• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دو عشرے قبل دنیا کے مختلف ممالک میں حجاب میں ملبوس خواتین کے لیے امتیازی قوانین بنائے جا رہے تھے۔ وہ حجاب کے ساتھ تعلیمی اداروں میں جا سکتی تھیں اور نہ ہی کہیں سرکاری ملازمت کر سکتی تھیں۔آج بھی بے حجابی کو ماڈرن ازم کا استعارہ سمجھا جاتا ہے کہ عورت جتنی زیادہ بے حجاب ہوگی، اُتنی ہی بے باک و ترقّی پسند ہوگی اور جدید سمجھی جائے گی۔ اسلام سے قبل عرب عریاں ہو کر خانۂ کعبہ کا طواف کرتے تھے اور یہی حال اُن کی عورتوں کا بھی تھا۔

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم دنیا میں تشریف لائے، تو عورت کو اُس کے حقوق دیئے۔ اُسے حجاب کی تہذیب سے آراستہ کیا اور اُسے سِکھایا کہ قیمتی چیزیں غلافوں میں لپیٹ کر لوگوں کی نظروں سے دُور رکھی جاتی ہیں۔ عورت کے وجود کو بھی ربّ قیمتی سمجھ کر، اُسے حجاب سے آراستہ رہنے کی تلقین کرتا ہے۔ مگر یہ امر ضرور یاد رہے کہ یہ حجاب، محض ایک گز، ڈیڑھ گز کپڑے کے ٹکڑے کا نام نہیں اور نہ ہی اس کی مخاطب صرف عورت ہے۔ 

قرآنِ کریم میں دو جگہ حجاب کے تفصیلی احکام آئے ہیں۔ سورۃ الاحزاب اور سورۃ النّور میں۔ دراصل اللہ ربّ العالمین نے اپنے بندے کو تخلیق کر کے شترِ بے مہار نہیں چھوڑ دیا،اُسے قرآنِ کریم کی صُورت اپنی ہدایت اور رہنمائی سے بھی نوازا ہے۔ قرآنِ کریم جس معاشرے کی بات کرتا ہے، وہاں حجاب، زندگی کے تمام رویّے درست کرنے کا نام ہے۔ یہ پورے نظامِ عفّت و عظمت کی آب یاری کرتا ہے اور مرد و عورت دونوں ہی اس کے مخاطب ہیں۔ اگرچہ، عورت اللہ تعالیٰ کی سب سے حسین تخلیق اور اُس کی لطافت کا اظہار ہے، تو اُس کے لیے حجاب کے احکام زیادہ تفصیل سے آئے ہیں، لیکن سب سے پہلا حکمِ حجاب مَردوں سے مخاطب ہوتے ہوئے نازل کیا گیا۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، نبیؐ کے گھروں میں بلااجازت نہ چلے آیا کرو، نہ کھانے کا وقت تاکتے رہو،ہاں، اگر تمہیں کھانے پر بُلایا جائے، تو ضرور آئو، مگر جب کھانا کھالو، تو منتشر ہوجائو۔ باتیں کرنے میں نہ لگے رہو۔ تمہاری یہ حرکتیں نبیؐ کو تکلیف دیتی ہیں، مگر وہ شرم کی وجہ سے کچھ نہیں کہتے اور اللہ حق بات کہنے سے نہیں شرماتا۔ نبیؐ کی بیویوں سے اگر تمہیں کچھ مانگنا ہو، تو پردے کے پیچھے سے مانگا کرو۔ یہ تمہارے اور اُن کے دِلوں کی پاکیزگی کے لیے زیادہ مناسب طریقہ ہے۔ 

