قائدِ اعظم، محمّد علی جناح برّ ِ عظیم کے مسلمانوں کے نمائندہ سیاست دان، اعلیٰ تعلیم یافتہ فرد، ماہرِ قانون اور ایک بے حد فعال و سرگرم انسان تھے، جنھوں نے نہ صرف برّ ِ عظیم کے مسلمانوں کی رہنمائی کی، بلکہ سندھ کی سیاسی اور نظریاتی بے داری میں بھی بھرپور کردار ادا کیا۔ قائدِ اعظم، قیامِ پاکستان کی جنگ نہ صرف نرالی شان سے لڑے بلکہ اس میں فتح یاب بھی ہوئے۔ اِس جنگ میں اُن کا مقابلہ دو بڑی طاقتوں سے تھا۔
ایک انگریز اور دوسری کانگریس، نہ صرف یہ بلکہ کروڑہا مسلمانوں کو مسلم لیگ کے پرچم تلے جمع کرنا بھی اُن کے لیے کسی چیلنج سے کم نہ تھا، لیکن اِس عظیم رہنما نے سیاسی تدبّر اور دُور اندیشی کے وہ جوہر دِکھائے، جن پر برّ ِ عظیم کے مسلمان اور سیاسی تاریخ ہمیشہ فخر کرتے رہیں گے۔ بیس ویں صدی کی سیاسی تحاریک کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ سندھ سیاسی شعور، جدوجہد اور قربانیوں میں کسی بھی علاقے سے پیچھے نہ تھا۔ مسلم لیگ کے پرچم تلے تحریکِ پاکستان میں عملی جدوجہد اور یہاں کے عوام کی قربانیاں آزادی کی تحریک کا ایک درخشاں باب ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ دوسرے کئی ایک رہنماؤں کی طرح قائدِ اعظم نے بھی ہمیشہ سندھ کو ایک خاص اہمیت دی۔ سیاسی جدوجہد میں سندھ کے مسلمانوں سے بھرپور تعاون بھی کیا اور ان کی رہنمائی بھی۔ سندھ سے قائدِ اعظمؒ کا تعلق کئی نوعیت کا ہے۔ ایک تعلق تو پیدائشی ہے کہ وہ یہاں پیدا ہوئے، پھر اُن کا بچپن یہاں گزرا اور ابتدائی تعلیم بھی یہیں حاصل کی۔قائدِ اعظم نے اپنے اِس تعلق کو یاد کرتے ہوئے 1913ء میں کراچی میں منعقدہ کانگریس کے اجلاس میں کچھ یوں فرمایا تھا۔
’’آپ اندازہ نہیں کرسکتے کہ آج اِس شہر میں کانگریس کے پلیٹ فارم سے تقریر کرتے ہوئے کتنی خوشی محسوس کر رہا ہوں۔ یہ وہ شہر ہے، جہاں مَیں پیدا ہوا۔ یہاں آنے کے بعد جب مَیں اپنے دوستوں سے ملا، تو میرا دل باغ و بہار ہوگیا۔ شاید آپ لوگ میری اِس کیفیت کو محسوس نہ کرسکیں۔‘‘سندھ سے گہرے تعلق سے متعلق 1927ء میں قائدِ اعظمؒ کی طرف سے کی گئی ایک کوشش کا علم ہوتا ہے۔
آپ سیاسی دانش مندی سے کام لیتے ہوئے یہ کوشش کرتے رہے کہ کسی نہ کسی طرح ہندو، مسلم مسئلے کا حل تلاش کیا جائے اور دونوں قوموں کے درمیان اتحاد و اتفاق کی کوئی راہ نکالی جائے۔ان ہی کاوشوں کی بنا پر قائدِ اعظم کو’’ہندو، مسلم اتحاد کا سفیر‘‘ کا لقب دیا گیا تھا، لیکن کانگریس کی تنگ نظری، ہندو رہنماؤں کی انتہا پسندی اور فرقہ وارانہ مسائل کے باعث قائدِ اعظمؒ کی یہ کوششیں بار آور ثابت نہ ہوسکیں۔ لہٰذا 20مارچ1927 ء کو قائدِ اعظم نے آئینی اصلاحات پر سوچ بچار کے سلسلے میں نئی دہلی میں تیس کے قریب مسلمان رہنماؤں کی ایک کانفرنس بُلائی۔
