• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’پاکستان پیپلز پارٹی، پنجاب اور بلاول بھٹو ‘‘ کے عنوان سے گزشتہ کالم میں خاکسار نے بات یہاں چھوڑی تھی ’’نواز شریف 1980ء کی دہائی میں پاکستان کی سیاست میں شامل کئے گئے۔ ان کی ذات، ان کا سیاسی گروہ اور ان کی جماعت شروع سے آج تک ’’اسٹیبلشمنٹ‘‘ کے زیر سایہ اقتدار کے ایوان میں براجمان ہوتی رہی جبکہ پیپلز پارٹی کو ہر قومی انتخاب میں پس پردہ قوتوں اور پنجاب میں نواز شریف فیکٹر کی صوبائی ریاستی طاقتوں سے جان لیوا مقابلوں کے بعد اپنا وجود منوانا پڑا۔ وجود منوا لیا گیا تو اسٹیبلشمنٹ نے اسے دوسرے طریقوں سے اپنی حکومتوں کی آئینی مدتیں پوری کرنے سے پہلے نکال باہر کیا۔ پاکستانی تاریخ میں پہلی بار ’’صدر‘‘ آصف علی زرداری کی قیادت میں پی پی کی منتخب حکومت نے اپنی آئینی مدت پوری کی۔ ’’صدر‘‘ نواز شریف فیکٹر کے ریاستی عناصر ، ان کا اندازِ منصوبہ بندی، پاکستانی معاشرے میں ان کی مذہبی ساخت کا تسلیم شدہ اجتماعی تاثر، گزشتہ تیس برسوں میں پنجاب کے ریاستی ڈھانچے پر ان کی بلا واسطہ اور بالواسطہ مکمل گرفت جیسے سیاسی اور سماجی جغرافیے پر ملکی دسترس رکھتے تھے۔ انہوں نے ایک بار پیپلز پارٹی کے قومی سیاسی سفر کو پاور گیم کے تکمیل سنگ میل تک پہنچانے کو ٹارگٹ کیا۔ یہ حاصل ہوا، حاصل ہی نہیں ہوا پاکستان کا قومی اقتدار پہلی بار سیدھے راستے کی نعمت سے بھی فیض یاب ہوا۔
چنانچہ پنجاب میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک نظریاتی اور سیاسی پیغام بنام عوام کے انداز سے بھی بات جاری رکھی جا سکتی ہے۔ آپ غور کریں، نومبر 1967ءمیں تاسیس کے بعد پنجاب میں کس معیار، نوعیت اور شہرت کے افراد پارٹی کی عوامی قیادت کے منصب پر متمکن ہوئے۔ صدر پنجاب پیپلز پارٹی کے طور پر 1967ء میں پہلا نام بابائے سوشلزم شیخ محمد رشید کا ہے، ان کے بعد پیپلز پارٹی پنجاب کی صدارت پر میاں محمد افضل وٹو، ملک معراج خالد، شیخ رفیق احمد، رانا شوکت محمود، دو بار جہانگیر بدر، فخر زمان، ملک مشتاق اعوان، رائو سکندر اقبال، امتیاز صفدر وڑائچ اور قاسم ضیا کے نام نظر آتے ہیں۔ بلاشبہ فخر زمان کے بعد پیپلز پارٹی پنجاب کی قیادت ’’نظریاتی ضعف‘‘ کی زد میں آئی لیکن وہ ’’نظریاتی ضعف‘‘ تھا، سیاسی شطرنج کا غیر معیاری عمل نہیں جس کے نتیجے میں پیپلز پارٹی پنجاب کی رہنمائی میاں منظور احمد وٹو کے سپرد کر دی جاتی ہے، بابائے سوشلزم شیخ محمد رشید اور میاں منظور احمد وٹو، کیا آپ اس نظریاتی جماعت کی قیادت کے مابین فرق کی اس مقدار کو ایڈجسٹ کر سکتے ہیں جس کا آخری نشانِ منزل ’’عوام رعایا نہیں شہری ہیں‘‘ کے سچ کی صورت میں لوحِ زمانہ پہ کندہ ہونا ہے؟ ذوالفقار علی بھٹو کے تختۂ دار کو سرفراز کئے جانے اور بی بی شہید کے بعد یقیناً آپ نے پاکستان اور پاکستانی قوم کی بقاء اور وقار کے لئے تاریخ ساز قومی کردار کا ثبوت دیا، آپ نے قید و بند کی صعوبتیں اذیتوں کی جس دنیا میں برداشت کیں اسی دنیا کی صرف ایک فیصد جھلک فوجی اسٹیبلشمنٹ، سرمایہ دار اور ریاست کے ذریعہ عوام پر ذاتی حکمرانی کے قائل نمائندے اور ان کے خاندان کو دیکھنی اور چکھنی پڑی، پورا دایاں بازو، سارے رجعت پسند ہاری ہوئی بھٹو مخالف تمام روحوں کے بین اور شور و غوغا نے ان کی ’’قید و بند‘‘پُر تعیش ’’جلا وطنی‘‘ کی داستانوں سے اک عالم کو ڈسٹرب کر رکھا ہے، اسی لئے کہ دائیں بازو کا یہ گروہ، اپنی آنکھ کے تنکے کو دنیا کے سب سے بڑے جنگل کا ذخیرہ اور جس کا جنگل ہو اسے صرف ’’اک تنکے‘‘ کا مالک ثابت کر سکتا ہے، اللہ رحیم و کریم اس مائنڈ سیٹ سے مسلمانوں ہی کو نہیں دنیا کی ساری مخلوق کی حفاظت فرمائے، ان کے ہاتھوں پاکستانی ریاست کے ہر مسام سے لہو بہہ رہا ہے گو ثابت کرنا ناممکن ہے!
آپ کے وژن، اخلاص اور عزم پہ کوئی سوالیہ نشان موجود نہیں، یہی وہ لمحہ ہے جب آپ سے مکالمے کی ضرورت ناگزیر ہو چکی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو جب اس دنیا سے گئے اس سے اگلے روز پاکستان کا عام آدمی اپنے تمام بنیادی حقوق کے معاملے میں عملاً ’’یتیم‘‘ ہو گیا تھا، اس یتیمی کو پاکستان پیپلز پارٹی کے گزرے پانچ برس کے اقتدار نے بھی کوئی سہارا نہیں دیا، اس عام آدمی کے حق حاکمیت کو مکمل کرنے کے تاریخ ساز عمل کی تاریخ ساز صداقت اپنی جگہ! لیکن جب آپ جمہوریت کو ’’ڈی ریل‘‘ نہ کرنے کے حوالے سے نواز شریف حکومت کی آئینی مدت پوری کرانے اور آئندہ انتخابات کے موقع پر پوری طرح میدان عمل سجانے کی تھیوری کے سائبان تلے سے پاکستان کے عام آدمی کی ’’لاچارگی‘‘، ’’بے سہارا پن‘‘، ’’یتیمی‘‘ اور ’’فقدانِ حقوق‘‘ کے چاروں ستونوں کا ذکر ختم کر دیتے ہیں، آپ ذوالفقار علی بھٹو کے عوام ہی ’’ریاست کے وارث‘‘ ، ’’عوام ہی طاقت کا سرچشمہ‘‘ اور ’’عوام رعایا نہیں شہری ہیں‘‘جیسے احترام انسانیت پر مبنی معاشرے کی جدوجہد کے اعتراف کا باب بھی بند کرواتے ہیں، گو آپ کی نیت یہ نہیں مگر جب آپ جمہوریت کو ’’ڈی ریل‘‘ نہ کرنے کی تھیوری سے عوامی حقوق کےقیام اور عمل کی یاد دہانی کو ایک خاص مدت تک سائڈ پر کر دینے کی ’’عملیت پسندی‘‘ پر چل پڑتے ہیں، آپ یقین رکھیں پیپلز پارٹی جیسی جماعتیں عوام سے کسی بھی تقاضے کے تحت ایسا ہجر و فراق برداشت یا قبول نہیں کر سکتیں، اُن کی بالآخر موت واقع ہو جاتی ہے۔ یہ ذوالفقار علی بھٹو کے نظریات کا اعجاز ہے جو پیپلز پارٹی اس گھڑی تک ’’عوام ہی طاقت کا سرچشمہ ہیں‘‘ کے بجائے پارٹی کی رہنمائی اور قیادت کے حوالے سے منظور وٹو جوڑ توڑ اور ڈیرہ کلچر کی سیاسی شطرنج کا بوجھ سہار گیا ہے۔
