• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سپریم کورٹ کے 8 اکثریتی ججوں کا تفصیلی فیصلہ جاری

اسلام آباد(رپورٹ :،رانامسعود حسین ) قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں(پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ)ارکان کی بنیاد پر تخلیق پانے والی خواتین اور اقلیتوں کیلئے مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کو دینے کی بجائے دیگر پارلیمانی پارٹیوں کو الاٹ کرنےسے متعلق پشاو رہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف دائرکی گئی سنی اتحاد کونسل کی اپیلوں سے متعلق سپریم کورٹ کے 8اکثریتی ججوں نے تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے قراردیاہے کہ 2 برادر ججز نے رائے دیتے ہوئے حدود سے تجاوز کیا، الیکشن کمیشن مخصوص نشستیں PTI کو دے،آئین یا قانون سیاست جماعت کو انتخابات میں امیدوار کھڑے کرنے سے نہیں روکتا، تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت ہے،جس نے 2024 کے عام انتخابات قومی و صوبائی اسمبلیوں کی متعدد نشستیں جیتی یا حاصل کی ہیں، الیکشن کمیشن مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دے، الیکشن کمیشن ملک میں جمہوری عمل کے تسلسل کا ضامن اور حکومت کا چوتھا ستون ہے،لیکن یہ عام انتخابات 2024 میں اپنا یہ کردار ادا کرنے میں ناکام رہا ہے، انتخابی نشان واپس لئے جانے کا مطلب یہ نہیں سیاسی جماعت کے آئینی حقوق ختم ہوگئے،پی ٹی آئی قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں کی حقدار ہے، تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے دو برادر ججوں کے 3اگست کے اختلافی نوٹ میں رائے دیتے ہوئے یہ کہنا کہ آٹھ ججوں کا فیصلہ آئین کے مطابق نہیں ، مناسب نہیں ہے، دونوں ججز نے حدود سے تجاوز کیا، فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل17(2) نے سیاسی جماعت بنانے یا اس کا رکن بننے کے حق کی ضمانت دے رکھی ہے،ایک سیاسی جماعت کو اس کی سرگرمیوں سے محروم کرنا اس کی سیاسی تباہی اور عملاً اسکی تحلیل کے مترادف ہے۔عدالت نے اپنے 14 ستمبر کے وضاحتی آرڈر کو بھی تفصیلی فیصلے کا حصہ بناتے ہوئے قراردیا کہ وضاحتی آرڈر الیکشن کمیشن کی درخواست پر جاری کیا گیاچونکہ اپنے ہی مختصر فیصلے کی وضاحت کرنا تھی اس لیے اٹارنی جنرل یا دیگر فریقین مقدمہ کو نوٹس جاری کرنا ضروری نہیں تھا، عدالت نے قراردیا کہ جب الیکشن کمیشن جیسا آئینی ادارہ غلطیاں کرے تو عدالتی مداخلت ضروری ہو جاتی ہے، مکمل انصاف کیلئے عدالت کی طاقت جمہوریت کے تحفظ کیلئے اہم ہے، الیکٹورل انصاف کی عدم فراہمی جمہوریت کی حیثیت کو خطرے میں ڈال سکتی ہے، انتخابی دیانتداری پر مصلحت کرنا جمہوریت کی حیثیت کو خطرے میں ڈال سکتا ہے، انٹرا پارٹی الیکشن کی الیکشن کمیشن سے نامنظوری پر پرانے عہدیدار بحال ہو جاتے ہیں، عدالت نے قراردیاکہ الیکشن کمیشن بنیادی فریق مخالف کے طور پر کیس لڑتا رہا ہے حالانکہ اس کی بنیادی ذمہ داری ملک میں صاف شفاف انتخابات منعقد کروانا ہے، انتخابی نشان نہ ہونے پر مخصوص نشستیں نہ دینا الیکشن کمیشن کی جانب سے ایک اضافی سزا ہے،سپریم کورٹ اگر پی ٹی آئی کے بلے کے نشان سے متعلق مقدمہ میں پارٹی کے آئینی حقوق واضح کرتی توایسا کنفیوژن ہی نہ پیدا ہوتا؟جبکہ الیکشن کمیشن نے بھی اپنے حکمنامہ میں پی ٹی آئی کے آئینی حقوق واضح نہیں کیے ہیں،عدالت نے قراردیا کہ سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن کو مدنظر رکھنا چاہیے تھا کہ ملک میں عام انتخابات کے انعقادکا شیڈول جاری ہو چکا ، واضح قانون کے بغیر کسی فریق کو سزا نہیں دی جا سکتی ،عدالت نے اکثریتی فیصلے کو ترجمہ کرکے اردو زبان میں بھی جاری کر کے کیس کے ریکارڈ کا حصہ بنانے اوراسے بھی سپریم کورٹ کی سرکاری ویب سائٹ پر بھی اپ لوڈ کر نے کا حکم جاری کیا ۔ پیر کو جاری کیا گیا70صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ نے قلمبند کیا ،جس میں کہا گیا کہ پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیاجاتاہے ، الیکشن کمیشن کا یکم مارچ کا فیصلہ آئین سے متصادم ہے اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، کسی سیاسی جماعت کو انتخابی نشان نہ دینے کے عمل سے اس کے انتخابات میں حصہ لینے کا قانونی و آئینی حق متاثر نہیں ہوتا ، پاکستان تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت ہے، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے 80میں سے 39ارکان قومی اسمبلی کو تحریک انصاف ہی کا امیدوار ظاہر کیا اسی بنیاد پر عدالت نے الیکشن کمیشن کو ہدایت کی کہ وہ 15روز کے اندر باقی 41کے دستخط شدہ بیانات وصول کرے ۔

اہم خبریں سے مزید