• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج کی کتھا میں آپ بوڑھوں کی باتیں سنیں گے۔ آج کی کتھا میں جوانوں اور نوجوانوں کیلئے کچھ بھی نہیں ہے۔ اس لیے جوانوں اور نوجوانوں کو آج کی کتھا پڑھنے سے گریز کرنا چاہیے۔ میں بھی آپ کی طرح کبھی نوجوان ہوا کرتا تھا۔ میں ماں کے پیٹ سے بوڑھا پیدا نہیں ہوا تھا۔ میں ماں کے پیٹ سے عام بچوں کی طرح بچہ پیدا ہوا تھا۔ بچپن کے بعد لڑکپن کا دور دیکھا تھا۔ لڑکپن مجھے اچھا لگا تھا۔ لڑکپن کے بعد نوجوانی اور جوانی کا لاابالی دور دیکھا تھا۔ تب ایک لمحے کے لیے ہم سوچ نہیں پاتے تھے کہ ایک روز ہم بھی بوڑھے ہوجائیں گے۔ سورج جو سر پر دکھائی دیتا ہے، ڈوبنے لگے گا۔ دیکھا ہوا منظر مبہم لگے گا۔ سنی ہوئی بات سمجھ میں نہیں آئے گی۔ دیکھے بھالے لوگ اجنبی محسوس ہونے لگیں گے۔ سمت کا تعین غیر یقینی ہوجائے گا۔ عبدالقدوس ہمیں عبدالغفور سجھائی دے گا۔ یہ سنی سنائی باتیں میں آپ کو نہیں سنا رہا ہوں۔ ان ادوار سے میں گزرا ہوں اور گزر رہا ہوں۔ ایک اور بات بھی میں آپ سے شیئر کردوں، بڑھاپے میں آپ کے کام آئے گی۔ عام طور پر بڑھاپے سے فی الحال دور رہنے والے لوگ ہم سے ہمدردی جتانے میں کنجوسی نہیں دکھاتے، وہ آپ کو طرح طرح کے مشوروں سے نوازتے رہتے ہیں۔ آپ کو کیا کھانا چاہیے، کتنا کھانا چاہیے، کیا پینا چاہیے، کتنا سونا چاہیے، کتنا جاگنا چاہیے، کتنی اور کب ورزش کرنی چاہیے، پھر وہ آپ کو یوگا کے گن گنوانے بیٹھ جائیں گے۔

عمر رسیدہ لوگوں کے بارے میں اچھی سوچ رکھنے والے نوجوان آپ کو عملی طور پر مفید باتیں بتاتے ہیں۔ مثلاً آپ کو باتھ روم میں گرنے اور ہڈی پسلی فریکچر کروانے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ اس نوعیت کے بےشمار میسج، ہدایات، صلاح و مشورے ہمیں جوانوں اور نوجوانوں کی طرف سے ملتے رہتے ہیں۔ وہ ہماری صحت اور تندرستی کے حوالے سے فکرمند رہتے ہیں۔ ان سب کے مشوروں پر ڈاکٹروں کی مہر لگی ہوتی ہے۔ مشوروں میں لکھی ہوئی باتیں کام کی ہوتی ہیں، مگر قابل عمل نہیں ہوتیں، مثلاً باتھ روم میں گرنا ہم بوڑھوں کے نصیب میں لکھا ہوا ہوتا ہے۔ نصیب میں المناک باتیں کون لکھتا ہے؟ کوئی نہیں جانتا، ہم بوڑھے اکثر باتھ روم میں گر جاتے ہیں، کبھی سر، کبھی ہپ بون اور کبھی ہڈی پسلی تڑوا بیٹھتے ہیں۔ مشورے بھیجنے والے بھول جاتے ہیں کہ کوئی بوڑھا شخص اپنی مرضی سے باتھ روم میں نہیں گرتا، آپ کے نادر مشورے کا شکریہ، باتھ روم میں ہم بوڑھوں کا نہ گرنا ہمارے بس کی بات نہیں ہے۔ ہم بوڑھے بس اتنا جانتے ہیں کہ پیر پھسلنے کے علاوہ ہم چکراکر گر پڑتے ہیں، جب بھی ہم بوڑھے باتھ روم میں گرتے ہیں، بہت برے گرتے ہیں۔ اس کے بعد پھر کبھی ہم اپنے پیروں پر کھڑے نہیں ہوسکتے، اس کے بعد ہم کم عرصہ کے لیے اس دنیا میں رہتے ہیں۔