تمہارے لیے یہ ہرگز جائز نہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلّم کو تکلیف دو اور نہ یہ جائز ہے کہ اُن کے بعد اُن کی بیویوں سے نکاح کرو۔ یہ اللہ کے نزدیک بہت بڑا گناہ ہے۔ تم خواہ کوئی بات ظاہر کرو یا چُھپائو، اللہ کو ہر بات کا علم ہے۔‘‘(سورۃ الاحزاب، آیت 33) اس کے بعد حجاب کا حکم قرآنِ کریم کی سورۃ النّور کی آیت نمبر30میں نازل ہوا اور اُس میں بھی خطاب کا آغاز مَردوں سے ہوا اور پھر عورتوں کو مخاطب کیا گیا۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔’’ اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم! مومن مَردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں،یہ اُن کے لیے پاکیزہ طریقہ ہے، جو کچھ وہ کرتے ہیں، اللہ اُس سے باخبر رہتا ہے۔‘‘(سورۃ النّور)’’اور اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم! مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنا بنائو سنگھار نہ دِکھائیں، بجز اُس کے، جو خود ظاہر ہوجائے اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں۔ اپنا بناؤ سنگھار ظاہر نہ کریں۔‘‘(سورۃ النّور، آیت 31)

حجاب، درحقیقت عفّت کا چلن عام کرتا ہے۔ یہ گز بَھر کا ٹکڑا مغرب کی اربوں ڈالر کی فیشن انڈسٹری کو اپنے پائوں کی ٹھوکر پر رکھتا ہے۔ یہ مقدّس اور عفیف حجاب، عریاں تہذیب و ثقافت کو ملیا میٹ کر دینے کا نام ہے، جو کہ شیطان کے کارندوں کا روزِ اوّل سے محبوب مشغلہ ہے۔ شیطان نے اپنا اوّلین وار ہی حضرت آدم علیہ السّلام کو بے لباس کرنے کی صُورت کیا اور آج تک اُس کا محبوب ترین ہتھیار یہی ہے کہ وہ بے حجابی کو آراستہ و پیراستہ کر کے عورت کو دھوکا دیتا ہے اور وہ یہ بھول جاتی ہے کہ فطرت کا تقاضا ہے کہ ہر قیمتی چیز ملفوف اور خول میں محفوظ ہوتی ہے۔ اسے عام لوگوں کی نظروں سے دُور، محفوظ رکھا جاتا ہے تاکہ اس کی قدر و قیمت برقرار رہے، جیسے قیمتی زر و جواہر، نازک اشیاء، خُوب صُورت سیپیوں میں محفوظ قیمتی موتی، درّ ِنایاب وغیرہ۔

کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے کہ ایک برطانوی شہری سے پوچھا گیا کہ ’’کیا آپ کے مُلک کی ملکہ ہر ایک سے ہاتھ ملاتی ہیں؟‘‘ تو اُس کا جواب تھا۔’’نہیں، بالکل نہیں۔ یہ اُن کی شان کے خلاف ہے کہ وہ ہر ایک سے ہاتھ ملائیں۔‘‘تو اُسے بتایا گیا کہ مسلمانوں کے ہاں ہر عورت ہی ملکہ کا درجہ رکھتی ہے۔ سو، وہ بھی ہر ایک سے نہیں ملتی۔ جیسے ہر مقدّس چیز کو غلاف میں رکھا جاتا ہے، مثلاً خانۂ کعبہ، قرآنِ کریم یا دوسری متبرّک اشیاء، تو عورت بھی اللہ تعالیٰ کی ایک مقدّس تخلیق ہے، اِسی لیے اسے بھی غلاف و حجاب میں رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔

بہرکیف، آج حجاب، آزادی کی ایک توانا علامت بن کر سامنے آ رہا ہے۔ زندگی کے ہر شعبے میں باحجاب خواتین کی بھرپور شمولیت اِس بات کا اعلان ہے کہ حجاب، عورت کی ترقّی کی راہ میں ہرگز رکاوٹ نہیں بلکہ مُمد و معاون ہے۔ مثال کے طور پر ایک سرجن جب کسی انسان کی سرجری جیسے حسّاس ترین عمل سے گزر رہا ہوتا ہے، تو اُس وقت سر سے پائوں تک حجاب میں ملبوس ہوتا ہے، حتیٰ کہ نقاب بھی لے رکھا ہوتا ہے۔ سَر ڈھکا ہوتا ہے، گاؤن، دستانے پہنے ہوتے ہیں اور اس کے لیے حجاب کی یہ تمام ایک صُورتیں انسانی زندگی بچانے کے نازک ترین کام میں بھی قطعاً رکاوٹ نہیں بنتیں ،بلکہ ناگزیر ہوتی ہیں، بہت معاون ثابت ہوتی ہیں کہ مریض کو انفیکشن اور دوسری بیماریوں سے بچائو کا سامان مہیّا کر رہی ہوتی ہیں۔

اللہ تعالیٰ کے نزدیک عورت بھی ایک مقدّس اور قیمتی ہستی ہے، جسے اُس کا حجاب مزید وقار، افتخار اور اعتبار بخشتا ہے۔جب کہ تہذیبِ جدید نے اس فطری اصول سے بغاوت کر کے اور عورت کو محبّت و حفاظت کے حصاروں سے نکال کر آزادی، مساوات اور حقوق کے نام نہاد نعروں کے دھوکے میں ڈال کے شمعِ محفل اور’’Commercial Commodity‘‘ بنادیا ہے۔ 

عالمی استعماری طاقتوں نے اُمّتِ مسلمہ پر تہذیبی یلغار کرتے ہوئے اسلامی شعائر کو ہدف بنا رکھا ہے۔ جہاد، ناموسِ رسالتؐ، خاندانی نظام اور حجاب اُن کے خصوصی اہداف ہیں۔ ہر جگہ اُن شعائر کو، جو تہذیبِ اسلامی کی علامات ہیں، انتہا پسندی، قدامت پرستی اور دہشت گردی سے جوڑا جا رہا ہے۔

گزشتہ دنوں میرے ایک عزیز، عبد المنعم نے ریاستِ بھو پال کی حُکم راں، سلطان جہان بیگم کی ایک اہم کتاب’’Al Hijab Or Why Purdah Is Necessary‘‘ ارسال کی۔ اسے دیکھ کر پہلے تو بیگم صاحبہ سے متعلق معلومات حاصل کیں۔ پتا چلا اُنھوں نے بھوپال پر 1901 ء سے1926ء تک حُکم رانی کی اور اپنی حکومت میں خواتین کے مقام کو مستحکم کرنے کے لیے بڑے اقدامات کیے۔ اُن کی تعلیم پر زور دیا۔ محکمۂ صحت، خصوصاً ویکسی نیشن اور نکاسیٔ آب کے نظام پر توجّہ مرکوز رکھی۔ 

وہ ایک ایسی خاتون تھیں، جنہیں بھوپال کی بیگمات میں ایک خاص اور نمایاں مقام حاصل تھا۔ وہ اُس زمانے میں بھی یورپ کے حُکم رانوں سے رابطے میں تھیں اور برطانوی شاہی خاندان سے ذاتی مراسم رکھتے ہوئے مغربی تہذیب سے پوری آگہی رکھتی تھیں۔ ان سب معاملات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے 1922ء میں اُنہوں نے حجاب پر یہ خُوب صُورت کتاب لکھی۔ آج کے دَور میں اس کے مندرجات پر تحقیق ہونی چاہیے کہ ایک خاتون اعلیٰ طرزِ حُکم رانی کے ساتھ، اپنی تہذیب و اقدار پر بھی کس طرح فخر کرتی ہے اور پردے کو کس طرح نظام کے لیے ضروری سمجھتی ہیں۔

امورِ مملکت کو عُمدہ طرز پر چلانے کے دوران اُنہیں حجاب کے ضمن میں کسی قسم کا کوئی مسئلہ پیش نہیں آیا، یہاں تک کہ وہ اس پر انگریزی میں ایک پوری کتاب تحریر کر دیتی ہیں اور کتاب کے ابتدائیے ہی میں اِس بات کی وضاحت کرتی ہیں کہ دورِ جدید میں پردے اور حجاب کو رجعت پسندی سمجھتے ہوئے یا تو جدید دَور کے چیلنجز کا سامنا نہیں کیا جا رہا اور یا اس سے بغاوت کرتے ہوئے اپنی اقدار سے بغاوت کی راہ اختیار کی جارہی ہے۔ نور مقدّم قتل کیس جیسے بہیمانہ اور وحشیانہ واقعات نے جہاں معاشرے کے بھیانک چہرے سے نقاب نوچ کر اُتار پھینکا ہے، وہیں اِس کتاب کی اہمیت کو بھی بڑھا دیا ہے۔ 

اِس کتاب کو ہماری دانش گاہوں میں تحقیق اور حکمتِ عملی کو ترتیب دینے کے لیے ضرور پڑھنا چاہیے، پھر یہ کہ اپنی تہذیب پر فخر وانبساط کے ساتھ عمل پیرا ہونے کے لیے اپنی مخالف قوّتوں کے مورچوں کی نشان دہی بھی بے حد ضروری ہے۔ ہماری عورتوں کو لبرل ازم، فیمینزم، آزادی، مساوات اور حقوقِ نسواں کے دل فریب نعروں کے ذریعے اپنی اقدار سے بغاوت پر آمادہ کیا جا رہا ہے۔’’ اسلامک فیمینزم‘‘جیسی نت نئی اصطلاحات پر کام کیا جا رہا ہے۔

گزشتہ دنوں اسلامی نظریاتی کاؤنسل، پاکستان کے سابق چیئرمین، پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایاز نے ایک بہت ہی اہم معاملے کی طرف توجّہ دلائی کہ ہم نے نوجوان نسل کو تعلیمی اداروں میں ہر طرح کے مواقع فراہم کردیئے ہیں، مگر اُن کی اخلاقی تربیت اور کردار سازی کی طرف سے مسلسل غفلت برت رہے ہیں، جس کے اثرات بہت بھیانک ہوں گے اور ہم یونی ورسٹیز کے کیمپسز میں اس بے حجابانہ طرزِ زندگی کا بھیانک انجام دیکھ بھی رہے ہیں۔تہذیبوں کی موجودہ کش مکش میں مغرب کی غالب تہذیب نے عورت کے وجود کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔ 

کھربوں ڈالرز کی انڈسٹری اس کے وجود سے وابستہ ہے اور حجاب کی تہذیب اس کھربوں ڈالر کی انڈسٹری کو پاؤں کی ٹھوکر پر رکھتی ہے۔ 1996ء میں’’ انٹرنیشنل مسلم ویمن یونین‘‘ کے قیام کے وقت پاکستان سے مَیں اور تُرکی سے مروہ قواقچی اس کی بنیادی رُکن بنیں۔ 1999ء میں جب وہ ترکی کی پارلیمنٹ کی رُکن منتخب ہوئیں اور اپنے سر کو اسکارف میں لپیٹ کر ایوان میں داخل ہوئیں، تو سیکیولر تُرکی میں ایک بھونچال آگیا اور بلند ایجوت کی حکومت نے اُن پر ایوان کے دروازے بند کردیئے۔ سیکیولر حکومت مشتعل ہوئی اور مروہ کی پارلیمنٹ کی رکنیت تو کیا، تُرک شہریت بھی ختم کردی اور اسے جلاوطن کردیا گیا۔ تاہم، مروہ نے ہمارے ساتھ IMWUمیں کام جاری رکھا اور امریکا میں سیاسی پناہ لے لی۔ 

قدرت نے بھی مروہ کی قربانیوں کا خُوب صُورت انعام ایک بہت ہی لائق فائق بیٹی، فاطمہ ابو شناب کی صُورت میں دیا، جس نے جارج واشنگٹن یونی ورسٹی سے فارغ التحصیل ہو کر اسکارف کو اپنا اعزاز بنایا اور آج کل ایوانِ صدر ہی میں کام کر رہی ہے۔ مروہ، ملائیشیا جیسے اہم مُلک میں تُرکی کی سفیر کے طور پر ذمّے داری ادا کرتی رہی ہیں۔ کچھ سال پہلے مَیں اقوامِ متحدہ کے اجلاس میں شرکت کے لیے اُس کی بلڈنگ کے باہر سفید برقعے میں ملبوس کھڑی تھی، تو ایک شخص آیا اور بڑے احترام سے سینے پر کراس کا نشان لگا کر کھڑا ہوگیا کہ آپ کا لباس بالکل Mother Mary جیسا لگ رہا ہے۔

آئیں! اِس بار’’عالمی یومِ حجاب‘‘ کو اِس عزم کے ساتھ منائیں کہ حجاب کو صرف ایک، ڈیڑھ گز کا ٹکڑا نہیں سمجھنا، نہ ہی اسے صرف عورت سے وابستہ کرنا ہے اور نہ ہی اسے صرف لباس تک محدود رکھنا ہے۔ قرآن و سنّت میں حجاب کے احکام کا آغاز مَردوں سے مخاطب ہو کر ہوتا ہے۔ حجاب ایک مکمل تہذیب ہے۔ 

