بات چیت: وحید زہیر، کوئٹہ
عبداللہ بادینی کا شمار مُلک کے نام وَر ہدایت کاروں میں ہوتا ہے۔ فنی سفر کا آغاز بچّوں کے پروگرامز سے کیا، تھیٹر پر بھی اپنی صلاحیتوں کے جوہر دِکھائے، اداکاری، صداکاری کی، جب کہ پچاس سے زائد ڈرامے بحیثیت ہدایت کار پیش کرچُکے ہیں۔ اُنہیں اعلیٰ کارکردگی پر بے شمار ایوارڈز اور میڈلز سے بھی نوازا گیا۔گزشتہ دنوں اُن کے ساتھ ایک تفصیلی نشست ہوئی، جس کا احوال جنگ،’’ سنڈے میگزین‘‘ کے قارئین کی نذر ہے۔
س: اپنے علاقے، خاندان اور تعلیم سے متعلق کچھ بتائیں؟
ج: ہمارا آبائی علاقہ نوشکی ہے۔ میرے دادا، لال خان ریلوے میں ملازم تھے، جب کہ والد غلام قادر کی پوسٹنگ گورنر ہاؤس میں تھی۔ مَیں 1974ء میں کوئٹہ میں پیدا ہوا۔ بنیادی تعلیم ریلوے اسکول، کوئٹہ سے حاصل کی۔ کم عُمر ہونے کی وجہ سے داخلہ نہیں ہو رہا تھا، تو عُمر میں ایک سال کا اضافہ کیا گیا۔ ٹاٹ اسکول میں پڑھائی کی اور شاید پتھریلے، کھردرے میدانوں میں کھیل کر کچھ سخت جان بھی ہوگیا۔
دراصل، ہماری محرومیاں ہمیں بہت کچھ حاصل کرنے پر اُکساتی ہیں، اِسی لیے مَیں نے ہمیشہ محنت کی اور زیادہ سے زیادہ پانے کے لیے ہاتھ پاؤں مارے۔ بہرحال، سنڈیمن ہائی اسکول سے میٹرک اور پھر بلوچستان یونی ورسٹی سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ ہم تین بھائی اور ہماری تین ہی بہنیں ہیں۔ چھوٹا بھائی، نعیم بادینی ناپا سے گریجویشن کے بعد میرے ساتھ اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے طور پر کام کر رہا ہے۔
س: ریڈیو کی طرف کیسے آئے؟
ج: بچپن میں ریڈیو سے نشر ہونے والے بچّوں کے پروگرام شوق سے سُنا کرتا تھا۔ایک حیرت سی تھی کہ یہ پروگرام ہوتے کیسے ہیں؟ ایک روز شہداد کوٹ سے میرے کزن آئے، جو دُبئی میں ہوتے تھے، تو اُنہوں نے ریڈیو پروڈیوسر، میر محمّد الفت سے ملنے کا تذکرہ کیا، جو براہوی پروگرامز کے معروف کمپیئر تھے، جب کہ اداکاری بھی کیا کرتے تھے۔
یہ وہ دَور تھا، جب ریڈیو کے بلوچی، براہوی پروگرامز خلیجی ممالک اور افغانستان میں شوق سے سُنے جاتے تھے، جب کہ پشتو اور ہزارگی پروگرامز کی مقبولیت کا بھی یہی عالم تھ۔ بہرکیف، میر الفت سے ملاقات ہوئی، تو کئی طرح کے تعلقات نکل آئے۔
وہ ایک انتہائی مہربان اور میٹھے انسان تھے۔فوراً ہمارے پاسز بن گئے۔ہم مختلف اسٹوڈیوز کی سیر کرتے کرتے وہاں رُک گئے، جہاں سے بچّوں کا پروگرام لائیو جارہا تھا، تو مجھے بھی بُلا کر وہاں بٹھا لیا گیا۔ بس، اِس ماحول نے مجھے اپنی گرفت میں لے لیا اور پھر مَیں کئی دنوں تک اس کے سحر میں مبتلا رہا۔ بہرکیف، مجھے اگلے پروگرام میں شریک ہونے کے لیے اقوالِ زرّیں، کہانیاں اور پہیلیاں ساتھ لانے کو کہا گیا اور یوں یہ سلسلہ چل نکلا۔
