السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
باقاعدہ بِین بجا کر …
اِس مرتبہ ’’حالات واقعات‘‘ کا صفحہ موجود نہیں تھا، اُس کی جگہ منور مرزا ’’عالمی افق‘‘ میں برطانیہ، فرانس اور ایران کے انتخابات پر اپنے جان دار، عمیق تجزیے کے ساتھ موجود دکھائی دیئے۔ ’’نئی کتابیں‘‘ میں اِس بار ’’ہمارا اپنا لیاری‘‘ اور ’’املتاس کے پتے‘‘ نامی کتب پر تبصرےبہت پسند آئے۔ منورراجپوت کا انداز بہت ہی عُمدہ ہے، دل آپ ہی آپ کتاب خریدنے، پڑھنے پر مائل ہوجاتا ہے۔ اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں تو اِس مرتبہ آپ نے بابر سلیم خان کو باقاعدہ بین بجا کر تاکید کردی ہے۔ دیکھیں، آئندہ کہاں تک عمل درآمد ہوتا ہے۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)
ج: جتنے ’’چکنے گھڑے‘‘ اِس ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں Experience کر لیےہیں، بخدا پوری زندگی میں نہیں دیکھے تھے۔ سو، یہ آپ کی خام خیالی ہی ہے کہ ہماری کسی گزارش پر کہیں کوئی عمل درآمد ہوگا۔
صاف گوئی، کھرا انداز
اِس بارآپ نےخواتین ماڈلز کی بجائے حضرات سے سرِورق اور اسٹائل کے صفحات آراستہ کیےاوربس، اُن سب لوگوں کےمنہ بند کر دیئے، جو آپ کومَردوں کا دشمن سمجھتے ہیں۔ منور مرزا ہمیشہ کی طرح حکومتِ وقت کو اپنے قیمتی مشوروں سے نواز رہے تھے۔ خدا کرے، کسی کو عقل بھی آجائے۔ حافظ محمّد ثانی کی ہجرتِ نبویؐ سےمتعلق تحریرتومعلومات کا ایک خزانہ تھی۔ ایسی کوئی تحریر پہلے کبھی نگاہ سےنہیں گزری۔ وحید زہیر بلوچستان کے مسائل پرقاضی صاحب سے محوِگفتگو تھے۔
عالیہ زاہد بھٹّی کی’’مَیں، ماں اور بارش‘‘ بہت ہی پیاری تحریر تھی، پڑھ کر بہت لُطف آیا۔ عشرت جہاں اس ہفتے کی ’’ونر‘‘ ٹھہریں، آپ کی حوصلہ افزائی اور علم دوستی کا شکریہ۔ بات یہ ہے کہ سنڈے میگزین کی نگرانِ اعلیٰ کے منصب کا تقاضا ہے کہ وہ ہر ایرے غیرے، نتھو خیرے کو خاطر میں نہ لائے۔ اپنا رعب و دبدبہ قائم رکھے۔ سو، ہمیں تو آپ کی صاف گوئی، کھرا انداز بہت بھاتا ہے۔ اگلے شمارے میں واقعۂ کربلا پر شان دار مضمون پڑھ کر آنکھیں نم ہوگئیں، سبحان اللہ۔
ڈاکٹر غلام علی ہیپا ٹائٹس اور ڈاکٹر امجد جعفری خرابیٔ گردہ پر تشویش کا اظہارکررہے تھے، جب کہ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں بھی ڈاکٹر حافظ محمّد ثانی نے شہدائے کربلا پر اچھوتی تحریر رقم کی۔ اختر سعیدی نے کتابوں پر ماہرانہ تبصرہ پیش کیا اور ہماری محفل میں ناز جعفری، رونق افروز، نواب زادہ بےکار ملک، سید زاہد علی، افضل شاہین، ابراہیم چنا اور رفعت سلطانہ وغیرہ موجود نظر آئے، جب کہ ونر ٹھہرے، شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی۔ تیسرے شمارے میں منور مرزا ایران، برطانیہ، فرانس کے انتخابات پر مدلل تجزیئے کے ساتھ آئے۔ صحیح بات ہےکہ انتخابات کامقصد صرف اقتدار کی کرسی حاصل کرنا نہیں، یہ تو ایک کانٹوں بَھری سیج ہے۔
