• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کبھی کبھی دل یاد رفتگان سے معمور ہو جاتا ہے جن لوگوں سے انسان ملا ہو اور وہ آپ سے باتیں کرتے کرتے آگے سے ہنکارا بھرنا بند کردیں تو دل گھبرانے لگتا ہے لیکن اس دنیا کا نظام ہی ایسا ہے کہ ان کی جگہ دوسرے لوگ لے لیتے ہیں اور جب زمانہ انہیں شوق سے سن رہا ہوتا ہے وہ داستاں کہتے کہتے سو جاتے ہیں۔ان مرحومین میں سے جس شخصیت کا ذکر میں خصوصی طور پر کرنا چاہتا ہوں اور جس کے کردار کی عظمت میرے دل پر نقش ہے اس کا نام آغا شورش کاشمیری ہے۔ مولانا ظفر علی خان کے بعد اردو ادب و صحافت میں آغا صاحب ایسی شخصیت پیدا نہیں ہوئی۔ میں آغا صاحب کو ایک لحاظ سے ایک بدقسمت انسان سمجھتا ہوں کہ انہیں زمانے نے وہ مقام عطا نہیں کیا جس کے وہ مستحق تھے۔ جہاں ترقی پسند تحریک کی اردو ادب کے حوالے سے بہت سی خدمات ہیں وہاں اس کا ایک گناہ یہ ہے کہ اس نے تحریک سے باہر بڑے بڑے ناموں کو گہنانے کی کوشش کی اور انہیں بیشتر صورتوں میں اس میں کامیابی حاصل ہوئی۔ آغا شورش کاشمیری بھی اس نظریاتی تیر اندازی کا شکار ہوئے۔

گزشتہ دنوں آغا صاحب کے کلیات میری نظروں سے گزرے اور میں ان کی شاعرانہ عظمت کا پہلے سے زیادہ قائل ہوگیا ان کی جستہ جستہ نظمیںہفت روزہ چٹان میں میری نظروں سے گزرا کرتی تھیں اور میں سمجھتا تھا کہ ان کی حیثیت دائمی نہیں ہے لیکن جب میں نے ان کے کلیات پر نظر ڈالی تو اندازہ ہوا کہ اصلی شاعر کبھی آؤٹ آف ڈیٹ نہیں ہوتا۔ چنانچہ حبیب جالب کی طرح آغا شورش کاشمیری بھی اپنی ان نظموں کے حوالے سے زندہ و تابندہ ہیں جو انہوں نے ظلم اور ظالم کے خلاف لکھیں اور اس کی پاداش میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔

جہاں تک ظلم کے خلاف بغاوت کا تعلق ہے میرے خیال میں شاعروں میں مولانا حسرت موہانی کے علاوہ جو نام پوری للکار کے ساتھ اس ضمن میں سامنے آتا ہے وہ شورش کا ہے۔ والد ماجد مولانا بہاء الحق قاسمی بتایا کرتےتھے کہ نوجوان شورش کو اس کی شب عروسی کے موقع پرانگریز کی پولیس گرفتار کرکے لے گئی اور انہیں زنداں میں ڈال دیا ۔ شورش کو جو اذیتیں دی گئیں ان کے تصور ہی سے دل کانپ جاتا ہے ان اذیتوں میں سے ایک اذیت یہ بھی تھی کہ ان کے منہ پر غلاظت باندھ دی جاتی تھی لیکن یہ مرد حر اس عالم میں بھی انگریز سامراج مردہ باد کے نعرے لگاتا تھا۔ پاکستان بننے کے بعد اس نابغہ روز گار شاعر، ادیب اور صحافی نے عوام کے نئے آقاؤں کے خلاف مورچے لگائے اور اس کے نتیجے میں انہیں اک بار پھر ان مراحل سے گزرنا پڑا جن سے انگریز کے دور میں گزرنا پڑا تھا جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے شورش نے ملکی اور غیرملکی حاکموں کی قید میں سات سال سے زیادہ گزارے اور اس قید و بند کے دوران انہیں شوگر، بلڈ پریشر اور دوسرے امراض لاحق ہوئے اور ان موذی امراض نے انہیں ہم سے بہت جلد جدا کردیا۔ شورش کی نثری تصانیف ایک درجن سے زیادہ ہیںاور ان کے پائے کی خوبصورت نثر لکھنے والے ہمارے ہاں شاید ہی چند لوگ اور ہوں، لیکن اتنے بڑے نثار کو نظر انداز کرکے ہمارے نصابوں میں ان لوگوں کو شامل کیا گیا ہے جنہوں نے شورش جیسی نثر لکھنے کا کبھی سوچا بھی نہیں اور کبھی ظالم کی کلائی مروڑنے کی جسارت بھی نہیں کی۔