س: اور پھر وہاں سے ٹی وی اسٹیشن پہنچ گئے؟
ج: جی، جی۔ریڈیو ہی میں اپنے ہم سائے، صداکار جمال ناصر سے ملاقات ہوئی، تو اُنہوں نے بتایا کہ وہ ٹی وی میں بھی بلوچی پروگرامز کی کمپیئرنگ کرتے ہیں اور ایک روز مجھے بھی اپنے ساتھ لے گئے۔ وہاں بھی اتفاق سے بچّوں کے پروگرام’’ گُل رنگ‘‘ کی ریکارڈنگ ہو رہی تھی۔ مَیں بھی اُس میں شریک ہوگیا اور وہاں ریڈیو کا پچھلا تجربہ بہت کام آیا۔ اگلے پروگرامز کی ریکارڈنگ کے لیے مجھے خاکوں میں اداکاری کے لیے کردار دیئے گئے۔اِن پروگرامز کے عوض 80 روپے کا چیک ملا کرتا تھا، جس پر مَیں دوستوں میں امیر کہلانے لگا تھا۔ محلّے میں بھی مشہور ہو گیا تھا۔
ویسے مَیں اپنے پروگرام ہم سایوں کے گھروں میں جاکر دیکھا کرتا تھا، کیوں کہ دادا خاصے سخت گیر تھے اور اُن کا خیال تھا کہ جس گھر میں ٹی وی ہوتا ہے، وہاں سے برکات اُٹھ جاتی ہیں۔ جب کہ ہم سایوں کے گھر، مَیں نشریات کے آغاز سے فرمانِ الٰہی تک ٹی وی دیکھتا رہتا، یہاں تک کہ گھر والے مجھے ٹی وی اور دروازہ بند کرنے کا طریقہ بتانے کے ساتھ والیم کم رکھنے کی ہدایات کرکے سونے کے لیے چلے جاتے۔ دوستوں کے ساتھ وی سی آر پر فلمز بھی دیکھتا تھا، جس پر مار بھی پڑتی اور اکثر ایسے مواقع پر امّی کی محبّت و ممتا ہی بچاتی تھی۔
س: تھیٹر سے کس عُمر میں وابستہ ہوئے؟
ج: میٹرک کے بعد آبائی علاقے، نوشکی کے کالج میں داخلہ لینے کا خیال آیا۔اس کی وجہ ایک تو رشتے داروں سے قریب رہنا تھا اور دوسرا، سُنا تھا کہ بزرگوں کے پاس بے شمار کہانیاں ہوتی ہیں، تو مَیں اُس ماحول کو انجوائے کرنا چاہتا تھا۔ نوشکی کالج میں دوستوں کے ساتھ مل کر اسٹیج ڈرامے کیے۔ ان ڈراموں کی خبریں اخبارات میں بھی چَھپتی تھیں، جن کے تراشے اپنی ڈائری میں محفوظ کرتا رہا۔ بلوچستان یونی ورسٹی میں داخلہ ہوا، تو کوئٹہ میں تھیٹر کرنے والوں کی تلاش میں نکل پڑا۔
اُس زمانے میں منان دہوار اور علی زہری تھیٹر کیا کرتے تھے، تو اُنھیں قائل کرنے کے لیے اخباری تراشے دِکھائے، جس پر اُنہوں نے اپنے ایک اسٹیج ڈرامے میں مجھے ڈاکٹر کا کردار دے دیا، مگر اگلے ہی روز اُنہوں نے وہی کردار، سلطان راہی کے شاگرد، صابر ندیم ابڑو کو دے دیا، جس پر مَیں نے شدید احتجاج کیا، تو اُنہوں مجھے ڈرامے میں اپنے لیے خود ہی کوئی نیا کردار تخلیق کرنے کو کہا۔
