• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نظامِ تعلیم کی تشکیل و مرمت: قرآن و سنت سے راہ نمائی کی اشد ضرورت ہے

مدینۂ منوّرہ میں تحریکِ اسلام کو آزاد ماحول میسّر آیا، تو معلّمِ کتاب و حکمت ؐ نے سب سے پہلے تعلیم و تربیت کے مسئلے کو مستقل اور پائیدار بنیادوں پر حل کرنے کی طرف توجّہ دی۔ آپؐ کی پیغمبرانہ حکمت و بصیرت کے تحت فیصلہ یہ ہوا کہ تعلیم و تربیت کا مرکز ایسا ہونا چاہیے، جہاں ہرروز مقررہ اوقات میں مسلمانوں کا اجتماع ہو اور اس اجتماع کی حیثیت گویا فرض و وجوب کی ہو۔ 

چناں چہ اس مقصد کے لیے آپ ؐ نے مسجد کا انتخاب کیا۔ اس اعتبار سے مسجدِ نبویؐ اسلام کا پہلا مرکز ِتعلیم و تربیت ہے، جس کے لیے آج کی زبان میں جامعہ یا یونی ورسٹی کی تعبیر اختیار کی جاسکتی ہے۔ اس کا نصاب و نظامِ تعلیم و تربیت کیا تھا اور اس کے ذریعے آپؐ نے تعلیمی و تربیتی مسئلے کو کیسے مستقل بنیادوں پر حل کیا؟ اس کا جواب قرآن مجید نے ہر زمان و مکان کے انسان کی رُشد و ہدایت کے لیے اپنے اندر محفوظ کرلیا اور وہ یہ ہے۔

(ترجمہ) ’’جس طرح (مِن جملہ اور نعمتوں کے) ہم نے تم میں تم ہی میں سے ایک رسول ؐ بھیجا ہے، جو تمہیں ہماری آیات پڑھ پڑھ کر سُناتا، تمہارا تزکیہ کرتا، تمہیں الکتاب (قرآن) اور حکمت سِکھاتا اور تمہیں اُن باتوں کی تعلیم دیتا ہے، جن کا تمہیں علم نہ تھا۔‘‘اس سے معلوم ہوا کہ اس پہلی اسلامی یونی ورسٹی (صفّہ) کا نصاب، اصولی طور پر یہ تھا:٭قرأتِ قرآن ٭تزکیہ، ٭تعلیمِ کتاب ٭تعلیمِ حکمت اور علومِ نوکی تعلیم۔

مسلمانوں کی ایک جماعت، جنہوں نے اپنی کُل زندگی تحریکِ اسلام کے لیے وقف کردی تھی، تعلیم و تربیت کے حصول کے لیے اس میں اقامت گزیں ہوگئی، انہیں ’’اصحابِ صفّہ‘‘ کہتے تھے۔ اس اعتبار سے اگر مسجد نبویؐ کی اس درس گاہ کو عصرِ حاضر کی اقامتی اور کُھلی درس گاہوں کا پیش خیمہ کہا جائے، تو بے جا نہ ہوگا۔ 

یہاں جو تعلیم دی جاتی تھی، وہ اسلام کی ابتدائی تعلیم تھی، اس کے متعدد شعبے، متعدد لوگوں کے سپرد تھے، کسی کے سپرد یہ کام تھا کہ وہ لکھنا پڑھنا سکھائے، کسی کے سپرد یہ تھا کہ جو لکھنا پڑھنا سیکھ چکے ہیں، انہیں اُس وقت تک کی نازل شدہ سورتیں سکھائیں۔

دورِ رسالت میں فروغِ علم اور تعلیم کی بنیادی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ انتہائی تنگ دستی اور غربت کے عالم میں زندگی بسر کرنے والے مسلمانوں نے بھی حصولِ علم کو فوقیت دی اور اس شعبے میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔ تعلیمی وسائل سے محروم یہی مسلمان چند برسوں میں اتنا ممتاز مقام حاصل کر گئے کہ جہاں جہاں اُن کے قدم پہنچے، وہاں تعلیم و تربیت کے اعلیٰ مراکز قائم ہوگئے۔ 

