• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

حال ہی میں مجھے سندھ کے ایک ممتاز سیاستد ان کا لندن سے پاکستان کا نقشہ بھیجا گیا ہے۔ اس میں پاکستان کے صوبوں کی حد بندی دکھائی گئی ہے مگر اس نقشے کا اہم پہلو یہ ہے کہ ہر صوبے کے سامنے یہ لکھا گیا ہے کہ اس صوبے سے مرکزی حکومت نے کتنا ٹیکس وصول کیا۔ اس سلسلے میں جو اعداد و شمار دیئے گئے ہیں ان کے مطابق سب سے زیادہ ٹیکس سندھ سے وصول کیا گیا جو 44.918 فیصد ہے جبکہ سب سے بڑے صوبے پنجاب سے 34.99 فیصد ٹیکس وصول کیا گیا اورباقی صوبوں اور علاقوں سے جمع کئے گئے ٹیکس کافی مختصر ہیں۔اہم بات یہ ہے کہ نقشے پر یہ نہیں لکھا گیا کہ یہ اعداد و شمار کس سال کے ہیں‘ بہرحال یہ ٹیکس کسی ایک سال میں جمع کئے گئے اور یہ معلومات نہیں دی گئیں کہ جس سال ان صوبوں سے اتنا ٹیکس جمع کیا گیا اس سال کے بجٹ میں ان صوبوں کیلئے کتنی رقوم مختص کی گئیں‘ بہرحال اس سال یعنی 2024 ء کےوفاقی بجٹ میں مختلف صوبوں کیلئے جو رقوم مختص کی گئی ہیں انکے مطابق پنجاب کیلئے 7.666ارب روپے‘ سندھ کیلئے 6.454ارب روپے‘ کے پی کیلئے.6.362ارب روپے اور بلوچستان کیلئے 6.23 ارب روپے مختص کئے گئے۔اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جس سال کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے کہ ان صوبوں سے اتنا ٹیکس جمع کیا گیا ان کو اس سال کے بجٹ سے کتنی رقم ملی ہوگی۔ صوبوں کے بارے میں کچھ مزید حقائق سامنے آئے ہیں جنکے مطابق پاکستان قائم ہونے کے بعد پاکستان کے اس وقت کے وزیر خزانہ چوہدری غلام محمد نے سندھ کے وزیر اعلیٰ ایوب کھوڑو کو کہا کہ مرکز کو سندھ کچھ قرض دے تاکہ ملازمین کو تنخواہیں دی جاسکیں۔ کھوڑو نے کہا کہ سندھ حکومت کوہندوستان سے آنے والے مہاجرین کی آباد کاری پر بہت خرچ کرنا پڑ رہا ہے لہٰذا وہ یہ نہیں کرسکتے مگر بعد میں اتنا دبائو بڑھا کہ آخر کار اس نے سندھ حکومت کے خزانے سے 30 کروڑ روپے 3 فیصد سود پر دیدیئے‘ اس قرض میں سے آج تک مرکزی حکومت نے سندھ حکومت کو ایک پیسہ بھی واپس نہیں کیا۔بعد میں جب مغربی پاکستان میں غیر آئینی اور غیر قانونی طور پر ون یونٹ مسلط کیا گیا۔ اس طرح بشمول سندھ مغربی پاکستان کے سارے صوبوں کی خود مختاری معطل کردی گئی‘ اب یہ سارے چھوٹے صوبے مرکز کی تحویل میں چلے گئے‘ اس وقت بھی سندھ کے وزیر اعلیٰ ایوب کھوڑو تھے‘ ان کو مجبور کیا گیا اور انہوں نے مغربی پاکستان کی حکومت کو سندھ کے خزانے سے مزید 33 کروڑ روپے دیئے‘ بعد میں سیونگز اکائونٹ میں سندھ کے جو 35 کروڑ روپے رکھے ہوئے تھے بھی نکال کر مغربی پاکستان کی حکومت کے حوالے کیے گئے‘ اس طرح 1947 ء سے 1954 ء تک سندھ حکومت سے زبردستی 128 کروڑ روپے مرکز کے حوالے کروائے گئے جن میں سے آج تک میری اطلاعات کے مطابق ایک روپیہ بھی سندھ کو واپس نہیں کیا گیا لہٰذا سندھ کے معاشی ماہرین اور سیاسی رہنما مطالبہ کرتے رہے کہ یہ ساری رقم سندھ کو فوری واپس کی جائے‘ سندھ پاکستان کے دیگر صوبوں سے اس حد تک منفرد ہے کہ یہ واحد صوبہ ہے جسے اللہ پاک نے دریائے سندھ بھی عطا کیا ہے تو سندھ اور سمندر کندھے سے کندھا ملائے ہوئے ہیں مگر یہ بات پاکستان کے ’’کچھ حلقوں‘‘ کو پسند نہیں لہٰذا ایک طرف دریائے سندھ کو سندھ کی دسترس سے دور رکھنے کے علاوہ سمندر سے بھی سندھ کو دور کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ۔ ان کوششوں کے ذریعے انگریز سرکار کے دور میں کوشش ہوتی تھی کہ دریائے سندھ سے اوپر کے علاقوں کی ضرورتیں پوری کی جائیں پھر چاہے سندھ کیلئے دریائی پانی برائے نام ہی کیوں نہ بچے‘ اس وجہ سے انگریز سرکار کے دور میں بھی اوپر کے صوبے اور سندھ کے درمیان تنازعات جنم لیتے رہے مگر اچھی بات یہ ہوئی کہ جب نواز شریف پاکستان کے وزیر اعظم تھے اور سندھ کے وزیر اعلیٰ جام صادق علی تھے تو دریائے سندھ کے پانی کی صوبوں خاص طور پر پنجاب اور سندھ میں منصفانہ تقسیم کے سلسلے میں ایک انتہائی منصفانہ فیصلہ ہوا جسے 91ء کا پانی کی تقسیم کے بارے میں معاہدہ کہا جاتا ہے اس Accord پر وزیر اعظم نواز شریف اور چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ نے دستخط کئے‘ اس معاہدہ کے تحت پانی کی تقسیم کیلئے ایک نیا ادارہ انڈس ریور سسٹم اتھارٹی یعنی ارسا بنایاگیا۔ یہ Accord سندھ کے پانی کے ایک ممتاز ماہر پی کے شاہانی نے تیار کیا اس Accord پر اجلاس میں تفصیلی غور کیا گیا‘ بڑی بحث کے بعد سارے Accord کو تسلیم کیا گیا‘ باقی پنجاب نے Accord کے اس نکتےپر اعتراض کیا کہ ارسا کا ہیڈ کوارٹر سندھ کے شہر سکھر میں ہوگا‘ پنجاب کا کہنا تھا کہ ارسا کا آفس سکھر کی بجائے لاہور میں قائم کیا جائے۔(جاری ہے)

تازہ ترین