوں گا۔ اُنہیں جہازوں میں بَھر بَھر کے ڈی پورٹ کروں گا۔‘‘ تارکینِ وطن ڈرتے ہیں کہ کہیں وہ اقتدار میں آکر اُنھیں نکال ہی نہ دیں، لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ یہی امریکی پاکستانی جب اپنے مُلک کی اندرونی سیاست یا اپنے مخالف رہنماؤں پر تنقید کرتے ہیں، تو اُن کا رویّہ عین ٹرمپ کی نقل ہوتا ہے۔ اِس معاملے میں وہاں پناہ گزین بڑے نام سرِفہرست ہیں۔ 

کیا کبھی اُنہوں نے سوچا کہ اگر واقعی ٹرمپ نے اپنے کہے پر عمل کیا، تو اُن پر اور اُن کے ہم وطن تارکین پر کیا گزرے گی۔یاد رہے، امریکی لیڈرشپ کو اِس امر سے کوئی دل چسپی نہیں کہ کون انسانی حقوق کا کتنا بڑا چمپیئن ہے، وہ صرف اپنے مفادات دیکھتے ہیں۔ غزہ کی مثال سب کے سامنے ہے۔ جمہوریت کا درس دینے والے اور قراردادیں پاس کرنے والے پاکستان میں مارشل لا لگانے والے آمروں ایّوب خان، یحییٰ خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرّف کے سب سے زیادہ معترف رہے۔)اُنھیں لیکچرز کے لیے اپنی یونی ورسٹیز اور تھنک ٹینکس میں بلوا کر ہزاروں ڈالرز ادا کیے) اور آج کل جمہوریت، انسانی حقوق کے نام پر اپنے ایوانوں میں پاکستان کے خلاف قراردادیں پاس کرتے ہیں تاکہ صدارتی انتخابات میں وہاں مقیم پاکستانیوں کی سپورٹ مل سکے۔ کاش! ایسی ہی ایک قرارداد غزہ پر بھی پاس کردیتے۔

یہ وہی امریکا ہے، جس نےایٹمی دھماکا کرنے پر منتخب وزیرِ اعظم میاں نواز شریف کو پتّھر کے زمانے میں بھیجنے کی دھمکیاں دیں اور غیر معمولی پابندیاں عاید کیں۔ عمران خان ایک سال تک سڑکوں پر سائفر لہراتے اور میر صادق و میر جعفر کے قصّے سُناتے رہے، جب کہ امریکا کے پہلے دورے کے بعد اُنہوں نے بیان دیا تھا کہ’’ لگتا ہے، دوبارہ ورلڈ کپ جیت لیا ہے۔‘‘ ٹرمپ ’’فرسٹ امریکا‘‘ جیسے نعرے کے حامی ہیں، جس کا مطلب قوم پرستی ہے۔

لہٰذا اگر وہ اقتدار میں آتے ہیں، تو مغرب میں بائیں بازو کی تحریکیں مزید مضبوط اور تارکینِ وطن پر یورپ یا مغرب کی زمینیں تنگ ہوں گی۔ سوچنے کی بات ہے کہ جو لوگ کہتے پھرتے ہیں’’ مُلک کچھ نہیں، چھوڑو باہر چلیں‘‘ تو اُنہیں کون قبول کرے گا۔کیا یہ روس اور چین جائیں گے؟ادھر عرب ملک تو پہلے ہی بَھر چُکے ہیں۔ ہمیں اپنے ذاتی اور قومی رویّوں پر غور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

یہ نہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی پلیٹ خالی ہے۔اُن سے اختلاف ہوسکتا ہے، تاہم اُنہوں نے اپنے دَور میں امریکی عوام کے لیے اپنے منشور کے مطابق بہتر کام کیے۔معاشی طور پر بے روزگاری صفر پر پہنچا دی،ٹیکس کم کیے، مینوفیکچرنگ پر توجّہ دی، مِڈل کلاس کو مضبوط کیا، کورونا وبا کے دَوران گھر بیٹھے عوام کو اربوں ڈالرز کے وظائف دئیے، صرف چھے ماہ میں کورونا ویکسین ایجاد ہوئی اور خارجہ محاذ پر یہ کہ اُن کے دَور میں کوئی جنگ نہیں ہوئی۔ افغانستان سے فوجوں کی واپسی، عربوں سے تعلقات کی بحالی، شمالی کوریا سے امن مذاکرات، شام میں ڈکٹیٹر پر دباؤ اور پلواما ایشو پر ثالثی جیسے اقدامات بھی اُن کے کریڈٹ پر ہیں۔ اِسی لیے امریکی عوام اُنہیں دوبارہ لانا چاہتے ہیں۔

اُنہوں نے قوم پرستی کی سیاست کی، لیکن وہ یہ نہیں کہتے پِھرتے تھے کہ مجھے یہ نہیں معلوم، مجھے وہ نہیں معلوم۔ فوج خارجہ پالیسی چلائے، آرمی چیف اُن کے لیے قرضے ارینج کرے اور وہ صرف اپوزیشن کو ڈراتے دھمکاتے رہیں یا پھر اپنے حامیوں کو فدائین بنانے میں لگے رہیں۔ٹرمپ پہلے دَور میں تمام تر میڈیا مخالفت کے باوجود اچھی اقتصادی اور خارجہ ٹیم لے کر آئے، جس نے ڈیلیور بھی کیا۔ 

اب اگر اس ریکارڈ میں اُن کی بہادری کا تمغہ بھی شامل ہو جائے، تو اس کے اثرات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ حملے کے اِس واقعے سے دو دن پہلے نیٹو سمٹ ختم ہوئی تھی، جس میں صدر بائیڈن نے یوکرین ایشوپر خاصا جارحانہ اسٹینڈ لیا۔یہاں تک کہ اُنہوں نے پہلی مرتبہ پیٹریاٹ میزائل یوکرین شفٹ کرنے کی کمٹمنٹ کی، جس پر روس اور چین کا ردّ عمل بہت شدید تھا۔

جوبائیڈن کے حامیوں کو نیٹو سمٹ سے بڑی اُمیدیں تھیں کہ وہ خارجہ محاذ پر اپنا امیج بہتر کرکے انتخابی مہم میں واپس آسکیں گے۔تاہم، قاتلانہ حملے نے ٹرمپ کو مزید مضبوط کردیا۔ اِس حملے کے بعد وہ یورپی لیڈر بھی، جنہیں خدشہ ہے کہ ٹرمپ نیٹو کو کم زور کریں گے، اُن کے حق میں بیانات دینے پر مجبور ہوئے، کیوں کہ امریکی عوام کا مُوڈ واضح طور پر ٹرمپ کی طرف ہے۔قابلِ غور امر یہ بھی ہے کہ ٹرمپ نے حملے کے بعد کوئی ایسا ردِ عمل نہیں دیا، جس سے مُلک میں نفرت بڑھتی۔ وہ یہی پیغام دے رہے ہیں کہ’’ ٹرمپ امریکی اتحاد کی علامت ہیں۔‘‘