کہنا آپ سے یہ ہے آپ سمیت جن لوگوں نے جمہوریت کے لئے جدوجہد کی انہوں نے بھی اسے ’’ڈی ریل‘‘ کرنے کا کبیرہ گناہ کبھی نہیں کیا، جنہوں نے کیا آپ انہیںہی مخاطب کریں ہو سکتا ہے پارٹی کے عہد ساز نظریاتی افراد میں بعض ایسے بھی ہوں جن کے نزدیک آپ، بلاول، آصفہ، بختاور، ذوالفقار جونیئر، فاطمہ بھٹو، بے نظیر، شاہنواز اور مرتضیٰ بھٹو سب اس لئے ان کے دلوں کی دھڑکن اور راہ کا ساماں ہیں کہ آپ ذوالفقار علی بھٹو کے ’’عوام طاقت کا سرچشمہ‘‘ کے نظریئے پر ایمان رکھتے ہیں۔ آپ یقین رکھیں ایسا نہ ہو تو وہ لوگ آپ سے اعراض کر جائیں گے جن کے حسب نسب یا فکری تالاب میں کسی بھی قسم کے ’’دنیاوی سائز‘‘ سے مرعوب یا متاثر ہونے کے جینز (Jeans)نے کبھی جنم لینے کی غیر اخلاقی جرأت ہی نہیں کی وہ آپ کو ایک یونانی دانشور کی طرح نہایت شائستگی کے ساتھ یہ بھی کہہ سکتے ہیں ‘‘ سردی ہے، ذرا دھوپ چھوڑ کر کھڑے ہوں‘‘ آپ جمہوریت کو ’’ڈی ریل‘‘ کرنے کے معاملے میں پیپلز پارٹی کے نظریاتی کردار کو ملتوی، معطل یا دھیما کرنے کے بجائے اس طبقے اور اس کے سرمایہ دار و مذہبی عناصر کو وقتاً فوقتاً آگاہ فرماتے رہیں جو آج بھی برسراقتدار ہیں اور جن کی ’’تیسری منتخب حکومت‘‘ آج بھی انتخابی میزان میں بدترین اخلاقی بحران کی قیدی ہے، پرویز مشرف مقدمہ کے نام پر افواج پاکستان کے قابل فخر وجود کو گہنانے اور طالبان سے مذاکرات کے نام پر ریاست کی خود مختاری کو بنیادی طور پر ذاتی تحفظ کے ماضی کی روشنی میں پاکستان کا مستقبل مسلح اور جنونی مائنڈ سیٹ کے سپرد کرنے کے راستے پر چل پڑے ہیں۔
ایک اور بات کا بھی آپ کو احساس دلانے میں کوئی حرج نہیں، جب تک آپ ذوالفقار علی بھٹو کی نظریاتی قومی و سیاسی وراثت پاکستان پیپلز پارٹی کی مسند پر فر وکش ہیں آپ کسی کو کسی بھی سوال کے جواب میں ’’آپ کو میرے نقصان کی اتنی درد سری کیوں ہے؟‘‘ کہنے کا استحقاق نہیں رکھتے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی مسند پر فروکش ’’صدر‘‘ آصف علی زرداری ایک فرد نہیں، برصغیر اور پاکستان کی اس تاریخی قومی جماعت کا امانت دار ہے جسے پھانسی کے رسے اور شہادتوں کی دنیائوں نے سرفراز کر رکھا ہے۔ بلاول بھٹو پنجاب میں متوقع ہیں کیا ان حالات میں وہ پنجاب کے عوام کو 1970ء نہ سہی 1986ء کی یاد دلا سکیں گے جب بی بی شہید پاکستان آئیں تھیں!
تازہ ترین