سلطان محمّد فاتح ’’صبر و شُکر‘‘ پر سیرحاصل مضمون لائے۔ بلاشبہ یہ دونوں صفات توعمومی طور پر مفقود ہی ہوگئی ہیں۔ حسن عباسی’’جلال الدین رومی‘‘ کے حالاتِ زندگی عُمدگی سے رقم کررہے ہیں۔ رؤف ظفر نے’’عُمر گزر جاتی ہے، جیون ساتھی نہیں ملتا‘‘ کے عنوان سے انتہائی فکر انگیز ’’فیچر‘‘تیار کیا ۔ آج کل تو یہ ہر دوسرے گھر کا مسئلہ ہے۔ اللہ رب العزت سب کے لیے آسانیاں کرے۔ منور راجپوت کُتب پر تبصرے کے اسپیشلسٹ ہوگئے ہیں، اُن کے ری ویوز پڑھ کر بہت لُطف آتا ہے اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ اِس باربھی حسبِ روایت ہی تھا۔ (شمائلہ نیاز، دائرہ دین پناہ، تحصیل کوٹ ادّو، ضلع مظفّر گڑھ)
ج: براہِ مہربانی آپ تھوڑا وقفہ دے کر خط لکھا کریں، ورنہ اِسی طرح تین تین خطوط کا ملغوبہ بنا کے ہی شائع کرنا پڑے گا۔ اور یہ رعب و دبدبہ قائم رکھنے والی بات تو چلیں درست ہے، مگریہ’’مَردوں کی دشمن‘‘ والا بیانیہ کہاں سے آگیا۔ اللہ رکھے، مَردوں کے رُوپ میں باپ، بھائی، شوہر، بیٹا… ہمارے یہ سارےہی انتہائی پیارے، مقدّس اور قابلِ احترام رشتے موجود ہیں۔
ہرماہ بھیجوں گا
’’سنڈے میگزین‘‘ کا سال 1997ء سے مستقل قاری ہوں۔ بہت عرصے سے مَیں نے جریدے کے لیے کوئی مضمون نہیں لکھا۔ اب یہ ایک تازہ مضمون آپ کی خدمت میں بھیج رہا ہوں۔ اُمید ہے، لازماً شائع کردیں گی۔ ’’سنڈے میگزین‘‘ کے سارے ہی سلسلے بہت زبردست ہیں۔
اب میری کوشش ہوگی کہ ہر ماہ کچھ نہ کچھ لکھ کر آپ کو ضرور بھیجا کروں۔ اور آپ اِسے اشاعت کے زیور سے آراستہ کر دیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ’’جنگ‘‘ اخبار کی طرح ’’سنڈے میگزین‘‘ کا بھی اپنا ایک الگ ہی معیار، شناخت اور پہچان ہے۔ ویسے مجھے آپ کے لکھاریوں میں عرفان جاوید، ڈاکٹر ناظر محمود، رؤف ظفر، منور مرزا اور منور راجپوت وغیرہ بہت پسند ہیں۔ (ارشد حسین چنّا، سینئرمیل نرس، پمز اسپتال، اسلام آباد)
ج: مضمون قابلِ اشاعت ہوا تو شائع کردیا جائےگا، لیکن امکان کم ہے۔ ایک تو تحریر کچھ زیادہ پختہ نہیں۔ دوم، موضوع بھی ہمارے مندرجات سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اوربراہِ مہربانی جب تک ایک تحریر کی اشاعت یا عدم اشاعت کافیصلہ نہ ہوجائے، دوسری تحریر ہرگز مت بھیجیں اوریہ ہدایت بطورِخاص صرف آپ کے لیے نہیں، ہر ایک لکھاری کے لیے ہے۔
وقت کے گم نام غالب سے رابطہ!!
