گزشتہ دنوں دنیا کے تین اہم ممالک میں انتخابات ہوئے اور تینوں ہی کے نتائج چونکا دینے والے تھے کہ نئی لیڈر شپ اور سوچ سامنے آئی۔ برطانیہ میں 14 سال بعد لیبر پارٹی بھاری اکثریت سے فتح یاب ہوئی۔ فرانس کے پارلیمانی انتخابات میں معلّق پارلیمان وجود میں آئی، پہلے رائونڈ میں کام یابی اور ایگزٹ پولز کی پیش گوئیوں کے باوجود انتہائی دایاں بازو اکثریت حاصل نہیں کر سکا۔ ایران میں اصلاح پسند امیدوار، مسعود پزشکیان صدارتی انتخابات جیتنے میں کام یاب رہے۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ تینوں انتخابات قبل از وقت تھے۔برطانیہ میں ٹوری وزیرِ اعظم، رشی سوناک نے ایک سال پہلے انتخابات کروائے اور اُن کے پارٹی ہار گئی۔ فرانس میں صدر میکرون نے مدّت سے تین سال قبل الیکشن کا ڈول ڈالا اور ناکام رہے، جب کہ ایران میں صدر ابراہیم رئیسی کی ہیلی کاپٹر حادثے میں ہلاکت کے بعد انتخابات ہوئے اور اصلاح پسند ڈاکٹر مسعود صدارت کے عُہدے پر فائز ہوئے، جن کا پہلے تصوّر تک نہیں تھا۔
ویسے بھی2024 ء الیکشن کا سال ہے، لیکن ان تین انتخابات کے نتائج نے علاقائی اور عالمی سیاست پر نئے اثرات مرتّب کیے ہیں۔برطانیہ میں لیبر کی فتح طے تھی۔ لیبر، بائیں بازو یعنی لیفٹ نظریات کی حامل جماعت مانی جاتی ہے، جب کہ بارہ میل دُور چینل کے دوسرے کنارے پر فرانس میں، جہاں رائٹ کا بہت شور تھا، ایک مرتبہ پھر لیفٹ ہی کو کام یابی ملی، گو یہ اُس طرح واضح اکثریت نہیں تھی، جس طرح برطانیہ میں لیبر پارٹی کو حاصل ہوئی۔ لیکن بہرحال چینل کے دونوں کناروں پر نظریاتی ہم آہنگی موجود ہے۔
ابراہیم رئیسی سخت گیر مذہبی خیالات کے حامل سمجھے جاتے تھے، لیکن اِس مرتبہ پھر اصلاح پسند مسعود پزشکیان نے بازی پلٹ دی۔ بین الاقوامی امور پر نظر رکھنے والوں کی رائے میں دنیا ایک تبدیلی کے دَور سے گزر رہی ہے۔معاشی دبائو اور منہگائی کی وجہ سے لوگ پریشان ہیں اور کوشش کر رہے ہیں کہ ایسی قیادت کو موقع دیں، جو اُن کے معاشی مسائل کی طرف زیادہ توجّہ دے۔ اِسی لیے وہ شخصیات سے زیادہ نظریات کی بنیاد پر ووٹ ڈال رہے ہیں اور نظریات بھی وہ، جن کا تعلق معیشت سے ہے۔
برطانیہ میں لیبر پارٹی14 سال بعد اقتدار میں آئی ہے۔وہ593 کے ایوان میں410 نشستیں جیتنے میں کام یاب رہی۔یہ انتخابی زبان میں’’ لینڈ سلائیڈ‘‘ ہے۔کنزر ویٹو پارٹی صرف169 نشستیں حاصل کرسکی، جو اس کی بدترین شکست ہے۔ سر کیئر اسٹارمر نے برطانیہ کے نئے وزیرِ اعظم کا عُہدہ سنبھال لیا ہے۔ اگر چار سال پہلے کے سیاسی منظر نامے پر نظر ڈالی جائے، تو یوں لگتا تھا کہ مُلکی سیاست سے لیبر پارٹی کا نام ونشان تک ختم ہونے کو ہے، لیکن اب وہ نہ صرف الیکشن کی فاتح ہے، بلکہ انتہائی طاقت وَر بھی ہے۔