سو، مَیں نے ایک پاگل کا کردار تخلیق کیا، جس کے لیے خود ہی ڈائیلاگز لکھے اور اُس کردار کی ڈرامے میں اینٹری کا مقام بھی منتخب کیا۔ جب ڈراما شروع ہوا، تو میرے کردار کے نمودار ہونے تک خاموشی چھائی رہی اور جُوں ہی مَیں نے اینٹری دی، تو ہال میں ہلچل پیدا ہوئی۔جب بھی اسٹیج چھوڑوں، تو مجھے دوبارہ بُلانے کا مطالبہ ہونے لگتا۔ یہ ڈراما تین دن اسٹیج ہوتا رہا اور اُسے دیکھنے والوں میں پروڈیوسر اطہر منگی، اداکار عُمر فاروق اور ہدایت کار اے ڈی بلوچ بھی شامل تھے۔
س: غالباً اِسی کے بعد ٹی وی پر اداکاری کی راہ ہم وار ہوئی؟
ج: جی بالکل، ایسا ہی ہوا۔مَیرا منان دہوار اور علی زہری کے ساتھ ٹی وی اسٹیشن جانا ہوا، تو وہاں اطہر منگی اور عُمر فاروق سے ملاقات ہوئی، جس کے دَوران اُنھوں نے تھیٹر ڈرامے میں پاگل کے کردار کی تعریف کی، جب اُنھیں پتا چلا کہ وہ کردار مَیں نے ادا کیا تھا، تو مجھ سے بغل گیر ہوئے اور پھر اُنہوں نے مجھے اپنے مزاحیہ خاکوں کے پروگرام میں شامل کرلیا۔
س: اِن سرگرمیوں سے تعلیم تو متاثر ہو رہی ہوگی؟آپ یونی ورسٹی میں کس شعبے میں زیرِ تعلیم رہے؟
ج: تعلیم تو ہرگز متاثر نہیں ہوئی، بلکہ پڑھائی میں زیادہ دل چسپی پیدا ہوگئی تھی۔ نصابی کتب کے علاوہ بچّوں کے رسائل اور اخبارات بھی غور سے پڑھنے لگا تھا۔یونی ورسٹی میں پڑھ تو بائیو کیمسٹری رہا تھا، لیکن پلّے کچھ نہیں پڑتا تھا۔
ٹی وی کی وجہ سے جمالیاتی حِس بڑھ گئی تھی۔ پروڈیوسر عطاء اللہ بلوچ کو پتا چلا، تو اُنہوں نے مشورہ دیا کہ تم سائنس چھوڑ کر لٹریچر میں داخلہ لو، تو مَیں نے فوراً ڈیپارٹمنٹ بدلنے کا ارادہ کرلیا۔
س: اداکار سے ہدایت کار بننے کا خیال کیسے آیا؟
ج: مَیں تو اداکاری کر رہا تھا، مگر جانے کیوں عطاء اللہ بلوچ کو لگا کہ مَیں ایک اچھا ہدایت کار بھی بن سکتا ہوں، اُنہوں نے اِس جانب توجّہ دِلائی اور اپنا معاون بنالیا۔ پروگرام مینیجر، شاہد ندیم نے مجھے پروڈیوسر بننے کی آفر کی، تو مَیں انٹرویو دینے اسلام آباد چلا گیا، جہاں سرمد صہبائی کے ساتھ کچھ افراد پر مشتمل پینل نے میرا انٹرویو کیا۔ واپس کوئٹہ آیا، تو دوستوں نے مبارک باد دی کہ بس آج کل میں آپ کے آرڈر آنے والے ہیں، مگر وہ آرڈر کبھی نہیں آئے۔ مَیں نے بھی قدرت کی جانب سے اِسے ہی اپنے حق میں بہتر جانا۔
س: کیا کراچی میں کام کے لیے کسی کا بُلاوا آیا تھا؟
