• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قارئین! میں آپ کو ایک قصہ سناتا ہوں۔ ایک بادشاہ کے دربار میں فقیر آیا اور کہنے لگا، سنا ہے کہ آپ کی سخاوت کے قصے دور دور تک مشہور ہیں؟ بادشاہ نے جواب دیا جی بالکل ٹھیک سنا ہے تم نے، مانگو کیا مانگتے ہو؟ فقیر نے ہاتھ میں پکڑا کاسہ آگے بڑھا دیا اور کہنے لگا بس اسے بھر دیجئے، بادشاہ نے اپنے گلے سے قیمتی ہار اُتار کر کاسے میں ڈال دیا مگر کاسہ نہ بھرا، لہٰذا بادشاہ نے اشرفیوں سے بھری بوری منگوائی اور کاسے میں ڈال دی مگر کاسہ پھر بھی لبالب نہ بھر سکا۔ فقیر طنزیہ نظروں سے بادشاہ کو دیکھنے لگا، بادشاہ نے فقیر کی نظروں اور شرمندگی سے بچنے کیلئے اپنے پورے خزانے کا منہ کھول دیا، تمام مال دولت کاسے میں انڈیل دی مگر کاسہ پھر بھی نہ بھر سکا۔ آخر بادشاہ نے اپنے سر سے تاج اُتار کر فقیر کے قدموں میں رکھ دیا اور پوچھا، اے پراسرار شخص، کم از کم اتنا تو بتا دے کہ آخر یہ کس بزرگ ہستی کا کاسہ ہے؟ فقیر مسکرایا اور بولا، حضور، یہ کوئی عام کاسہ نہیں، یہ حکومت پاکستان کا کاسہ ہے، جو آج تک کوئی بھی نہیں بھر سکا۔

