مصنّف: محمود شام
صفحات: 860، قیمت: 2980 روپے
ناشر: اٹلانٹس پبلی کیشنز، سی-37، اسٹریٹ 4، سیکٹر 6 ایف، مہران ٹاؤن، کورنگی انڈسٹریل ایریا، کراچی۔
فون نمبر: 2472238 - 0300
محمّد طارق محمود تقسیمِ ہند کے وقت پانچ برس کے تھے۔ راج پورہ میں پیدا ہوئے، ننھیال انبالہ میں تھا۔والد، صوفی شیر محمّد مستند طبیب تھے اور پٹیالہ میں شیرانوالہ گیٹ کے قریب’’ارسطو دوا خانہ‘‘ کے نام سے مطب کرتے تھے۔شعر کہتے تھے، اُن کا تدریس سے بھی تعلق تھا اور نمازِ جمعہ بھی پڑھایا کرتے تھے۔ تحریکِ آزادی میں بھی سرگرم رہے، کانگریس اور مجلسِ احرار کے فعال رُکن تھے۔ مولانا عبدالقادر رائے پوریؒ جیسے بلند پایہ صوفی بزرگ سے بیعت کا سلسلہ تھا۔
فسادات میں دادا، تایا، چچا، تائی، تایا زاد بہنیں، بھائی سب مارے گئے، جب کہ طارق محمود، اُن کے بھائی خالد مسعود اور والدین راج پورہ میں نہ ہونے کے باعث زندہ بچ گئے۔ہجرت کے بعد یہ خاندان مختلف علاقوں میں مقیم رہا اور پھر جھنگ کو اپنی مستقل رہائش کے لیے منتخب کرلیا۔ طارق محمود ایف اے میں تھے، جب پاکستان اور بھارت کے ممتاز ادبی رسائل میں اُن کی غزلیں، نظمیں شایع ہونے لگی تھیں اور یہی وہ وقت تھا، جب وہ طارق محمود سے محمود شام بنے۔ 1962ء میں جھنگ سے لاہور منتقل ہوگئے، تبلیغی جماعت میں40 روز لگائے، ترقّی پسند کے طور پر معروف ہوئے، تو اُنھیں کمیونسٹ بھی کہا گیا اور روسی ایجنٹ کا بھی الزام لگا۔
گورنمنٹ کالج لاہور کے میگزین کے مدیر رہے، حلقہ اربابِ ذوق کا حصّہ تھے، پاک ٹی ہاؤس ٹھکانہ رہا، دورانِ تعلیم ایک اشاعتی ادارے میں بطور پروف ریڈر ملازمت کا آغاز کیا، تاہم صحافت کی باقاعدہ ابتدا ہفتہ روزہ’’قندیل‘‘ سے ہوئی، نوائے وقت کے میگزین ایڈیٹر مقرّر ہوئے،1967ء میں’’ اخبارِ جہاں‘‘منظرِعام پر آیا، تو ایک ماہ بعد ہی اُس کا حصّہ بننے کے لیے کراچی آگئے اور تب سے یہیں کے باسی ہیں۔نذیر ناجی، عبدالکریم عابد، احفاظ الرحمٰن، نعیم آروی، انور شعور اور خالد خلد جیسے نمایاں نام اس ٹیم کا حصّہ تھے۔
پھر’’ الفتح‘‘،’’ مساوات‘‘ میں خدمات انجام دینے کے بعد دوبارہ’’ اخبارِ جہاں‘‘ آئے، بعدازاں ہفت روزہ’’معیار‘‘، ’’ٹوٹ بٹوٹ‘‘ اور کچھ انگریزی جرائد کا تجربہ کیا۔ 1994ء میں’’جنگ‘‘، کراچی سے بطور ایڈیٹر وابستہ ہوئے اور چھے سال بعد اخبار کے پہلے گروپ ایڈیٹر ہونے کا اعزاز اپنے نام کیا۔2010ء میں’’جنگ‘‘ سے الگ ہونے کے بعد کئی اخبارات سے وابستہ رہے اور 2018ء سے’’ جنگ‘‘ کے لیے کالم نویسی کے ساتھ دیگر صحافتی سرگرمیوں سے بھی وابستہ ہیں۔ اپنے اِس طویل صحافتی سفر میں اُنھوں نے ایّوب، یحییٰ، ضیاء اور مشرّف کی آمرانہ حکومتیں دیکھیں، تو جمہوری حکومتوں کی’’ عوام دوستی اور جمہوریت پسندی‘‘ بھی اُن کی نظروں سے اوجھل نہیں رہی۔
سیاسی و مذہبی رہنماؤں سے گہرے تعلقات قائم ہوئے، اُن کے ساتھ مُلکی و غیر مُلکی اسفار کیے اور سیکڑوں چشم کُشا انٹرویوز بھی۔ سانحۂ مشرقی پاکستان کے ایک ایسے عینی شاہد ہیں، جنہوں نے پورے شعور کے ساتھ حالات کو کروٹ بدلتے دیکھا۔ شملہ، آگرہ جیسے بہت سے معاہدے ہوتے، ٹوٹتے دیکھے، تو پارٹیاں بنتی، عروج پاتی اور تقسیم ہوتی بھی دیکھیں۔73 ابواب یا عنوانات پر مشتمل یہ کتاب اِن ہی صفِ اوّل کے صحافی، ادیب، مصنّف اور کالم نگار کی خود نوشت ہے۔
یہ ایک پُرتجسّس رپورٹر، تجربہ کار ایڈیٹر اور جہاں دیدہ تجزیہ کار کی آپ بیتی ہے، جو اپنے مندرجات کی وسعت و اہمیت کے سبب وطن بیتی کا رُوپ دھار چُکی ہے۔ اِس میں مُلک کی سیاسی و صحافتی تاریخ کے اہم واقعات بکھرے پڑے ہیں اور اگر کوئی دیدۂ عبرت رکھتا ہو، تو ان میں بہت سے اسباق بھی پوشیدہ ہیں۔ اِس ضمن میں محمود شام کا کہنا ہے کہ’’اپنی زندگی کے اسّی سال مَیں نے’’ شام بخیر‘‘ کے صفحات میں دِل کھول کر بکھیرے ہیں۔1948ء سے 2021ء تک جو کچھ دیکھا، وہ مَیں نے 800صفحات میں بیان کردیا۔ اب جو کچھ دیکھ رہا ہوں، وہ کُھل کر لکھ نہیں سکتا، کیوں کہ مناظر تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں۔
ماں کی گود میں لیٹ کر ایک کُھلی چھت کی مال گاڑی میں، بلوائیوں کی’’مار دو، چیر دو‘‘ جیسی آوازوں میں پاکستان منتقل ہوئے۔مَیں آج بھی مال گاڑی میں ہوں، چھت آج بھی نہیں ہے، آس پاس بلوائیوں کی آوازیں بھی آ رہی ہیں، پڑوس سے حملے اب بھی ہو رہے ہیں، مگر آج بھی مجھے اپنی ماں، پاکستان کی گود میسّر ہے۔‘‘یہ خود نوشت بنیادی طور پر ڈائری میں درج یادداشتوں پر مبنی ہے، جس کے سبب بعض تفصیلات میں تشنگی محسوس ہوتی ہے۔شاید اِس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنی دیگر کتب میں بھی قارئین کو کافی مواد فراہم کرچُکے ہیں۔ کتاب میں بہت سی تصاویر، دستاویز اور خطوط کے عکس بھی شامل ہیں، جو بذاتِ خود تاریخ و تحقیق کے طلبہ کے لیے نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