مصنّفہ: طاہرہ اقبال
صفحات: 258، قیمت: 1200 روپے
ناشر: بُک کارنر جہلم۔
فون نمبر: 4440882 - 0314
پروفیسر ڈاکٹر طاہرہ اقبال شعبۂ تدریس سے وابستہ ہیں، جب کہ اُردو افسانوں اور ناولز کا بھی ایک معروف نام ہیں۔پانچ ناولز، چار افسانوں کے مجموعوں سمیت اُن کی کئی کتب منظرِ عام پر آچکی ہیں۔ناول’’ نیلی بار‘‘ نے تو ایسی مقبولیت حاصل کی کہ دادِ تحسین کا سلسلہ تھم ہی نہیں رہا۔
اُن کے کئی افسانے اور ناولز پاکستان ہی نہیں، غیر مُلکی تعلیمی اداروں کے نصاب کا بھی حصّہ ہیں۔نیز، اُن کے فن اور شخصیت پر مختلف جامعات میں25سے زاید تحقیقی مقالات لکھے جاچُکے ہیں، جب کہ کئی طلبا و طالبات اُن کی زیرِ نگرانی ایم فِل اور پی ایچ ڈی بھی کرچُکے ہیں۔
ڈاکٹر طاہرہ اقبال کے فنی مقام سے متعلق مشرف عالم ذوقی(دہلی) کا کہنا ہے کہ’’ طاہرہ کے سامنے پاکستان کا سیاسی و سماجی منظرنامہ بھی ہے اور وہ اِس قدر زرخیز خلاقیت رکھتی ہیں کہ پاکستان کے گاؤں سے گزرتی اُن کی کہانیاں، بصری پیکروں کے ساتھ اُن کے پراسس تھاٹ کو زندگی اور نئے فلسفے کے امتزاج سے ایک نئے تصویری منظرنامے میں تبدیل کردیتی ہیں۔ وہ اردو افسانے کو ایک نئی سمت دینے کی کوشش کر رہی ہیں اور یہ پُرخطر راہ ممتاز شیریں، عصمت اور قرّاۃ العین حیدر سے الگ ہی راہ ہے۔‘‘طاہرہ اقبال کا یہ مجموعہ پہلی بار 2014ء میں شائع ہوا تھا اور اب بُک کارنر جہلم نے اِسے نئی آب وتاب کے ساتھ دوسری بار شائع کیا ہے۔
اِس مجموعے میں18 افسانے شامل ہیں اور تقریباً تمام ہی افسانوں پر مختلف اخبارات و ادبی جرائد میں ممتاز ادیبوں، نقّادوں اور کالم نگاروں نے توصیفی مضامین لکھے ہیں۔گو کہ طاہرہ اقبال نے زیادہ تر پنجاب کی دیہی ثقافت کو موضوع بنایا ہے، لیکن اُن کے ہاں ایک خاص تنوّع بھی پایا جاتا ہے، جس کی روشنی میں ہم اپنے پورے معاشرے کو اُس کے اصل خدو خال کے ساتھ دیکھ سکتے ہیں۔ اِن افسانوں میں مشاہدے کی گہرائی و گیرائی نمایاں ہے، تو زبان و بیان پر گرفت بھی کمال ہے۔
منظرنگاری، کہانی کی بُنت اور کرداروں کی تخلیق میں جس باریک بینی سے کام لیا گیا ہے، وہ آج کے عام تو کیا، خاص افسانہ نگاروں میں بھی کم کم ہی نظر آتا ہے۔یوں تو اُن کے تمام ہی افسانے منفرد و بے مثال ہیں، تاہم بوڑھی گنگا، لاری اڈہ، گلابوں والا ڈیرہ اور زندہ انسانوں کا عجائب گھر تو ہر اُس شخص کو ضرور پڑھنا چاہیے، جس کے خیال میں ہمارے ہاں اچھا ادب نہیں لکھا جارہا۔ اس کے ساتھ، جو افسانہ نگاری کے میدان میں قدم رکھنے کے خواہش مند ہوں، اُن کے لیے بھی یہ افسانے استاد کا کردار نبھانے کے لیے کافی ہیں۔