حضورِ انورﷺکے وصال کے فوراً بعد ہی مسندِ درس و ارشاد قائم ہوچکی تھیں، جنہیں تعلیمی اعتبار سے مراکزِ فضیلت سمجھا جاتا تھا۔ یہ مراکز مختلف شہروں میں قائم تھے۔ چناں چہ وصالِ نبویؐ کے بعد خلافتِ راشدہ میں فتوحات کا دائرہ وسیع ہوا، تو نئے نئے مفتوحہ علاقوں میں جہاں دیگر کبار صحابہؓ نے اقامت اختیار کی، ان میں ’’اصحابِ صفّہؓ‘‘ کا کردار بھی قابلِ ذکر اہمیت رکھتا ہے۔ بلادِ اسلامی میں اقامت گزیں صحابہؓ نے امارت، قضاء، تعلیم، جہاد اور علومِ نبویؐ کی تعلیم و تبلیغ میں قابلِ ذکر خدمات انجام دیں۔ 

ابو حاتم رازی ’’کتاب الجرح والتّعدیل‘‘ کے مقدمے میں لکھتے ہیں: حضرات صحابہؓ عالمِ اسلام کے اطراف و نواحی، بلاد و امصار میں پھیل گئے، اور ان میں سے ہر ایک نے رسول اللہﷺ سے جو کچھ سُنا، دیکھا اور یاد کیا تھا، سب عام کردیا۔ عہدِ نبویؐ کی اس مثالی اور تاریخی درس گاہ کو اسلامی تاریخ میں مدارس و جامعات اور دینی اداروں کے رہنما کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ 

اسلام کی ساڑھے چودہ سو سالہ تاریخ میں علیٰ منہاج النّبوہ قائم کیے گئے مدارس، دینی اداروں اور جامعات کے تعلیمی نظام میں ان بیش تر اصولوں اور خصوصیات کو بنیاد بنایا گیا، جو تاریخِ اسلام کی اس تاریخی درس گاہ کا طرہ ٔ امتیاز تھیں۔ اسلام کے تمدن کی پہلی اینٹ مکّے میں رکھی گئی، سب سے پہلا مدرسہ مکّے میں کوہِ صفا پر ’’دارِ ارقم‘‘ میں بنا، اس میں قرآنِ مجید کی آیات اور سورتوں کا نزول ہوا۔ اسی درس گاہ میں رسالت مآبﷺ نے صحابہؓ کو اسلام کی دعوت و قرآن کی تعلیم دی۔ 

افراد کی سیرت وکردار کو اسلام کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے قرآن کی تفہیم کو ذہنوں میں اُتارا، جس نے شعور کو بے دار کیا۔ مکّے کے بعد اسلام کے تمدّن کا آغاز مدینۂ منوّرہ سے ہوا۔ یہ شہر سب سے پہلے اسلام میں عوامی تعلیم کا مرکز بنا۔ مسجدِ نبویؐ کو اسلام کی پہلی درس گاہ بننے کا شرف حاصل ہوا، پھر مدینے کی نو مساجد میں تعلیم کا سلسلہ جاری ہوا۔ مدینے سے علوم کی سوتیں پُھوٹیں، یہی شہر مرکز ِ علم بنا اور ’’دارالسّنہ‘‘ کے لقب سے ممتاز ہوا۔

مذکورہ بالا اصول کے مطابق اسلامی عہد میں جو شہر تمدّنی حیثیت سے ممتاز وفائق رہے، وہ تعلیم کے مراکز بھی رہے، چناں چہ عہدِ صحابہؓ میں مدینۂ منوّرہ کو سب سے پہلے ’’مدینۃ العلم‘‘کا لقب ملا، پھر حجاز، مرکز ِ علم قرار پایا۔ دورِ مرتضویؓ میں مرکز ِ خلافت جب عراق منتقل ہوا، تو یہ شرف کوفہ وبصرہ کو حاصل ہوا، اس کے بعد دورِ اموی میں جب دارالخلافہ سرزمینِ شام لے جایا گیا، تو مرکز ِ علم، دمشق بن گیا۔ 

