پاک فضائیہ کی تاریخ میں حیرت انگیز معرکے سر انجام دینے والے کئی ماہر لڑاکا ہوا باز گزرے ہیں، جن میں عالمی شُہرت یافتہ اسکواڈرن لیڈر، ایم ایم عالم کا نام سرِفہرست ہے، جنہوں نے 1965ء کی پاک، بھارت جنگ کے دوران ایک ہی فضائی مِشن میں دشمن کے 5جنگی طیّارے مار گرا کر ہوا بازی کی تاریخ میں ایک منفرد ریکارڈ قائم کیا تھا۔
پاک فضائیہ کے ایک اور مایہ ناز لڑاکا ہوا باز گروپ کیپٹن سیف الاعظم کا شمار بھی دُنیا کے بہادر ہوا بازوں میں کیا جاتا ہے۔ تاہم، بد قسمتی سے آج سے نصف صدی قبل ان کے انجام دیے گئے فضائی کارناموں سے نئی نسل واقف نہیں۔
دِل چسپ بات یہ کہ ایم ایم عالم اور سیف الاعظم دونوں کا تعلق ہی مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلا دیش) سے تھا۔ سیف الاعظم نے چار ممالک پاکستان، اُردن، عراق اور بنگلا دیش کی فضاؤں کی حفاظت کے لیے عشروں تک خدمات انجام دیں۔ انہوں نے دو جنگوں کے دوران اپنی پیشہ ورانہ مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک بھارتی اور 4اسرائیلی لڑاکا طیّارے مار گرائے۔
نیز، وہ 72گھنٹے کے مختصر وقت میں سب سے زیادہ تعداد میں اسرائیلی لڑاکا طیّارے گرانے والے بہادر ہوا باز کا منفرد ریکارڈ بھی رکھتے ہیں۔ فلائٹ لیفٹیننٹ سیف الاعظم نے 1965ء کی پاک، بھارت جنگ کے دوران بھارت کی فضاؤں میں داخل ہو کر 12زمینی حملوں کے مِشن میں حصّہ لیا اور اس دوران دشمن کو شدید جانی و مالی نقصان پہنچایا۔ اس دوران انہوں نے بھارت کے ایک جنگی طیّارے کے پرخچے اڑا دیے تھے اور اِسی کارنامے کے اعتراف میں اُنہیں مُلک کا تیسرا بڑا فوجی اعزاز، ستارۂ جرأت عطا کیا گیا۔
سیف الاعظم کی ولادت 11ستمبر 1941ء کو پبنہ، مشرقی بنگال میں ہوئی۔ انہیں بچپن ہی سے جنگی ہوا بازی سے جنون کی حد تک لگاؤ تھا، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے پاک فضائیہ میں شمولیت کے لیے صرف 18برس کی عُمر میں اپنے گھر کو خیرباد کہا اور 1955ء میں ثانوی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے حصول اور لڑاکا ہوا باز بننے کی خواہش دل میں لیے مغربی پاکستان منتقل ہو گئے۔
انہوں نے پاکستان ایئر فورس کالج، سرگودھا میں داخلہ لیا اور 1958ء میں پاکستان ایئرفورس اکیڈمی، رسال پور میں شمولیت اختیار کی اور ایئر فورس کالج میں فضائی امور اور لڑاکا ہوا بازی کی ضروری تربیت مکمل کرنے کے بعد 1960ء میں پاک فضائیہ میں جنرل ڈیوٹی پائلٹ کی حیثیت سے کمیشن حاصل کرنے میں کام یاب ہوگئے۔