اِس کانفرنس میں سیاسی جماعتوں سے معاہدے کی کچھ شرائط پیش کی گئیں، جن میں سب سے پہلی شرط یہ تھی کہ سندھ کو بمبئی سےعلیٰحدہ کرکے ایک الگ صوبے کی حیثیت دی جائے۔واضح رہے، سندھ کی بمبئی سے علیٰحدگی کا تعلق برّ ِ عظیم کے آئینی مستقبل سے تھا۔اِس لیے 1930ء میں اِس مسئلے پر غور و غوض کے لیے وائسرائے ہند اور دستور ساز اسمبلی نے لندن میں پہلی گول میز کانفرنس بُلائی، جس میں بشمول قائدِ اعظم 16مسلمان رہنماؤں نے شرکت کی۔
عام بحث مباحثے کے بعد کانفرنس کی طرف سے ہندوستان کے مسائل کے حل کے ضمن میں نو کمیٹیز تشکیل دی گئیں، جن میں سے ایک کمیٹی کا تعلق سندھ سے تھا۔ لہٰذا 12جنوری 1931ء کو سندھ کمیٹی کا ایک اجلاس صرف یہ طے کرنے کے لیے بُلایا گیا کہ سندھ کو بمبئی سے علیٰحدہ کیا جائے یا نہیں؟ اِس اجلاس میں قائدِ اعظم سے پہلے سر غلام حسین ہدایت اللہ اپنی تقریر کرچُکے تھے۔ بعد ازاں، قائداعظم نے تقریر کرتے ہوئے کہا۔’’عملی طور پر دیکھا جائے تو سندھ انتظامی لحاظ سے بمبئی سے علیٰحدہ ہے۔ عدالتی معاملات میں بھی سندھ کی ایک الگ چیف کورٹ ہے۔
لہٰذا سندھ کو بمبئی سے علیٰحدہ کرکے ایک الگ صوبہ بنایا جائے۔‘‘اِس طرح برطانیہ کے اُس وقت کے وزیرِ اعظم، ریمزے میکڈونلڈ نے 1932ء میں کمیونل ایوارڈ کااعلان کیا اور یہ بات تسلیم کی کہ سندھ کو بمبئی سے جُدا کرکے صوبے کا درجہ دیا جائے۔یوں قائدِ اعظم، آل انڈیا مسلم لیگ اور سندھ کے سیاسی رہنماؤں کی کاوشیں رنگ لائیں اور گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کی رُو سے 1935ء میں سندھ کو بمبئی سے الگ کرکے صوبے کی حیثیت دے دی گئی۔
سندھ کو صوبے کا درجہ ملنے کی خوشی میں روزنامہ ’’الوحید‘‘ کراچی نے 15 جون 1936ء کو اپنے اخبار کا’’سندھ آزاد نمبر‘‘ شائع کیا۔ اِس خاص شمارے میں قائدِ اعظم کا ایک پیغام بعنوان’’مسلمانانِ سندھ سے اپیل‘‘شائع ہوا، جس میں اُنھوں نے فرمایا۔’’ مجھے بے حد خوشی ہوئی ہے کہ بمبئی سے سندھ کی علیٰحدگی کا مسئلہ حل ہوگیا ہے۔ ہم نے بمبئی سے سندھ کی علیٰحدگی کا مطالبہ فرقہ وارانہ خیال سے نہیں کیا تھا، بلکہ اس میں سندھ والوں کا فائدہ تھا۔
