آئی ایم ایف کے 25 ستمبر کو ہونے والے اجلاس میں پاکستان کیلئے سات ارب ڈالر قرض کی متوقع منظوری کی خبریں خوش آئند ہیں۔ یہ ابتک کا پاکستان کا 24 واں آئی ایم ایف پروگرام ہے جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ہم اس سے پہلے 23 مرتبہ اپنی معاشی سمت کو درست کرنے کیلئے درکار اصلاحات پر عملدرآمد کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ یہ بیل آوٹ پیکیج حاصل کرنے کیلئے ہمیں دو ارب ڈالر کی کمرشل فنانسنگ اور دوست ممالک سے 16 ارب ڈالر سے زیادہ کا رول اوور حاصل کرنے کیلئے کافی زیادہ تگ ودو کرنی پڑی ہے۔ اس حوالے سے بلاشبہ چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے پاکستان کے سچے خیر خواہ ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم اپنی حکومتوں کی بدانتظامی اور سیاسی موقع پرستی کی وجہ سے خود کو قرضوں کی دلدل میں پھنسا چکے ہیں۔ ہمارے نظام حکومت کا روایتی انتظامی ڈھانچہ قومی خزانے پر ایک بہت بڑا بوجھ بن چکا ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد بھی وفاق میں بہت سی ایسی وزارتیں اور محکمے موجود ہیں جن کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اسی طرح سیاسی بھرتیوں نے بھی سرکاری اداروں کو مالی طور پر بھاری نقصان پہنچایا ہے جس کی وجہ سے اب ریٹائرڈ ملازمین کو پنشن کی ادائیگی ایک بڑا چیلنج بن چکی ہے۔ سالہا سال سے حکومت کی سطح پر مالیاتی ڈسپلن نہ ہونے اور سیاسی بنیادوں پر معاشی فیصلے کرنے کی پالیسی نے ملک کی معاشی بنیادوں کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ قومی وسائل کے اس بے دریغ ضیاع کی وجہ سے ہم اپنے شہریوں کو صحت اور تعلیم کی معیاری سہولیات فراہم کرنے سے بھی قاصر ہیں۔ اس صورتحال کو تبدیل کرنے کیلئے اگر اب بھی سیاسی طور پر مشکل فیصلے نہ کیے گئے اور مزید وقت ضائع کیا گیا تو قرضوں کے جال سے نکلنا کبھی ممکن نہیں ہو گا۔
آئی ایم ایف کا مجوزہ پروگرام ایک لحاظ سے ہمارے لئے وقتی ریلیف ضرور ہے لیکن اگر خود کو سدھارنے اور معاشی اصلاحات کرنے کا یہ موقع بھی ضائع کر دیا گیا تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ اس حوالے سے حکومت نے ریٹیلرز، رئیل اسٹیٹ اور زراعت کے شعبے سمیت نان فائلر طبقے کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے حوالے سے پہلے ہی سیاسی سمجھوتہ کرکے کمزوری دکھائی ہے۔ علاوہ ازیں حکومتی اخراجات میں کمی اور خسارے میں چلنے والی سرکاری کارپوریشنوں کی نجکاری کا عمل بھی ضرورت سے زیادہ سست روی کا شکار ہے جس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت اس حوالے سے بھی صرف وقت گزاری کر رہی ہے۔
یہ طرز عمل اس لحاظ سے مایوس کن ہے کہ آئی ایم ایف سے سات ارب ڈالر حاصل کرنے کیلئے حکومت نے پہلے ہی تنخواہ دار طبقے اور انڈسٹری پر ٹیکس کا بوجھ ضرورت سے زیادہ بڑھا دیا ہے۔ حالانکہ اس بحران سے نکلنے کیلئے معاشی سرگرمیوں کو بڑھانے کیلئے اقدامات کرنے کی ضرورت تھی۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ تھی کہ برآمدات کو بڑھانےپر توجہ دی جاتی اور ایکسپورٹ انڈسٹری کو مسابقتی انرجی ٹیرف دینے کے ساتھ ساتھ ریفنڈز کی ادائیگی بہتر بنائی جاتی تاکہ انڈسٹری کو درپیش سرمائے کی قلت کا خاتمہ کیا جا سکتا۔
علاوہ ازیں تنخواہ دار طبقے پر بھی ٹیکس کی شرح کو بڑھانے سے معاشی سرگرمیوں میں اضافے کا ہدف حاصل کرنا مشکل ہو گا کیونکہ اگر شہریوں کی آمدنی کا بڑا حصہ ٹیکسز کی ادائیگی اور دیگر ضروریات زندگی کو پورا کرنے میں ہی خرچ ہو جائے گا تو ان کے پاس وہ قوت خرید ہی باقی نہیں بچے گی جو قومی معیشت کو فروغ دینے کیلئے ضروری ہے۔ ان حالات میں حکومت کیلئے بیرون ملک سے براہ راست سرمایہ کاری کا حصول بھی مشکل ثابت ہو گا جس سے ہم معاشی طور پر عالمی مالیاتی اداروں کے دست نگر بنے رہیں گے۔
حکومت کو چاہیے کہ آئی ایم ایف سے ملنے والے سات ارب ڈالر کے اس پروگرام کو ملک کی معاشی بنیاد مضبوط بنانے کیلئے استعمال کرے۔ اس وقت پاکستان کی معیشت ٹیک آف کیلئے تیار ہے لیکن اس کیلئے سیاسی استحکام ناگزیر ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی ملک میں سیاسی عدم استحکام معاشی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھا جاتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کو سوچنا چاہیے کہ ان کے اپنے مفادات کی کشمکش اور اس سے جنم لینے والا احتجاج اور بدامنی ملک کیلئے کسی بھی طرح فائدہ مند نہیں ہے۔ پاکستان کے عوام آئی ایم ایف سے قرض کے حصول کیلئے پہلے ہی بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے اور ٹیکس کی شرح میں ریکارڈ چالیس فیصد تک اضافے کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں۔
اگرچہ ان اقدامات سے عوام کو مالی مشکلات کا سامنا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کی وجہ سے پاکستان کی مالی حالت بہتر ہوئی ہے اور اس کی عالمی کریڈٹ ریٹنگ میں اضافہ ہوا ہے۔یہی وجہ ہے کہ گزشتہ چند ماہ کے دوران مہنگائی میں 30 فیصد، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 15 سے 20 فیصد اور شرح سود میں 4.5فیصد کمی آئی ہے۔ ان حالات میں انڈسٹری کی پیداواری لاگت بھی کسی حد تک کم ہوئی ہے لیکن پھر بھی ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشی سرگرمیوں میں اضافے کیلئے انرجی ٹیرف میں کمی کے ساتھ ساتھ شرح سود میں مزید کمی کی جائے تاکہ انڈسٹری کی بحالی سے روزگار کی فراہمی کے مواقع بڑھائے جا سکیں۔ اس سے حکومت کو بیرونی سرمایہ کاری کے حصول میں بھی آسانی ہو گی اور پاکستان کو مالیاتی طور پر مستحکم دیکھنے کے خواہاں دوست ممالک ہمیں قرض دینے کی بجائے زیادہ اعتماد کے ساتھ پاکستان میں سرمایہ کاری کرکے مشترکہ منصوبے شروع کر سکیں گے۔