پاک فضائیہ میں سیسناT-37تربیتی طیّارے پر ابتدائی فضائی تربیت مکمل کرنے کے بعد انہیں ایڈوانسڈ فائٹر کورس کی تربیت حاصل کرنے کے لیے ایری زونا، امریکا میں واقع مشہور ِزمانہ فضائی تربیتی مرکز، لیوک ایئر فورس بیس بھیجا گیا، جہاں انہوں نے دورانِ تربیت T-33،F-86، اورF-86 جنگی طیّارے بڑی مہارت سے اُڑائے، جس کے اعتراف میں انہیں امریکی فضائیہ کی جانب سے ’’ٹاپ گن‘‘ کا امتیازی لقب بھی دیا گیا، جب کہ وطن واپسی پر انہیں ایلیٹ اسکواڈرن نمبر 14میں آپریشنل فائٹر پائلٹ کی حیثیت سے تعینات کر دیا گیا۔
6 ستمبر1965ء کو پڑوسی مُلک، بھارت نے رات کی تاریکی میں پاکستان پر اچانک حملہ کردیا۔ جنگ کے آغاز پر پاک فضائیہ کے معروفِ زمانہ اسکواڈرن نمبر 17کے 10سیبر طیّاروں کو سرگودھا کے فضائی اڈّے پر تعینات کیا گیا تھا۔ غیر معمولی صلاحیت کے حامل اس اسکواڈرن کی شناختی علامت ’’شیرِبنگال‘‘ ہے۔ 19ستمبر کو بھارت کی حدود میں ایک کام یاب مِشن سے واپسی پر فلائٹ لیفٹیننٹ سیف الاعظم اور اُن کے ساتھی ہوا بازوں نے دشمن کے 4 لڑاکا طیّاروں کو پاکستانی فضاؤں میں داخل ہوتے دیکھا۔
اس دوران پاک فضائیہ کے شاہین، سیف الاعظم نے اپنی حربی مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک بھارتی طیّارے کو تباہ کر دیا، جب کہ دوسرے بھارتی طیّارے کے پائلٹ نے اپنے ساتھی کا حشر دیکھتے ہوئے راہِ فرار اختیار کرنے ہی میں عافیت جانی۔ گرچہ سیف الاعظم کے ہاتھوں تباہ ہونے والے بھارتی طیّارے کا پائلٹ، وِنگ کمانڈر وی ایم مایا دیو پیرا شوٹ کے ذریعے کُود کر اپنی جان بچانے میں کام یاب ہوگیا، لیکن زمین پر موجود پاکستانی فوجی دستوں کے ہاتھوں پکڑا گیا۔
1966ء میں سیف الاعظم نے پاک فضائیہ کے اسکواڈرن نمبر2میں شمولیت اختیار کی، تو اس دوران مشرقِ وسطیٰ پر جنگ کے بادل منڈلانے لگے۔ عرب، اسرائیل جنگ کے آغاز سے تقریباً پانچ ماہ قبل 25سالہ سیف الاعظم 21جون 1966ء کو نشاط آراء نامی خاتون وکیل سے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئے۔ اسی برس کے آخر میں پاک فضائیہ کی جانب سے سیف الاعظم کی خدمات تیکنیکی مُشیر کی حیثیت سے اُردن کی شاہی فضائیہ کو مستعار دی گئیں۔
5جون 1967ء کو جب دوسری عرب، اسرائیل جنگ کا آغاز ہوا، تو اسرائیلی فضائیہ نے مصری اور شامی فضائیہ کے کم و بیش دو تہائی لڑاکا طیّاروں کو پرواز سے قبل ہی ہوائی اڈّوں پر کھڑے کھڑے تباہ کر دیا۔ تاہم، اس چھے روزہ جنگ کے دوران پاکستانی لڑاکا ہوا باز نے اپنی شان دار حربی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک اسرائیلی حملہ آور برطانوی ساختہ طیّارے، ’’ہنٹر‘‘ کو فضا ہی میں مار گرایا، جب کہ فرار ہوتے ایک دوسرے اسرائیلی لڑاکا طیّارے کو بھی تباہ کر دیا۔ اگلے فضائی مِشن کے دوران سیف الاعظم کو اسرائیلی میراج طیّارے مار گرانے کا موقع ملا۔