مَیں خدائے پاک سے سندھ کے نئے دَور کی ترقّی و خوش حالی کے لیے دُعا گو ہوں۔‘‘اِس تحریک میں جن نام وَر سندھی رہنماؤں نے بھرپور کردار ادا کیا، اُن میں سر غلام حسین ہدایت اللہ، حاجی عبداللہ ہارون، سیّد میران محمد شاہ ، خان بہادر محمّد ایوب کھوڑو، شیخ عبدالمجید سندھی اور سر شاہ نواز بھٹّو شامل ہیں۔ ان کے علاوہ سر آغا خان، سر فضل حسین، سر محمّد شفیع اور ڈاکٹر شفاعت احمد خان نے بھی بمبئی سے سندھ کی علیٰحدگی کی تحریک میں سندھ کے رہنماؤں کی بھرپور حمایت و تائید کی تھی۔
سندھ کی صوبائی اسمبلی کے لیے عام انتخابات1937ء کے اوائل میں منعقد کیے گئے اور اِس طرح ایک آزاد صوبے کی اسمبلی وجود میں آگئی۔ سر غلام حسین ہدایت اللہ کو کابینہ تشکیل دینے کی دعوت دی گئی۔ کابینہ تو بن گئی، لیکن آزاد ہندو گروپ کی مخالفت کے باعث یہ وزارت زیادہ عرصہ چل نہ سکی، لہٰذا سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے پارلیمانی لیڈر، اللہ بخش سومرو کو وزارت بنانے کے لیے کہا گیا۔ بعد میں اُنہوں نے سندھ یونائیٹڈ پارٹی کو ختم کرکے کانگریس اور آزاد ہندو گروپ کی حمایت کی پالیسی اختیار کی، جس کے باعث سندھ کے مسلمانوں کا سخت نقصان ہوا۔
ان ہی حالات سے مایوس ہو کر سر عبداللہ ہارون نے سندھ میں آل انڈیا مسلم لیگ کے قیام کی ذمّے داری اپنے سر لی اور صوبائی مسلم لیگ کانفرنس بُلوائی۔اِس سلسلے میں عبداللہ ہارون نے سب سے پہلے قائدِ اعظم سے رابطہ کیا اور کانفرنس کی صدارت کی درخواست کی۔ بعد ازاں، اُنہوں نے اعلان کیا کہ قائدِ اعظم محمّد علی جناح، مولانا شوکت علی، سر سکندر حیات خان، مولوی فضل الحق، راجا صاحب محمود آباد اور چوہدری خلیق الزماں اِس کانفرنس میں شرکت کریں گے۔بالآخر 8اکتوبر 1938ء کو پہلی سندھ صوبائی مسلم لیگ کانفرنس کا انعقاد کراچی میں ہوا۔
اِس کانفرنس کے موقعے پر سندھ کے رہنماؤں نے قائدِ اعظم کے سامنے پہلی مرتبہ یہ تجویز پیش کی کہ ہم برّ ِ عظیم کے مسلمانوں کے لیے ایک الگ وطن قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اِس پر قائدِ اعظم نے فرمایا کہ’’ یہ بہت اچھاخیال ہے، لیکن پہلے آپ اس کے سارے پہلوؤں پر غور کریں۔ اِس کے قابلِ عمل ہونے کا جائزہ لیں اور پھر ایک رپورٹ تیار کریں۔ اِس کے بعد ہم اِس سلسلے میں کوئی فیصلہ کریں گے۔‘‘ اِس مقصد کے لیے دو ارکان پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کی گئی۔ یہ دو ارکان حاجی عبداللہ ہارون اور پیر علی محمّد راشدی تھے۔ پیر علی محمّد راشدی نے اِس ضمن میں بہت کام کیا اور ایک رپورٹ بھی تیار کرکے پیش کی۔
بہرحال،1938ء کے بعد سندھ میں مسلم لیگ کا قیام عمل میں لایا گیا اور قائدِ اعظم کو دوبارہ دورۂ سندھ کی دعوت دی گئی۔ اُن دنوں سندھ میں اللہ بخش سومرو کی حکومت تھی، لہٰذا اُس نے سخت احکامات جاری کیے کہ سندھ میں کہیں بھی قائدِ اعظم کا جلسہ نہ ہونے دیا جائے۔ نتیجتاً پورے سندھ میں صرف دو عوامی جلسے ہوسکے۔ ایک کراچی میں اور دوسرا تجرباغ، لاڑکانہ میں۔ لاڑکانہ میں منعقدہ جلسے کے سارے انتظامات خان بہادر ایّوب کھوڑو نے کیے تھے۔
