السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
سند یافتہ افراد کا کلب
’’سنڈے میگزین‘‘ میں منورمرزا کا تجزیہ ہمیشہ کی طرح بہت ہی پسند آیا۔ اِس مرتبہ ٹرمپ پر قاتلانہ حملے کے ضمن میں بیش قیمت تحریر لکھی گئی۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ میں ڈاکٹر ناظر محمود نے اپنے والد صاحب کو جو خراجِ عقیدت پیش کیا، اُس کا تو کوئی ثانی ہی نہیں تھا۔ اور’’آپ کا صفحہ‘‘ میں اب تو شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی بھی مسلسل سند یافتہ چِٹھیوں کے حامل افراد کے کلب میں شامل ہوگئے ہیں۔
اگلے شمارے میں ڈاکٹر تاج رئیسانی کا انٹرویو بہت ہی پسند آیا اور ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ کی ماڈل بھی ملک اور آپ بھی ملک، یہ تو ڈاک خانہ مل گیا۔ ایم رضوان ملغانی کا افسانہ ’’بالی‘‘ اچھا تھا، لیکن غیرضروری طور پر کچھ طویل لگا۔ گزشتہ برقی خطوط میں قراۃ العین فاروق نے لکھا کہ اُن کی لال لوبیے کی چاٹ کی ترکیب کسی اور کے نام سے شائع کردی گئی۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا، مگر خیر، آپ نےمعذرت کرلی،اچھا کیا۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)
ج: ویسے یہ ’’سند یافتہ افراد کا کلب‘‘ کہاں exist کرتا ہے؟ آپ کورکنیت کیوں نہیں ملی اب تک اور بھئی، دنیا بَھری پڑی ہے ملکوں سے، تو کیا سب کا ڈاک خانہ ایک ہوگیا۔ ’’برقی‘‘ چوں کہ زیادہ کامن نہیں، ورنہ آپ کا ڈاک خانہ بھی کہیں نہ کہیں مل ہی جاتا۔
پاکستانیوں سے آدھی ملاقات
عیدالاضحٰی اور ’’عالمی یومِ والد‘‘ کے تہواروں پر مبنی مشترکہ جریدہ موصول ہوا۔ اچھا تھا، خُوب دل لگا کے پڑھا، خصوصاً ’’ابو نامہ‘‘ کے حوالے سے وہ دن یاد آگئے، جب ہمارے ابو پردیس ہوتے تھے اور ہم آبائی اسکول میں ایک نظم پڑھ رہے ہوتےتھے ؎ ’’آہا! ابّا کی چُھٹیاں، آہا! ابّا کی چُھٹیاں…‘‘ اہم مواقع کے اعتبار سے پیغامات بھی دو اقساط میں شائع کیے گئے، جب کہ ہمارا پیغام دوسری قسط میں شامل تھا۔
اِس سلسلے کے لیےہم آپ کےتہہ دل سے شُکرگزار ہیں کہ اِس طرح کم از کم اکثر پاکستانیوں سے آدھی ملاقات تو ہو جاتی ہے، وگرنہ شہری زندگیوں میں تو اب ’’دیواروں‘‘ ہی سے باتیں کی جاتی ہیں۔ شیراز اُپل کا ’’فادرزڈے اسپیشل‘‘ پڑھا۔ یقین کریں، اُن کی اورفیملی کی خُوب صُورت باتیں، کچھ اچھوتے انداز دل میں گھر کر گئے کہ اِس قدر مصروف زندگی کے باوجود عیدِ قرباں بالکل روایتی انداز سے منائی جاتی ہے۔رؤف ظفر! بڑی دیرکردی، اِس شان دار فیملی کومتعارف کروانےمیں۔ اگلےجریدے میں رئوف ظفر ہی کی ’’سولر انرجی‘‘ سے متعلق ڈھائی صفحات پرمشتمل رپورٹ پڑھنےکوملی۔
بھئی، ہم تو سیر ہوگئے، اتنی اچھی معلومات۔ یہ واقعی’’سنڈےاسپیشل‘‘ تھا۔’’ناقابلِ فراموش‘‘ واقعہ ’’رسّی سانپ بن گئی‘‘کافی مختصرسا تھا۔ طوبٰی سعید نے محنت کی عظمت سے ’’پیارا گھر‘‘ تعمیر کیا، جب کہ دستر خوان پر غالباً کلیجی سجی دیکھ کےقاضی جمشید تربوز لےآئے کہ تبخیرِ معدہ کی کوئی صُورت بنے۔ ’’اک رشتہ، اک کہانی‘‘ کے سب ہی کردار ایک سے بڑھ کر ایک تھے۔