رشی سوناک کو نہ صرف اپنا عُہدہ چھوڑنا پڑا بلکہ وہ پارٹی قیادت سے بھی مستعفی ہونے پر مجبور ہوئے۔ وزیرِ اعظم اسٹارمر نے اپنی وکٹری اسپیچ میں کہا کہ تبدیلی کا آغاز ہو رہا ہے، لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ’’ یہ ہمارے لیے کارکردگی دِکھانے کا وقت ہے۔‘‘اِن انتخابات میں ایک اہم بات یہ بھی ہوئی کہ اسکاٹ لینڈ کی علیٰحدگی پسند پارٹی، اسکاٹش نیشنل فرنٹ بھی لیبرکے مقابلے میں ہار گئی۔ سوال یہ ہے کہ کیا اسٹارمر کوئی بہت ہی پُرکشش لیڈر ہیں کہ جنہوں نے عوام کو اپنے سحر میں جکڑ لیا یا پھر لیبر پارٹی کے منشور میں ایسی خاص باتیں تھیں، جو عوام کو بھا گئیں۔
بیش تر ماہرین کے نزدیک اِن دونوں میں سے کوئی بھی بات نہیں تھی۔اسٹارمر ایک اچھے لیڈر ہیں، نظم و ضبط کے سخت پابند اور محنت کو ترجیح دینے والی شخصیت کے مالک ہیں، تاہم اُن میں ایسی کوئی خُوبی نہیں، جسے غیر معمولی کہا جاسکے۔ غالباً برطانوی عوام کو اپنے وزیرِ اعظم کے لیے اُن کی یہی بات پسند آئی۔کنزر ویٹو پارٹی اپنا محاسبہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ اُس سے آخر ایسی کون سی غلطیاں ہوئیں کہ عوام نے اِتنے بڑے پیمانے پر مسترد کردیا۔
کنزر ویٹو پارٹی کو گزشتہ دس سالوں میں کئی گمبھیر مسائل کا سامنا کرنا پڑا، شاید اِسی وجہ سے دس سال سے بھی کم عرصے میں اس کے پانچ وزیرِ اعظم تبدیل ہوئے۔ ان میں ڈیوڈ کیمرون اور بورس جانسن جیسے مقبول نام بھی شامل ہیں۔ اِس جماعت کی حکومت کو عالمی مالیاتی بحران، بریگزٹ، کورونا، یوکرین جنگ اور اس پیدا شدہ منہگائی کا سامنا رہا۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے، تو اس کی کارکردگی اچھی ہی تھی۔
وہ بریگزٹ میں کام یاب رہی، حالاں کہ یورپی ممالک کو مطمئن کرنا بہت مشکل کام تھا۔ کنزرویٹو، کورونا سے بھی بخوبی نمٹے اور یوکرین جنگ سے پیدا ہونے والی منہگائی بھی اب قابو میں آتی جارہی ہے۔ تو پھر غلطیاں کیا تھیں؟دراصل، کنزر ویٹو دَور میں کئی اسکینڈلز اور مسائل سامنے آئے۔ منہگائی سب سے بڑا چیلنج تھا، تو نیشنل ہیلتھ سروس کی کارکردگی پر بھی بہت سے سوالات اُٹھے۔
حکومت وعدے اور اقدامات کرتی رہی، لیکن عوام کو مطمئن نہ کرسکی۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کنزر ویٹو پارٹی کے کے لیڈر اپنی مسلسل جیت سے اِس حد تک مطمئن ہوگئے تھے کہ پارٹی کی مضبوطی کی بجائے اپنی ذاتی طاقت بڑھانے میں لگ گئے، جس سے پارٹی کی مقبولیت کم ہوتی گئی اور ان رہنماؤں کو احساس تک نہ ہوا۔ لیکن اگر وسیع تر تناظر میں دیکھا جائے، تو کنزر ویٹو اور لیبر پارٹی کی پالیسیز میں کوئی بڑا فرق نہیں ہے۔ ہاں، یہ ضرور ہے کہ لیبر روایتی طور پر تارکینِ وطن کے معاملے میں زیادہ فراخ دل سمجھے جاتے ہیں۔
