پاکستان تحریک انصاف نے کئی پالیسیاں اپنائیں جو نہ صرف ملک کے اندر بلکہ عالمی سطح پر بھی تنقید کا نشانہ بنیں۔ ان پالیسیوں میں سے ایک خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ، جناب علی امین گنڈاپور کی افغان طالبان سے براہ راست مذاکرات کی کوششیں ہیں۔ یہ قدم نہ صرف آئینی حدود سے تجاوزہے بلکہ پاکستان کی سلامتی اور بین الاقوامی تعلقات کے حوالے سے بھی خطرات پیدا کر سکتا ہے۔ پاکستان کے آئین کے تحت بین الاقوامی معاملات اور خارجہ پالیسی پر فیصلے کرنے کا حق صرف وفاقی حکومت کو حاصل ہے، کسی بھی صوبے کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ خود مختار طور پر بین الاقوامی سطح پر کوئی قدم اٹھائے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وزیر اعلیٰ گنڈاپور کو افغان طالبان سے براہ راست مذاکرات کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟ کیا وفاقی حکومت اس عمل سے آگاہ تھی؟ کیا یہ قدم پاکستان کی خارجہ پالیسی کے اصولوں کے مطابق تھا؟ ان سوالات کا جواب نہ صرف پی ٹی آئی کو دینا ہوگا بلکہ ملک کے عوام کو بھی ان اقدامات کے پس پردہ حقائق سے آگاہ کرنا ضروری ہے۔تحریک انصاف کی قیادت اور طالبان کے درمیان قربت اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی۔ مختلف مواقع پر پی ٹی آئی کی حکومت نے طالبان کیساتھ نرم رویہ اختیار کیا ، جو نہ صرف پاکستان کی اندرونی سیکورٹی کیلئے نقصان دہ ثابت ہو رہا ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ملک کی ساکھ کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ پاکستان میں طالبان کی موجودگی اور تحریک انصاف کی قیادت کی جانب سے انکے ساتھ تعلقات میں نرمی دہشت گردی کے خطرات کو مزید بڑھا سکتی ہے، خاص طور پر خیبر پختونخوااور بلوچستان جیسے صوبوں میں جہاں دہشت گرد گروہ پہلے ہی متحرک ہیں۔ افغان طالبان اور تحریک طالبان پاکستان (TTP) کے درمیان تاریخی طور پر روابط موجود ہیں، اور یہ روابط تحریک طالبان پاکستان کو تقویت دینے کا باعث بن سکتے ہیں۔افغان طالبان کیساتھ مذاکرات کا عمل تحریک طالبان پاکستان کیلئے بھی حوصلہ افزا ثابت ہو سکتا ہے۔ خیبر پختونخوااور بلوچستان میں پہلے ہی دہشت گردی کا سامنا کرنے والے عوام اور سیکورٹی فورسز کو یہ پیغام جائے گا کہ حکومت طالبان کے ساتھ نرم رویہ رکھ رہی ہے، جس سے ان گروہوں کی کارروائیاں مزید بڑھ سکتی ہیں۔ ان صوبوں میں نہ صرف امن و امان کی صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے بلکہ ترقیاتی منصوبے اور سرمایہ کاری کے امکانات بھی معدوم ہو سکتے ہیں، کیونکہ ایسی صورتحال میں سرمایہ کار اور ترقیاتی ادارے خوفزدہ ہو جاتے ہیں۔افغان طالبان کے ساتھ پی ٹی آئی کی مذاکراتی پالیسی کا ایک اور نتیجہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بلوچستان میں تحریک طالبان پاکستان کی سرگرمیاں مزید بڑھ جائیں۔ بلوچستان پہلے ہی دہشت گردی اور علیحدگی پسندی کا شکار ہے، اور افغان طالبان کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعلقات سے وہاں کی صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے۔ تحریک طالبان پاکستان کو افغان طالبان کی حمایت ملنے سے وہ بلوچستان میں اپنی جڑیں مضبوط کر سکتی ہے، جس سے صوبے کی صورتحال مزید کشیدہ ہونے کا قوی اندیشہ ہے ۔پی ٹی آئی کی قیادت کو یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کی پالیسی ملکی داخلی سیاست پر بھی اثرانداز ہو سکتی ہے۔ اس پالیسی پر پاکستان کی دیگر سیاسی جماعتوں اور عوامی حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کی جا سکتی ہے۔ عوام کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ کیوں ایک ایسی تنظیم کے ساتھ مذاکرات کیے جا رہے ہیں جس نے ہزاروں بے گناہ لوگوں کو نشانہ بنایا اور ملک میں دہشت گردی کو فروغ دیا؟ ۔پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف طویل اور سخت جنگ لڑی ہے، جس میں ہزاروں فوجیوں اور شہریوں نے جام شہادت نوش کیا ہے اور اب بھی کر رہے ہیں۔پی ٹی آئی کو اس حقیقت کا ادراک کرنا چاہیے کہ افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات نہ صرف آئینی خلاف ورزی ہیں بلکہ یہ پاکستان کی سلامتی کیلئے بھی سنگین خطرات پیدا کر سکتے ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان کو اس پالیسی سے حوصلہ مل سکتا ہے،اور خیبر پختونخوااور بلوچستان میں ان کی سرگرمیاں مزید بڑھ سکتی ہیں۔ عالمی سطح پر پاکستان کو تنقید کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، اور ملک کی ساکھ کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اس لیے پی ٹی آئی کی قیادت کو اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرنی چاہئے، اور دہشت گردی کے خلاف سخت موقف اپنانا چاہیے تاکہ ملک میں امن و استحکام قائم ہو سکے۔ملک کو اس وقت قومی یکجہتی اور دہشت گردی کیخلاف مضبوط حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے عوام پہلے ہی دہشت گردی کے ہاتھوں مشکلات کا شکار ہیں، اور انہیں ایک ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو ان کی حفاظت اور ترقی کو یقینی بنا سکے۔ پی ٹی آئی کی حکومت کو اپنے اقدامات پر غور کرنا ہوگا، اور یہ سمجھنا ہوگا کہ بین الاقوامی تعلقات اور خارجہ پالیسی وفاقی حکومت کا دائرہ کار ہیں، اور صوبائی حکومتوں کو ان معاملات میں مداخلت سے گریز کرنا چاہئے۔