نیز، اس جنگ کے دوران وہ دُنیا کے واحد لڑاکا ہوا باز تھے کہ جنہوں نے اُردن اور عراق کی فضاؤں میں اُردن کی شاہی فضائیہ کے ہاکر ہنٹر لڑاکا طیّارے سے اسرائیلی فضائیہ کے ایک سُپر سانک جنگی طیّارے کو مار گرایا ، جس کا شمار اُس دَور کے اسٹیٹ آف دی آرٹ لڑاکا طیّاروں میں کیا جاتا تھا۔ یہ کارنامہ انجام دینے کے ایک روز بعد سیف الاعظم عراقی فضائیہ کی ایک بیس میں منتقل ہوگئے۔
اس موقعے پر اسرائیلی جنگی ہوا باز کسی مصری پائلٹ سے مقابلے کی توقّع کر رہے تھے، تاہم اُن کا سامنا پاک فضائیہ کے جاں باز سے تھا، جس نے اس فضائی معرکے کے دوران دو اسرائیلی حملہ آور لڑاکا طیّاروں کو مار گرایا اور عرب، اسرائیل جنگ کے دوران صرف 72گھنٹوں میں 4اسرائیلی جنگی طیّارے گرا کر فضائی جنگ کی تاریخ میں اپنا نام رقم کیا۔ سیف الاعظم کے اس فقید المثال کارنامے پر اُنہیں اُردن کی جانب سے ’’وسام الاستقلال‘‘ اور عراق کی طرف سے بہادری کے اعلیٰ اعزاز، ’’نوت الشّجاع‘‘ سے نوازا گیا۔ وہ اُردن اور عراق کی فضائیہ میں دو برس تک خدمات انجام دینے کے بعد وطن واپس آگئے۔
سیف الاعظم کو ان کی منفرد فضائی حربی مہارتوں کی بنا پر ’’Ace of Aces‘‘ بھی کہا جاتا تھا۔ انہیں 2005ء میں ریاست ہائے متّحدہ امریکا میں منعقدہ لڑاکا ہوا بازوں کی عالمی تنظیم، ’’ایگلز فاؤنڈیشن‘‘ کے اجتماع میں’’Living Eagle‘‘ یا ’’زندہ عقاب‘‘ کا لقب بھی دیا گیا۔ انہوں نے 1971ء تک پاک فضائیہ میں مختلف کلیدی عُہدوں پر نمایاں خدمات انجام دیں اور اپنے فقید المثال جنگی کارناموں کی بہ دولت دُنیا بَھر میں پاکستان کا نام روشن کیا۔ سقوطِ ڈھاکا کے بعد سیف الاعظم نے اپنی خدمات بنگلا دیش کو سونپ دیا اور بنگلا دیشی فضائیہ میں بھی 1979ء تک نمایاں خدمات انجام دیں۔
وہ 1982ء تا 1984ء اور 1987ءسے 1988ء تک بنگلا دیش سِول ایوی ایشن اتھارٹی کے چیئرمین کے منصب پر بھی فائز رہے۔ علاوہ ازیں، وہ سیاست میں بھی سرگرم رہے اور 1991ء سے 1996ء تک بنگلا دیش نیشنلسٹ پارٹی کے پلیٹ فارم سے اپنے آبائی علاقے، پبنہ سے پارلیمنٹ کے رُکن منتخب ہوئے۔ نیز، کاروباری دُنیا میں بھی قدم رکھا اور اہلیہ کی شراکت سے ایک ٹریڈنگ کمپنی اور ٹریول ایجینسی قائم کی۔
دُنیائے ہوا بازی کے ہیرو، گروپ کیپٹن سیف الاعظم عُمر کے آخری حصّے میں پارکنسنز ڈیزیز میں مبتلا ہوگئے اور 14جون 2020ء کو عالمِ فانی کو خیر باد کہا۔ انہیں سرکاری اعزاز کے ساتھ ڈھاکا چھاؤنی کے شاہین قبرستان میں سُپردِ خاک کیا گیا اور اُن کی آخری رسومات میں بنگلادیش کے اعلیٰ سرکاری حُکّام اور سیاست دانوں کے علاوہ ہزاروں افراد نے شرکت کی۔
سیف الاعظم کے انتقال پر پاک فضائیہ کے سربراہ، ایئر مارشل مجاہد انور خان نے گہرے رنج و غم کا اظہار کیا اور جنگِ ستمبر اور عرب، اسرائیل جنگ کے دوران اُن کی غیر معمولی خدمات پر اُنہیں خراجِ عقیدت پیش کیا۔ علاوہ ازیں، اُردن کی جانب سے بھی سیف الاعظم کی غیر معمولی خدمات پر خراجِ عقیدت پیش کیا گیا۔