ایران نے ردعمل کے طور پر اسرائیل پر میزائل حملہ کر کے اسرائیل کو بتا دیا کہ اب بھی وقت ہے کہ باز آ جاؤ، ایران نےحملے کے بعد کہا کہ ایران جنگ نہیں چاہتا لیکن اب اگر اسرائیل نے کسی قسم کی دہشت گردی اور بد معاشی کی کوشش کی تو اسکے سنگین نتائج کیلئے بھی تیار رہے۔ ایرانی مذہبی رہنما و رہبر آیت اللہ علی خامنہ ای نے اس حملے کو ایرانی طاقت کی صرف ایک جھلک قرار دیا ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ مشرق وسطیٰ میں قیام امن پر نہ صرف زور دیا بلکہ اس کیلئے تمام تر سفارتی کوششیں بھی جاری رکھی ہوئی ہیں۔ پاکستان نے مشرق وسطیٰ اور فلسطین، اسرائیل تنازع کے حل پر زور دیتے ہوئے دو ریاستی حل کی تجویز کی حمایت کی ہے۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ یہی اس تنازعے کا بہترین اور پرامن حل ہے۔ تمام عرب ممالک کو اس تجویز پر فوری اور موثر عملدرآمد کیلئے عملی کوششیں کرنی چاہئیں۔ دراصل مشرق وسطیٰ میں قیام امن اور مسئلے کے حل کیلئے کوششیں تو ہوئی بھی ہیں اور ہو بھی رہی ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ یہ کوششیں بار آور ثابت کیوں نہیں ہو رہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تمام عرب ممالک مشرق وسطیٰ میں قیام امن اور مسئلہ فلسطین کے پرامن حل کے دلی طور پر خواہاں ہیں تو پھر رکاوٹ کیا ہے۔ مسلم ممالک کو اب سمجھ لینا چاہیے کہ یہ اسرائیل اور چند نہتے مسلمانوں کی (جن کا کسی نے ساتھ نہیں دیا) جنگ نہیں، یہ جنگ سب کو لپیٹ میں لے گی۔
مشرق وسطیٰ میں قیام امن اور مسئلہ فلسطین کے حل میں ایک ہی رکاوٹ ہے اور وہ ہے صہیونی حکمران۔ اس وقت بھی وہاں جنگ کی آگ اس وقت کے ہٹلر اور مسلمانوں کے جانی دشمن صہیونی وزیر اعظم نیتن یاہو اور اسکے گروہ نے بھڑکائی ہے۔ چار ممالک پر حملے کرنے کا مقصد باقی عرب ممالک کیلئے پیغام ہے کہ وہ بھی تیار رہیں۔ اگر اس بدمعاش اور زمین پر فساد پھیلانے والے بدبخت کو نہ روکا گیا تو نہ وہ خود رکے گا نہ مشرق وسطیٰ میں امن قائم ہونے دئیگا۔ ذرائع کے مطابق صہیونی حکومت کا منصوبہ ہی کچھ اور ہے جو اس نے فلسطین سے شروع کیا پھر لبنان میں غزہ کے طرز پر کارروائی کی پھرشام اور یمن پر حملے شروع کئے اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔ کئی ایرانی رہنماؤں کو شہید کرنے کے بعد ایران کے اندر جا کر ایران کے سرکاری مہمان اور اہم حماس رہنما کو شہید کیا۔ ان تمام واقعات کو دیکھا جائے تو اس میں کیا شک ہے کہ فلسطینی سرزمین پر ناجائز صہیونی قبضہ گروپ کے ارادے دنیا کو تیسری عالمی جنگ میں دھکیلنے کے ہیں۔ امریکہ، برطانیہ، اور چند دیگر ممالک جواس فسادی کی کھلم کھلا حمایت کر رہے ہیں یہ سوائے مسلم دشمنی کے اور کیا ہے۔ قائد اعظم کے فرمان کے مطابق اسرائیل ان ملکوں کا ناجائز بچہ ہے جواب جوان ہے اور اس ناجائز بچے کو اس لئے ہی جنم دیا تھا جواب وہ کر رہا ہے۔ تاہم امریکہ اور برطانیہ کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہی ناجائز بچہ جو کچھ کر رہا ہے یہ انہی کی تباہی کا باعث بنے گا بشرطیکہ مسلم ممالک کے ضمیر اور غیرت ایمانی جاگ جائے۔