قارئین دنیا میں 193ممالک ہیں جو یونائٹیڈ نیشن کے ممبرز ہیں اور ان میں سے ایک ملک ایسا ہے جس کے لیڈران دنیا بھر میں یہ نعرہ لگاتے ہیں کہ ہمارے شہری ٹیکس چور ہیں۔ ملک کے اندر بھی یہ نعرہ لگایا جاتا ہے ملک کے باہر بھی یہ نعرہ لگایا جاتا ہے کہ ہمارے شہری ٹیکس چور ہیں۔ کیا واقعی میں ہم پاکستانی ٹیکس چور ہیں؟ ذرا نظر دوڑایئے کہ آج سے 14سال پہلے 2010ء میں سارے پاکستانیوں نے مل کر 1500ارب روپے حکومت کی تجوری میں ٹیکس کی مد میں ڈالے۔ آج 2024ءکا سال حکومت ہمیں خود سے بتا رہی ہے کہ سارے پاکستانی مل کر 9ہزار 4سو ارب روپے حکومت کی تجوری میں ڈالیں گے۔ لہٰذا اب آپ سوچیں 14سال پہلے صرف 1500ارب روپے صرف ٹیکس کی مد میں اور آج 9ہزار 4سو ارب روپے تو چوری کہاں ہو رہی ہے۔ ٹیکس تو بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے تو آخر مسئلہ کیا ہے۔ ایک نظر دوڑائیے حکومتی اخراجات پر جو 2010میں 2ہزار 4سو ارب روپے تھے اور آج ہمیں حکومت بتاتی ہے کہ اخراجات 11000ارب روپے پر پہنچ گئے ہیں۔ تو اصل مسئلہ کیا ہے اصل مسئلہ ٹیکس کا نہیں ہے اصل مسئلہ بے قابو حکومتی اخراجات ہیں۔ سچ یہ ہے کہ پاکستان میں ہر مرد، عورت اور بچہ ٹیکس دیتا ہے۔ آپ موبائل فون استعمال کرتے ہیں اس پر آپ ٹیکس دیتے ہیں، پیٹرول خریدتے ہیں اس پر ٹیکس ہوتاہے، آپ کے گھر میں بجلی کا کنکشن ہے آپ ٹیکس دیتے ہیں، گیس کا کنکشن ہے ٹیکس دیتے ہیں، اسٹیشنری خریدنے جاتے ہیں ٹیکس لگتا ہے۔ ابھی حکومت نے بجلی کے مد میں ایک 250ارب روپے کا ٹیکہ لگایا ہے، الزام کس پر لگایا آئی ایم ایف کے اوپر کہ آئی ایم ایف کہتا ہے کہ ریٹ بڑھائیں۔ دوسرا 350ارب روپے کا ٹیکہ لگا ہے گیس کی قیمتوں کی مد میں، الزام آئی ایم ایف کے اوپر۔ مزید 170ارب روپے کا ٹیکس لگایا الزام آئی ایم ایف کے اوپر۔ آئی ایم ایف یہ کہتا ہے کہ جو 100کروڑ روپے کا روزانہ کا نقصان آپ بجلی کے شعبے میں کرتے ہیں نہ کریں تو بجلی کے شعبے میں100کروڑ روپے کا روزانہ کا نقصان بچانا کیا ہمارے اپنے مفاد میں نہیں ہے۔ نقصان حکومت کرتی ہے ملبہ اور بوجھ عوام پر گرتا ہے اور الزام لگایا جاتا ہے آئی ایم ایف کے اوپر۔ اب ذرا سوچئے کہ پی آئی اے کا حکومت 70ارب روپے کا سالانہ نقصان پورا کرتی ہے، 16کروڑ روپے روزانہ کا نقصان ریلوے میں ہو رہا ہے۔ ہمارا اصل مسئلہ سیاسی ہے معاشی نہیں، یہ سفید ہاتھی جو پال رکھے ہیں یہ سیاسی فیصلہ ہے اس میں معیشت نہیں ہے۔ یہ سچ ہے کہ بہت سے ایسے امیر لوگ پاکستان میں رہتے ہیں جو ٹیکس نہیں دیتے، لیکن ان سے ٹیکس وصول کرنا عوام کا کام نہیں ہے، ان سے ٹیکس وصول کرنا ایف بی آر کا کام ہے۔ ہر ملک میں ٹیکس وصولیابی کی شرح ہوتی ہے۔ بنگلا دیش میں یہ شرح 7%ہے، ایران میں 7.4%ہے اور پاکستان میں 9.1%فیصد ہے، یعنی کہ پاکستان میں ٹیکس ایران، بنگلا دیش کے مقابلے میں زیادہ اکٹھا ہو رہا ہے تو پھر پاکستانی ٹیکس چور کہا ںسے ہیں؟۔ یہ سچ ہے کہ انڈیا میں یہ شرح 12%فیصد ہے اور اس کے پیچھے حقیقت یہ ہے کہ انڈیا کے صوبے ایک بہت بڑی کنٹری بیوشن کرتے ہیں ٹیکس میں اور پاکستان کے صوبے ٹیکس تو اکٹھا کر تے ہیں مگر فیڈرل حکومت کو کم رقم جاتی ہے۔ اصل مسئلہ ٹیکس نہیں ہے اصل مسئلہ حکومتی اخراجات ہیں۔ ایک اور مزے کی بات آپ کو یہ بتاتا ہوں کہ اگر 3قسم کے ٹیکس ہم جمع کر لیں جس میں ان ڈائریکٹ ٹیکس، کسٹمز ڈیوٹیز اور ود ہولڈنگ ٹیکس شامل ہیں، یہ حکومت کی ٹوٹل انکم کا 90%سے % 95بن جاتا ہے، یعنی کہ اگر آج ایف بی آر کو بند کر دیا جائے تو 90%سے% 95 ٹیکس حکومت کی تجوری میں پھر بھی اکٹھا ہو جائے گا۔

دوسری جانب آئی ایم ایف کی حامی شہباز حکومت نے اپنی ناقص حکمت عملی کے سبب اپنے خلاف احتجاج کے نئے درخودہی کھول لئے ہیں۔ بجلی کی اضافی قیمتوں اور فکس چارجز کے نئے ٹیرف کو یکم جولائی سے نافذ کرکے عوام اور تاجر برادری کی سانسیں روکنے کا بندوبست کیا گیا ہے جس کے بعد صورتحال ایجی ٹیشن کی طرف جاتی دکھائی دے رہی ہے۔ جماعت اسلامی نے بھی بجلی سمیت مہنگائی اور حکومت کی عوام دشمن پالیسیوں کے خلاف 12جولائی کو جس احتجاجی دھرنے کی کال دی تھی احترام عاشورہ کے سبب اب 26جولائی کو دھرنے کا اعلان کیا ہے۔ دوسری طرف گیلپ سروے میں انکشاف ہوا ہے کہ 94فیصد پاکستانی ملک چھوڑنے کے خواہشمند ہیں جبکہ ساڑھے 9سال میں 62لاکھ 20ہزار سے زائد پاکستانی دیار غیر جا چکے ہیں۔

تازہ ترین