ج: نہیں، بالکل نہیں۔ میرا یقین ہے کہ بُلاووں پر ملنے والے کام پائے دار نہیں ہوتے کہ اِن میں مفادات اور احسانات کا بوجھ ہوتا ہے۔ آپ اپنے شعبے میں مہارت حاصل کریں، پھر میدان میں اُتریں، تو جگہ خودبخود بنتی چلی جائے گی۔ مجھے پتا چلا کہ کراچی میں پرائیویٹ کام بہت ہے، تو ہم نے بھی وہاں کے لیے بستر باندھ لیا۔
اِتنا پتا تھا کہ کراچی غریب پرور اور ہنر کا قدردان شہر ہے، جو کام کرنے والے کو پیار اور احترام ضرور دے گا۔ بہرحال، مَیں نے بھی دوسروں کی طرح سردی گرمی سہی، دفاتر کی طویل مسافتیں پیدل طے کیں، خوب بھاگ دوڑ کی، انتظار کے طویل لمحات کاٹے، مگر ثابت قدم رہا۔ بعض افراد نے رہنمائی کی، چند ایک نے مشکلات بھی گنوائیں، مگر چوں کہ مہارت اور جذبہ لے کر آیا تھا، اِس لیے کسی بھی موقعے پر قدم نہیں ڈگمگائے۔
س: گھر سے اجازت کیسے ملی تھی؟
ج: والد نے بس ایک ہی نصیحت کی تھی کہ جو بھی کام کرو، دیکھ لینا، وہ ہمارے لیے شرمندگی کا باعث نہ ہو اور کوئی کبھی ہمارے دروازے پر آکر تمہاری شکایت نہ کرے۔سو، ہمیشہ اِس نصیحت پر عمل پیرا رہا۔
س: کوئٹہ میں کتنے ڈراموں میں اداکاری کی؟
ج: ڈاکٹر تاج رئیسانی کے سیریل’’ شب گرد‘‘، اے ڈی بلوچ کے براہوی سیریل ’’پرانا پڑینگ‘‘ اور ڈاکٹر علی دوست کے سیریل’’رگام‘‘ سمیت ایک درجن کے قریب ڈراموں میں مرکزی کردار ادا کیا اور سینئر پروڈیوسرز کی معاونت بھی کی۔
س: آپ کمپیئرنگ بھی تو کرتے رہے ہیں؟
ج: جی ہاں۔ مَیں پی ٹی وی نیشنل کراچی اور بولان ٹی وی پر برسوں کمپیئرنگ کرتا رہا۔ مجھے یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ بولان ٹی وی کے پہلے دن کی نشریات میں بلوچی خبریں مَیں نے پڑھی تھیں۔
س: کیا اداکاری یا ہدایت کاری کی کسی اکیڈمی سے باقاعدہ تربیت بھی لی؟
ج: شروع دن سے اچھے دوست اور رہنما ملے، پھر خُود بھی زیادہ سے زیادہ سیکھنے کی کوشش کرتا رہا، سونے پر سہاگا یہ کہ اکیڈمی کا درجہ رکھنے والوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ اداکار قوی خان، طلعت حسین، معین اختر، شفیع محمّد، حسام قاضی، فردوس جمال اور ایوب کھوسہ جیسے بڑے ناموں سے قربت رہی۔
س: ڈراموں کے دَوران بھی تو بہت سے ڈرامے ہوتے ہیں؟
ج: ایسے ویسے۔ ایک مرتبہ قوی خان بتا رہے تھے کہ اورنگزیب لغاری سے ایک نوجوان ملا اور کہا کہ’’ فردوس جمال مجھے آٹو گراف دیں۔‘‘ ابھی ہم اِس واقعے پر ہنس رہے تھے کہ ایک نوجوان آیا اور قوی خان کے ساتھ کھڑے ہوکر تصویر بنائی اور جاتے ہوئے کہا’’ شکیل بھائی، بہت شُکریہ۔‘‘یہ سُن کر ہم سب ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوگئے۔
