مرتب: محمّد ہمایوں ظفر
زیرِ نظر واقعہ ممکن ہے، اوروں کے لیے بظاہر معمولی نوعیت کا ہو، مگر میرے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے اور بہت عرصے سے میرے دل و دماغ میں گردش کررہا ہے، اسی لیے قارئین کی نذر کررہا ہوں۔
میرے والد، حاجی محمد اسماعیل قریشی مرحوم، انتہائی شریف النفس، نمازی، متّقی، پرہیزگاراور شفیق انسان تھے۔ 9جنوری2008ء کو 10محرم الحرام (یومِ عاشور) کے دن ہم اپنی بڑی ہم شیرہ کی قبر، واقع محمد شاہ قبرستان سیکٹر7-D، نارتھ کراچی گئے۔ فاتحہ خوانی کے بعد اُن کی قبر سے چند قدم ہی آگے چلے تھے کہ اچانک والد صاحب نے مجھے رکنے کا اشارہ کیا اور کہا کہ ’’تم سے کچھ ضروری بات کرنی ہے۔‘‘
یاد رہے کہ اُس وقت میرے بڑے بھائی، حاجی خلیل الرحمن حج کی سعادت کے لیے سعودی عرب گئے ہوئے تھے اور 23 جنوری کو اُن کی واپسی تھی۔ والد صاحب نے مجھ سے مخاطب ہوکرکہا ’’دیکھو بیٹا! میں تمہیں ایک وصیت کرنا چاہتا ہوں۔ یہ میری خواہش بھی ہے، اس سلسلے میں مَیں نے مفتی صاحبان سے بھی مشورہ کرلیا ہے۔ مَیں چاہتا ہوں کہ قبل از وقت اپنی زندگی ہی میں اپنی لحد (قبر) تیار کروالوں اور میرے انتقال کے بعد اس قبر کی اچھی طرح صفائی کرکے مجھے اُس میں دفن کردیا جائے۔‘‘
قبرستان کے سوگوار ماحول میں اس طرح اُن کے منہ سے یہ بات سن کر مَیں سناٹے میں آگیا، فرطِ جذبات سے آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے۔ میں نے تڑپ کر، افسردگی سے کہا ’’ابّا! آپ ہی تو ہمارا کل سرمایہ ہیں۔ اللہ پاک آپ کو صحت و تن درستی عطا فرمائے، آپ کا سایہ ہمارے سروں پر سلامت رکھے۔ ویسے بھی چند روز بعد بھائی جان حج کی سعادت کے بعد واپس آرہے ہیں، ہمارے گھر میں خوشی کا سماں ہوگا، آپ اس طرح کی باتیں کیوں کررہے ہیں؟‘‘ لیکن انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
خیر، قبرستان سے واپسی کے بعد ہم اپنی مصروفیات و معمولات میں مگن ہوگئے، لیکن، قدرت کو تو کچھ اور ہی منظور تھا۔ بڑے بھائی خلیل الرحمٰن 23جنوری کو حجِ بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے کے بعد واپس آئے، تو گھر میں خوشی کا سماں اور خوب چہل پہل تھی۔ مہمانوں کی آمدورفت شروع ہوگئی۔ چند روز بعد ہم نے حج کی خوشی میں سب کے لیے دعوت کا اہتمام کیا۔ 28جنوری کو بھائی جان خالہ کے گھر حیدرآباد چلے گئے۔
وہاں سے2فروری کی رات واپس آئے۔ 3فروری کو ان کی طبیعت خراب ہوئی اور کسی بھی قسم کے علاج معالجے سے قبل ہی آناً فاناً انتقال کرگئے، اُن کی ناگہانی موت پر ہم سب سکتے میں آگئے، اُن کے اس طرح اچانک داغِ مفارقت دے جانے پر گھر میں اُداسیوں نے ڈیرے ڈال لیے، والد صاحب، جو پہلے ہی بیمار تھے، غم کی شدّت سے بستر سے لگ گئے۔
اس دوران فروری2014ء میں، مَیں نے اپنے چھوٹے بھائی کی شادی کے ساتھ ہی مرحوم بھائی جان کی بیٹی کی شادی بھی طے کردی۔ شادی کے معاملات طے ہونے سے ایک ماہ قبل میں نے والد صاحب کو بتایا اور ان سے اجازت طلب کی تو انھوں نے کہا۔ ’’بیٹا! تم فکر نہ کرو، بس شادی کی تیاری کرو۔‘‘ اور پھر والد صاحب میرے چھوٹے بھائی اور بھتیجی کی شادی سے قبل ہی12فروری بروز بدھ2014ء کو رات آٹھ بجے اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے۔
اللہ پاک اُنھیں جنّت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔ 13فروری کو بعد نمازِ ظہر محمد شاہ قبرستان میں اُن کی تدفین کردی گئی۔ پھر سوئم والے دن اپنے بھائیوں اور خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ فاتحہ خوانی کے لیے اُن کی قبر پر گیا، تو اچانک میرے ذہن میں 2008ء میں کی گئی اُن کی وہ نصیحت گردش کرنے لگی، جو انہوں نے عین اُسی جگہ کھڑے ہوکر کی تھی، جہاں اب اُن کی قبر موجود تھی اور ہم سب فاتحہ خوانی کررہے تھے، حالاں کہ والد صاحب نے جب مجھے وصیّت کی، تو مَیں نے اُس کو اتنی اہمیت نہیں دی تھی اور پھر چند ہی روز بعد بھائی جان کا بھی انتقال ہوگیا تھا۔
فاتحہ خوانی کے بعد مَیں سوچنے لگا کہ والد صاحب نے کئی برس قبل اپنی قبر کے حوالے سے آخر اسی جگہ کھڑے ہوکر کیوں وصیت کی تھی؟ اللہ پاک کے کام اللہ ہی جانے، بے شک، اللہ کے متّقی، پرہیزگار بندے اپنے خالقِ حقیقی سے اسی شان سے جا ملتے ہیں۔ نارتھ کراچی میں واقع اس وسیع و عریض قبرستان میں بے شمار اولیاء اور بزرگانِ دین کے مزارات موجود ہیں، لیکن یہ والد صاحب کی خوش قسمتی ہے کہ اُن کی قبر سے چند قدم کے فاصلے پر معروف نعت گوشاعر اور عاشقِ رسول خالد محمود خالد نقش بندی کا مزار بھی ہے۔
اُن کی نعت یہ سب تمہارا کرم ہے آقا کہ بات اب تک بنی ہوئی ہے۔ سابق صدر، جنرل محمد ضیاء الحق، سرکاری و غیر سرکاری تقریبات میں بڑے ذوق و شوق سے سماعت فرمایا کرتے تھے۔ دعا ہے، اللہ پاک اس قبرستان میں مدفن میرے والد سمیت تمام مرحومین کے درجات بلند فرمائے، انھیں اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے (محمد اسحاق قریشی، اورنگی ٹاؤن، کراچی)