زوالِ بنی اُمیّہ کے بعد مشرق میں دورِ عبّاسی میں بغداد کو مرکزی حیثیت حاصل ہوئی، تو بغداد، معدنِ علم بنا۔ پھر یہ فضیلت و امتیاز مصر و نیشا پور وغیرہ اور مغرب میں قیروان و قرطبہ کو حاصل ہوئے۔ ابنِ خلدون لکھتا ہے:’’بغداد، قرطبہ، قیروان، بصرہ، کوفہ کو دیکھو، جب یہاں اسلام کے ابتدائی زمانے میں تمدّن پھیلا اور عمرانی ترقی درجۂ کمال کو پہنچی، تو ان شہروں میں علم کے سمندر جوش مارنے لگے، یہاں کے باشندے تعلیمی اصطلاحات ومسائل کے استنباط میں تفننِ طبع دکھانے لگے اور متقدّمین سے بھی گوئے سبقت لے گئے، جب یہاں تمدّن کو زوال آیا اور حالت ابتر ہوئی، تو بساطِ علم اُلٹ گئی اور علم وتعلیم یہاں سے مفقود ہوکر دوسرے شہروں میں منتقل ہوگئے۔‘‘جب بغداد، بصرہ اور کوفہ جیسی علم کی کانیں مٹ گئیں، تو ان سے بڑے بڑے شہر آباد ہوئے اور علم کا مرکز عراق، عجم میں منتقل ہوکر خراسان وماوراء النّہر میں قائم ہوا، پھر قاہرہ میں منتقل ہوا۔ 

قاہرہ کی تمدّنی حیثیت چوں کہ مسلسل قائم رہی، اس بِنا پر یہ ہر زمانے میں علم کا مرکز رہا۔ عہدِ رسالت سے تعلیم کا آغاز ہوا، لیکن سو سال کی مختصر سی مدّت میں تعلیم کو ایسی ترقی ہوئی کہ فتوحاتِ اسلامی کا دائرہ جتنا وسیع ہوتا گیا، تعلیم کا دائرہ اس سے زیادہ وسیع تر ہوتا چلا گیا، چناں چہ علاّمہ ابنِ حزم لکھتے ہیں:’’جسے تاریخ کا تھوڑا سا علم ہے، وہ یقیناً یہ بات جانتا ہے کہ تابعین نے سندھ، خراسان، آرمینیا، آذربائی جان، موصل، دیارِ ربیعہ، دیار مصر، شام، افریقا، اندلس، حجاز، یمن، پورا جزیرۂ عرب، عراق، فارس، کرمان، سجستان کابل، طبرستان، جرجان، جبال میں اسلام پھیلاکر نور علم سے گوشے گوشے کو منور کردیا تھا۔‘‘

