• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تعلیم و تعلّم کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں اور معلّم کی قدرو منزلت بھی مسلّم ہے۔ نیز نئی نسل کی تعمیر میں اساتذہ کے کردار کے پیشِ نظر ہی ہر سال 5 اکتوبر کو ’’اساتذہ کا عالمی دن‘‘ منایا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے ان دنوں ہر دوسرا فرد ہی یہ کہتا نظر آتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں استاد کی عزّت نہیں کی جاتی، جو قطعی بے بنیاد بات ہے، جب کہ در حقیقت استاد آج بھی محترم ہے اور اسے معاشرے میں سب سے زیادہ عزّت و تکریم ملتی ہے، بشرطیکہ وہ علم کا منبع، اعلیٰ کردار کا حامل، درس و تدریس سے محبّت رکھنے والا اور علم کی مؤثر ترسیل کے لیے ابلاغ کی قوّت کا حامل ہو۔

تاریخ، اساتذۂ کرام کے ادب و احترام کے متاثر کُن واقعات سے بَھری پڑی ہے۔ تاہم، ہم ماضی کی مثالیں دینے کی بہ جائے عصرِ حاضر کے کچھ ایسے واقعات پیش کرنے کی کوشش کریں گے کہ جن میں موجودہ دَور میں اساتذہ کی عزّت و تکریم کی واضح جھلک دکھائی دی۔

اس ضمن میں پہلا ناقابلِ فراموش واقعہ کچھ یوں ہے کہ شہر کے مرکزی چوک سے ایک سرکاری اسکول میں عربی اور اسلامیات پڑھانے والے ایک سائیکل سوار معلّم گزر رہے تھے کہ اچانک اُن کے سامنے ایک گاڑی آکر رُکی۔ گاڑی سے ایک پولیس افسر برآمد ہوا اور اس کے گرد باوردی پولیس اہل کاروں نے حصار بنا لیا۔ اُس ڈی آئی جی نے سائیکل سوار استاد کے قدم چھوئے اور ہاتھ باندھ کر اُن کے احترام میں کھڑا ہو گیا۔ 

ڈی آئی جی نے اپنے استاد کا حال احوال دریافت کیا اور اُس وقت تک دوبارہ گاڑی میں نہیں بیٹھا کہ جب تک اُس کے استادِ محترم آنکھوں سے اوجھل نہ ہو گئے۔ اسی طرح ایک مرتبہ ہم بازار خریداری کے لیے گئے، تو ایک سائیکل سوار ہم سے ٹکرا گیا۔ اگلے ہی لمحے ایک نوجوان نے اُس سائیکل سوار کے گال پر ایک زنّاٹے دار تھپڑ رسید کیا اور طیش کے عالم میںبولا ’’نظر نہیں آتا کیا،تم نے میرے استاد پر سائیکل چڑھا دی۔‘‘ اس سے پہلے کہ اُس بے چارے پر تھپّڑوں کی برسات ہوتی، ہم نے معاملہ رفع دفع کروا دیا۔

یہاں دل چسپ بات یہ ہے کہ طیش میں آکر سائیکل سوار کو تھپّڑ مارنے والا اپنے وقت کا مشہور غنڈا تھا۔ اس ضمن میں ایک اور واقعہ بھی ہے کہ ایک استاد اپنے مکان کی رجسٹری کروانے تحصیل دار کے پاس گئے، تو وہ انہیں دیکھتے ہی ادب سے کھڑا ہو گیا۔ احترام سے کُرسی پیش کی، چائے سے تواضع کی اور چند منٹوں ہی میں اُن کا مسئلہ حل کر دیا۔ بعد ازاں، اُس تحصیل دار نے انہیں بتایا کہ ’’مَیں آپ کا شاگرد ہوں۔‘‘ کچھ عرصہ قبل ہمیں ڈویژن کے ایک اعلیٰ ترین پولیس افسر کے دفتر جانے کا اتفاق ہوا، تو موصوف نے ہمارے احترام میں اپنی نشست چھوڑ دی۔ 

ہمیں کُرسی پر بٹھایا اور پوری ملاقات کے دوران نہ صرف احتراماً کھڑے رہے، بلکہ ہمیں ہماری گاڑی کا دروازہ کھول کر اندر بٹھایا اور ہماری روانگی تک وہیں موجود رہے۔ ہم ایک ایسے استادِ محترم کو بھی جانتے ہیں کہ جب وہ راستے سے گزرتے، تو شاگرد ان کے گرد جمگھٹا لگا لیتے۔ ان سے مصافحہ کرتے اور انہیں اپنے گھر کی دہلیز تک چھوڑ کر آتے، جب کہ ایسے واقعات تو ہم نے اَن گنت مرتبہ دیکھے ہیں کہ شاگرد اپنے استاد کو دیکھتے ہی سواری سے اُترا اور اُن کے گُھٹنے چُھونے اور حال احوال دریافت کرنے کے بعد دوبارہ اپنی راہ لی۔ ہمارا ایک سینئر اور قابل وکیل کے پاس آنا جانا لگا رہتا ہے۔ 

