آج یکم اگست ہے، آج سے ٹھیک 64سال قبل پاکستان کے حکمران صدر جنرل ایوب خان نے یکم اگست 1960ء کوپاکستان کا نیا دارالحکومت اسلام آباد باضابطہ طورپر مقرر کرنے کا اعلان کیا، پاکستان کا نیا دارالحکومت شہرِ قائد کراچی سے کوسوں دور مارگلہ کی پہاڑیوں کے دامن میں منتقل کرنے کے پس پردہ عوامل کیا تھے؟ اس حوالے سے بہت سی روایات بیان کی جاتی ہیں، تاہم میرے آج کے کالم کا موضوع سرزمین ِ اسلام آباد کے اس تابناک ماضی کا کھوج لگانا ہے جس سے آج کی نئی نسل مکمل ناآشنا ہے۔ عمومی طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ اسلام آبا د کے نام سے نیا شہر مارگلہ کی پہاڑیوں میں بسا یا گیا،تاہم اسلام آباد کا علاقہ ماضی میں صرف جنگلوں، پہاڑوں اور ویرانوں پر مشتمل نہیں تھا بلکہ یہاں جیتے جاگتے لوگوں کی مختلف آبادیاں تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ 1960ء میں جب صدر ایوب اور انکی کابینہ نے شکرپڑیاں کے مقام پر منعقدہ خصوصی اجلاس میں پاکستان کے نئے دارالحکومت کے قیام کی منظوری دی تو شکرپڑیاں گاؤں میں جشن منایا گیا، ہر طرف خوشیوں کے تازیانے بجائے جانے لگے کہ وہ ملک کے نئے دارالحکومت کے باسی بننے جارہے ہیں، لیکن شکرپڑیاں گاؤں کے لوگوں کی خوشیاں اس وقت غم میں بدل گئیں جب سرکار نے انہیں گاؤں خالی کرنے کے احکامات صادر کردیے،صدیوں سے قائم گاؤں کے مُکھیا راجہ اللہ داد خان نے بہت کوشش کی کہ گاؤں کے لگ بھگ پچاس ہزار لوگوں کو دیگر اضلاع میں منتقل نہ کیا جائے بلکہ انہیں نئے دارالحکومت میں ایڈجسٹ کیا جائے لیکن کوئی شنوائی نہ ہوئی،آج شکرپڑیاں کے کھنڈرات کی ایک نشانی راجا صاحب کی تاریخی حویلی لوک ورثہ کا حصہ ہے جبکہ انکی ایک اور خاندانی حویلی پر مشہور کیفے قائم ہے۔ شکرپڑیاں گاؤں کے علاوہ چوراسی اوربھی گاؤں تھے جو وفاقی دارالحکومت کی تعمیر کی بھینٹ چڑھے، ان دیہات کی 45 ہزار ایکٹر زمین کو ایکوائر کرکے اسلام آباد کا ماسٹر پلان تیار کیا گیا جبکہ مقامی رہائشیوں کوراولپنڈی، ملتان، ساہیوال، وہاڑی، جھنگ اور ملک کے دیگر علاقوں میں زمینیں الاٹ کردی گئیں۔ آج ہمیں سیٹلائٹ ٹاؤن راولپنڈی میں جو نیو کٹاریاں کا علاقہ نظرآتا ہے وہ دراصل کٹاریاں گاؤں کی یاد دلاتا ہے جو اسلام آباد بننے سے پہلے موجودہ شاہراہِ دستور اور دفترِ خارجہ کی عمارت پرجی فائیوسیکٹرمیں آباد تھا، اسی طرح ای سیون سیکٹر میں آج بھی ایسی کچھ قبریں موجود ہیں جنکے کتبے پرقیامِ اسلام آباد سے قبل کا ڈھوک جیون تحریر ہے۔ آج بھی کچھ مقامی بڑے بوڑھے ماضی کی یادیں تازہ کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ کسی زمانے میں ایف سکس میں بانیاں، جناح سپر مارکیٹ کی جگہ روپڑاں، ایچ ٹین میں بھیگا سیداں،ایچ ایٹ میں جابو، میریٹ ہوٹل کے مقام پر پہالاں، کنونشن سینٹر کی عمارت کے مقام پر بھانگڑی، آبپارہ جی سکس کے علاقے پر باغ کلاں، جی ٹین میں ٹھٹھہ گوجراں، زیروپوائنٹ پر پتن وغیرہ جیسے قدیمی گائو?ں آباد ہواکرتے تھے، ایف نائن پارک کے مقامی باسی نقل مکانی تو کرگئے لیکن وسیع و عریض پارک کے اندر انکا آبائی قبرستان برقرارہے۔ موجودہ راول جھیل کے مقام پر کبھی راول گاؤں ہوا کرتا تھا جہاںماضی میں مستطیل شکل کاقدیمی راول مندرمذہبی سرگرمیوں کا مرکز تھا، راول گاؤں میں دوعدد مقدس مندراور بھی تھے جن میں سے ایک گُروکال مندر تھا،راول ڈیم بننے کے بعد یہ مقدس مقامات بھی زیرآب آگئے،اسی طرح موجودہ راول چوک کے نزدیک ایک ہندوسنیاسی جوگی کی سمادھی پر یاتریوں کا رش ہوا کرتا تھا۔آج اسلام آباد کے باسی سملی ڈیم کے نام سے واقف ضرور ہیں لیکن وہ نہیں جانتے کہ یہاں کبھی سملی گاؤں آبادتھاجوگندھارا تہذیب کے مرکز ٹیکسلا راجدھانی سے راج کرنے والے راجہ دریودھن کی حسین و جمیل صاحبزادی شہزادی سملی دیوی سے منسوب تھا، راجہ دریودھن کا ذکر مہا بھارت میںبھی پایا جاتا ہے، شہزادی سملی کی نانی کُری دیوی کے نام پر اسلام آباد کا قدیم گاؤں کُری آباد ہوااور کُری روڈ وجود میں آئی۔ ایک زمانے میں ہندو یاتریوں کی بڑی تعداد موجودہ اسلام آباد کی سرزمین پرقائم راول مندر، گولڑہ مندر اور سیدپور ٹیمپل کمپلیکس کی یاترا کیلئے آیا کرتی تھی، تاہم بدقسمتی سے موجودہ سیکٹر ای الیون کی تعمیر کے دوران یہاں ایک قدیمی دھرم شالہ کو زمین بوس کردیا گیا جبکہ پیر آف گولڑہ شریف کی حویلی کے عین عقب میں واقع تاریخی گولڑہ مندر بھی شدید خستہ حالی کا شکار ہے، یہیں سے کچھ قدم دور موجودہ شاہ اللہ دِتہ قصبے میں وہ تاریخی پراسرار غارآج بھی موجود ہیں جہاں کبھی شِومہاراج نے کٹاس راج جاتے ہوئے پڑاؤ ڈالا تھا اور شری رام چندر نے اپنے چودہ سالہ بن واس کے کچھ دن گزارے تھے، بُدھا سے منسوب اسلام آباد میں واقع اِن غاروں میں دنیا کے عظیم فلسفی کوٹلیا چانکیہ نے اپنی شہرہ آفاق تصانیف ارتھ شاستر اور چانکیہ نیتی تحریر کی تھیں، یہیں نزدیک ایک ہندو سادھو نے ایک باغ بسایا تھا جوآج عہدِ رفتہ کی یاد بن کر رہ گیا ہے۔ہائیکنگ کے شوقین اسلام آباد کے رہائشیوں کیلئے ٹریل ون، ٹو، تھری وغیرہ کسی تعارف کے محتاج نہیں لیکن کبھی یہ درے ہواکرتے تھے جنکے باقاعدہ قدیمی تاریخی نام تھے مثلاََ فیصل مسجد کے پہلو سے نکلنے والے ٹریل سکس کا نام درہ کوانی ہے، یہ درہ ٹیمبا نامی گائوں کو تلہاڑ کی خوبصورت وادی سے منسلک کرتا ہے،فیصل مسجد ٹیمبا گائوںکی حدود میں تعمیر کی گئی تھی ،اس درے سے سفر کرکے ندی، چشمہ، کھجور کے درخت اورپھر ایک گھنا جنگل آجاتا ہے جسے کچھ لوگ بُدھا سے منسوب کرکے بدھو بن کا نام دیتے ہیں، مارگلہ پہاڑیوں کے انہی دروں کے پار گندھارا دور کا عظیم الشان شہر ٹیکسلا آباد تھا۔آج قیام اسلام آباد کے 64سال بیت جانے کے بعد بطور تاریخ کے طالب علم میرے لئے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ ہمارے اربابِ اختیار نے اسلام آباد کی صورت میںعالمی شہرت یافتہ جدید ترین ماڈرن دارالحکومت بسانے کا عظیم کارنامہ تو سرانجام دے دیا لیکن وہ سرزمین اسلام آباد کی قدیم تاریخ اور مذہبی وثقافتی ورثے کے تحفظ کو کبھی اپنی ترجیح نہ بناسکے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)