نام ور اسکالر، ڈاکٹر حمیدہ کھوڑو اپنی کتاب’’ سندھ: ماضی، حال اور مستقبل‘‘ میں لکھتی ہیں کہ’’ پورے سندھ میں تحریکِ پاکستان کو مضبوط اور مسلم لیگ کو مستحکم کرنے میں مسجد منزل گاہ، سکھر کی تحریک کا بے حد اہم کردار ہے۔ یہاں کانگریس کی وزارت ٹوٹ گئی۔ اس کے بعد مسلم لیگ کی جڑیں سندھ میں پختہ ہوگئیں اور پھر قیامِ پاکستان تک سندھ میں مسلم لیگ ہی کی وزارت رہی۔‘‘
16دسمبر 1940ء کو قائدِ اعظم بمبئی سے کراچی تشریف لائے۔ یہاں اپنے قیام کے دَوران صوبائی مسلم لیگ کاؤنسل اور ورکنگ کمیٹی کے اجلاس بُلائے، جن میں فیصلہ کیا گیا کہ سندھ کے مسلمانوں کو مسلم لیگ کے جھنڈے تلے متحد کرنے اور اُن میں سیاسی شعور و بے داری کے لیے جی ایم سیّد، محمّد ہاشم گذدر، یوسف عبداللہ ہارون، سیّد حسن بخش شاہ، قاضی فضل اللہ، آغا غلام نبی پٹھان، عبدالستار جان سرہندی اور میاں فقیر محمّد منگریو پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جائے۔
اِس طرح اِن تمام رہنماؤں نے سندھ میں مسلم لیگ کی مقبولیت کے لیے بھرپور کام کیا اور صوبے کے سیاسی حالات سے قائدِ اعظم کو باخبر رکھا۔13 مئی 1941ء کو قائدِ اعظم نے سر عبداللہ ہارون کو ایک خط لکھا، جس میں اُن کے شبانہ روز کام، انتظامی صلاحیتوں اور تمام ارکان کی خدمات کو بھرپور انداز میں خراجِ تحسین پیش کیا گیا تھا۔ سر عبداللہ ہارون، مسلم لیگ میں اہم حیثیت کے مالک تھے اور اُن کا شمار قائدِ اعظم کے بااعتماد و قریبی ساتھیوں میں ہوتا تھا۔
اُنھوں نے مسلم لیگ کی سندھ میں تنظیم و ترتیب اور آزادیٔ پاکستان کے ضمن میں گراں قدر خدمات سر انجام دیں۔ 23 مارچ 1940ء کو جب لاہور میں’’ قراردادِ پاکستان‘‘ پیش کی گئی، تو اُنھوں نے اُس کی بھرپور حمایت کی۔ شریف الدّین پیرزادہ اپنی کتاب’’پاکستان منزل بہ منزل‘‘میں اُن سے متعلق لکھتے ہیں کہ’’سر عبداللہ ہارون ایک بے تاج بادشاہ اور تاجر ہی نہ تھے، بلکہ ایک سیاسی قطب بھی تھے۔ اُنہوں نے خلافت تحریک میں بھرپور حصّہ لیا اور بمبئی پریزیڈنسی سے سندھ کی علیٰحدگی کے معاملے میں جلیل القدر کارنامے سرانجام دیئے۔‘‘
سندھ میں مسلم لیگ اپنے پاؤں مضبوط کرتی رہی اور مارچ 1943ء میں سر غلام حسین ہدایت اللہ بھی اپنے ساتھیوں سمیت مسلم لیگ میں شامل ہوگئے۔ اِس طرح سندھ، برّ ِ عظیم کا پہلا صوبہ تھا، جہاں مکمل طور پر مسلم لیگ کی وزارت قائم ہوئی اور پھر سر غلام حسین ہدایت اللہ کی رہنمائی میں اِس وزارت نے3مارچ 1943ء کو’’ قرار دادِ لاہور‘‘ کی طرز پر ایک قرارداد پاس کی۔ یہ قرارداد جی ایم سیّد نے پیش کی، جسے اُسی دن پاس کرلیا گیا۔
