میں حقائق کی بنیاد پر اہم ملکی معاشی امور پر گزشتہ 22 سال سے تواتر کے ساتھ کالم تحریر کررہا ہوں تاکہ قارئین ،جو معیشت کی بدحالی، مہنگائی، بیروزگاری، بجلی، گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے پریشان ہیں ،کو معاشی حقائق سے آگاہ کرسکوں۔ گزشتہ دنوں وفاقی سیکریٹری وزارت معاشی امور ڈاکٹر کاظم نیاز نے مجھ سمیت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے معاشی امور کے دیگر ممبران کو پارلیمنٹ ہائوس میں ایک پریذنٹیشن دی جس سے اندازہ ہوا کہ پاکستان قرضوں کے دلدل میں کس حد تک پھنس چکا ہے اور اب ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے اور چین کے قرضوں کو 5 سال کیلئے موخر کروانے کیلئے نائب وزیراعظم اسحاق ڈار اور وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے اپنی اقتصادی ٹیم کے ساتھ چین کا دورہ کیا۔ پاکستان کو IMF پروگرام کی منظوری کیلئے اس سال 27 ارب ڈالر کے قرضوں کی ادائیگیاں ری شیڈول کروانی ہیں جس میں چین کے 4 ارب ڈالر، سعودی عرب کے 5 ارب ڈالر اور متحدہ عرب امارات کے 3 ارب ڈالر کے مجموعی 12ارب ڈالر کے قرضے شامل ہیں جنہیں 3سے 5 سال تک موخر کروانا ہے اور ان ممالک کو IMF بورڈ کی منظوری سے پہلے ری شیڈولنگ کی تصدیق کرنا ہوگی ۔ اس کے علاوہ چین کے 15.36 ارب ڈالر کے آئی پی پیز کے واجب الادا قرضوں کو بھی 5سال کیلئے موخر کروانا ہے جس سے سود کی مد میں ایک ارب ڈالر سے زائد اضافہ ہوجائے گا۔ ان قرضوں میں پاکستان میں چینی آئی پی پیز کے 480ارب روپے کے گردشی قرضے شامل نہیں۔ چین اس سال مارچ میں 2ارب ڈالر کے سیف ڈپازٹ کو ایک سال کیلئے رول اوور کرچکا ہے۔ اسکے علاوہ چین کا ایگزم بینک بھی 2023-24 کے 1.2ارب ڈالر اور 2024-25ءکے 1.2 ارب ڈالر کے 32قرضوں کی اصل رقم 2 سال کیلئے رول اوور کرچکا ہے لیکن پاکستان کو اِن قرضوں پر ایگزم بینک کو سود کی اضافی رقم ادا کرنا ہوگی۔
قارئین! پاکستان کے مجموعی 130ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں میں 30 فیصد سے زائد قرضے چین کے ہیں جن میں چینی حکومت کے 23 ارب ڈالر اور چینی کمرشل بینکوں کے 7ارب ڈالر شامل ہیں۔ چین سے لئے جانے والے قرضے تین قسم کے ہیں۔ ایک وہ جو CPEC کیلئے لئے گئے، دوسرا چینی کمرشل بینکوں سے اور تیسرا اسٹیٹ بینک پاکستان میں رکھے گئے چین کے سیف ڈپازٹس ہیں جسے بار بار چین سے رول اوور کرنے کی درخواست کرنا پڑتی ہے۔ IMF کی شرط ہے کہ اس کے قرضے سے CPEC کے قرضوں کی ادائیگی نہ کی جائے۔ چین نے پاکستان میں انرجی کے 21آئی پی پیز منصوبوں میں 5 ارب ڈالر کی ایکویٹی فنانسنگ کی ہوئی ہے جبکہ باقی چینی بینکوں کا ڈیٹ ہے جس کی 10 سے 15 سالہ مدت ادائیگی ختم ہوچکی ہے یا ہونے والی ہے۔ چینی بینکوں کا پاکستان پر دبائو ہے کہ ان کے آئی پی پیز کے قرضے واپس کئے جائیں لیکن زرمبادلہ کے محدود ذخائر کے مدنظر وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے اِن بینکوں سے قرضوں کو 5 سال کیلئے موخر کرنے کی درخواست کی ہے۔ وزارت معاشی امور کے مطابق مئی 2024 ءتک پاکستان کے 130ارب ڈالر کے مجموعی قرضوں میں ایکسٹرنل پبلک ڈیٹ 86.286 ارب ڈالر ہیں جس میںورلڈ بینک، ایشین ڈویلپمنٹ بینک، اسلامک ڈویلپمنٹ بینک اور UADP کے 38.4ارب ڈالر ملٹی لیٹرل، چین، سعودی عرب اور یو اے ای کے 16.4 ارب ڈالر بائی لیٹرل، 8.6 ارب ڈالر IMF، 6.8 ارب ڈالر حکومتی بانڈز، 5.6ارب ڈالر کمرشل لون، 4ارب ڈالر چین کے سیف ڈپازٹ اور 5ارب ڈالر کے ٹائم ڈپازٹ شامل ہیں جبکہ 44ارب ڈالر کی حکومت کی گارنٹیز ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ اِن بیرونی قرضوں میں پروجیکٹ لون نہیں ہیں بلکہ یہ بجٹ خسارے اور بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کیلئے حاصل کئے گئے ہیں۔
بیرونی قرضے لینے میں کوئی حرج نہیں، اگر یہ قرضے طویل المیعاد اہم ترقیاتی منصوبوں کیلئے رعایتی شرح سود پر لئے جائیں جن کی ادائیگی انہی منصوبوں سے حاصل ہونے والی آمدنی سے کی جائے جن میں میر بھاشا اور داسو ڈیمز جیسے منصوبے قابل ذکر ہیں۔ میر بھاشا ڈیم کیلئے عرب کوآرڈی نیشن گروپ اور قطر فنڈز فار ڈویلپمنٹ سے قرضے کی کوششیں کی جارہی ہیں جبکہ داسو ہائیڈرو پروجیکٹ کیلئے ورلڈ بینک سے ایک ارب ڈالر ملنے کا امکان ہے۔ سعودی عرب نے ہمیں ایک ارب ڈالر کے ادھار پر تیل دینے کی سہولت دی تھی جو ختم ہوچکی ہے اور سعودی عرب اس سہولت کی تجدید نہیں کررہا۔ جنوری 2023ءمیں جنیوا کی ڈونرز کانفرنس میں سیلاب زدگان کی بحالی کیلئے پاکستان کو 10.7 ارب ڈالر دینے کا وعدہ کیا تھا مگر اس میں سے پاکستان کو صرف 3 ارب ڈالر ملے ہیں جو گرانٹس کے بجائے قرض کی صورت میں ہے۔ میں نے قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سیکریٹری معاشی امور سے سوال کیا کہ پاکستان میں مالیاتی ذمہ داری اور قرض حد بندی ایکٹ 2005 کے مطابق ہم زیادہ سے زیادہ جی ڈی پی کا 60 فیصد قرضہ لے سکتے ہیں لیکن جون 2024 تک ہمارے قرضوں کا حجم 67.5 کھرب روپے تک پہنچ چکا ہے جو جی ڈی پی کا 74.3 فیصد ہے۔ حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ 2033 تک اسے کم کرکے جی ڈی پی کا 50 فیصد تک لے آئے گی لیکن اس کے برعکس قرضوں میں اضافہ ہورہا ہے جن کی ادائیگیاں ہماری آمدنی سے تجاوز کرگئی ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان قرضوں کے چنگل میں پھنس گیا ہے جس سے نکلنے کیلئے حکومت کو جامع حکمت عملی بنانا ہوگی۔