پاکستان کے پہلے فوجی آمر ایوب خان کے خلاف شورش کی صدائے احتجاج بہت بلند تھی۔ انہوں نے ایک موقع پر زبردست بھوک ہڑتال کی۔ زبردست اس لئےکہ یہ سچ مچ کی بھوک ہڑتال تھی یہ ایوب خان کے آخری دن تھے اور ذوالفقار علی بھٹو اعلان تاشقند کے حوالے سے ایوب خان کے خلاف مورچہ لگاچکے تھے۔ سچ مچ کی بھوک ہڑتال اور مختلف امراض میں مبتلا ہونے کی وجہ سے شورش کی حالت بگڑنے لگے حتیٰ کہ ڈاکٹروں نے وارننگ دے دی کہ اگر یہ بھوک ہڑتال ختم نہ ہوئی تو شورش کی موت واقع ہو جائے گی۔ اس پر شورش کے دوستوں اور مداحوں نے سوچا کہ بھٹو صاحب سے کہا جائے کہ وہ شورش کو ہڑتال ختم کرنے پر آمادہ کریں کیونکہ ضدی شورش نے اس ضمن میں کسی اور کی بات سننے سے بھی انکار کردیا تھا۔ چنانچہ کچھ لوگ بھٹو صاحب کے پاس گئے اور انہیں شورش کی تشویشناک حالت کے بارے میں بتلانے کے بعد انہیں بھوک ہڑتال ختم کرانے کیلئےکہا۔ اس کے جواب میں بھٹو صاحب نے کہا شورش کو مر جانے دو اس کی موت سے تحریک زور پکڑے گی۔ مجھے یہ بات خود مجید نظامی مرحوم نے بتائی تھی۔ سیاست شاید اتنی ہی سفاک ہوتی ہے مگر ادب کو تو اتنا سفاک نہیں ہونا چاہیے کہ وہ کسی جینوئن شخص کو محض دھڑے بندی کی وجہ سے ماننے سے انکار کردے لیکن اگر بدقسمتی سے کبھی ایسا ہو بھی جائے تو بھی شورش ایسے لوگ مرا نہیں کرتے وہ جلد یا بدیر ابھر کر سامنے آہی جایا کرتے ہیں۔ ہر عہد میں نظیر اکبر آبادی کا راستہ کچھ عرصے کیلئےروکا جاسکتا ہے ہمیشہ کیلئے نہیں۔آخر میں شورش کی ایک نظم، مگر معذرت کہ مصروفیات کی وجہ سے یہ نظم ان کی نمائندہ نظم نہیں ہے۔

سیاسی دور ہے رندوں کو پیمانوں سے شکوہ ہے

ہم ایسے درد آشاموں کو مے خانوں سے شکوہ ہے

قیامت آرہی ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے

خدا کو اپنی دھرتی کے نگہبانوں سے شکوہ ہے

صلہ اسلام کی خدمت کا گولی ہے کہ گالی ہے

پیمبرؐ کے گھرانے کو مسلمانوں سے شکوہ ہے

مسلماں ہی تھے اولاد نبیؐ پر ٹوٹنے والے

مجھے تاریخ کے مجہول عنوانوں سے شکوہ ہے

شگوفوں پر شگوفے کھل رہے ہیں بزم ہستی میں

فضا برہم ہے انسانوں کو انسانوں سے شکوہ ہے

شکایت یا حکایت کاسہ لیسوں کی غلط ہوگی

عزیزو! اس زمیںکے سوختہ جانوں سے شکوہ ہے

چراغ آرزو روشن ہے لیکن بزم سونی ہے

چلی جاتی ہے کالی رات، پروانوں سے شکوہ ہے

یزیدی قوتیں اب تک سریر آرا ہیں اے شورش

کہوں کیا؟ اور کیا لکھوں؟ غزل خوانوں سے شکوہ ہے

تازہ ترین