مصنّف: رمضان بلوچ
صفحات: 326، قیمت: 1600 روپے
ناشر: انسٹی ٹیوٹ آف ہسٹاریکل اینڈ سوشل ریسرچ، 22-23، شہیدِ ملّت روڈ، کراچی۔
فون نمبر: 34140035 - 021
مصنّف، کراچی میونسپل کارپوریشن کے سابق افسر ہیں اور ریٹائرمنٹ کے بعد علمی، ادبی اور سماجی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔کراچی اور اُس میں بھی لیاری، اُن کی تحقیق و خدمات کا خاص موضوع و مرکز ہے۔ وہ اِس سے قبل چار کتب لکھ چُکے ہیں۔
اُن کا کہنا ہے کہ’’ ہم کراچی کے وہ خوش نصیب شہری ہیں، جنہوں نے دوسری جنگِ عظیم کے خاتمے کے پندرہ سال بعد اِس شہر کی عظمت اپنی آنکھوں سے دیکھی، اِس کی روشنیوں کی چکا چوند سے آشنا ہوئے اور پھر اُن بدنصیب افراد میں بھی ہمارا شمار ہوا، جنہوں نے اِس شہر کو پامال ہوتے دیکھا۔‘‘
زیرِ نظر کتاب دراصل اِسی سوچ وفکر یا کرب کا نتیجہ ہے اور اس میں جہاں ماضی کی شان دار تاریخ و روایات سے آشنائی کی کوشش کی گئی ہے، وہیں حال کے تجزئیے کے ساتھ مستقبل کے امکانات و خدشات بھی زیرِ بحث لائے گئے ہیں۔کتاب39 ابواب میں منقسم ہے۔ ابتدائی ابواب میں قیامِ پاکستان سے قبل کی تاریخ بیان کرتے ہوئے کلہوڑا، خان قلّات، تالپور اور برطانوی عہدِ حکومت کی تفصیلات دی گئی ہیں۔
اِس ضمن میں سیٹھ بھوجومل کا کردار بھی زیرِ بحث آیا ہے، جب کہ تقسیمِ ہند سے قبل کی سیاسی کش مکش کا جائزہ لیا گیا ہے، تو انگریز دَور میں ادبی و صحافتی صورتِ حال پر بھی ایک باب ہے۔12 ویں باب سے قیامِ پاکستان کے بعد کے کراچی کا تذکرہ ہے، جس میں مہاجرین کی آمد، لسانی و گروہی مسائل، ایّوب دورِ حکومت، انتظامی امور، محمّد شعیب اور گوہر ایّوب کے کردار کا احاطہ کیا گیا ہے۔بعدازاں، ذوالفقار علی بھٹّو سے پرویز مشرّف دَور تک کے کراچی کا احوال ہے، جس میں مصنّف نے شہر میں پُرتشدّد سرگرمیوں پر بھی اپنا نقطۂ نظر پیش کیا ہے۔
آخر میں لیاری کے حالات اور پھر امن کی بحالی پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے، جب کہ اُنھوں نے اپنے مطالعے و مشاہدے کی بنیاد پر شہر کے مستقبل کی نقشہ آرائی بھی کی ہے۔ معروف صحافی و ادیب محمود شام، ڈاکٹر سیّد جعفر احمد اور ڈاکٹر ریاض شیخ نے اپنے مضامین میں کتاب کے مندرجات کی تعریف کرتے ہوئے رمضان بلوچ کی اِس گراں قدر کاوش کو’’کراچیات‘‘ میں ایک اہم اضافہ قرار دیا ہے۔نیز، اِس علمی و تحقیقی کتاب کا اسلوب سادہ و عام فہم ہے، تو حوالہ جات کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