دورِ نبویؐ کے نظامِ تعلیم کی امتیازی خصوصیات

نبی اکرم ﷺ ملّتِ اسلامیہ کے سب سے پہلے معلّم ہیں۔ آپﷺ ہی نے پہلی منظّم تعلیم گاہ مدینۂ منورہ میں قائم فرمائی۔ اس مثالی ادارے نے اسلامی قلم رو میں تعلیم کی نہج قائم کی اور جو روایت اس میں پڑی، وہی ہماری تعلیمی روایت بن گئی اور وہ روایت یہ تھی۔(الف) اوّلین امردینی تعلیم۔ قرآن اور سنّتِ نبویؐ کو نصابِ تعلیم کا مرکز و محور ہونا چاہیے۔(ب) تعلیم کا مقصد (1) اچھا مسلمان اور داعی الی الحق بنانا، (2) اور مسلم معاشرے کی جملہ تعلیمی ضروریات کو پورا کرنا ہے۔(ج) رسولِ کریم ﷺ نے تعلیم اور مسجد کا تعلق قائم کیا۔ مسجد دینی محور، سیاسی مرکز اور تعلیم گاہ بنی اور اس کے ذریعے طلبہ ایک مخصوص ثقافتی ورثے کے امین بنے۔(د) متعلّمین کے لیے اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے خود محنت مزدوری کرنا، مختلف حرفتوں کو سیکھنا اور ان سے وابستہ ہونا اچھا اور پسندیدہ قرار پایا۔(ہ)تعلیم کی آخری ذمّے داری مسلمان معاشرے اور اسلامی ریاست پر عائد ہوتی ہے اور اسے اس مقصد کے لیے اپنے وسائل استعمال کرنے چاہئیں۔ مسلمانوں کی قومی آمدنی اور بیت المال پر اوّلین حق زیرِ تعلیم طلبا اور ان پر ہونے والے جملہ مصارف کا ہے۔ حضورِ اکرم ﷺکے زمانے میں یہ بنیاد پڑی اور ان ہی خطوط پر بعد میں ارتقا ہوا۔

معلّمِ انسانیت، رسول اکرم ﷺ نے انسانیت کو جو فلسفۂ تعلیم عطا فرمایا، وہ مغرب کے فلسفہ وتصوّرِ تعلیم سے قطعاً مختلف ہے، اس لیے کہ اسلام کے نزدیک انسان، تعلیم اور زندگی کا تصوّر مغرب کے تصوّرات سے قطعاً مختلف ہے۔ تعلیماتِ نبویؐ اور قرآنِ کریم کی تعلیمات کے مطابق، انسان درحقیقت دنیا میں اللہ تعالیٰ کا خلیفہ ہے، وہ جملہ مخلوق میں افضل و اعلیٰ ہے۔

حصولِ علم کو اسلام نے ہر مسلمان مرد و زن پر لازم قرار دیا ہے، یہ تعلیم فرضِ عین ہے۔ تعلیم وتربیت کا حصول اسوۂ نبویؐ کے مطابق کارِ عبادت ہے۔معلّمِ انسانیت حضرت محمد ﷺکے فلسفۂ تعلیم کی روسے ’’تعلیم‘‘ درحقیقت وہ ہے، جو انسان کو ایک رُخ دے، ایک سمت اور قبلہ دے، جو انسان کو اس کے مقصد ِ تخلیق سے آگاہ کرے، مقصدِ حیات بتائے، انسان کو دنیا میں خلافت ِ ارضی کے منصب ِ جلیلہ کے فرائض اور تقاضوں کو پورا کرنے کے قابل بنائے۔

اس کے بر خلاف مغربی تعلیم کا مقصد مادّی سہولتیں اور مادّی آسائشیں ہیں، مغربی تعلیم کا مقصد خود غرضی ہے، حتیٰ کہ بسا اوقات معاشرے کے مفادات بھی پسِ پشت ڈال دیے جاتے ہیں، ’’میکالے‘‘ کے فلسفۂ تعلیم پر مبنی نظامِ تعلیم کا مقصد اقبال کے الفاظ میں’’دوکف جو‘‘ کا حصول ہے۔ اس سے شکم کی تسکین تو ہوسکتی ہے، مگر دل و دماغ بدستور تشنہ رہتے ہیں۔ مغرب کے غلبے نے اسلامی تعلیم کا مقصد ذہنوں سے مٹایا نہیں، تو دھندلا ضرور دیا ہے۔ اس لیے آج اسلام کے مقصد ِ تعلیم کو واضح اور عام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

نظامِ تعلیم کی تشکیل.....چند تجاویز اور سفارشات

٭ قرآن و سنّت میں حصولِ علم کی فرضیت کے پیش نظر ابتدائی تعلیم کو نظریاتی مملکت پاکستان کے ہر بچے کے لیے (قانوناً) لازمی کردیا جائے۔ ٭ تعلیمِ بالغاں کا مناسب نصاب بنا کر اسے عام کیا جائے، تاکہ جہالت کی تباہیوں سے پاکستان اور نظریۂ پاکستان کو محفوظ رکھا جاسکے۔٭ ملک میں بنیادی طور پر ایک ہی نظامِ تعلیم ہو، طبقاتی تفریق ختم کرنے کے لیے طلبہ کو ایک ہی نوعیت کے تعلیمی اداروں میں پڑھایا جائے۔ 

نیز، حصولِ علم کی بنیاد عدلِ اجتماعی پر ہو۔٭ طالبات کے لیے بڑے پیمانے پر ہر سطح پر الگ ادارے قائم کیے جائیں۔٭ تعلیم کو حقیقی اہمیت دے کر اس پر بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی جائے۔ مثالی نظامِ تعلیم کی تشکیل کے سلسلے میں صحیح ترجیحات اور اعلیٰ منصوبہ بندی کو پیشِ نظر رکھا جائے، تاکہ جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ نظریاتی سرحدوں کی بھی حفاظت کا اہتمام ہو۔٭مدرسے کی تعلیم اور ذرائع ابلاغ کی غیر رسمی تعلیم میں مکمل ہم آہنگی ہو۔٭ اسلامائیزیشن کا عمل معاشرے اور مدرسے دونوں میں جاری وساری ہو۔٭ علوم کی تدوینِ نو اور نصاب کی ازسرِ نو تشکیل، اسلام اور نظریۂ پاکستان کی روشنی میں ہر سطح اور ہر درجے میں ہو۔٭اساتذہ کے انتخاب، تقرر، تربیت، جائزے، ترقی سب کی بنیاد پیشہ ورانہ مہارت اور اسلامی کردار پر ہو۔٭مروّجہ نظامِ تعلیم کو بتدریج اسلامی قالب میں ڈھالا جائے۔٭درس گاہ کی فضا پر اسلامی رنگ غالب ہو۔ درس وتدریس، ہم نصابی سرگرمیاں، تقاریب سب اسلام اور نظریۂ پاکستان کی عکاس ہوں۔

مسلم دنیا میں مثالی نظامِ تعلیم کی تشکیل کے لیے پہلی ’’ورلڈ مسلم ایجوکیشن کانفرنس‘‘ شاہ عبدالعزیز یونی ورسٹی کے زیرِ اہتمام مکّۂ مکرمہ میں 1977ء کو منعقد ہوئی۔ اس عالمی ایجوکیشن کانفرنس میں مسلم دنیا کے 40 ممالک کے 313 اہلِ علم اور ماہرینِ تعلیم شریک ہوئے اوراس موقعے پر 150مقالات پیش کیے گئے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان نے بھی اس عالمی کانفرنس میں شرکت کی، مثالی نظامِ تعلیم کی تشکیل کے لیے اس کانفرنس کی تجاویز اور سفارشات کو بھی راہِ عمل بنایا جاسکتا ہے، تاکہ حصولِ پاکستان اور نظریۂ پاکستان کے حقیقی مقاصد پورے ہوسکیں۔ 

مذکورہ عالمی کانفرنس کی عمومی سفارشات، تصوّرات اور اہداف کے مطابق، کانفرنس کے متعدد اجلاسوں کے دوران بحث اس نکتے پر مرکوز رہی کہ وہ بنیاد کیا ہے، جس پر مثالی نظامِ تعلیم کو استوار کیا جائے، جو اساسی طورپر اسلام سے ماخوذ ہو، تعلیماتِ نبویؐ کا ترجمان ہو، اور اسلام کے تصوّرات اور رجحانات سے کامل مطابقت رکھتا ہو۔ اسلام کااپنا فلسفۂ تعلیم ہے، جو منفرد اور ممتاز ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ اسلام کا نظام تعلیم اسی تصور کی بنیاد پر پروان چڑھے۔