ہم جب بھی اُن کے پاس جاتے ہیں، تو وہ احتراماً اپنی کُرسی چھوڑ کر بہ صد اصرار ہمیں اس پر بٹھادیتے ہیں اور خود سامنے بیٹھ کر سب کو فخریہ بتاتے ہیں کہ ’’یہ ہمارے استاد ہیں اور ان ہی کی وجہ سے آج مَیں اس مقام تک پہنچا ہوں۔‘‘ اسی طرح ہمیں ایک تقریب میں جانے کا اتفاق ہوا، جس کے مہمانِ خصوصی ایک وفاقی وزیر تھے۔ 

دورانِ تقریب اچانک اُن کی نظر شرکا میں موجود ایک شخص پر پڑی، تو فوراً احتراماً کھڑے ہو گئے۔ پھر انہوں نے اسٹیج پر ایک نشست کا اضافہ کروایا اور اُس شخص کو خود اپنے ساتھ بٹھانے کے بعد شرکائے تقریب کو فخریہ انداز میں بتایا کہ ’’ یہ میرے استاد ہیں اور انہی کی محنت کے طفیل اللہ تعالیٰ نے مُجھے یہ منصب عطا کیا ہے۔‘‘

اساتذہ کی عزّت و تکریم کی یہ مثالیں پیش کرنے کا مقصد اس تاثر کو زائل کرنا ہے کہ آج ہمارے معاشرے میں اساتذہ کا احترام نہیں رہا۔ یاد رہے کہ اساتذہ کو یہ مقام نبیٔ محتشم، حضرت محمدﷺ کے طفیل ملا ہے، جن کا یہ فرمانِ پاک ہے کہ ’’ مُجھے معلّم بنا کر بھیجا گیا ہے۔‘‘ اگر اساتذہ اپنا یہ مقام برقرار رکھنا چاہتے ہیں، تو انہیں بے غرض ہو کر، خلوصِ نیّت اور پوری استطاعت کے ساتھ اپنے شاگردوں میں علم کی ترسیل کرنی چاہیے۔ 

مغرب نے تو سال میں صرف ایک دن استاد کے لیے مختص کررکھا ہے، جب کہ مذہبِ اسلام میں ہر دن ہی اساتذہ کا ہے کہ ان کے بغیر تسخیرِ کائنات ناممکن ہے۔ یہاں یہ اَمر بھی قابلِ ذکر ہے کہ اگر معاشرہ معلمین کی عزّت و تکریم کرتا ہے، تو پھر ان کا بھی فرض ہے کہ وہ اخلاق و کردار کا اعلیٰ نمونہ بنیں اور تمام تر مشکلات و تکالیف کے باوجود اپنے شاگردوں میں بھی اعلیٰ اوصاف پیدا کریں، انہیں جدید علوم سے متّصف کریں، تاکہ وہ دُنیا میں ان کے لیے فخر اور بہ روزِ قیامت شفاعت کا ذریعہ بنیں۔

زیرِ نظر مضمون میں ہم یہ تلخ حقیقت بھی بیان کرنا چاہتے ہیں کہ وطنِ عزیز میں سرکاری سطح پر اساتذہ کی عزّت و تکریم تقریباً ختم ہو کر رہ گئی ہے اور اسے محض ’’بندۂ مجبور‘‘ بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔ اساتذہ کو اُن کے اصل مقصد یعنی درس و تدریس کی بہ جائے ڈینگی لاروا اور گھر گھر جا کر اسکولوں سے باہر بچّے تلاش کرنے جیسے غیر متعلقہ کام سونپ دیے گئے ہیں۔ دوسری جانب محکمۂ تعلیم کے گریڈ 20کے افسران کو 17اور18گریڈ کے بیوروکریٹس کے ماتحت کر دیا گیا ہے، جو ان کی تذلیل کر کے گویا تسکین محسوس کرتے ہیں۔

اسی طرح سرکاری تعلیمی اداروں کو پرائیویٹ انسٹی ٹیوشنز کے ہاتھ فروخت کر کے اساتذہ کو ملازمت چھوڑنے پر مجبور کیا جا رہا ہے اور جب وہ اپنے مطالبات کےحق میں سڑکوں پر آتے ہیں، تو لاٹھیوں اور ڈنڈوں سے اُن کی تواضع کی جاتی ہے ، یہاں تک کہ ہتھکڑیاں پہنا کر جیلوں میں بند کر دیا جاتا ہے۔ 

علاوہ ازیں، پینشن سمیت اساتذہ کی دیگر مراعات ختم کی جا رہی ہیں۔ مطلب، ہم اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے مستقبل کی بربادی کا سبب بن رہے ہیں۔ ہماری اعلیٰ حُکّام سے گزارش ہے کہ خدارا! اساتذہ پر اس طرح ظلم و ستم مت ڈھائیے، اُن کی قدر و قیمت پہچانیے کہ انہی سے ہمارا مستقبل وابستہ ہے۔

سنڈے میگزین سے مزید