بہت پہلے کی بات ہے۔ دل کے ڈاکٹر نے مجھے کہا تھا، ’’بچو، دوڑتے رہو۔ جب تک دوڑتے رہوگے، تب تک زندہ رہوگے۔ دوڑنا چھوڑ دوگے، تو مرجائو گے۔‘‘اب جب کہ میں بوڑھا کھڑوس ہوچکا ہوں تب ڈاکٹر کی بات میں صداقت کی تصدیق ہورہی ہے۔ اب میں دوڑ نہیں سکتا۔ لہٰذا بہت جلد میں مرجائوں گا۔ میرے ہم عصر اور ہم عمر دوست اور دشمن جو دوڑ نہیں سکتے تھے اور بستر پر پڑے رہتے تھے، وہ یہ دلربا دنیا چھوڑ کر جاچکے ہیں۔دل کے ڈاکٹر کی تنبیہ سننے کے بعد میں لگاتار دوڑتا رہتا تھا۔ مسلسل دوڑتا رہتا تھا۔ بھوک لگتی تھی تو دوڑتے ہوئے کھانا کھالیتا تھا۔ پیاس لگتی تھی تو دوڑتے ہوئے پانی پی لیتا تھا۔ نیند آتی تو دوڑتے ہوئے سوجاتا تھا۔ حتیٰ کہ میں لمبی عمر کے خواب بھی دوڑتے ہوئے دیکھتا تھا۔ اب نہ نیند آتی ہے، نہ خواب آتے ہیں۔ اب میں دوڑ نہیں سکتا۔ کوئی میرے کارڈیالوجسٹ کو بتادے۔ لگتا ہے کہ میں بہت جلد مرجائوں گا۔ کارڈیالوجسٹ کی بات میں بھولنا چاہوں، پھر بھی بھلا نہیں سکتا۔ ڈاکٹر کی چتائونی، تنبیہ مجھے یاد ہے۔ دوڑو گے نہیں تو مرجائو گے۔ دوڑنا اب میرے بس کی بات نہیں۔ میں جانتا ہوں۔ دوڑوں گا نہیں تو مرجائوں گا۔بستر مرگ پر پڑجانے سے پہلے میں بہت دوڑتا تھا۔ بس، ٹرام اور ڈبل ڈیکر میں سوار ہوکر میں کبھی دفتر نہیں جاتا تھا۔ میں دوڑتے ہوئے دفتر جاتا تھا۔ پسینے سے شرابور میں دفتر پہنچ جاتا تھا۔ کولیگ مجھ سے فاصلہ رکھتے تھے۔ اس دوران میری گرل فرینڈ نے بھی مجھے چھوڑ دیا۔ مجھے اس بات کا بہت دکھ ہوا۔ میں نے دردناک لہجہ میں خط لکھتے ہوئے کہا۔ ’’مانا کہ ہمارے عقیدے الگ تھے۔ مگر مجھے دکھ ہے کہ پسینے میں شرابور دیکھ کر تم نے مجھے چھوڑ دیا۔ تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ زندہ رہنے کے لیے مجھے دوڑنا پڑتا ہے۔ دوڑوں گا نہیں مرجائوں گا۔ یہ میں نہیں، میرا ڈاکٹر کہتا ہے۔‘‘کراچی کی سڑکوں پر دوڑنے سے پہلے میں کراچی کے انیک کھیل کے میدانوں اور پارکوں میں دوڑا کرتا تھا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے کھیلوں کے میدانوں اور پارکوں پر دیسی اور پردیسی مافیا نے قبضہ کرلیا۔ میری بات سن کر یہ مت سوچئے گا کہ تب یعنی ماضی بعید میں حکومتیں نہیں ہوا کرتی تھیں اس لیے دیسی اور پردیسی لینڈگریبر مافیا کو کھلی چھٹی ملی ہوئی تھی اور وہ کراچی پر اپنا قبضہ جماتے گئے۔ ایسا کچھ نہیں تھا۔ حکومتیں تھیں۔ چھوٹی بڑی عدالتیں تھیں۔ پولیس والے بھی خیر سے توند نکال کر گشت کرتے رہتے تھے۔ کراچی کے ایک خوبصورت کرکٹ گرائونڈ، ہندو جیم خانہ پر خود کراچی پولیس نے قبضہ کرلیا تھا اور سرکار نے ان کو کنکریٹ اور سیمنٹ کے بھدے فلیٹ بنواکر دیئے تھے۔ سرکار اور پولیس سے پوچھنے والا آج تک پاکستان میں کوئی پیداہی نہیںہوا۔ آپ خود جاکر قبضہ کارروائی سے بنے ہوئے بھدے فلیٹ دیکھ سکتے ہیں۔ گورنر ہائوس اور دوسری جانب سے کراچی آرٹس کونسل کے آمنے سامنے ہے۔ کرکٹ گرائونڈ پر ہی ڈی آئی جی کراچی دفتر کھول کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ اسی گرائونڈ پر خواتین کا پولیس اسٹیشن ہے۔ جاکر دیکھ لیجئے۔ یہ سب ہندو جم خانہ کی املاک پر بنا ہوا ہے۔دیسی اور پردیسی لینڈ مافیا نے ایک طرف کھیل کے میدانوں اور پارکوں پر قبضہ کرلیا اور دوسری طرف کراچی کی پہچان ٹرام کی پٹریاں اکھیڑ کر ٹرام کو کراچی سے غائب کردیا۔ اس نیک کام میں بھی سرکار کا اپنا عمل دخل تھا۔ ٹرام کے ساتھ صاف ستھری بسوں کے لیے جینا دشوار کردیا۔ محمدی بس سروس اپنی ڈبل ڈیکر بسوں کے ساتھ صفحہ ہستی سے مٹادی گئی۔ تب کراچی پر چھکڑا بسوں اور ویگنوں نے قبضہ جمانا شروع کردیا۔ لال، پیلی، نیلی سرکاری بسوں کی آمد کے باوجود کراچی کی سڑکوں پر چھکڑا بسوں کے مالکان کا قبضہ ہے۔ بلکہ راج ہے۔ بڑے لمبے ہاتھ اور تعلقات ہیں ان کے۔ ٹرانسپورٹ مافیا نے پاکستان ریلوے سے گڈز ٹرینوں کا مکمل صفایا کردیا۔ سرکار سمیت کسی نے نوٹس نہیں لیا۔ کسی کو دکھ نہیں ہوا۔ چونکہ میرا کسی کاروبار سے کسی قسم کا کوئی واسطہ نہیں ہے، اس لیے گڈز ٹرینوں کے بند ہونے کا مجھے دکھ نہیں ہوا۔ سرکاروں کا ستیاناس کرنے والے گڈز ٹرانسپورٹ مافیا کا ملک پر قبضہ ہے۔مجھے قطعی دلچسپی نہیں ہے کہ ملک پر کس کی حکمرانی ہے۔ مجھے پتہ تھا، مجھے پتہ ہے کہ کراچی پر ٹرانسپورٹ مافیا کا قبضہ ہے۔ اس بات کا علم تب ہوا تھا، جب موت سے پیچھا چھڑانے کیلئے میں کراچی کی سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر لگاتار دوڑتے ہوئے زندگی گزارتا تھا۔ اگر آپ کو بھی دل کے معالج یعنی کارڈیالوجسٹ نے بھاگنے اور دوڑنے کا مشورہ دیا ہے اور آپ یہ کام کراچی میں کرنا چاہتے ہیں، تو پھر آپ فقیر کے ذاتی مشورے سے بھرپور فائدہ اٹھائیے۔ آپ جب تک دوڑتے رہوگے، تب تک زندہ رہوگے۔ یہ بے مثال بات کارڈیالوجسٹ نے بتائی تھی۔کراچی کی سڑکوں پر دوڑتے ہوئے کئی بار مجھے پولیس نے پکڑ لیا تھا۔ ایک مرتبہ پولیس والوں نے پوچھا تھا۔ ’’کیا جیب کترے ہو کہ لوگوں کی جیب کاٹنے کے بعد دوڑتے رہتے ہو؟‘‘ ایک مرتبہ پولیس والوں نے مجھے تھانے میں بند کردیا تھا، اور پوچھا تھا ’’بتا، کہ چوری کا مال کہاں چھپا رکھا ہے؟‘‘ میں نے مریل آواز میں جواب دیتے ہوئے کہا تھا ’’سر جی، میں چور نہیں ہوں۔ موت سے بچنے کیلئے میں دوڑتا رہتا ہوں۔ یہ مشورہ مجھے کارڈیالوجسٹ نے دیا ہے۔‘‘میری آپ سے مودبانہ گزارش ہے کہ موت سے بچنے کیلئے کراچی میں دوڑنے کا لائسنس بنوالیجئے۔ یہ لائسنس دس روپے میں ٹریفک پولیس آپ کو جاری کرتی ہے۔ اس لائسنس کا کوئی اختتام نہیں ہے۔ آج کل میں دوڑ نہیں سکتا۔ مجھے ویل چیئر میں دیکھ کر پولیس والے میرا چالان اس لیے کرتے ہیں کہ دوڑنے کا لائسنس ہونے کے باوجود میں ویل چیئر کیوں چلاتا ہوں۔ میں دوڑتا کیوں نہیں؟