• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کابل میں پاکستان ایران، تاجکستان اور افغانستان کے صدور پر مشتمل چار فریقی کانفرنس نے اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ افغانستان کا استحکام عالمی امن کیلئے انتہائی ضروری ہے اور یہ عالمی برادری اور پڑوسی ممالک کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس خطے کی ترقی اور امن کیلئے مل جل کر کام کریں۔ کانفرنس کے اختتام پر جاری ہونیوالے مشترکہ اعلامیہ میں امیدظاہر کی گئی کہ افغانستان میں ہونیوالے آئندہ انتخابات سے اس ملک میں مثبت سیاسی تبدیلی آئیگی۔ کانفرنس میں خطے کو دہشت گردی اور شدت پسندی سے درپیش سنگین مسائل پر تشویش کا اظہار کیا گیا اور ان سے نمٹنے کیلئے منظم اور مشترکہ کوششوں اور افغان مہاجرین کی باعزت اور مستقل بحالی کیلئے ماحول کو سازگار بنانے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ پاکستان کے صدر ممنون حسین نے کانفرنس میں اس عزم کا اعادہ کیا کہ پاکستان ایک پرامن اور مستحکم افغانستان کا حامی ہے اور سمجھتا ہے کہ اس مسئلے کا پرامن حل مذاکرات کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ انہوں نے اپنے ایرانی ہم منصب حسن روحانی سے اپنی الگ ملاقات میں باور کرایا کہ پاکستان دنیا بھر کے مسلمانوں کو متحد دیکھنے کا خواہاں ہے اور اس مقصد کیلئے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں سرگرم عمل ہے۔ انہوں نے ایرانی اور افغان صدر سے کہا کہ پاکستان اپنے برادر پڑوسی ممالک کیلئے کوئی مشکل پیدا نہیں کرنا چاہتا اور اسے توقع ہے کہ یہ ممالک بھی پاکستان کیلئے ایسے ہی جذبات رکھتے ہیں۔ کابل کانفرنس میں جنگ زدہ افغانستان کے امن و استحکام کیلئے پڑوسی ممالک نے جس پختہ عزم اور نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے۔ وہ عالم اسلام میں اتحاد و یکجہتی کیلئے پاکستان کی خارجہ پالیسی کا لازمی جزو ہے۔ مراکش سے انڈونیشیا اور مصر سے وسطی ایشیا کے آخری کونے تک دنیا کے تمام اسلامی ممالک میں وحدت فکر و عمل شروع ہی سے پاکستان اور اس کے عوام کا خواب رہی ہے۔ قائداعظم سے نوازشریف تک ذوالفقار علی بھٹو ہوں، ضیاء الحق ہوں یا کوئی اور، پاکستان کے سیاستدانوں، عوام کے مختلف طبقات اور فوج میں سو اختلافات کے باوجود مسلم دنیا کے حوالے سے ہر پاکستانی یہی خواب دیکھتا رہا ہے۔ روسی مداخلت کے بعد افغانستان کے بارے میں ہماری حکومتوں نے جو بھی لائحہ عمل اختیار کیا اسکے پس منظر میں ایک اسلامی ملک کو مشکلات سے نجات دلانے کی نیت کارفرما تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمیں اس پالیسی کے خراب نتائج بھی بھگتنا پڑے۔ افغانستان میں کئی سال سے آگ اور خون کا کھیل جاری ہے۔ اسکے نتیجے میں کلاشنکوف، تشدد، قتل و غارت اور لوٹ مار کے کلچر نے جنم لیا جس کے سائے پاکستان پر بھی لہرانے لگے اور ہمیں بے پناہ جانی اور مالی نقصانات اٹھانا پڑے لیکن ہمارا مطمح نظر ہمیشہ پرامن اور مستحکم افغانستان کا احیاء ہی رہا۔ اس دوران افغانستان کے بعض سیاسی گروپوں کو پاکستان سے شکایات بھی پیدا ہوئیں لیکن پاکستان نے امت مسلمہ کے معاملات میں غیرجانبداری کی جو پالیسی ابتداء میں اپنائی تھی افغانستان کے معاملے میں بھی اس پر کاربند رہا۔ اب جبکہ امریکہ اور اسکے اتحادی افغانستان سے واپسی کیلئے رخت سفر باندھ رہے ہیں تو پاکستان کو افغانستان کے پرامن اور مستحکم مستقبل کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کا پوری طرح احساس ہے۔ وہ عالم اسلام کے وسیع تر اتحاد کی پالیسی کے دائرے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتا ہے اور کابل میں ہونیوالی چار مسلمان ملکوں کے صدور کی کانفرنس میں بھی اس اصول کو اجاگر کیا گیا ہے۔ یہ تمام ممالک چاہتے ہیں کہ افغانستان میں پرامن انتقال اقتدار ہو اور غیرملکی فوجیں وہاں سے نکل جائیں تاکہ اس خطے کو 1980ء کی دہائی سے اب تک جن مصائب و مشکلات کا سامنا ہے ان سے بخوبی نکالا جا سکے۔ پاکستان کو اپنا امن عزیز ہے اور دوسروں کو بھی پرامن دیکھنا چاہتا ہے۔ صدر ممنون حسین نے ایرانی و افغان صدر سے ملاقاتوں میں درست کہا کہ ہمیں اس حوالے سے ایک دوسرے کیلئے کوئی مشکل پیدا نہیں کرنی چاہئے اور اگر کوئی تیسرا فریق اس معاملے میں اپنا کام دکھانا چاہے تو ہمیں اس سے چوکنا اور خبردار رہنا چاہئے کیونکہ وہ ہم میں سے کسی کا بھی خیرخواہ نہیں ہے۔ توقع کی جانی چاہئے کہ کابل کانفرنس سے جہاں افغانستان میں قیام امن اور خطے کے استحکام میں مدد ملے گی وہاں اتحاد عالم اسلامی کی کوششوں کو بھی فائدہ پہنچے گا۔

تیل کی غیرقانونی درآمد
پاکستان میں ایران سے پٹرولیم مصنوعات کی غیرقانونی درآمد کا سلسلہ طویل مدت سے جاری ہے ۔ اسکے نتیجے میں قومی خزانے کو مسلسل نقصان پہنچ رہا ہے ۔پچھلے ادوار حکومت میں سرکاری مشینری کی جانب سے اس ناجائز کاروبار سے مکمل چشم پوشی کی روش اختیار کئے رکھی گئی اور موجودہ دور حکومت میں بھی کم از کم اب تک اسکے خلاف کوئی مؤثر کارروائی عمل میں نہیں لائی جاسکی ہے۔ ایک تازہ ترین رپورٹ کے مطابق ایرانی پٹرولیم مصنوعات کی اسمگلنگ سے پاکستان کو کسٹم ڈیوٹی، سیلز ٹیکس اورپٹرولیم لیوی کی مدات میں سالانہ 90 سے100 ارب ڈالرتک کا نقصان اٹھانا پڑرہا ہے جبکہ اس کاروبار کو قانون کے دائرے میں لاکر حکومت یہ تمام ٹیکس وصول کرسکتی اور اسے قومی خزانے کے آمدنی کا ذریعہ بناسکتی ہے۔ڈیلرز اور پٹرولیم کمپنیوں کا موقف ہے کہ اگرچہ کسٹم اور کوسٹ گارڈز وغیرہ کی طرف سے اس سلسلے کو روکے جانے میں ناکامی کا ایک بڑا سبب کرپشن ہے مگر اسکے ساتھ ساتھ سیاسی سرپرستی کی وجہ سے یہ سلسلہ ایک منظم کاروبار کی شکل اختیار کرگیا ہے۔ پاکستان پٹرولیم ڈیلرز ایسوسی ایشن کے مطابق ایران سے پاکستان کے ساحلی اور زمینی علاقوں کو دس لاکھ لیٹر سے زیادہ ڈیزل یومیہ اسمگل کیا جاتا ہے اور یہ سلسلہ کم و بیش پچیس برس سے جاری ہے۔