اسٹارمر نے کہا تھا کہ وہ اسائیلم لینے والوں کے جہازوں کو روانڈا جانے سے روک دیں گے اور اُنہوں نے ایسا ہی کیا، لیکن جس قسم کی اینٹی امیگرینٹ لہر یورپ اور مغرب میں چل رہی ہے اور جس بڑی تعداد میں غیر قانونی تارکینِ وطن انگلش چینل کراس کر کے برطانیہ آرہے ہیں، اِس صُورتِ حال میں اُن کے لیے کوئی بڑی لچک دِکھانا ممکن نہیں ہوگا۔
یہاں کے لوگ تارکینِ وطن کی آمد سے خوش نہیں اور بریگزٹ بھی حتمی تجزیے میں یورپی تارکینِ وطن ہی کی وجہ سے ہوا تھا۔ نیشنل ہیلتھ سروس اور ریلوے کا معاملہ کنزر ویٹو کے لیے دردِ سر رہا، لیبر نے اسے حل کرنے کا وعدہ کیا ہے، لیکن عالمی امور میں کوئی میجر شفٹ ممکن نہیں اور نہ ہی لیبر نے ایسا کوئی وعدہ کیا ہے۔ خارجہ پالیسی، خاص طور پر یوکرین اور غزہ پر لیبر کا وہی موقف ہے، جو کنزرویٹو کا تھا۔یہ ان کا براہِ راست مسئلہ بھی نہیں اور وہ اس میں کوئی بڑا کردار ادا کرنا بھی نہیں چاہیں گے۔
فرانس کے پارلیمانی انتخابات میں نیو پاپولر فرنٹ سب سے زیادہ نشستیں لینے میں کام یاب رہا، جو نیشنل ریلی پارٹی کے لیے بہت بڑا دھچکا ہے کہ وہ اقتدار کے دروازے سے واپس آگئی، اُسے پہلے مرحلے میں زبردست کام یابی ملی تھی، مگر دوسرے مرحلے میں وہ بہت پیچھے رہ گئی۔ گو کہ فرانس میں کوئی بھی پارٹی اکثریت حاصل نہ کرسکی اور ایک معلّق پارلیمان وجود میں آئی ہے، تاہم ایک غیر معروف اتحادی فرنٹ زیادہ نشستیں لینے میں کام یاب رہا، جو الیکشن سے محض چند روز پہلے وجود میں آیا تھا۔
اُدھر صدر میکرون کی پارٹی، مارچ فارورڈ اچھی کارکردگی نہ دِکھا سکی۔ فرانس ایک سیاسی بحران کے قریب ہے۔ میکرون کو ایک ایسا وزیرِ اعظم نام زد کرنا پڑے گا، جو اُن کی پارٹی کا نہیں ہوگا اور جس کے پاس پارلیمان میں اکثریت بھی نہیں ہوگی۔ یاد رہے، نیو پاپولر فرنٹ کوئی باقاعدہ پارٹی نہیں ہے، بلکہ یہ نیشنل ریلی کی اکثریت روکنے کے لیے چھوٹی چھوٹی جماعتوں کو جوڑ کر بنایا گیا تھا۔
یہ حکمتِ عملی کام یاب تو رہی، لیکن اب چیلنج یہ ہے کہ ان چھوٹی چھوٹی جماعتوں میں موجود اختلافات پر کیسے قابو پایا جائے کہ انہیں سیاسی اتحاد میں کام کا زیادہ تجربہ نہیں ہے۔پھر یہ کہ نیشنل ریلی پارٹی کا ووٹر تو اپنی جگہ موجود ہے اور اُن کی جماعت کی پہلے راؤنڈ میں اکثریت کو جس طرح دوسرے راؤنڈ میں روکا گیا، اس سے وہ سخت غصّے میں بھی ہے۔ نیز، یورپی پارلیمان میں تو بہرحال نیشنل ریلی پارٹی ہی فرانس کی نمائندگی کرے گی۔ اِس لیے فرانس کی سیاست اب وہ نہیں ہوگی، جو پہلے ہوا کرتی تھی اور میکرون کے لیے اسمبلی سے کوئی بِل پاس کروانا آسان نہ ہوگا۔