میرا قلمی نام مرزا اسد اللہ خان غالب کی طرح کافی لمبا ہے کہ وہ استادوں کے استاد ہی نہیں، میرے پیر و مرشد بھی ہیں۔ اگر آپ میری یہ غزل میگزین میں چھاپنا چاہیں، تو مختصر نام ’’آئی ایچ کُشا‘‘ کے نام سے چھاپ سکتی ہیں ۔ مَیں چاہتا ہوں کہ مَیں کچھ برے شعراء کی نظر میں آجاؤں تاکہ میں بھی جلد کوئی مشاعرہ پڑھ سکوں۔ مَیں چوں کہ’’موبائل فری‘‘ ہوں، اِس لیے کسی سے رابطہ نہیں کر سکتا۔
سو، اِس ضمن میں آپ کی مدد درکار ہے۔ ویسے میرے سگے ماموں یوسف قمر کی کتاب ’’اجنبی دوست ہوئے‘‘ کی تقریبِ رُونمائی جناب افتخارعارف نے کی تھی، جن کی مشہورمنقبت ’’مَیں تو لیکن یہ منقبت میرا تعارف نہیں۔ میرا تعارف میری اپنی شاعری ہے۔ بقول پیرومرشد ؎ اپنی ہستی ہی سے ہو، جو کچھ ہو۔ شعر و شاعری ہمارے خاندان میں کوئی نئی نہیں۔
آپ کے جریدے میں پروین شاکر کی غزل کا شعر ہے ؎ دامانِ شب کے نام کوئی روشنی تو ہو… تارے نہیں نصیب، تو آنسو بکھیرئیے۔ اور نعیم صبا کی غزل کے اشعار ؎ شکست و ریخت سے ملتی ہےزندگی کو نمود… میرے وجود کا عُنصر تیرےکمال میں ہے…جُنوں کی راہ میں ہر سمت ہے فریبِ نظر…چلوں جنوب کی جانب، قدم شمال میں ہے۔ پڑھ کربےحد لُطف حاصل ہوا۔ شاعری میں آپ کا مطالعہ کافی وسیع ہے، شاید آپ خود بھی شاعری کرتی ہیں۔ ویسے آپ اِس وقت کے گم نام غالب سے رابطے میں ہیں۔ (آئی ایچ کشا، صدر ٹاؤن، کراچی)
ج: وقت کے گم نام غالب صاحب! کیا اچھا ہوتا کہ تعارف یوسف قمرصاحب ہی ہوتے، تو حوالہ کچھ معتبر ہوجاتا۔ خیر، آپ کا کلام سعیدی صاحب کے ملاحظے کے لیے بھیج دیا گیا ہے، جب تک وہاں سے جواب نہیں آتا، ہماری طرف سے اپنے اوور کانفیڈینس پر21 توپوں کی سلامی قبول فرمایئے۔ اوریہ جو آپ نے ہمیں رابطے کا اعزاز بخشا ہے، اِس پر توکم سےکم بھی خوشی سے فوت ہوجانا ہی بنتا ہے۔
فون نمبرز کی اشاعت کی زحمت
علم و ادب کے فروغ کے لیے آپ کی کاوشیں بےمثال، لاثانی ہیں۔ آپ ہی کے زیرِ سایہ اختر سعیدی ’’نئی کتابیں‘‘ متعارف کروا رہے ہیں۔ بہت خوش آئند امر ہے، لیکن اِس ضمن میں ایک بنیادی کمی ہے، جس سے تمام عمل بےمقصد ہوجاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ لوگ کتاب کے پبلشر یا ادارے کا نام تو شائع کرتے ہیں، لیکن فون نمبرز نہیں۔
بس، مصنّف یاپبلشر کا مختصر سا پتا لکھ دیتے ہیں۔ مَیں نے اِن پتوں پر کتاب لینے کے لیے خط لکھے، مگر غالباً مختصر پتے کے باعث وہ پہنچ نہ سکے۔ براہِ مہربانی تبصرہ نگاروں سے کہیں کہ وہ فون نمبرز کی اشاعت کی بھی زحمت کریں۔ (سید صفدر حسین کاظمی، راول پنڈی)
ج: محترم! آپ نےآخری بار ہمارے سلسلے ’’نئی کتابیں‘‘ کا مطالعہ کب کیا تھا؟؟ پچھلے کئی ماہ بلکہ شاید سال بھر سے تمام کتابوں کے ساتھ مصنفین یا پبلشرز کے نمبرز باقاعدگی سے شائع کیے جارہے ہیں۔ ہمیں تمام کُتب بذریعہ ڈاک موصول ہوتی ہیں اور اُن پر نام و پتے کے ذیل میں جو معلومات درج ہوتی ہیں، ہم بعینیہ شائع کردیتےہیں۔ نیز،ادارے کی پالیسی کے برخلاف، فون نمبرز کی اشاعت کا سلسلہ بھی صرف قارئین کے پُرزور اصرار ہی پر شروع کیا گیا۔
212 یونٹ کا بل!!
