• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مہنگی بجلی کے ہوش ربا بلوں نے پورے ملک میں کہرام برپا کر رکھا ہے۔ تمام سیاسی اور معاشی سرگرمیاں جمود کا شکار ہو گئی ہیں۔ بجلی کے ناقابل برداشت بل صنعتی سرگرمیاں محدود کرنے کا سبب بن گئے ہیں۔ چھوٹی صنعتیں بند ہو چکی ہیں جبکہ بڑی صنعتیں بندش کے دہانے پر ہیں۔ یہ بحران اتنا ہمہ گیر ہے کہ ملک کے چوٹی کے صنعتکاروں کو پریس کانفرنس کر کے اپنی تشویش کا اظہار کرنا پڑ رہا ہے۔ عام آدمی کا اور بھی برا حال ہے۔ محدود آمدنی رکھنے والے طبقے کی کمر توڑ کر رکھ دی گئی ہے، معاشرے میں بے چینی، بدامنی، دنگا فساد اور لڑائی جھگڑوں میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ ریاست پاکستان اس وقت دو قسم کی دہشت گردی سے نبرد آزما ہے ہماری مسلح افواج سرحدوں پر ہونیوالی دہشت گردی کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی جانیں قربان رہی ہیں جبکہ اندرون ملک پاکستان کی ریاست اور عوام مہنگائی اور آئی پی پیز کی دہشتگردی کا سامنا کر رہے ہیں۔ اس معاشی دہشت گردی نے پاکستان کی تمام معاشی سرگرمیوں پر جمود طاری کر دیا ہے لیکن شاید پاکستان کی سیاسی اشرافیہ کو ابھی تک اسکی سنگینی کا احساس نہیں ہو رہا۔ دوسری طرف حکومتی سطح پر عوامی جذبات کو ٹھنڈا کرنے اور زخموں پر مرہم رکھنے کیلئے کوئی سنجیدہ اقدامات دیکھنے کو نہیں مل رہے۔ حکومتی شاہانہ اخراجات، گاڑیوں کی خریداری، افسر شاہی کے مختلف طبقات کیلئے مفت بجلی کی خبریں عوام کے زخموں پر نمک چھڑک رہی ہیں۔ پاکستان میں سیاسی سرگرمیاں ویسے ہی پابندیوں کی زد میں ہیں۔ حکومت اور عوام کے درمیان حائل ہوتا ہوا فاصلہ نہ صرف ملکی سیاست کیلئے نقصان دہ ہے بلکہ ریاست پاکستان کیلئے بھی اچھا شگون نہیں ہے۔ ہماری اشرافیہ یہ بات کیوں بھول گئی ہے کہ پاکستان سیاسی عمل کے نتیجے میں وجود میں آیا تھا اگر یہاں پر سیاسی سرگرمیاں انجماد کا شکار ہو گئیں تو یہ ملک کیلئے انتہائی نقصان دہ ہوگا۔ پاکستان آئی پی پیز کے آنے سے پہلے انرجی بحران کا شکار نہ تھا۔1980ء کی دہائی تک ملک میں لوڈشیڈنگ کا نام و نشان نہ تھا۔ لیکن ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی اور صنعتی سرگرمیوں میں اضافے کی وجہ سے جب بجلی کی طلب میں اضافہ ہوا تو اس وقت کی حکومتوں نے اس چیلنج کا سامنا کرنے کیلئے مناسب تیاری نہ کی۔ 1994ء میں جب بجلی کے بحران نے شدت اختیار کی تو محترمہ بینظیر بھٹو نے پہلی دفعہ آئی پی پیز کا تجربہ کیا۔پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے ماہر معاشیات ڈاکٹر مبشر حسن کی شدید مخالفت کے باوجود یہ معاہدے کئے گئے۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے، ڈاکٹر مبشر حسن کہتے تھے کہ یہ اقدام آنیوالی نسلوں کے گلے میں طوق کے مترادف ہوگا اور پھر وقت نےثابت کر دیا کہ انکی پیشن گوئی درست تھی۔ حکومتِ پاکستان کا پلاننگ ڈویژن اس حوالے سے سب سے زیادہ ذمہ دار ہے جس نے یہ معاہدے کرتے ہوے سنگین غفلت کا مظاہرہ کیا۔ میاں نواز شریف نے 1997ء میں مزید پاور ہاؤسز لگانے کی منظوری دی۔مشرف دور میں 22آئی پی پی کے معاہدے کیے گئے،سید یوسف رضا گیلانی کے دور میں مزید معاہدے کیے گئے اور پھر 2013ءسے لیکر 2018 ءتک میاں نواز شریف کی حکومت نے آئی پی پیز کے معاہدوں کی تو گویا لائن ہی لگا دی۔میڈیا پر جاری ہونیوالے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت 3 پاور پلانٹس ایسے ہیں جو بالکل بجلی نہیں بنا رہے لیکن انہیں ادائیگیاں کی جا رہی ہیں۔ 37 پاور پلانٹ ایسے ہیں جو 25 فیصد سے کم بجلی بنا رہے ہیں اور 60 پلانٹس ایسے ہیں جو 25 فیصد تک بجلی پیدا کر رہے ہیں لیکن انہیں کیپیسٹی پیمنٹ کے نام پر پوری ادائیگیاں کی جا رہی ہیں۔ کول پاور پلانٹس کو سالانہ 700ارب روپے بطور کپیسٹی پیمنٹ ادائیگی کی جا رہی ہے۔ معروف صنعتکار گوہر اعجاز کے مطابق بجلی کی فی یونٹ قیمت 30 روپے بنتی ہے مگر حکومت 60 روپے میں دے رہی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ 52 فیصد پلانٹس حکومت کے ہیں جبکہ 48 فیصد پلانٹ 40 بڑے خاندانوں کے ہیں اور وہ بھی 50 فیصد کپیسٹی پر چل رہے ہیں لیکن عوام سے پوری قیمت وصول کی جا رہی ہے۔ آئی پی پیز کے حوالے سے مزید ہوش ربا اعداد و شمار دیکھنے کو ملے ہیں لیکن کالم کی تنگ دامانی اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ انہیں تفصیل سے بیان کیا جائے۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ یہ بجلی پیدا کرنیوالے ادارے پاکستانی عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں اور حکمران خاندان اس میں برابر کے شریک ہیں۔ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری دونوں نے اپنے اپنے ادوار میں یہ معاہدے کئے، اس وقت کی افسر شاہی نے حکمرانوں کے ساتھ مل کر ذاتی مفادات کو مقدم رکھا۔ آج پاکستان کا بچہ بچہ ان آئی پی پیز اور آئی پی پیز لانے والوں کو بد دعائیں دے رہا ہے۔ملک اس معاشی بحران سے بڑھ کر سیاسی بحران سے بھی گزر رہا ہے۔ حکومت عوامی حمایت سے یکسر محروم ہے اور عوام جسے اقتدار میں لانا چاہتے ہیں وہ پابند سلاسل ہے۔جماعت اسلامی نے بجلی کے بلوں کے ایشو پر ایک دھرنا دیکر ایک اچھی کوشش کی ہے لیکن ساتھ ہی یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ یہ سہولت صرف ایک سیاسی جماعت کیلئے ہی کیوں؟ تحریک انصاف اور باقی سیاسی جماعتوں کیلئے کیوں نہیں۔ اس طرح کے اقدامات سے نہ صرف حکومت کے ساتھ عوامی نفرت میں اضافہ ہو رہا ہے بلکہ یہ تاثر تقویت پکڑ رہا ہے کہ موجودہ حکومت عوام پر ایک مسلسل بوجھ ہے۔اس ہمہ جہت معاشی و سیاسی بحران سے نمٹنے کی واحد صورت یہ ہےکہ فیصلہ سازی وہ جماعت اور لیڈر کرے جسے عوامی حمایت حاصل ہو۔

تازہ ترین