اب اُن کے اگلے تین سال چھوٹی چھوٹی جماعتوں کو منانے ہی میں گزریں گے، جب کہ اصل کھیل پیرس اولمپکس کے بعد شروع ہو گا، کیوں کہ اُس وقت تک موجودہ وزیرِ اعظم ہی کام کرتے رہیں گے۔ اولمپکس کے بعد سیاسی جوڑ توڑ شروع ہوگا، جو میکرون کے تدبّر اور لیڈرشپ کا اصل امتحان ہو گا۔نیشنل ریلی پارٹی کو جس طرح ہروایا گیا، اُس کی پہلے رائونڈ کی جیت دوسرے راؤنڈ میں کس طرح شکست میں بدلی، عوام سے کچھ بھی مخفی نہیں اور وہ اس کا حساب لیں گے یا پھر اپنی رائے بدلیں گے، لیکن جو بھی ہوگا، جمہوری طریقے ہی سے ہوگا۔
یہ بات ہمیں بھی سیکھنے کی ضرورت ہے، جو سیاسی اختلافات میں مُلک ہی کو داؤ پر لگا دیتے ہیں۔ ہار، جیت سیاست کے دو رُخ ہیں۔ حوصلہ ضروری ہے، وگرنہ قوم پٹری سے اُتر جاتی ہے اور پھر پچھتاوے کے سِوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔باوقار قوموں کا یہی وتیرہ ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ فرانس اور ایسے ہی جمہوری ممالک کے ووٹرز بھی اپنی طاقت اور حدود سے بخوبی واقف ہیں، و ہ کسی لیڈر یا پارٹی کو اُس کی اوقات یاد دِلانے میں دیر نہیں کرتے۔
ایران میں اصلاح پسند مسعود پزشکیان صدر منتخب ہوگئے ہیں۔تین کروڑ افراد نے دوسرے اور حتمی مرحلے کی ووٹنگ میں حصّہ لیا، جس میں پزشکیان کو ایک کروڑ63 لاکھ ووٹ ملے۔ اُنہوں نے سخت گیر امیدوار، سعید جلیلی کو دونوں مراحل میں شکست دی۔ووٹرز ٹرن آؤٹ پچاس فی صد کے لگ بھگ رہا۔ ابراہیم رئیسی کی ہیلی کاپٹر حادثے میں وفات کے بعد ہونے والے یہ انتخابات ایک مہینے سے بھی کم عرصے میں ہوئے۔ 76 امیدواروں نے کاغذاتِ نام زدگی داخل کروائے تھے، لیکن رہبر کاؤنسل نے، جس کے سربراہ آیت اللہ خامنہ ای ہیں، صرف چار کو الیکشن لڑنے کا اہل قرار دیا۔
ڈاکٹر مسعود پیشے کے لحاظ سے ہارٹ سرجن اور ایک تجربہ کار سیاست دان ہیں۔ وزیرِ صحت اور پارلیمان کے نائب صدر رہ چُکے ہیں۔ اُنہوں نے اپنی انتخابی مہم میں تین وعدے کیے۔ سماجی انصاف، متوازن قومی ترقّی اور اصلاحات۔واضح رہے، ایران میں سیاسی جماعتیں نہیں ہیں، اُمیدوار ذاتی حیثیت ہی میں الیکشن لڑتے ہیں۔ اصلاح پسند اُمیدوار داخلہ اور خارجہ پالیسیز میں تبدیلی کا وعدہ کرتے ہیں، اِسی لیے انہیں سخت گیر مذہبی گروپ سے مختلف مانا جاتا ہے۔
گزشتہ بیس برسوں سے ایران کی معیشت انتہائی بُری حالت میں ہے اور اِسی لیے تمام صدارتی انتخابات کا بنیادی موضوع معیشت ہی رہا۔بین الاقوامی پابندیوں نے ترقّی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر رکھی ہیں، ایرانی ریال بدترین گراوٹ کا شکار ہے۔ تیل پیدا کرنے والا بڑا مُلک ہونے کے باوجود ایران، پابندیوں کی وجہ سے اپنا مال اور تیل اسمگل کرتا ہے۔ پاکستان میں بھی بلوچستان کا صوبہ اس کی ایک منڈی ہے۔ ویسے ایران کی معیشت خاصی متنوّع ہے، اُس نے تیل کے ساتھ صنعتی طور پر بھی معیشت کو استوار کیا، لیکن وہ مغرب دشمنی کی وجہ سے اُٹھ نہیں پا رہی۔