چھوٹے بڑوں کے علاوہ چھوٹے بچے بھی ہمیں مشورہ دیتےرہتے ہیں کہ دادا، نانا، آپ دن میں آٹھ گلاس پانی پیا کریں، آپ دن میں دو لیٹر پانی پیا کریں، تھینک یومیرے بچو، مفید مشورےکیلئے۔ زمینی حقائق کے مطابق ہم سب جب بوڑھے ہوجاتے ہیں تب ہمارے اندرونی نظام کے انجر پنجر بھی بوڑھے ہوجاتے ہیں۔ مثلاً میں نوے برس کے لگ بھگ ہوں، کوئی الو سے الو بوڑھا تصور نہیں کرسکتا کہ نوے برس کی عمر میں اس کا دل، دماغ، گردے، نظام ہضم، آنکھیں، ناک، کان، ٹانگیں پچیس برس جیسی کارکردگی سے کام کرتے ہوں گے۔ عمر کے ساتھ ہمارے مکمل نظام کا انحطاط یعنی زوال میں بہتری کی بجائے ابتری آنے لگتی ہے۔ آپ مجھے دو لیٹر یعنی آٹھ گلاس پانی پینے کا مشورہ دیتے ہیں، اس مشورے کیلئے ہم بوڑھے آپ کے شکر گزار ہیں، مگر کیا ہوتا ہے میرے بچو کہ ستر، اسی، نوے برس کی عمر تک آتے آتے Urinary Systemمیں گڑبڑ ہوجاتی ہے۔ بلیڈر کمزور پڑ جاتا ہے۔ آپ پیشاب روک نہیں سکتے، پانی کے دو گھونٹ پینے کے فوراً بعد آپ کو باتھ روم یا ٹائلٹ جانے کی اشد ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ اٹھائیس برس پہلے جب میں سینئر سٹیزن ہونے کے بعد اوپن یونیورسٹی سے ریٹائر ہوا تھا اور آٹھ گلاس پانی روزانہ پابندی سے پیتا تھا، تب میں نے اسلام آباد کے تمام پبلک ٹوائلٹس کے پتہ نشان حفظ کرلیے تھے۔ گھومنے، پھرنے سے باز نہیں آتا تھا۔ بار بار پانی پینے کی وجہ سے مجھے بار بار ٹوائلٹ جانے کی ضرورت محسوس ہوتی تھی۔ اب میں گھوم پھر نہیں سکتا، میرے ٹوائلٹ کا دروازہ کھلا رہتا ہے تاکہ آٹھ گلاس پانی پینے کے بعد مجھے ٹوائلٹ جانے میں دیر نہ لگے۔

ایک حیرت انگیز مشورہ ہم بوڑھوں کو اکثر ملتا رہتا ہے۔ دادا، نانا آپ کبھی گھبرایا مت کریں، یہ میرا اپنا ملک ہے، تب سے یہ میرا ملک ہے جب سے بنا ہے، میں جانتا ہوں میرے ملک میں کیسی کیسی وبائیں پھیلی ہوئی ہیں، کیسے کیسے جن بھوت اور راکھشس میرے ملک میں دندناتے پھرتے ہیں۔ مجھے ان سے ڈر تو لگتا ہے مگر میں گھبراتا تب ہوں جب ان سے میرا واسطہ پڑتا ہے، ایک مرتبہ ایک گڑنگ سیاست دان سردار ہمارے پڑوس میں تشریف لے آئے۔ نامی گرامی سیاست دان ہیں، نہ جانے کب سے وہ ان سے پہلے ان کے آبائو اجداد سیاست پر چھا چکے ہیں اور میرا ملک چلاتے رہتے ہیں۔ اس مرتبہ وہ اپنے لیے نہیں بلکہ اپنے بیٹے اور بیٹی کے لیے ووٹ مانگنے آئے تھے۔ کہا، ’’میرا کیا ہے؟ اس مرتبہ میں سینیٹر بنوں گا، مجھے ایم این اے اور ایم پی اے ووٹ دیں گے۔ اس مرتبہ میرا بیٹا اور بیٹی اسمبلی میں آپ کی نمائندگی کریں گے۔ ملک چوگنی ترقی کرے گا۔

گھبرانے کی بات تو ہے بھائی!

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین