خورشید عالم داؤد قاسمی
دروغ گوئی، کذب و افترا، لوگوں میں بے بنیاد باتیں پھیلانے یا افواہوں کا بازار گرم کرنے سے فوائد تو کچھ حاصل نہیں ہوتے۔ ہاں البتہ، یہ عمل خواہ جان بوجھ کر انجام دیا جائے یا اَن جانے میں، کتنے ہی لوگوں کو ایک دوسرے سے بدگمان و بدظن ضرور کر دیتا ہے۔ لڑائی، جھگڑے، دنگے فساد کا باعث بنتا ہے، تو کبھی کبھی خون خرابے کا بھی سبب بن جاتا ہے۔
یہاں تک کہ بسا اوقات پورے معاشرے کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیتا ہے۔یہ بات طے ہے کہ انسان اپنے منہ سے جو بھی بات نکالتا ہے، اللہ تعالیٰ کے فرشتے اُسے لفظ بہ لفظ نوٹ کرتے رہتے ہیں اور پھر اُسے اُس کے ان ہی افکار و اعمال کے مطابق قیامت کے دن جزا و سزا دی جائے گی۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ترجمہ:’’وہ کوئی لفظ منہ سے نہیں نکالنے پاتا، مگر اُس کے پاس ہی ایک تاک لگانے والا تیار ہے۔‘‘ (سورۂ ق، آیت: 18) یعنی انسان جب بھی کوئی لفظ اپنی زبان سے نکالتا ہے، تو اُسے اُس کے نگراں فرشتے محفوظ کر لیتے ہیں۔ یہ فرشتے اُس کی گفتگو کا ایک ایک لفظ لکھتے ہیں، خواہ اُس میں کوئی گناہ یا ثواب اور خیر و شر ہو یا نہ ہو۔
امام احمد بن حنبلؒ نے بلال بن حارث مزنیؓ سے روایت نقل کی ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا۔ ’’انسان بعض اوقات کوئی کلمۂ خیر کہتا ہے، جس سے اللہ تعالیٰ راضی ہوتا ہے۔وہ تو اُسے معمولی بات سمجھ کر بیان کرتا ہے اور اُسے پتا بھی نہیں ہوتا کہ اُس کا ثواب کہاں تک پہنچا۔ مگر اللہ تعالیٰ اُس کے لیے اپنی رضائے دائمی قیامت تک کے لیے لکھ دیتا ہے۔ اِسی طرح انسان کوئی کلمہ اللہ کی ناراضی کا(معمولی سمجھ کر) زبان سے نکالتا ہے اور اُسے گمان تک نہیں ہوتا کہ اُس کا گناہ و وبال کہاں تک پہنچے گا؟ مگر اللہ تعالیٰ اُس کی وجہ سے اُس شخص سے اپنی دائمی ناراضی قیامت تک کے لیے لکھ دیتا ہے۔‘‘ (ابنِ کثیر، تلخیص، از معارف القرآن، ج: 8، ص: 143)
دروغ گوئی کوئی معمولی گناہ نہیں، یہ گناہِ کبیرہ ہے۔قرآنِ کریم میں جھوٹ بولنے والوں پر اللہ کی لعنت کی گئی ہے۔ ارشادِ ربّانی ہے۔’’لعنت کریں اللہ کی اُن پر جو کہ جھوٹے ہیں۔‘‘(سورۂ آلِ عمران،آیت: 61) اِسی طرح احادیثِ مبارکہؐ میں بھی اِس بدترین گناہ کی قباحت وشناعت واضح طور پر بیان کی گئی ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ’’ جھوٹ اور ایمان جمع نہیں ہوسکتے۔‘‘، لہٰذا اللہ کے رسول ﷺ نے جھوٹ کو ایمان کے منافی عمل قرار دیا ہے۔
اس ضمن میں حدیث ملاحظہ فرمائیے۔’’حضرت صفوان بن سلیم ؓ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ سے پوچھا گیا۔’’ کیا مومن بزدل ہوسکتا ہے؟‘‘ آپ ﷺ نے جواب دیا۔’’ہاں۔‘‘ پھر سوال کیا گیا۔’’ کیا مسلمان بخیل ہوسکتا ہے؟‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا۔’’ہاں۔‘‘ پھر عرض کیا گیا۔’’کیا مسلمان جھوٹا ہوسکتا ہے؟‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا۔’’ نہیں(صاحبِ ایمان جھوٹ نہیں بول سکتا)۔‘‘(مؤطا امام مالک)۔ ایک اور حدیث شریف میں جن چار خصلتوں کو رسول اللہ ﷺ نے نفاق کی علامت قرار دیا، اُن میں ایک جھوٹ بولنا بھی ہے، لہٰذا جو شخص جھوٹ بولتا ہے، وہ خصلتِ نفاق سے متصّف ہے۔
نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا۔ ’’جس میں چار خصلتیں ہوں گی، وہ خالص منافق ہے اور جس شخص میں اِن خصلتوں میں سے کوئی ایک خصلت پائی جائے، تو اُس میں نفاق کی ایک خصلت ہے، تا آں کہ وہ اسے چھوڑدے۔ (1) جب اُس کے پاس امانت رکھی جائے، تو خیانت کرے۔(2) جب بات کرے، تو جھوٹ بولے۔(3) جب وعدہ کرے، تو دھوکا دے اور(4) جب لڑائی جھگڑا کرے، تو گالم گلوچ کرے۔‘‘(صحیح بخاری، حدیث: 34)
ایک اور حدیثِ مبارکہؐ میں آیا ہے کہ’’ جب بندہ جھوٹ بولتا ہے، تو رحمت کے فرشتے اُس سے ایک میل دُور ہوجاتے ہیں اور جب آدمی جھوٹ بولتا ہے، تو اُس سے جو بُو آتی ہے، اُس کی وجہ سے فرشتہ اُس سے ایک میل دُور چلا جاتا ہے۔‘‘ (سنن ترمذی: 1972) اِس حدیثِ مبارکہؐ سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جھوٹ کس قدر بُرا اور قبیح فعل ہے، مگر ہم اپنے گردو پیش نظر دوڑائیں، تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ ہمارے یہاں اکثریت دروغ گوئی کو گناہ ہی تصوّر نہیں کرتی۔
سیاست میں تو جھوٹ اِس قدر عام ہے کہ اس کے بغیر سیاست کا دال دلیہ ہی نہیں چل سکتا۔ ہر طرح کے کاروبار میں جھوٹ کا سہارا لیا جاتا ہے، لوگوں کو دھڑلّے سے دھوکا دیا جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ جب ہمارا یہ عمومی چال چلن، طرزِ زندگی ہوگا، تو ہمارے معاملات سے برکتیں تو خود بہ خود اُٹھ جائیں گی۔ پھر ہم کہتے ہیں کہ ہماری دُعائیں قبول نہیں ہوتیں، تو بھلا دعائیں کیسے قبول ہوں؟ جب کھانا حرام، پینا حرام، لباس حرام، کاروبار سود کی بنیاد پر، بات بات میں جھوٹ، ایک دوسرے کی چغلیاں، غیبتیں، فراڈ، دھوکا دہی، گالم گلوچ، بلا وجہ لعن طعن اور طرّہ یہ کہ ان سب گناہوں کی ہماری نظر میں کوئی حیثیت ہی نہیں۔ حالاں کہ ایک آئے گا، جب یہی گناہ پہاڑ بن جائیں گے۔
دیکھا جائے تو بیش تر گناہوں کا ایک بڑا سبب ہماری چھوٹی سی زبان ہے۔اگر انسان اسے قابو میں رکھے، تو بے شمار گھریلو، نجی پریشانیوں اور معاشرتی مصائب و الم سے نکل آئے گا۔سیّدنا فاروقِ اعظمؓ ایک دن حضرت ابو بکر صدیقؓ کے پاس گئے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ اپنی زبان پکڑ کر کھینچ رہے ہیں۔
حضرت عُمرؓ نے عرض کیا۔’’ اللہ تعالیٰ آپ کی مغفرت فرمائے، یہ کیا ماجرا ہے‘‘؟تو حضرت ابو بکر صدیقؓ فرمانے لگے’’ اِسی زبان نے مجھے مصیبتوں میں ڈالا ہے۔‘‘اسلام کے وہ سچّے محافظ، جن کا اُٹھنا بیٹھنا، سونا جاگنا اور روز مرّہ زندگی کے تمام تر معاملات اسلامی تعلیمات کے مطابق تھے، جن کے بارے میں قرآنِ پاک نے فیصلہ کر دیا کہ’’صحابہ، اللہ سے راضی اور اللہ اُن سے راضی۔‘‘کیا ہم اُن سے متعلق سوچ سکتے ہیں کہ وہ زبان کا غلط استعمال کرتے ہوں گے؟ یقیناً نہیں، لیکن پھر بھی آخرت کا ڈر اور خوف اُن کے دِلوں میں اِس قدر جاگزیں ہو چُکا تھا کہ وہ ہر وقت اپنے محاسبے میں لگے رہتے تھے۔
جامع ترمذی میں حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔’’صبح کے وقت ابنِ آدم کے تمام اعضاء زبان کے سامنے ہاتھ جوڑ کر اُس کی منّت کرتے ہیں کہ تُو ہمارے بارے میں اللہ سے ڈر، ہمارا تعلق و وابستگی تجھ سے ہے، تُو اگر سارا دن سیدھی رہی، تو ہم سیدھے رہیں گے اور تُو اگر ٹیڑھی ہو گئی، تو ہم سب ٹیڑھے ہو جائیں گے۔‘‘ایک حدیث میں پیارے نبی ﷺ نے جھوٹ کو فسق و فجور اور گناہ کی طرف لے جانے والی بات شمار کیا ہے اور حدیثِ مبارکہؐ کے الفاظ ہیں۔’’یقیناً جھوٹ، بُرائی کی رہنمائی کرتا ہے اور بُرائی جہنّم میں لے جاتی ہے اور آدمی جھوٹ بولتا رہتا ہے، تا آں کہ اللہ کے یہاں وہ’’کذّاب‘‘ (بہت زیادہ جھوٹ بولنے والا) لکھا جاتا ہے۔‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 6094)
رسولِ اکرم ﷺ نے ایک اور حدیثِ مبارکہؐ میں جھوٹ بولنے کو’’ بڑی خیانت‘‘ قرار دیا ہے اور خیانت تو خود ہی ایک گناہ اور ناپسندیدہ عمل ہے، تو پھر اس کا بڑا ہونا کس قدر گناہ کی بات ہوگی۔ اِسی طرح آپﷺ نے ارشاد فرمایا۔’’یہ ایک بڑی خیانت ہے کہ تم اپنے بھائی سے ایسی بات بیان کرو، جس حوالے سے وہ تمہیں سچّا سمجھتا ہے، حالاں کہ تم اُس سے جھوٹ بول رہے ہو۔‘‘ (سنن ابو داؤد، حدیث: 4971) ایک اور حدیث شریف میں نبی کریم ﷺ نے جھوٹ کو کبیرہ گناہوں میں بھی بڑا گناہ شمار کیا ہے۔
حضرت ابوبکرؓ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا۔’’کیا مَیں تمہیں وہ گناہ نہ بتاؤں، جو کبیرہ گناہوں میں بھی بڑے ہیں؟‘‘ اور آپﷺ نے یہ بات تین بار فرمائی۔ صحابۂ کرامؓ نے عرض کیا۔’’جی ہاں! اے اللہ کے رسولﷺ۔‘‘ پھر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا۔’’اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا اور والدین کی نافرمانی کرنا۔‘‘ پھر آپ ﷺ بیٹھ گئے، جب کہ آپ ﷺ (تکیے پر) ٹیک لگائے ہوئے تھے، پھر فرمایا۔’’خبردار! اور جھوٹ بولنا بھی (کبیرہ گناہوں میں بڑا گناہ ہے)۔‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 2654)امام حجر’’ فتح الباری‘‘ میں اِس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ’’ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے اس کا اس قدر اہتمام کیا کہ اسے بیان کرتے وقت ٹیک چھوڑ کر بیٹھ گئے۔
یہ طرزِ عمل اس گناہ کی شدید حرمت اور اس برائی کی سنگینی کو نمایاں کرتا ہے۔‘‘ یاد رکھیں، صرف یہی نہیں کہ ایسا جھوٹ، جس میں فساد و بگاڑ ہو اور ایک آدمی پر اُس جھوٹ سے ظلم ہو رہا ہو، وہی ممنوع ہے، بلکہ لُطف اندوزی اور ہنسنے ہنسانے کے لیے جھوٹ بولنا بھی ممنوع ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا۔’’وہ شخص برباد ہو، جو ایسی بات بیان کرتا ہے تاکہ اُس سے لوگ ہنسیں، لہٰذا وہ جھوٹ تک بول جاتا ہے، ایسے شخص کے لیے بربادی ہو، ایسے شخص کے لیے بربادی ہو۔‘‘ (سنن ترمذی، حدیث: 2315)
شریعتِ مطہرہ میں دروغ گوئی، اکبر الکبائر(کبیرہ گناہوں میں بھی بڑا گناہ) اور حرام ہے، جیسا کہ قرآن وحدیث کی تعلیمات سے ثابت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔’’پس جھوٹ، افتراء کرنے والے تو یہی لوگ ہیں، جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتے اور یہ لوگ ہیں پورے جھوٹے۔‘‘ (سورۃ النحل،آیت: 105)۔
ایک اور ارشادِ خداوندی ہے۔’’اور جن چیزوں کے بارے میں محض تمہارا جھوٹا زبانی دعویٰ ہے، اُن کی نسبت یوں مت کہہ دیا کرو کہ فلاں چیز حلال ہے اور فلاں چیز حرام ہے، جس کا حاصل یہ ہوگا کہ اللہ پر جھوٹی تہمت لگا دو گے۔ بلاشبہ، جو لوگ اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں، وہ فلاح نہ پائیں گے۔‘‘ (سورۃ النحل،آیت: 116)۔ سچ تو یہ ہے کہ جھوٹ نہ صرف کبیرہ گناہوں میں شامل ہے۔
دنیا و آخرت میں سخت نقصان اور محرومی کا سبب ہے۔ اللہ ربّ العالمین اور نبی کریم ﷺ کی ناراضی کا باعث ہے۔ بلکہ یہ ایک ایسی بیماری ہے، جو دوسری بیماریوں کے مقابلے میں بہت عام ہے۔ لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں پر بلاوجہ ہنسی مذاق میں جھوٹ بولتے ہیں اور اِس بات کی پروا تک نہیں کرتے کہ اِس جھوٹ سے اُنھوں نے کیا پایا اور کیا کھویا؟حالاں کہ جب لوگوں کو کسی جھوٹے شخص کی پہچان ہوجاتی ہے، تو وہ اُسے بالکل خاطر میں نہیں لاتے۔ایک جھوٹا شخص کبھی حقیقی پریشانی میں بھی ہو، تب بھی سُننے والے اُس کی بات پر بالکل یقین واعتماد نہیں کرتے۔
درحقیقت یہ ایک ایسی بیماری ہے، جو پورے معاشرے میں بگاڑ پیدا کرتی ہے۔ لوگوں کے درمیان لڑائی، جھگڑے کا سبب بنتی ہے۔ناچاقیاں بڑھاتی ہے۔اور عداوت و دشمنیاں پروان چڑھاتی ہے۔ زیادہ تر اخلاقی اور سماجی برائیوں کی جڑ’’ جھوٹ‘‘ ہی ہے، افواہیں اِسی سے جنم لیتی ہیں، غیبت اور چغل خوری کے تانے بانے بھی اِسی سے جڑے ہوئے ہیں، تہمت تراشی اور الزام سازی بھی جھوٹ ہی کی مروّجے شکل ہے، نفاق جیسی مہلک روحانی بیماری بھی جھوٹ ہی سے پیدا ہوتی ہے، غرض ہماری معاشرتی زندگی کے بیش تر مسائل جھوٹ کی لعنت سے پیدا ہوتے ہیں، لہٰذا اگر جھوٹ کو معاشرے سے ختم کردیا جائے، تو مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کے بہت سے مسائل از خود ختم ہو جائیں گے۔
قصّہ مختصر، اگر ہم ایک صالح معاشرے کا فرد بننا چاہتے ہیں، تو ہماری ذمّے داری ہے کہ لوگوں کو دروغ گوئی کے نقصانات سے آگاہ اور باخبر کریں۔ جھوٹے لوگوں کی کسی بات پر بھروسا نہ کریں۔ کسی بھی بات کی تحقیق کے بغیر اس پر ردّ ِعمل نہ دیں۔ اگر کوئی شخص آپ سے کوئی بات شئیر کرتا ہے، تو اُس سے اُس بات کے ثبوت کا مطالبہ کریں۔ اگر وہ ثبوت پیش نہیں کر پاتا، تو اُس کی بات پر کوئی توجّہ نہ دیں اور اُسے دھتکاریں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں۔’’نبی اکرمﷺ کو جھوٹ سے زیادہ کوئی عادت ناپسند نہیں تھی، چناں چہ آپ ﷺ کو اگر کسی کے حوالے سے یہ معلوم ہوجاتا کہ وہ دروغ گو ہے، تو آپﷺ کے دل میں کدورت بیٹھ جاتی اور اُس وقت تک آپ ﷺ کا دل صاف نہ ہوتا، جب تک یہ معلوم نہ ہوجاتا کہ اُس نے اللہ سے اپنے گناہ کی نئے سرے سے توبہ کرلی ہے۔‘‘ (مسند احمد، بحوالہ احیاء العلوم،ج: 3، ص: 209)