ہم نےبھی ایک تحریر روانہ کررکھی ہے، تاحال شائع نہیں ہوئی، مگر ہم اِسی لیے کوئی نئی تحریر نہیں بھیج رہے کہ ایڈیٹر صاحبہ پہلی تحریر کی اشاعت سے قبل، دوسری بھیجنے سے سختی سے منع کرتی ہیں۔ اور ہم نہ صرف اداروں کے قوانین، اصول و ضوابط کی پابندی کرتے ہیں،اُن کی مجبوریاں، مسائل بھی سمجھتے ہیں۔ کسی سابقہ جریدے میں شمائلہ ناز نے ہمارے خطوط کوسراہا تھا، ہم دل سے ممنون ہیں۔ حالاں کہ ہماری ایک تحریر دسمبر 2022ء میں شائع ہوئی، مگراُس پرکسی نےتبصرہ کرناگوارہ نہیں کیا، سوائےاقصیٰ ملک کے۔ اور ہاں، منور مرزا کے تجزیات ہمیشہ کی طرح لاجواب تھے۔ (ڈاکٹر محمّد حمزہ خان ڈھا، لاہور)
ج: ہمارے اصول و ضوابط پر عمل درآمد اور مسائل، مجبوریاں سمجھنے کا بےحد شکریہ۔ اپنی تحریر پر تبصرے کے ضمن میں دل چھوٹا نہ کریں، بہت سی باتیں ایڈیٹنگ کی بھی نذر ہو جاتی ہیں۔
آگے بڑھ گئے…
شمارہ موصول ہوا۔ سرِورق پرماڈل کی سادگی، محبوبیت و معصومیت دیکھتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔ ’’عالمی افق‘‘ میں منور مرزا، فرانس، برطانیہ اور ایران کے انتخابات کی رُوداد بیان کر رہے تھے۔ عوام کی پختہ سوچ کی بناء پر لبرل،اصلاح پسند لیڈر کی کام یابی اچھا شگون ہے کہ اِس وقت دنیا کے امن و امان کے لیے ایسی ہی قیادتوں کی ضرورت ہے۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں سلطان محمد فاتح قرآن و حدیث کی روشنی میں صبر و شُکر کی اہمیت واضح کر رہے تھے۔ ’’شعراء کرام‘‘ میں حسن عباسی مولانا رومؒ کاتذکرہ لائےکہ جنہیں معرفت و حقیقت کی منزل کے لیے کسی صاحبِ مشاہدۂ حق کی ضرورت تھی اور یہ تشنگی پوری کی شمس تبریزؒ نے۔
آپ کا ایک شعرزبانِ زدِعام ہے ؎ مولوی ہرگز نہ شُد مولائے روم… تا غلام شمس تبریز نہ شُد۔ (مولوی کبھی مولائے رومؒ نہیں بن سکتا تھا، جب تک کہ شمس تبریزؒ کا غلام نہ ہوا) ’’رپورٹ‘‘میں مدثر کاکڑقائدِاعظم پبلک لائبریری کی تزئین و آرائش سے متعلق بتا رہے تھے، تو ’’فیچر‘‘میں شادی بیاہ میں تاخیر جیسے گمبھیر مسئلے پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی۔ بلاشبہ یہ معاشرے کا ایک سلگتا ہوا ایشو ہے۔
عموماً خُوب سےخُوب ترکی تلاش ہی میں بچیاں کنواری بیٹھی رہ جاتی ہیں، پھر جہیز کو بھی ایک لعنت ہی بنادیا گیا ہے۔ خالصتاً اسلامی طریقے سے شادیاں ہوں تو نکاح سے زیادہ آسان اور پاکیزہ عمل کوئی نہیں۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ سے اشعار کا چٹخارہ نہ ہونے کے سبب بس یہ کہتے ہوئے ہی گزرگئے کہ’’کھاؤ مَن بھاتا، پہنو جگ بھاتا‘‘۔
آم کی مشہور اقسام اورطبّی فوائد سےمتعلق جاننااچھا لگا۔شبینہ انصاری نےقدرتی اجزاسے فطری حُسن کی حفاظت کے موثر طریقے بتائے، تو ’’متفرق‘‘ میں اسرار ایوبی اوریانا فلاسی جیسی نڈر، بےباک صحافی کا تذکرہ سمیٹ لائے۔ہمارے یہاں تو ایسے نڈر صحافیوں کو موت کے گھاٹ ہی اُتار دیا جاتا ہے۔ باغ و بہار صفحے پر ہمیں اعزازی چٹھی سے نوازنے کا بےحد شکریہ۔ (شہزادہ بشیرمحمّد نقش بندی، میرپورخاص)
ج:’’آگے بڑھ گئے، آگے بڑھ گئے‘‘ کی گردان توآپ ایسے کرتے ہیں، جیسے اِن صفحات سے نظریں نیچی کرکےگزرجاتےہیں، جب کہ محض اِک نگاہ میں کسی کی سادگی، معصومیت و محبوبیت سب جانچ لینا، کسی عقابی نگاہ کا کام تو ہوسکتا ہے، عام آنکھ کا ہرگز نہیں۔
زندگی، بے بندگی، شرمندگی