اگر بنظر غائر اور غیر متعصبانہ طور پر تاریخ کا جائزہ لیا جائے تواس سے پہلے بھی کئی طاقتور بادشاہتیں آئیں، کئی جنگجو آئے اور مسلمانوں کے ساتھ جنگیں کیں۔ قتل عام کئے لیکن تمام تر سازو سامان اور طاقت وتعداد کے باوجود ان کا انجام کیا ہوا۔ ہٹلر جرمنی سے چلا اور مصر تک جا پہنچا لیکن انجام کیا ہوا۔ حال ہی میں دیکھیں کہ امریکہ افغانستان میں اربوں ڈالر ضائع کرنے اور کئی ہزار فوجی مروانے کے بعد سرپر پیر رکھ کر ایسا بھاگا کہ سازو سامان تک چھوڑ گیا۔ عراق میں جو کچھ امریکہ نے کیا، شام میں جو کچھ ہوا اور اب بھی ہورہا ہے ان تمام بڑی کارروائیوں، بے تحاشا جنگی جدید ہتھیاروں اور جہازوں کے باوجود امریکہ کو شکست وہزیمت کے سوا کیا ملا۔ امریکہ ایران پر پابندیاں لگا سکتا ہے لیکن ایران کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ امریکہ تو انقلاب ایران کے موقع پر ایران سے ڈیڑھ سال تک اپنے قیدی نہیں چھڑا سکا تھا۔ جہاں تک ایران یا کسی اور ملک پر پابندیوں کا تعلق ہے تو کیا امریکی پابندیاں جو عرصہ دراز سے لگی ہوئی ہیں ان سے ایران کا بطور ملک وجود ختم ہوگیا یا ایران دیوالیہ ہو گیا۔ ہر گز نہیں دراصل دنیا بالخصوص مسلم ممالک نے امریکہ کو بطور ہوا تسلیم کر رکھا ہے اور ان کے دلوں میں امریکہ کا ایسا خوف بیٹھ چکا ہے کہ آج سانس بھی اس اجازت کے بغیر نہیں لیں گے۔ حالانکہ مذکورہ بالا صرف چند دی گئی مثالیں ہی سامنے رکھی جائیں تو امریکہ نہ کچھ کرسکا ہے نہ کر سکتا ہے۔
ہم دیکھ رہے ہیں کہ نہتے کشمیری بھارت کے سامنے کھڑے ہیں۔ حالیہ جعلی ریاستی انتخابات کے ڈھونگ رچانے اور ہم خیال سفارتکاروں کو مقبوضہ کشمیر کے ہوٹل میں کھانا کھلانے کا بھی کوئی فائدہ نہ ہوا۔ کشمیریوں نے بری طرح ان جعلی انتخابات کو مسترد کر کے بھارت کے منہ پر طمانچہ مارا۔ اور یہ منظر ان ہم خیال سفارتکاروں نے جوباہر تو نہیں نکل سکے البتہ ہوٹل کی کھڑکیوں اور مقامی اخبارات کے ذریعے ضرور دیکھا ہے کہ ان جعلی انتخابات میں چند ہندوئوں کے ساتھ ساتھ بھارتی فوجی ووٹ ڈالنے آئے تھے۔ اسی طرح نہتے فلسطینی اور بغیر جہازوں کے امریکی وبرطانوی حمایت یافتہ شیطانی صہیونی ٹولے کے ساتھ لڑنے والے حماس اور حزب اللہ کا نیتن یاہو کیا بگاڑ سکا۔ جن کو یہ صیہونی فلسطینیوں حماس اور حزب اللہ رہنماؤں کا قتل کہتے ہیں ان شیطانوں کو کیا پتہ کہ وہ سب تو شہادت کے عظیم مرتبے پر فائز ہو چکے اور مزید اسی خواہش پر لڑ رہے ہیں۔ ایران نے تو اسرائیل کو سبق سکھانے کی بنیاد رکھ دی اب باقی مسلم ممالک بھی اپنی غیرت ایمانی کو جگائیں۔ ایسے حالات میں مصلحت منافقت ہوتی ہے۔ روز حشر جواب بھی دینا ہے۔