مرتب: محمّد ہمایوں ظفر
19جولائی 2024ء کو روزنامہ جنگ میں پروفیسر زکریا ساجد کے انتقال کی خبر پڑھی، تو آنکھیں نم ہوگئیں۔ شعبۂ ابلاغِ عامہ، جامعہ کراچی کے بانی و سابق چیئرمین کی حیثیت سے پروفیسر صاحب کی بے لوث کاوشیں اور کارہائے نمایاں فراموش نہیں کیے جاسکتے۔ مجھے بھی دورانِ تعلیم اُن کے متعدد لیکچرز کے دوران اُن سے اکتساب ِ فیض کا شرف حاصل ہوا۔
بعدازاں، عملی زندگی میں قدم رکھا، تو جناح یونی ورسٹی برائے خواتین کے چیئرمین شعبہ ابلاغ عامہ، جناح یونی ورسٹی، پروفیسر احمد نسیم سندیلوی نے اُن کے ایک خصوصی لیکچر کے انتظام کی تمام تر ذمّے داری مجھے تفویض۔ مَیں نے ان کی آمد سے قبل جب پروفیسر احمد نسیم سے اُن کی ضروریات اور کھانے، پینے سے متعلق سوال کیا، تو انھوں نے کہا، جو مرضی کھلا دینا۔ اندازہ ہوا کہ اتنی بڑی شخصیت میں کوئی کرّوفر نہیں۔ اس روز ایک اچھے معلوماتی لیکچر کے ساتھ اُن سے ہونے والی ملاقات بہت یادگار رہی۔
زمانۂ طالب علمی کی بات کروں، تواچھی طرح یاد ہے کہ وہ وقت کے سخت پابند تھے، تو ہم بھی اس کلیے پر کاربند تھے۔ ہم نہ تو کبھی اُن کی کلاس چھوڑتے، نہ ہی تاخیر سے پہنچتے۔ وہ اکثر پاکستان پریس فاؤنڈیشن کی گاڑی میں آتے تھے۔ ایک روز اُن کی مخصوص گاڑی نظر نہیں آئی، تو ہم سمجھے، آج سر نہیں آئے، لیکن کلاس روم کا دروازہ بند دیکھا، تو لپک کر اندر چلے گئے۔ ساتھ دو طالبات اور بھی تھیں، کلاس روم میں داخل ہوتے ہی مجھے سیٹ مل گئی، مگر ان دونوں کو سیٹ نہیں ملی، تو وہ ایک طرف کھڑی ہوگئیں۔
سرنے اس طرح اُنھیں کھڑے دیکھا، توسخت خفا ہوئے کہ وہ وقت کے زیاں کو گناہ سمجھتے تھے۔ اسی طرح ایک بار کلاس کے دوران مختلف اداروں کے مکمل نام پوچھ رہے تھے، ایک لڑکی سے واپڈا سے متعلق پوچھا، تو وہ جواب نہ دے پائی، جس پر وہ چِڑ گئے اور کہا۔ ’’تم لوگ تو میڈیکل پڑھ کر بچّے سنبھالتی ہو، صحافت میں آکر کیا کرو گی؟ ناحق والدین کا پیسا ضائع کرتی ہو؟‘‘ دراصل وہ تعلیم کے معاملے میں کسی تخصیص کے قائل نہیں تھے۔
پروفیسر زکریا ساجد نے 12سال تک پریس انسٹی ٹیوٹ آف پاکستان میں ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کیا اور اس حیثیت سے مُلک میں اُردو اور انگریزی صحافت خصوصاً ٹی وی چینلز میں آزاد صحافت کے فروغ کی ہرممکن کوشش کی۔ 2009ء میں اُن کی تعلیمی خدمات کے اعتراف میں سینٹر فار رورل ڈیولپمنٹ کمیونی کیشن کے کانفرنس ہال کو اُن کے نام سے موسوم کیا گیا۔
پھر 2014ء میں اُس وقت کے صدرِ پاکستان، ممنون حسین کی جانب سے صدارتی ایوارڈ، ’’تمغۂ امتیاز‘‘ سے نوازنے کا اعلان کیا گیا۔ اُن کے ایک شاگرد فاروق عادل نے، جو صدرِ مملکت کے پریس سیکرٹری تھے، پروفیسر صاحب کو اِس اعزاز کی اطلاع دی، تو اُنہوں نے کسی بھی قسم کا اعزاز حاصل کرنے سے یک سر انکار کرتے ہوئے کہا کہ ’’مجھے کوئی ایوارڈ نہیں چاہیے، میں نے جو کچھ کیا، اُس کا صلہ میرے طلبہ اپنی محبت سے دیتے ہیں یا پھر اللہ دے گا۔‘‘
نیک دل، پُرخلوص اور اعلیٰ صفات و بے پایاں خوبیوں کے حامل استاد، پروفیسر زکریا ساجد سے ہمارا خلوص ومحبّت اور اپنائیت کا گہرا رشتہ تھا، وہ اب اگرچہ ہمارے درمیان موجود نہیں، مگر بحیثیت استاد، اُن کی تعلیم و تربیت، خصوصاً صحافیوں اور صحافتی اداروں کے لیے اُن کی گراں قدر خدمات تادیر یاد رکھی جائیں گی۔ (صائمہ فرید)