س: اکثر اداکار بھی تو تنگ کرتے ہیں؟
ج: تنگ کرنے والے اور مغرور اداکار زیادہ عرصہ اِس شعبے میں نہیں رہ پاتے۔ہم جیو کے لیے ایک ڈراما’’بابا کے دیس میں‘‘ کر رہے تھے۔ زیارت میں برف باری ہو رہی تھی، مگر پھر بھی ضعیف اداکار، قوی خان تن دہی سے اپنا کام کر رہے تھے۔ ایک نوجوان اداکار سردی لگنے اور انتظار کروانے پر شدید ناراض ہوا، تو قوی خان نے کہا’’ بھائی! جب معاوضہ اور کام طے ہو، تو نخرے نہیں ہونے چاہئیں۔‘‘ نوجوان نے دوبارہ پھر شکایت نہیں کی۔
س: اب تک کتنے سیریلز، سیریز اور ڈرامے کر چُکے ہیں؟
ج: تقریباً پچاس سے زائد ڈراموں میں ہدایات کاری کر چُکا ہوں۔ جیو کے لیے ایک تھی رانیہ، نیوز کاسٹر، گھر ایک جنّت، شیشہ اور رسم، پی ٹی وی کے لیے دشمن، چوکھٹ اور کچرا کنڈی ور دیگر نجی چینلز کے لیے برقعہ، کفن، اعلان، کچّا دھاگا، میرے ہمنوا، عشق نہ کریو کوئی، دل باری، باپ بڑا نہ بھیّا کیے، جب کہ آج کل’’ تیری چھاؤں میں‘‘ ٹیلی کاسٹ ہو رہا ہے۔ یوں کہیے مختلف چینلز کے لیے بے شمار ڈارمے کیے، جب کہ بعض ڈراموں کے تو آئیڈیاز بھی میرے ہی تھے۔
س: آپ کا اپنا بھی کوئی پروڈکشن ہاؤس ہے؟
ج: مَیں اور میرے دوست حبیب جان’’ وائڈ اینگل‘‘ کے نام سے ایک پروڈکشن ہاؤس بنا چُکے ہیں اور ایک ویب سیریز پر کام بھی کر رہے ہیں۔
س: سُنا ہے آپ شاعری بھی کرتے ہیں؟
ج: جی ہاں، کبھی کبھار شعرو شاعری بھی ہو ہی جاتی ہے۔ چند ڈراموں کے تھیم سونگز بھی لکھ چُکا ہوں۔ ویسے اِس ضمن میں شاعر دوستوں، خاص طور پر افضل مُراد سے رہنمائی حاصل کرتا ہوں۔
س: کن ممالک کے ڈراموں، فلمز سے متاثر ہیں؟
ج: ڈرامے تو ہمارے اپنے ہی بہت جان دار و شان دار ہوتے ہیں، البتہ فلمز کے معاملے میں ایرانی فلم انڈسٹری سے بہت متاثر ہوں۔ اگر ہمیں بھی اپنی فلم انڈسٹری کو بہتر بنانا ہے، تو اپنی کہانیاں، ایرانی سینما کے طرز پر سادہ، پُروقار اور جان دار انداز میں پیش کرنی ہوں گی۔
س: آپ کے خیال میں ہماری فلم کی ناکامی کے اسباب کیا ہیں؟
ج: جب کتابیں اور فلمیں منہگی ہوں گی، تو عوام کی دسترس سے دُور ہی رہیں گی۔ ڈرامے کی کام یابی کی بھی اصل وجہ اُس کی دیکھنے والوں تک آسان رسائی ہے، جہاں جہاں یہ شعبے کام یاب ہیں، وہاں ریاست کی جانب سے آسانیاں مہیا کی گئی ہیں۔ یہ تو شناخت بڑھانے اور وقار میں اضافہ کرنے والے شعبے ہیں، اِس لیے ان کی سرپرستی ناگزیر ہے۔