’’سنڈے میگزین‘‘ میں خطوط کا جواب دیتے ہوئے لہجہ ذرا نرم رکھا کریں۔ عوام بےچارے ویسے ہی بہت پریشان ہیں۔ شہباز شریف خُود اعتراف کرتے ہیں کہ سالانہ اربوں روپے کرپشن کی نذر ہورہے ہیں، تو ایسے میں غریب عوام بیچارے کہاں جائیں۔ ہمارے خیال میں تمام لوگوں کو اپنی اپنی ذمّے داریاں نبھانی چاہئیں۔
نہ کہ صرف قارئین کو کہ سو فی صد آپ کی ہدایت کے مطابق خط لکھیں۔ باقی اِس ملک میں کون سا کام ڈھنگ سے ہورہا ہے۔ آخرمیں مریم نواز اور بلاول بھٹو سے ایک درخواست ہے کہ آپ لوگوں نے کہا تھا کہ 300 یونٹ سے کم کا بل حکومت ادا کرے گی تو بھئی، ہمارا بل اس بار212 یونٹ کا آیا ہے۔ براہِ مہربانی وہ آپ ادا کردیں۔ (نواب زادہ بے کار ملک، سعید آباد، کراچی)
ج: ہماری مانیں، سید زاہد علی کو بھیج دیں۔ آپ کے ایک دو بِلز اد کریں گے، تو اُن کا بھی آپ سے obsession کا بخار کچھ کم ہوجائےگا۔ نیز، کچھ اور بھی قارئین ہیں، جوآپ سےبلا کی ہم دردی رکھتےہیں، تو وہ بھی چاہیں، تو یہ خدمتِ خلق کرکے (آپ کے بل کی ادائی) آپ سے حقیقی محبّت کا عملی ثبوت دے سکتے ہیں۔
فی امان اللہ
سرِورق کے پیارے اندازِ حُسن دیکھتے آگے بڑھ گئے۔ ’’حالات وواقعات‘‘ میں منور مرزا، ٹرمپ پر قاتلانہ حملے کی تفصیلات سے آگاہ کررہے تھے۔ ہمیں تو ایسا لگا، جیسے ہمارے لیڈرز مقبولیت کے لیے جعلی قاتلانہ حملے کرواتے ہیں، ٹرمپ نے بھی وہی ٹرمپ کارڈ (ترپ کا پتّا) کھیلا ہے۔ یوٹرن خان نے بھی تو اپنی ریلی کی کام یابی، اورہم دردی کے ووٹ کے لیے یہی گُر اپنایا تھا۔ خیر، بڑے لوگوں کی بڑی باتیں، ہم دخل در معقولات کرنے والے کون؟سروے بتارہے ہیں کہ ٹرمپ دوسری بار بھی کام یاب ہوجائیں گے۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں سلطان محمد فاتح، تعلیماتِ نبویﷺ کی روشنی میں تحمّل و برداشت کی ضرورت و اہمیت پر روشنی ڈال رہے تھے۔
’’رپورٹ‘‘ میں محمّد عُمیر جمیل آن لائن ذرائع آمدنی بڑھانے کی تراکیب بتا گئے بلکہ ترغیب دے گئے۔ ’’رپورٹ‘‘ ہی میں محمّد کاشف فرانس میں قوم پرست پارٹی کی فتح سے مسلمانوں کی مذہبی اقدار کے لیے خطرات کی نشان دہی کررہے تھے۔ ’’لازم وملزوم‘‘ میں ڈاکٹر قمرعباس نے بتایا کہ شبلی نعمانی کی کتاب ’’موازنۂ انیس ودبیر‘‘ پرناقدین کی تنقید سوسال بعد بھی جاری ہے۔ اِس کا ایک مثبت پہلو بھی ہے کہ مصنّف اور کتاب کی شہرت تاحال برقرار ہے۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں پروفیسر ڈاکٹر مقبول احمد نے بڑے شہروں کو ہیٹ ویو سے بچانے کے لیے مینجمنٹ پلان کا مشورہ دیا۔