یہی بات اس کے نوجوانوں کو چبھ رہی ہے اور یہ بے اطمینانی مختلف صُورتوں میں سامنے آتی بھی رہتی ہے۔ صدر حسن روحانی نے امریکا، روس اور یورپی طاقتوں سے نیوکلیئر ڈیل کر کے معیشت کے لیے کچھ آسانیاں پیدا کیں اور ایران کے منجمد چالیس ارب ڈالرز اوباما دَور میں واپس لیے، لیکن ٹرمپ نے نیوکلیئر ڈیل منسوخ کی، تو ایران میں حالات پھر خرابی کی جانب چلے گئے۔چین کی ثالثی میں ہونے والا سعودی عرب سے معاہدہ بھی کوئی بڑی تبدیلی کا موجب نہ بن سکا کہ غزہ کی جنگ نے اسے متنازع بنادیا۔
توقّع تھی کہ دو بڑی مسلم طاقتیں کچھ کر دِکھائیں گی، مگر ہنوز جمود ہی طاری ہے۔ مسعود پزشکیان نے وعدہ کیا ہے کہ وہ مغرب سے مذاکرات کریں گے، نیوکلیئر ڈیل بحال کروائیں گے اور قومی ترقّی کے راستے کی رکاوٹیں دُور کردیں گے۔ ایران میں بے روزگاری بہت زیادہ ہے اور نوجوان غیر مطمئن ہیں، اِسی لیے نئے صدر نے ایسا معاشی پلیٹ فارم دینے کا وعدہ کیا ہے، جس سے یہ مسائل حل ہوسکیں۔ وہاں منہگائی کی شرح56 فی صد ہے، جو گزشتہ سالوں میں سب سے زیادہ ہے۔71 سالہ صدر پزشکیان کے یہ وعدے اُن کی گہری سیاسی سوجھ بوجھ، عالمی معاملات پر گرفت اور مُلکی ترقّی کی بنیادی ضرورت سے واقفیت کے عکّاس ہیں۔
صدر مسعود کو یہ بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ نوجوان خوش نہیں ہیں، وہ بے جا سختیوں سے اختلاف رکھتے ہیں، خاص طور پر ایرانی خواتین اِس معاملے میں خاصی پُرجوش ہیں۔ اِسی لیے اُنھوں نے حجاب پہننے پر مجبور کرنے والی’’ اخلاقی پولیس‘‘ کو’’ غیر اخلاقی پولیس‘‘ قرار دیا۔ لیکن یہ سمجھنا کہ اصلاح پسند صدر کے آنے سے سب کچھ فوراً بدل جائے گا، ایران کے نظامِ طاقت سے لاعلمی ہوگی۔ اگر دیکھا جائے، تو یہ وہی وعدے ہیں، جو اُن سے پہلے اصلاح پسند حکومتیں ایفا کرنے کی کوششیں کرتی رہیں، اِسی لیے سابق صدر حسن روحانی اور صدر خاتمی، مسعود پزشکیان کے حامی ہیں۔
اصلاح پسند صدر کے لیے چیلنج یہ ہے کہ وہ سخت گیر مذہبی گروپ کو راضی رکھتے ہوئے اپنی پالیسیز کو مؤثر طور پر نافذ کرسکے۔حسن روحانی نیوکلیئر ڈیل میں کام یاب ہوئے، مغرب میں اُن پر اعتماد بھی قائم ہوا، لیکن پھر سب ختم ہوگیا۔
یاد رہے، نیوکلیئر ڈیل پر ساری رات تہران کی سڑکوں پر جشن منایا گیا تھا۔ ایران میں اصل طاقت سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے پاس ہے۔وہ صدر یا پارلیمان کو جب چاہیں بائی پاس کرسکتے ہیں۔اُن کے احکامات کے نفاذ کے لیے’’ پاس دارانِ انقلاب‘‘ نامی فورس ہے، جس کی قوّت ایران کی باقاعدہ فوج سے بھی زیادہ ہے اور وہ براہِ راست سپریم لیڈر کو جواب دہ ہے۔ امریکا، اسرائیل اور مغرب کی پالیسیز پر وہی فیصلہ کُن اختیارات رکھتے ہیں اور نئے صدر کو اپنے وعدے پورے کرنے کے لیے ان سب میں ہم آہنگی پیدا کرنی ہو گی، ساتھ ہی مذہبی علماء کو بھی لچک کا مظاہرہ کرنا پڑے گا۔