فیڈرل بورڈ آف ریونیو اور دوسرے اداروں کی جانب سے اس لاقانونیت کی روک تھام کیلئے کچھ نہیں کیا جاسکا ہے۔بلوچستان سے یہ ڈیزل پورے ملک میں فروخت کیلئے بھیجا جاتا ہے ۔ متعلقہ حکومتی اداروں کے اہلکار رشوت کی شکل میں اپنا حصہ وصول کرکے اسے جاری رکھنے میں پورا تعاون کرتے ہیں۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس ناجائز کاروبار کو بااثر سیاستدانوں اور طاقتور اداروں کی سرپرستی حاصل ہے جسکی بناء پر یہ کسی روک ٹوک کے بغیر جاری ہے۔ حکومت بلوچستان کے تعاون سے وفاقی حکومت کو اس صورت حال پر قابو پانے کیلئے جلد از جلد حکمت عملی تشکیل دینی چاہئے اور بتدریج اس کاروبار کو قانونی تقاضوں کے مطابق ڈھال کر اسے قومی خزانے کیلئے خسارے کے بجائے منافع کا ذریعہ بنانا چاہئے۔

پولیو ورکرز پھر حملوں کی زد میں
جمعرات کے روز بلوچستان کے ضلع لورالائی میں مسلح شدت پسندوں نے پولیو ورکرز کی ایک ٹیم پر پھرحملہ کردیا جس کے نتیجے میں ایک پولیس مین جاں بحق ہو گیا۔ایک ایسے وقت میں جب عالمی ادارہ ٔ صحت کی طرف سے بھارت اور 10دوسرے ایشیائی ممالک کو پولیو فری قرار دے دیا گیا ہے اورپاکستان، افغانستان اور نائیجیریا کو ان ممالک میں شامل کیا گیا ہے جہاں ابھی تک پولیو کی وبا پر قابو نہیں پایا جاسکا۔ وطن عزیز کے کسی نہ کسی حصے میں پولیو ٹیموں اور ان کے حافظوں پر مسلسل حملے بہت تشویشناک ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں نےبچوں کوپولیو سے بچانے کیلئے ویکسین کے قطرے پلانے کیلئے خاصی زور دار جدوجہد کی ہے لیکن اس حقیقت سے صرف ِ نظر کرنا بھی ممکن نہیں کہ بلوچستان، کے پی کے اور سندھ ہی نہیں بلکہ پنجاب کے بعض علاقوں میں پولیو ورکروں پر حملے ہوئے ہیں اور ان میں کئی افراد جان سے بھی گئے ہیں جبکہ کچھ لوگ زخمی بھی ہوئے ہیں۔ پنجاب کے بعد کے پی کے کی حکومت نے مشکلات اوررکاوٹوں کے باوجود اس مہم کو کامیاب بنانے کیلئے قابل تعریف کام کیا ہے۔ فاٹا میں بھی پولیو مہم کو آگے بڑھانے کیلئے قابل ذکر کوشش کی گئی ہے لیکن بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ابھی پاکستان کوپولیو فری ملک بنانے کیلئے ہمیں وفاقی اور صوبائی سطح پر زیادہ منصوبہ بندی اور زیادہ مؤثر طریقے سے کام کرناہوگا اور اس کے بغیر ہم اپنی آئندہ نسلوں کو اس مہلک مرض سے محفوظ بنانے میںکامیاب نہیں ہوسکیں گے۔یہ درست ہے کہ ملک بھرمیں اس مرتبہ بچوں کو پولیو سے محفوظ رکھنے کیلئے قطرے پلانے کی مہم کو نسبتاً زیادہ مربوط طریقے سے چلانے کی کوشش کی گئی ہے لیکن شدت پسندوں اور بعض مذہبی عناصر کی طرف سے اسکو ناکام بنانے کی کوششیں بھی زیادہ کی گئی ہیں۔ اسلئے اب کرنے کا اصل کام یہی ہے کہ اس حوالے سے ٹھوس منصوبہ بندی کیساتھ کام کیاجائے اور عالمی ادارہ صحت ایسے اداروں کا بہتر تعاون بھی حاصل کیا جائے۔
تازہ ترین