’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں سادگی کےاندازِحُسن دیکھتے، چلّی کے نوبل انعام یافتہ شاعرکی رقم کردہ نظم پڑھنا نہیں بھولے۔ ویسے شاعرکواگر پاکستان کےحالات سے آگاہی ہوتی، تو نظم میں ہوش رُبا منہگائی سے آہستہ آہستہ مرنے کو بھی ضرور ٹانک دیتے۔ ’’شعراءکرام‘‘ میں حسن عباسی مولانا محمد جلال الدین رومیؒ کے حالاتِ زندگی کی دوسری قسط لائے، تو’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ میں ڈاکٹر ناظر محمدو کا والد کوخراجِ عقیدت بےمثال تھا۔’’ڈائجسٹ‘‘ میں نمرہ مظفر غزہ کے تباہ حال مکانوں کے کھنڈرات پر بیٹھی سوختہ جانوں کانوحہ سُنارہی تھیں۔
کشمیر کا بھی حال تقریباً ایساہی ہے، وہاں بھی بھارتی درندوں نےعید کو ماتم میں تبدیل کرکےرکھ دیا۔ یااللہ! سب مظلوموں کی غیب سے مدد فرما۔ یہ سب تیرے حبیبﷺ کے نام لیوا ہیں۔ باغ و بہار صفحے پر انعام یافتہ چٹھی کی حق دار زلیخا جاوید ٹہریں۔ اورمیڈم! ہم کوشش تو بہت کرتے ہیں کہ ایسے الفاظ، جملےنہ لکھیں، جو ایڈٹ ہو جائیں، مگر آپ کے معیار تک بھلا کہاں پہنچ سکتےہیں۔ اگلا ایڈیشن خُوب صُورت تھا۔ خوش جمال، گلاب کی شاخ جیسی ماڈل دیکھتے آگے بڑھ گئے۔ ’’عالمی افق‘‘ میں منور مرزا امریکی صدر، جوبائیڈن کی دست برداری اور کملا ہیرس کی آمد سے پیدا ہونے والی صورتِ حال کا عُمدگی سےتجزیہ کررہے تھے۔
ہیرس، رشی سوناک کی طرح بھارتی نژاد ہے، پاکستانیوں کو اِس سے کوئی اُمید نہیں رکھنی چاہیے۔ ویسے سچ تو یہ ہےکہ عرصۂ درازسےپاکستان کی کوئی خارجہ پالیسی ہی نہیں ہے۔ پتا نہیں، یہ بھاری مشاہرے لینےوالےسفارت کار کرتے کیا رہتے ہیں۔ ’’فیچر‘‘ میں رؤف ظفرمعاشرے میں پھیلتی عدم برداشت کی سنگینی پر روشنی ڈال رہے تھے۔
’’انٹرویو‘‘ میں نام وَر ڈارما نگار، تاج رئیسانی شکوہ کُناں تھے کہ ’’آرٹس کونسل اور سبزی کی دکان میں کوئی فرق نہیں رہ گیا‘‘ سو فی صد بجا فرمایا۔ پتا نہیں، قد آور ادبی شخصیات کیوں معدوم ہوتی جارہی ہیں، شعر و ادب کی اعلیٰ روایات دَم توڑ رہی ہیں۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں حُسن و خوبی کے موضوع پر مغربی مفکّرین کے بہترین اقوال پیش کیے گئے۔
اتنی گہری معلومات پر ہم تو بخدا، اش اش کراُٹھتے ہیں۔’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں جاوید محسن ملک بنگلا دیش کے ہنگاموں کی خون آشام داستان لائے، لیکن دیکھ لیں، مکافاتِ عمل توہوکررہتا ہے۔ پہلے مجیب الرحمٰن اپنے خاندان کے ساتھ تہہ تیغ کیے گئے اور اب اُن کی بیٹی کو جابرانہ طرزِ حکومت کے سبب سب کچھ چھوڑ چھاڑکر فرار ہونا پڑا۔
بادشاہی صرف اللہ ہی کی قائم رہنے والی ہے۔ اقتدار کی طاقت میں فرعون بن جانے والے بالآخر عبرت کا نشان بن جاتےہیں۔ نئی کتابوں پر منور راجپوت کا تبصرہ ہمیشہ کی طرح ماہرانہ تھا اور ہمارے پیارے صفحے پرپہلی چٹھی کا اعزاز عاجز داد فریادی کے حصّے آیا،جب کہ نواب زادہ بے کار ملک کےخط میں اتنے پرانے نام پڑھ کر تو ہم حیران ہی رہ گئے کہ یہ تو بڑے ہوش یار ہیں۔ بس انفرادیت کے چکر میں اونگیاں بونگیاں مارتے رہتے ہیں۔ (شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی، میرپورخاص)