ہم نے کوئٹہ میں ڈائریکٹر خانۂ فرہنگ ایران سے مشترکہ طور پر کام کرنے کی درخواست کی تھی اور اُنہوں نے بھی اِسی طرح کی خواہش کا اظہار کیا تھا، مگر حکومتی سطح پر سرپرستی کا معاملہ در پیش ہے۔
س: سُنا ہے، کراچی میں’’ ناپا‘‘ سے بلوچستان کے نوجوان بھی اداکاری سیکھ رہے ہیں؟
ج: جی، مَیں نے اور ایّوب کھوسہ نے چند برس قبل ذاتی کوششوں سے ناپا انتظامیہ کو چھے اسکالر شپس دینے پر راضی کیا تھا۔آج کئی نوجوان سیکھ کر اپنے گھروں کو جا چُکے ہیں، مگر بلوچستان میں اِس شعبے میں کام کے مواقع نہیں ہیں۔ یہاں تھیٹر کو آباد کیا جانا چاہیے۔
س: کیا یہ بات درست ہے کہ لگ بھگ تمام ڈراموں کی کہانیوں کا مزاج اور ذائقہ ایک ہی جیسا ہوتا جارہا ہے؟
ج: ہاں، کسی حد تک درست بھی ہے۔ بعض اوقات ڈراموں میں خاصی یک سانیت پائی جاتی ہے، لیکن جو کاپی کرتے ہیں، اُن کا اپنا ہی نقصان ہوتا ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ جس سال پیاز یا ٹماٹر کے نرخ بڑھتے ہیں،تو اگلے سال سارے زمین دار وہی کاشت کر لیتے ہیں اور بعد میں اُنہیں اپنی پیداوار ضائع ہوتے دیکھنی پڑتی ہے۔
نیز، ڈراموں کی یک سانیت کی ایک بڑی وجہ بولڈ موضوعات پر کام کرنے میں مشکلات بھی ہیں، جیتے جاگتے کرداروں کے ردّ عمل کا بھی خوف رہتا ہے، جب کہ انڈین فلمیں اپنے بولڈ موضوعات ہی کی وجہ سے شہرت رکھتی ہے۔
س: آپ ابھی تک کون کون سے ایوارڈ حاصل کرچُکے ہیں؟
ج: مجھے پی ٹی وی ایوارڈ، یو اے ای ایوارڈ، لکس ایوارڈ کے علاوہ بے شمار ایوارڈز اور میڈلز مل چُکے ہیں۔
س: کھانے میں کیا پسند ہے؟
ج: اکثر کام کرتے ہوئے تو پکوڑوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ ویسے مَیں ہلکے پُھلکے، دل پر بوجھ نہ بننے والے کھانے پسند کرتا ہوں۔
س: شادی کب ہوئی، کتنے بچّے ہیں اور کیا کیا کرتے ہیں؟
ج: شادی تو دورانِ تعلیم ہی ہوگئی تھی۔ میرے چار بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ بیٹا نعمان گریجویشن کرچُکا ہے، اداکاری بھی کرتا ہے، ناپا نے اِتنا سکھایا ہے کہ اپنا انسٹی ٹیوٹ بنا چُکا ہے۔
ارسلان آرٹسٹ ہے، خُوب صُورت اسکیچز بناتا ہے اور بی ایس انگریزی کررہا ہے۔ فیصل اور فہد چائلڈ اسٹار کے طور پر کام کررہے ہیں، جب کہ بیٹی ابھی بی ایس کررہی ہے۔
س: اداکاری کا شوق رکھنے والے نوجوانوں کو کیا پیغام دیں گے؟
ج: سچّی لگن، پھر مطلوبہ علم کا ہونا بے حد ضروری ہے، ورنہ بہک جائیں گے۔ ان کا بہت وقت ضائع ہوگا اور پیار اور احترام سے بھی محروم رہیں گے۔ میرا اپنا کلیہ یہ ہے کہ نیک نیّتی اور ثابت قدمی ہر شعبے میں کام یابی کی دلیل ہے۔