• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:سیمسن جاوید…نیو کاسل
برطانیہ میں کنزرویٹو پارٹی کا 14سالہ دورِ حکومت ختم ہو گیا۔ 4جولائی 2024کے عام انتخابات میں بر سراقتدار کنزرویٹو پارٹی کو بد ترین شکست کا سامنا کرنا پڑا اور لیبر پارٹی کی شاندار کامیابی عوامی ردعمل کا نتیجہ ہے۔کنزرویٹو پارٹی کی شکست کی بڑی وجہ بتدریج بڑھتی ہوئی مہنگائی،ٹیکسز میں اضافہ، این ایچ ایس کو فنڈٖ مہیا نہ کرنا ہے۔پارٹی کی کارکردگی میں کمی اور ایسی پالیسیزجن میں( بریگزٹ ) یعنی یورپین یونین سے علیحدگی ہے جسے نوجوان نسل نے قبول نہیں کیا تھا ۔ یاد رہے کہ کنزرویٹو پارٹی کے سابق وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے جون 2016میں ایک جوا کھیلا بریگزٹ پر ریفرنڈم کروایاجس کی کامیابی پر ڈیوڈ کیمرون مستعفی ہوگئے کیونکہ وہ خود بریگزٹ کے حق میں نہیں تھے ۔ اس کے بعد ٹریسا مے کو وزیراعظم بنا دیا گیا ۔بریگزٹ سے برطانیہ کو سخت معاشی دھچکا لگا ۔ٹریسا مے اقتدار سنبھالتے ہی معاشی بحرا ن کو بہتر کرنے اوربریگزٹ کے مراحل کو طے کرنے میں مصروف ہوگئیں،آخر اسے بھی مستعفی ہونا پڑا اور یوں وزیراعظم کی پوسٹ کا سہرا بورس جانسن کے سر سجا دیا گیا،اس نے الیکشن کروایا مگر بدقسمتی سے الیکشن میں کامیابی کے باوجودسکینڈلز کی بناہ پر اسے بھی مستعفی ہونا پڑا جس کے بعد لز ٹرس کو وزیر اعظم بنایا گیاجوصرف 50دن مکمل کر مستعفی ہو گئی بورس جانسن کے دور حکومت میں رشی سوناک وزیرخزانہ تھے جوایک ماہر اکنامسٹ ہیں۔لز ٹرس کے استعفے کے بعد وزیرِ اعظم کا سہرا ان کے سر ٹھہرا جو برطانیہ کی ہسٹری میں پہلے ایشین نژاوزیر اعظم بنے۔برطانیہ کی اکنامی اور مسائل کے حل کیلئے وہ مسلسل کوشاں رہے ۔انہوں نے معیشت کو مستحکم کرنے لئے مختلف تجربات کئے۔ 2مئی کو لوکل گورنمنٹ میں کنزویٹو کے کونسلر اور میئر ز کی شکست اور مقبولیت میں کمی رشی سوناک کی حکومت کیلئے نوشتہ دیوار بن گئی 10سال کے مختصر عرصہ میں کنزرویٹو پارٹی کے 5وزیراعظم تبدیل ہوئے بریگزٹ اور کورونا وائرس کی وبا تک ایسے بھی موقعے آئے جس نے پارٹی کو دھڑوں میں تقسیم کردیا ۔اس کے علاوہ خارجہ پالیسی ،امیگریشن کی سخت پالیسی ،اسائلم سیکرز کو رونڈا بھیجنے کا اعلان اورساری دنیا میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کی مناسبت سے ڈاکٹرز اور نرسز کی تنخواہ میں مناسب اضافہ نہ کرنا یہ ایسی وجوہات تھیں کہ کنزرویٹو پارٹی کے روایتی ووٹرز نے اپنی پارٹی کی کارکردگی سے مایوس ہو کر ریفارم یوکے پارٹی کو اپنا ووٹ دیا ۔کچھ نے ووٹ ڈالنے کی بجائے گھر بیٹھنے کو ترجیع دی ۔ لیبر پارٹی410نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی جب کہ کنزرویٹو نے 121نشستیں حاصل کیں اور اسے بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔اس کے کئی بڑے برج ٹک نہ پائے ۔سابق وزیراعظم لز ٹرس کو بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ وزیر اعظم رشی سوناک نے بادشاہ چارلس سے باہمی مشاور ت کے بعد 22 مئی 2024 کو عوام کا اعتماد حاصل کرنے کی امید پر قبل از وقت جنرل الیکشن 4 جولائی 2024 کو کروانے کا اعلان کردیا ۔ جمہوریت پسند عوام کا یہ خاصاہے کہ وہ اپنے ووٹ سے اپنی پسند، نا پسند اور بہتر پالیسز کا جواب دینا بہتر سمجھتے ہیں ۔ اسی لئے انہوں نے اپنے ووٹ کے ذریعے ثابت کر دیا کہ کنزرویٹو کی پالیسیز عوام دوست نہیں تھیں۔ کنزرویٹو پارٹی کے رہنما اور سابق وزیرِ اعظم رشی سوناک نے انتخابات میں شکست کا اعتراف کرتے ہوئے لیبر پارٹی کے رہنما کیئر اسٹارمر کو مبارک باد دی ۔ انہوں نے کہا کہ وہ انتخابات میں شکست کی ذمے داری قبول کرتے ہیں اور کیئر اسٹارمر نے اپنی پہلی مختصر تقریر میں کہا ہے کہ عوام نے تبدیلی کے لیے واضح فیصلہ سنایا ہے۔ انہیں عوامی توقعات پر پورا اترنے کیلئے عملی اقدامات کرنا پڑیں گے۔ یاد رہے کہ 1997 میں لیبر پارٹی کے ٹونی بلیئر کی تاریخی کامیابی کے بعد برطانوی سیاسی تاریخ میں یہ لیبر پارٹی کی اب تک کی سب سے شاندارفتح ہے۔ کنزرویٹو پارٹی کی ایسی پالیسزجو عوام کو ترقی کی بجائے پستی کی طرف لے گئیں ۔ عوام سے کئے گئے کئی وعدے پورے نہ ہو سکے۔ان تمام عوامل کی وجہ سے لیبر پارٹی نہ صرف شمالی انگلینڈ میں 2019 کے جنرل الیکشن میں اپنی کھوئی ہوئی نشستیں دوبارہ جیتنے میں کامیاب ہوئی بلکہ وہ جنوبی اور مشرقی انگلینڈ کے ان علاقوں میں بھی کامیاب رہی جو کنزرویٹو پارٹی کا روایتی گڑھ رہے ہیں۔ صرف سکاٹ لینڈ میں لیبر ووٹ میں 19 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا ہے جبکہ انگلینڈ میں لیبر پارٹی کے ووٹوں کا تناسب جمود کا شکار رہا۔ جبکہ کنزرویٹو پارٹی کے ووٹ کا گراف 21 فیصد گرا ہے۔اس الیکشن میں60 فیصد ٹرن آئوٹ رہا ہو جو اتنا اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ لیبر پارٹی کے وزیراعظم کیئرا سٹارمرکے سامنے بہت سے چیلنجز ہیں ۔نئے وزیراعظم کیئر اسٹامر نے تارکینِ وطن کو روانڈا بھیجنے کی پالیسی کو رد کرکے پہلا کام کیا ۔ انہیں بڑی حکمت عملی اپنا ہوگی تاکہ برطانیہ پھر سے مضبوط ترین بن جائے اور عوام کے مسائل حل کئے جائیں۔ لیبر پارٹی کی کامیابی شاندار ہے لیکن اصل کامیابی لوگوں کے دلوں کو جیتنا ہے۔
یورپ سے سے مزید