اسمبلی، قومی ہو یا صوبائی اس کے ایک رکن کے پیچھے تین چیزیں کھڑی ہیں:1۔ہزاروں کا اعتماد 2۔ پارٹی طاقت، 3۔ سرکاری جاہ و جلال۔ ان چیزوں کے ہوتے ہوئے بھی اگر پُراعتماد اور صائب الرائے نہیں تو پھر اسے کوئی اور "بزنس" دیکھنا چاہئے کہ سیاست خدمت اور ٹھوس آواز کا تقاضا کرتی ہے، تدبر اور عدل کی مہارت بھی مانگتی ہے۔ سو نمائندے کو اپنے اوصاف اور عوام کو کسوٹی رکھنی چاہئے۔ ورنہ فلور کراسنگ رُک سکتی ہے نہ سیاسی منافقت۔
یادوں کی گٹھڑی کھولے دیکھ رہا ہوں دسمبر 2010میں بھی جعلی ڈگریوں کا رولا تھا، دھڑا دھڑ جعلی ڈگریاں نمودار ہو رہی تھیں، اور دوبارہ ٹکٹ بھی جعلی ڈگریوں والوں ہی کو مل رہے تھے یا ان کے رشتہ داروں کو، عالم یہ تھا کہ مسلم لیگ نواز نے عام اعلان کیا کہ جن کی جعلی ڈگریاں ہیں وہ خود ہی مستعفی ہو جائیں۔ تھا تو جنرل مشرف آمر لیکن سیاستکاروں کو کھول کر رکھ گیا۔ پیپلزپارٹی نے الیکشن 2008میں پارلیمنٹ میں ایک ٹیڑھی اینٹ رکھی، اس کی جعلی ڈگری نے صداقت کھول کر رکھ دی کہ وہ ہے کیا، اس کی ممبری چلی گئی لیکن پیپلزپارٹی نے پھر ضمنی کیلئے دوبارہ جمشید دستی ہی کو ٹکٹ دیا، یہ آج کل ممبر قومی اسمبلی ہیں، اور سب سے زیادہ پیپلزپارٹی کو آڑے ہاتھوں لیتے ہیں۔ اسمبلی میں اس عمران خان کی حمایت سے ہیں جس کو دستی صاحب نے میڈیا پر ماضی میں کھلی دُشنام طرازی سے نوازا۔’’ یہ جبر بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے / لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی‘‘ (مظفر رزمی)۔ 'میں جانتا ہوں جو وہ "سوچیں" گے جواب میں یہی نا:بس بات ختم جب عوام جس کو چاہیں ، اور جسے ووٹ دے دیں، ووٹ ہماری مجبوری ہیں، اور یہی جمہوریت! یہاں عرض صرف اتنا کرنا ہے آمر کو خود کو نہیں معلوم ہوتا کہ اقتدار کب چھوڑنا ہے تاہم جمہوریت پسند کو معلوم ہوتا ہے کہ فلاں تاریخ تک میرا مینڈیٹ ہے، اور فلاں کام کیلئے مینڈیٹ ہے، کیا جعلی ڈگری، جعلی مینڈیٹ، جعلی ممبر مثبت سوچ سکتا ہے؟ ایسی سوچ کیلئے اعتماد اور جمہوریت سے اتحاد ضروری ہے!