ج: محض نام یاد رکھنے میں کیسی ہوش یاری… ایک، جَنموں کا بے روزگار اتنا بھی نہ کرے، تو کیا کرے؟ ویسے بیش تر نام غلط ہی لکھے تھےانھوں نے، ہم نے خُود درست کیے ۔
* مَیں کافی عرصہ پہلے جنگ، سنڈے میگزین میں لکھتی رہی ہوں۔ پھر پاکستان سے باہرچلے جانے کے سبب کافی عرصہ نہیں لکھ سکی۔ اب دوبارہ کچھ بھیجنا چاہتی ہوں، کیا میری تحریر شائع ہوسکے گی۔ جواب کی منتظر رہوں گی۔ (افروز عنایت)
ج: تحریر قابلِ اشاعت ہو تو، خواہ کوئی، کہیں سے، کتنے ہی عرصے بعد کیوں نہ آئے، شایع کردی جاتی ہے۔ اب بھی اگر آپ کی تحریر معیاری ہوگی، شایع ہوجائے گی، لیکن تحریر دیکھے بغیر تو کسی کو تسلی بھی نہیں دی جا سکتی، ضمانت تو دُور کی بات ہے۔
* مئی کا ’’مدرز ڈے اسپیشل‘‘ دیکھا تھا، تو دِل اُداسی سے بَھرگیا تھا کہ 12سال سےزائد ہوگئے، مجھےاپنی ماں کے ہاتھوں کاشفیق لمس محسوس کیے۔ اللہ میری اور سب کی مائوں کو صحت و تن درستی کے ساتھ سلامت رکھے۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ کا افسانہ ”ثمر“ ویسے تواچھی تحریر تھی، لیکن مَیں پہلے بھی اِس موضوع پر ایک افسانہ پڑھ چُکی ہوں۔
ایک شکایت ہے کہ آپ کے آن لائن میگزین میں ’’اسٹائل‘‘ بزم کے تمام پہناووں کی تصاویرنہیں ہوتیں۔ مَیں سوچتی ہی رہ جاتی ہوں کہ یہ کس ڈریس کی بات ہو رہی ہے۔ بہت پہلے ایک سلسلہ ’’زمیں جُنبد، نہ جُنبد گل محمّد‘‘ شایع ہوتا تھا، جو ہرایک کا پسندیدہ تھا۔ کیا ایسا کوئی سلسلہ دوبارہ شروع ہوسکتا ہے؟آپ کا صفحہ میں اِس بار میری ای میل بھی شامل تھی، بہت شکریہ۔ اب تو بس یہ میگزین ہی ہے، جس کے ذریعے پاکستان سے رشتہ جُڑا ہوا ہے۔ (قرات نقوی، ٹیکساس، امریکا)
ج: تمھاری شکایت نیٹ ایڈیشن مرتّب کرنے والوں تک پہنچادی گئی ہے، دیکھو کیا حل نکالتے ہیں۔ اور’’زمیں جنبد‘‘ جیسے سلسلوں کے دوبارہ آغاز کے لیے اسٹاف بھی درکار ہے۔ فی الوقت جو چند ایک لوگ رہ گئے ہیں، وہ موجودہ سلسلوں ہی پر کام کرلیں، تو غنیمت ہے، وگرنہ آئیڈیاز کی تو ہمارے پاس کوئی کمی ہی نہیں۔
* اُمید ہے، آپ لوگ بخیریت ہوں گے۔ میری آپ سے درخواست ہےکہ براہِ کرم میگزین میں ناول ضرور شامل کریں۔ ایک سلسلے وارناول کی شدید کمی محسوس ہوتی ہے۔ ویسےمَیں ہر اتوار کو اپنا رسالہ ضرور پڑھتا ہوں۔ اللہ آپ کو خوش رکھے۔ (عبدالرحمٰن، چکوال)
ج: کوئی اچھا ناول ملے، تو شروع کریں ناں۔
قارئینِ کرام !
ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔
نرجس ملک
ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘
روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی
sundaymagazine@janggroup.com.pk