سر غلام حسین ہدایت اللہ اور قائدِ اعظم کے باہمی تعلقات بے حد خوش گوار تھے۔ بمبئی اسمبلی میں بھی دونوں رہنما کئی معاملات میں ہم خیال تھے۔ قائدِ اعظم جب بھی سندھ آتے، تو کئی مسائل پر سر غلام حسین ہدایت اللہ سے مشاورت کرتے۔دوسری مرتبہ 3جنوری1947 ء کو سندھ میں سر غلام حسین ہدایت اللہ کی سربراہی میں مسلم لیگ کی وزارت قائم ہوئی۔
اِس وزارت کے قیام کے پانچ ماہ بعد ایک قرارداد کے ذریعے اعلان کیا گیا کہ ’’صوبہ سندھ، نئی مملکت پاکستان میں شامل ہوگا۔‘‘اِس طرح صوبہ سندھ نے 3جون 1947ء کو سب سے پہلے پاکستان میں شامل ہونے کا حتمی فیصلہ کردیا۔ تحریک پاکستان میں جن سندھی رہنماؤں نے بھرپور کردار ادا کیا، اُن میں شیخ عبدالمجید سندھی کا نام بے حد اہم ہے۔
اُنہوں نے 1924ء میں’’الوحید‘‘ کے نام سے ایک سندھی اخبار جاری کیا اور پھر اُس اخبار کے توسّط سے سندھ کے مسلمانوں میں سیاسی شعور بیدار کرنے کے ساتھ قائدِ اعظم کا پیغام بھی گھر گھر پہنچایا۔ سندھ اسمبلی کی نشست پر کام یابی حاصل کرنے کے بعد اُنہوں نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی تھی۔اِس کے علاوہ، جب 10اکتوبر 1938ءکو سندھ مسلم لیگ کا ایک اہم اجلاس کراچی میں منعقد ہوا تو اُس میں عوام کی شرکت یقینی بنانے کے لیے بھی شیخ عبدالمجید سندھی نے قابلِ تعریف خدمات سر انجام دیں۔
وائسرائے ہند کی طرف سے3 جون 1947ء کے اعلان کے تحت پاکستان کا قیام عمل میں آگیا تھا اور اُس کے لیے تاریخ بھی مقرّر ہوچُکی تھی۔ اِس سلسلے میں قائدِ اعظم7 اگست 1947ء کو دہلی سے کراچی تشریف لائے، جہاں سندھ کے باسیوں نے اُن کا والہانہ استقبال کیا۔ 11اگست 1947ء کو کراچی میں پاکستان کی آئین ساز اسمبلی کا اجلاس ہوا، جس میں ایوان کی طرف سے مستقل صدارت کے لیے قائدِ اعظم کا اسمِ گرامی منظور کیا گیا۔ اِس موقعے پر محمّد ایّوب کھوڑو نے قائدِ اعظم کو کچھ یوں خراجِ تحسین پیش کیا۔
’’قائدِ اعظم! آپ جیسا عظیم رہنما پوری اسلامی دنیا میں کہیں بھی نہیں۔ یہ آپ کی محنت اور پُرخلوص کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ مسلمانوں کا ایک خواب حقیقت بن چُکا ہے۔‘‘اور یہ خواب تھا، پاکستان، جو 14اگست 1947ء کو حقیقت کا رُوپ اختیار کرگیا۔ یہ سب کچھ قائدِ اعظم کی رہنمائی میں ہوا کہ وہی میرِ کارواں تھے، جس پر سندھ کے لوگوں کو تاقیامت فخر رہے گا۔