پارلیمنٹ میں ہر ممبر کا اپنا ایک ذاتی ویژن، ذاتی ایجنڈا اور اعتماد لازمی ہے ورنہ وہ قانون فہم ہے نہ قانون ساز۔ چلئے مان لیا، ووٹ اور ووٹر والا مجبور ہے اور ضروری بھی لیکن اسپیشل سیٹوں پر جو جعلی اور جعلساز لے آتے ہیں؟
ایک ممبر اسمبلی کیلئے اتنا حکومت بنانا اہم نہیں ہوتا جتنا قانون بنانا اہم ہوتا ہے، آئینی اعتبار سے رکن اسمبلی کو قانون ساز گردانا جاتا ہے حکومت ساز نہیں! عوام نے بہر صورت اسے اسمبلی میں ان کیلئے آسانیاں پیدا کرنے کیلئے بھیجا ہوتا ہے۔ ہمیں تو آج تک یہ سمجھ نہیں آئی فر فر بولنے والا اسمبلی میں گونگا کیوں ہو جاتا ہے؟ بولنے پر آئیں تو بے معنی و بےاثر تقریری مقابلےجن کا مقصد کسی کو راضی کرنا ہوتا ہے یا کسی کی پگڑی اچھالنا۔ وہ منظر بھی نہیں بھولتے کہ قیادت کا ایک سِرا افسر کی طرح کا لہجہ رکھتا ہے اور دوسرا کلرک کی طرح تیز تیز پڑھ کر سنانے والا۔
کوئی تو ہو جو عدلیہ، بیوروکریسی اور ہائیر ایجوکیشن کی اپلائیڈ ریسرچ کی اسمبلی میں منطق سے بات کرے۔ کوئی تو بولے سنگاپور کا بیورو کریسی کا حال ہم پر بھی گیا گزرا تھا لیکن اب دنیا میں مثالی کیسے؟ آئیں ہم ان کی طرح رائٹ پرسن فار دی رائٹ جاب کو بیوروکریسی میں رواج بخشیں، سِول سروس کالج سنگا پور کا کوئی وزٹ تو کرے، برین ڈرین اور رشوت میں کمی پر کوئی سینٹ ہی میں جامع مواد مگر مختصر تقریر کی کوئی بازگشت ہو۔ اسمبلی میں کوئی نشان دہی کرے کہ فلاں افسر میں تنقیدی فکر، مسائل کے حل کی صلاحیت، اموشنل بیلنس اور فلاں فلاں کارکردگی کا ریکارڈ ہے مگر اس کے بجائے فلاں افسر سفارش اور محض اشرافیہ ڈی این اے سے کوڑھ کی کاشت کا سبب بن رہا ہے۔ محض استحقاق کی تحریکوں سے سسٹم ٹھیک ہوتے ہیں نہ استحقاق ہی ملتا ہے، استحقاق کیلئے لڑنا، پڑھنا، سیکھنا اور سمجھنا پڑتا ہے، کوئی تو ہو جو فارن پالیسی پر بات کرے، سابق سیکریٹریز فارن افیئرز کو کافی پر بلائے ان سے مختلف معاملات سیکھے پھر اسمبلی فلور پر سوال اٹھائے یہی نہیں سیکریٹریز کے پیچھے پیچھے پھرے یا انہیں پرائیویٹ سیکرٹری بناتا پھرے۔ ممبر اسمبلی کو کسی بھی فرد سے زیادہ خود شناسی اور زمانہ شناسی درکار ہے، اسے معلوم ہونا چاہئے پارٹی یا بیورو کریسی اسے بیوقوف بنا رہی ہے یا خود بے وقوف بن اور بنا رہا ہے۔ کیا یہ درست نہیں کہ اگر پارٹیاں اپنے آپ کو پہلے انسٹی ٹیوشنز بنائیں گی تو اصلی قانون ساز اسمبلیوں تک لا پائیں گی جو خود اور بیوروکریسی کو سمجھیں بصورتِ دیگر اصلاحات اور ریاست سے مذاق تو ہو سکتا ہے ترقی نہیں!
کاش کسی روز راجہ پرویز اشرف خارجی امور کے چیلنجز کھولیں، احسن اقبال کھری کھری سنائیں کہ ایچ ای سی، سائنس فاؤنڈیشن، پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ایجوکیشن، ریفارمز کمیشن کا یہ کچا چٹھا ہے، یہ سوچے بغیر کہ پی ڈی ایم پارٹ ون میں کس ایم ڈی کو رانا تنویر نے رکھا اور کس کو منسٹر طوری نے، محض حاصلات پر بات ہو۔ عبدالقادر پٹیل اپنے روایتی اسٹائل میں فارمیسی کونسل، ڈریپ اور نرسنگ کونسل پر بھی تو طنز کریں اور اصلاحات کے دریچے کھولنے پر زور دیں۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے سربراہ اپنی اپنی طاقت اور بصیرت کے استعمال سے پوچھیں سردار مسعود خان کا بطور سفیر امریکہ میں تسلسل کتنا سود مند ہے، ترکی و ایران کے سفرا کیسے ہیں؟ سیکرٹری خارجہ کتنے سودمند جا رہے ہیں؟ متذکرہ ہی کیوں سبھی ممبران کے: 1۔ اعتماد، 2۔ طاقت اور 3۔ جلال کہاں ہیں؟