• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
برادرم رئوف طاہر ہمیشہ دھیمے اور سلجھے انداز میں بات کرتے ہیں۔ اختلاف رائے ان کا جمہوری حق ہے۔ ایک بات بہت مزے کی لکھ گئے کہ جماعت اسلامی کا معاملہ جمعیت علمائے ہند اور مجلس احرار سے مختلف ہے۔ جماعت اسلامی مطالبۂ پاکستان کی مخالف نہیں تھی۔ جماعت اسلامی کا مؤقف تو یہ تھا کہ مسلم لیگ کے پاس وہ مردان کار موجود نہیں ہیں جو اس نصب العین کو حاصل کر سکیں۔ بس یہیں رکیے۔ دو نکات پر بات کر لیتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ کیا جماعت اسلامی قیام پاکستان کی حامی تھی اور دوسرے یہ کہ جن مسلم لیگی رہنمائوں کی بصیرت، اہلیت اور دیانت پر انگلی اٹھائی جا رہی تھی وہ کون تھے۔ اس گزارش کو مدنظر رکھئے کہ خاکسار ’’مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش‘‘ کے حصہ سوم کا حوالہ نہیں دے رہا جس کا 1941ء میں پٹھان کوٹ سے مطبوعہ نسخہ میری میز پر رکھا ہے۔ میرا مؤقف تو یہ ہے کہ جماعت اسلامی اور اس کے قائدین پاکستان بننے کے بعد بھی تصور پاکستان اور قائداعظم کے مخالف رہے۔ یہ کہنا تاریخ کو جھٹلانے کے مترادف ہے کہ پاکستان کے بنتے ہی جماعت اسلامی کے پائیں باغ میں کاہ مخملیں اور نہر عسل کے منظر کھل گئے تھے۔ جماعت اسلامی کے ترجمان ہفت روزہ ’کوثر ‘ نے 16 نومبر 1947 ء کو لکھا ۔ ’’ہم اس تحریک کو آج بھی صحیح نہیں سمجھتے جس کے نتیجے میں پاکستان بنا ہے اور پاکستان کا اجتماعی نظام جن اصولوں پر قائم ہو رہا ہے ان اصولوں کو اسلامی نقطہ نظر سے ہم کسی قدر و قیمت کا مستحق نہیں سمجھتے‘‘۔ مولانا مودودی نے جماعت اسلامی (لاہور )کے اجتماع میں فرمایا۔ ’’ہماری قوم نے اپنے لیڈروں کے انتخاب میں غلطی کی تھی اور اب یہ غلطی نمایاں ہو کر سامنے آگئی ہے۔ہم چھ سال سے چیخ رہے تھے کہ محض نعروں کو نہ دیکھو بلکہ سیرت اور اخلاق کو بھی دیکھو ۔ اس وقت لوگوں نے پروا نہ کی لیکن اب زمام کار ان لیڈروں کو سونپنے کے بعد ہر شخص پچھتا رہا ہے کہ واہگہ سے دہلی تک کا علاقہ اسلام کے نام سے خالی ہو چکا ہے‘‘۔ (بحوالہ روز نامہ انقلاب 9 اپریل 1948 ء )
ترجمان القرآن نے جون 1948 ء کے ادارئیے میں لکھا ۔ ’’یہ عین وہی لوگ ہیں جو اپنی پوری سیاسی تحریک میں اپنی غلط سے غلط سرگرمیوں میں اسلام کو ساتھ ساتھ گھسیٹتے پھرے ہیں۔انہوں نے قرآن کی آیتوں اور حدیث کی روایتوں کو اپنی قوم پرستانہ کشمکش کے ہر مرحلے میں استعمال کیا ہے...کسی ملک و قوم کی انتہائی بدقسمتی یہی ہو سکتی ہے کہ نااہل اور اخلاق باختہ قیادت اس کے اقتدار پر قابض ہو جائے‘‘۔اسی شمارے میں مزید فرمایا ’’ جونہی انگریز اور کانگریس کی باہمی کشمکش ختم ہوئی۔ تو اس قیادت عظمیٰ نے اپنے آپ کو ایسی حالت میں پایا جیسے اس کے پائوں تلے زمین نہ ہو۔ اب وہ مجبور ہو گئی کہ جو کچھ جن شرائط پر بھی طے ہو اسے غنیمت سمجھ کر قبول کر لیں۔ بنگال و پنجاب کی تقسیم اسے بے چون و چرا ماننی پڑی۔ سرحدوں کے تعین جیسے نازک مسئلے کو اس نے صرف ایک شخص کے فیصلے پر چھوڑ دیا۔ انتقال اختیارات کا وقت اور طریقہ بھی بلاتامل مان لیا۔ حالانکہ یہ تینوں امور صریح طور پر مسلمانوں کے حق میں مہلک تھے۔ انہی کی وجہ سے ایک کروڑ مسلمانوں پر تباہی نازل ہوئی اور انہی کی وجہ سے پاکستان کی عمارت روز اول ہی سے متزلزل بنیادوں پر اٹھی‘‘۔ حمید نظامی نے 4جولائی 1948ء کو اپنےاخبار میں اداریہ لکھا ’’ہم ان لوگوں کے حامی نہیں جو محض اپنی لیڈری چمکانے کے لئے شریعت کا نعرہ بلند کر رہے ہیں۔ … (بہتر ہو گا کہ) شہر بہ شہر جلسوں میں قائداعظم کو گالیاں دینے اور سوقیانہ تقریروں میں وقت ضائع کرنے کی بجائے اسلامی نظام حکومت کا ایک خاکہ مرتب کیا جائے ۔‘‘
مولانا مودودی نے ترجمان القرآن کے شمارہ جولائی 1948 ء میں لکھا ۔ ’’مسلمانوں نے اپنی ساری قومی طاقت، ذرائع اور جملہ معاملات اس قیادت کے سپرد کر دئیے جو ان کے قومی مسئلہ کو اس طرح حل کرنا چاہتی تھی۔ دس برس بعد اس کا پورا کارنامہ ہمارے سامنے ہے ۔ جو کچھ ہو چکا وہ تو ان مٹ ہے۔ البتہ اس پر بحث کرنا ضروری ہے کہ جو مسائل اب ہمیں درپیش ہیں ۔ کیا ان کے حل کے لئے بھی وہی قیادت موزوں ہے جو اس سے پہلے ہمارے قومی مسئلے کو اسی طرح حل کر چکی ہے۔ کیا اس کا کارنامہ یہی سفارش کرتا ہے کہ جو نازک مسائل ہمارے سر پر آپڑے ہیں ۔جن کا بیشتر حصہ خود اسی قیادت کی کارفرمائیوں کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے انہیں حل کرنے کے لئے ہم اس پر اعتماد کریں‘‘۔ اس کے جواب میں حمید نظامی نے 31جولائی 1948 ء کو اداریہ لکھا ’’حضرت مولانا نے دس سال کے عرصے میں پہلی مرتبہ دل کی بات کھل کر کہی اور صاف لفظوں میں مسلمانوں سے کہا کہ محمد علی جناح کی جگہ مجھے قائداعظم مانا جائے۔ اب صرف اتنا کرم فرمائیں کہ مسلمانوں کو یہ بتا دیں کہ آپ کا ٹھوس سیاسی پروگرام کیا ہے... اپنا پروگرام نہ بتانا اور نعروں سے مسلمانوں کا دل بہلانا یا قائداعظم کو احمق ، غلط کار اور دین میں ہلکا ثابت کرنے کی کوششوں میںلگا رہنا ہرگز آپ کے شایان شان نہیں۔ قائداعظم کا ریکارڈ قوم کے سامنے ہے۔ آپ کو ابھی قوم نے آزمانا ہے۔ آپ قائداعظم کو ہزار گالیاں دیجئے ۔ مسلمان آپ کے دست مبارک پر بیعت کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں گے۔‘‘ مولانا ابو اعلیٰ مودودی نے 9 اگست 1948 ء کو جھنگ میں کہا ’’لیگ کی جنگ کفر و اسلام کی جنگ نہیں تھی۔ مسلم لیگ نے اب تک یہ نہیں کہا کہ پاکستان کا خطہ اس لئے حاصل کیا جا رہا ہے کہ وہاں پر اسلامی خلافت چلائی جائے گی بلکہ یہ قومیت کی جنگ تھی۔ قومیت کی جنگ کو اسلام کی جنگ سے کوئی واسطہ نہیں۔ لیگ کی قراردادوں کا جائزہ لیجئے ۔ لیگ نے آج تک تسلیم نہیں کیا کہ پاکستان میں شریعت کا نفاذ ہو گا۔‘‘۔اس کے جواب میںحمید نظامی نے 18اگست 1948 ء کو اداریہ سپرد قلم کیا ۔ ’’پاکستان میں آپ کو ایسے لوگ بھی مل جائیں گے جن کی تقریر و تحریر کا زور یہ ثابت کرنے پر صرف ہو رہا ہے کہ (مسلمانوں) کی اس مصیبت کی ذمہ داری قائداعظم کی لیڈرشپ پر عائد ہوتی ہے۔ قائداعظم نے پے در پے مہلک غلطیاں کیں اور مسلمانوں کو تباہی و بربادی کے اس غار میں لا پھینکا جس کا نام پاکستان ہے‘‘۔ایک ہفتے بعد 25اگست 1948 ء کو حمید نظامی نے لکھا ۔ ’’بظاہریہ جماعت کہتی ہے کہ ہم قائداعظم کے خلاف پراپیگنڈہ نہیں کر رہے ۔ لیکن معاف کیجئے یہ بیان صحیح نہیں ہے۔ مسلمانوں کی موجودہ قیادت کو مسلمانوں کی تباہی کا ذمہ دار ٹھہرانا دراصل قائداعظم اور صرف قائداعظم کی ذات ہی پر حملہ ہے۔‘‘
پروفیسرسراج الدین فرمایا کرتے تھے کہ والدین کا بچوں پر شفقت کرنا فطرت ہے جبکہ بچے والدین سے جو سلوک کرتے ہیں اسے تہذیب کہتے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ پاکستان کے بزرگوں نے ہمیں کیا دعائیں دیں۔ قائد اعظم نے 11 اگست 1947ء کو دستور ساز اسمبلی میں فرمایا ــ’’اگر آپ اپنے ماضی کو تبدیل کر کے اِس عزم کے ساتھ کام کریں کہ آپ میں سے ہر فرد، قطع نظر اس سے کہ اِس کا تعلق کس کمیونٹی سے ہے، یا یہ کہ اُس کا رنگ، ذات یا عقیدہ کیا ہے، وہ اول و آخر یکساں حقوق، مراعات اور ذمہ داریوں کے ساتھ اِس ریاست کا شہری ہے، تو آپ جتنی ترقی کریں گے، اُس کی کوئی حد نہیں ہو گی۔ ‘‘ جمہوریت میں قائد حزب اختلاف قوم کا متبادل رہنما ہوتا ہے۔ دستور ساز اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سریش چندر چٹوپادھیا نے 12 مارچ 1949ء کو فرمایا ’’میں آپ کے خلاف کوئی عناد نہیں رکھتا۔ میری دعا ہے کہ آپ کی راہ کھوٹی نہ ہو۔ آپ ترقی اور خوش حالی پائیں، پاکستان کی نوزائیدہ مملکت ایک عظیم قوم بنے اور قوموں کی برادری میں قابل احترام مقام پائے‘‘۔
قائداعظم کی قابل احترام ذات کی آڑ میں دائیں بازو کی سیاست کا ڈھول پیٹنے والے مہربانوں سے گزارش ہے کہ اگر انہوں نے گوئٹے کے فائوسٹ کی طرح اقتدار، رسوخ اور ناانصافی کے ابلیس کے ہاتھوں اپنی روح بیچ نہیں دی تو تحریک طالبان کے لیڈر عمر خالد خراسانی کے اس بیان پر توجہ فرمائیں جو انہوں نے کرکٹ میچ میں پاکستان کی شکست کے حوالے سے دیا ہے۔ ’’اللہ نے پاکستانی قوم کو رونے کے لئے چھوڑ دیا ہے‘‘۔ یاسر پیرزادہ کے علمی مؤقف پر تو سترہ کالم شائع ہوئے ہیں۔ عمر خالد خراسانی کے بارے میں ایک آدھ پیراگراف ہی کافی ہو گا۔ معلوم تو ہو کہ قائداعظم کا دم بھرنے والے طالبان کا نام آنے پر چونچ پروں میں کیوں دبا لیتے ہیں۔
تازہ ترین