اِسے خاندان، معاشرے اور ریاست میں محبّت، احترام، وقار، ایثار، قربانی اور حفاظت کے رویّوں سے پروان چڑھانا ہے۔ 4ستمبر2004ء کو نقاب پر پابندی پر احتجاج کے لیے یہ دن منانا شروع کیا گیا، مگر آج ہمارے معاشرے میں بڑھتی درندگی نے اِس دن کی اہمیت کئی گُنا بڑھا دی ہے۔ آئیں! اپنے معاشرے کو ہر قسم کے تعصّبات، وحشت و سفاکیت سے محفوظ کرکے اپنے لوگوں کو حقوق اور شعور کی آگہی دیں۔ 

معاشرے کو محفوظ بنائیں، حجاب کو انقلاب کا استعارہ بنا کر رویّوں، اخلاق اور کردار میں تبدیلی لاکر اسے تہذیب کی علامت بنا دیں۔حجاب کی تاریخ، مذہب کی تاریخ ہے، کیوں کہ جب سے مذہب کی شروعات ہوئی ہے، تہذیب کا آغاز ہوا، بس تبھی سے حجاب شروع ہوا۔ ہر مذہب میں حجاب کا انداز الگ رہا ہے، لیکن مقصد ایک ہے۔ آج بھی جہاں مذہب ہے، وہاں حجاب ہے، جہاں حجاب ہے، وہاں تہذیب ہے۔ مطلب حجاب، تہذیب ہے اور تہذیب ہے حجاب۔ یہ حجاب، اب عالم میں انقلاب کا استعارہ بن چُکا ہے۔

پہلے اسے پس ماندگی کی علامت سمجھا جاتا تھا، مگر اب اسے انقلاب اور تبدیلی کی لہروں میں ہر جگہ دیکھا جاسکتا ہے۔ انقلاب کے اس سفر میں حجاب کی بہار بھی ہر طرف آگئی ہے۔ اس یومِ حجاب پر معاشرے کے محروم طبقات کو، جن میں خواجہ سرا بھی شامل ہیں، عزّت و وقار فراہم کرنا ہمارا مشن ہے۔ تو کیا آپ اس مشن میں ہمارا ساتھ دیں گے…؟؟اِس دنیا میں، جو Symbolism کی دنیا بنتی جا رہی ہے، ہمارا یہ خُوب صُورت حجاب ہی ہماری شناخت اور انفرادیت کا نشان ہے، جب کہ بے حجابی کسی اجنبی تہذیب کی شناخت ہے۔

دشمن چاہتا ہے، ہم سے ہمارا تعارف، ہمارا فخر اور ہماری شناخت چھین لے، تو کیا ہم کسی اجنبی تہذیب کے عَلم برداروں کو اپنی شناخت چھین لینے کی اجازت دیں گی…؟؟ ہرگز نہیں، کبھی بھی نہیں۔ تقریباً دو عشرے ہونے کو ہیں۔ ہمارا حجاب کا یہ سفر دن بدن منزل سے قریب تر ہوتا جا رہا ہے۔ ہر طرف باحجاب چہروں کی بہار، رُوح کو ایمان کی حلاوت سے آشنا کرتی جا رہی ہے، مگر شیطانی قوّتیں بھی میڈیا کے ذریعے یلغار جاری رکھے ہوئے ہیں۔ سو، ہم تمام مقتدر قوّتوں اور میڈیا مالکان و کارکنان سے درخواست کرتے ہیں کہ اپنی آنے والی نسلوں کی کردار سازی، اخلاق کی تعمیر اور اپنے خاندانوں کے تحفّظ کے لیے ہمارا ساتھ دیں اور اس نعرے کو معاشرے میں ہرطرف پھیلا دیں۔’’ تہذیب ہے حجاب۔‘‘

HAYA AND HIJAB

FAITH AND FAMILY

٭…٭…٭

شہیدۂ حجاب، مروہ الشربینی …رہتی دنیا تک کے لیے مثال

شہیدۂ حجاب، مروہ الشربینی مغرب کے انتہا پسند رجحانات اور مسلمانوں کی مظلومیت کی بے شمار مثالوں میں سے ایک مثال ہیں۔ یہ باحیا خاتون، مصر کے شہر اسکندریہ میں7 ستمبر1977ء کو پیدا ہوئیں۔ شادی کے بعد اپنے خاوند کے ساتھ جرمنی چلی گئیں۔ مروہ اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون تھیں اور فارمیسی میں ڈگری حاصل کر رکھی تھی۔ روس سے جرمنی میں آکر آباد ہونے والے ایک انتہا پسند الیکس وینز (Alex Wiens) نے انہیں سرِ بازار حجاب میں دیکھا، تو گالیاں دیں۔ لوگوں نے اُسے منع کیا، تو وہ اُنھیں بھی گالیاں دینے لگا۔

مروہ اور اُن کے خاوند، علوی علی نے یہ معاملہ عدالت میں اُٹھایا۔یکم جولائی 2009ء کو عدالت کے اندر دورانِ سماعت اُس نسل پرست نے مروہ پر چاقو سے حملہ کر دیا اور جب شوہر دفاع کے لیے آگے بڑھے، تو مروہ کے پیٹ میں چاقو گھونپ دیا۔ اِس دَوران جج نے خطرے کی گھنٹی بجائی، جس پر پولیس نے اندر آکر فائر کیا، تو وہ مجرم کی بجائے علوی علی کو جالگا۔ مروہ تو موقعے پر شہید ہوگئیں، جب کہ اُن کے خاوند شدید زخمی ہوگئے۔ 

پولیس نے حملہ آور کو پکڑ لیا۔ اُس کے خلاف قتل اور اقدامِ قتل کا کیس چلا، جس کے دوران ثابت ہوگیا کہ اُس پر لگائی گئی فردِ جرم درست ہے، لہٰذا عدالت نے اُسے عُمر قید کی سزا سنائی۔ بہرکیف، 31سال کی عُمر میں جامِ شہادت نوش کرنے والی بنتِ اسلام، مروہ الشربینی ہر مسلمان فرد اور گھرانے کے لیے رہتی دنیا تک بہترین مثال ہیں۔

یومِ حجاب اور جنگ گروپ…20 برس کا ساتھ

دو دہائیاں گزر چُکیں، یعنی پورے 20برس، جب اسلامو فوبیا کی وبا یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے رہی تھی۔ ستمبر2003ء میں فرانس میں نقاب پر پابندی کا بِل منظور ہو چُکا تھا۔ ایسے میں دنیا بَھر کے علماء لندن کے میئر، لونگ اسٹون کی میزبانی میں وہاں اکٹھے ہوئے، جن کی قیادت علّامہ یوسف القرضاوی کر رہے تھے۔ اِس اجلاس میں عالمی سطح پر پہلا’’یومِ حجاب‘‘ 4 ستمبر 2004ء کو منانے کا اعلان کیا گیا۔ 

پاکستان میں جماعتِ اسلامی نے اِس دن کو پورے وقار کے ساتھ منانے کا آغاز کیا اور اس ضمن میں میڈیا نے بھی بھرپور ساتھ دیا۔جنگ گروپ اور اس کے قابلِ احترام سربراہ، میر شکیل الرحمٰن سے میرے والد، قاضی حسین احمد کے بہت قریبی روابط تھے۔ 

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ وہ کچھ دیگر میڈیا مالکان کے ساتھ اُنہیں بھی فون کرتے اور’’عالمی یومِ حجاب‘‘ کی جانب متوجّہ کرتے کہ یہ ہماری شناخت اور تہذیبی علامت ہے اور جواباً جنگ گروپ نے ہمیشہ’’عالمی یومِ حجاب‘‘ کی مکمل سرپرستی کی، جس کے لیے ادارہ اور اس کے کارکنان دعاؤں کے مستحق ہیں۔ اُمید ہے، ادارہ آیندہ بھی اِن دینی و اخلاقی روایات کو آگے بڑھانے میں اپنا فعال کردار ادا کرتا رہے گا۔

سنڈے میگزین سے مزید