ہم بےشمارنعمتوں سےنوازےگئےہیں۔ ہمیں زیب نہیں دیتاکہ رب کی عطا کردہ نعمتوں سے فیض پائیں اورناشُکری بھی کریں۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں نام نہاد سُپر پاور امریکا کے سابق صدر پر قاتلانہ حملے کے حوالے سےموجودہ دَورکے معتبر ترین لکھاری منور مرزا کی مضمون نگاری کا جواب نہ تھا۔ سلطان محمد فاتح ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں تعلیماتِ نبویؐ کی روشنی میں تحمّل و برداشت اور رواداری کا سبق دے رہے تھے۔
منہگائی کے بہترین توڑ، آن لائن ذرائع آمدنی کو موضوعِ بحث بنایا، نوجوان قلم کار محمّد عمیر جمیل نے۔ ’’رپورٹ‘‘ میں محمّد کاشف ایک فکرانگیز تحریر کےساتھ آئے۔ ڈاکٹر قمر عباس نے مولانا شبلی نعمانی اور موازنۂ انیس و دبیر کے ضمن میں بتایا کہ284صفحات میں سے 210صفحے انیس کی نذر کیے گئے، جب کہ صرف 20 صفحات دبیر کے حصّےآئے۔
بہت ہی معلوماتی تحریر تھی۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں پروفیسر ڈاکٹر مقبول احمد لانگو کا کہنا، ہم سب کے دل کی آواز ہے کہ ’’زیادہ سے زیادہ درخت لگائےجائیں۔‘‘ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں آپ کی قلم کشائی تو لاجواب تھی ہی، ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ کے دونوں کردار بھی محبتوں کا درس دیتے دنیا سے رخصت ہوئے۔
’’ڈائجسٹ‘‘ میں نمرہ مظفر کا قلمی نسخہ ’’شبِ قدر‘‘ خون کے آنسو رُلا گیا۔ وہ کیا ہے کہ ؎ زندگی آمد برائے بندگی… زندگی، بے بندگی شرمندگی۔ مُسکراتے چہرے والے اخترسعیدی کا کتابوں پر تبصرہ گویا اردوادب پراحسان ہےکہ چند جملوں میں پوری کتاب سموکررکھ دیتے ہیں۔ زلیخا جاویدکو اگر شائستہ اظہر جونیئر کہیں تو بےجا نہ ہوگا اوربزم میں م۔ ف خیال کنجاہی اور شبینہ گل انصاری کے خطوط تو بزم کی مہک کچھ اوربھی بڑھا گئے۔ اللہ کرے، محبتوں، خوشیوں، روشنیوں کا یہ قافلہ رواں دواں رہے۔ (ضیاءالحق قائم خانی، جھڈو، میرپورخاص)
ج: جی، درست کہا۔ زلیخا جاوید اصغر بزم میں اچھا اضافہ ہیں۔ بشرطیکہ آتی جاتی رہیں۔
ہجرت کے ساتھ کون سا مقام؟
’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا سوال کرتے ہیں کہ’’جنوبی ایشیا ترقی سے محروم کیوں؟ تو بات صرف اتنی سی ہے کہ تھوڑی سمجھ داری سے کام لیتے ہوئے اِن ممالک کو اپنی معیشت پرتوجّہ دینی چاہیے۔’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں ڈاکٹر حافظ محمّد ثانی نے ہجرتِ نبویﷺ پرلازوال مضمون تحریرکیا۔ ایک کنفیوژن دُورکردیں کہ ہجرت جہاں سےکی جاتی ہے، اُس مقام کا نام ہجرت کے ساتھ آتا ہے یا جہاں جا کے قیام کیا جاتاہے،اُس مقام کا؟جیسےہمارے نبی ﷺ نےمکّہ سے ہجرت کی، تو کیا یہ ہجرتِ مکّہ کہلائےگی یا مدینہ میں جا کر ٹھہرے، تو یہ ہجرتِ مدینہ کہلائے گی؟ ’’رپورٹ‘‘ میں محمود شام کی شان دار تحریر پڑھنے کو ملی۔ ’’شعراء کرام‘‘ اچھا سلسلہ ہے۔
’’انٹرویو‘‘ میں وحید زہیر نے ممتاز قانون دان قاضی عبدالحمید سے معلوماتی گفتگو کی، تو’’جہانِ دیگر‘‘میں ضیاءالحق کینگروز کے دیس کی سیر کروا گئے۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں ڈاکٹر ایم عارف سکندری نظام ہضم کی طرف توجّہ دلا رہے تھے، تو ’’پیارا گھر‘‘ میں حافظ بلال بشیر نے صبر و تحمّل کی طاقت کا فیضان بیان کیا اور ڈاکٹر شاہد ایم شاہد نے آڑو کے طبّی فوائد۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں عالیہ زاہد بھٹی اور ڈاکٹر عزیزہ انجم کے افسانے لاجواب تھے۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں ہمارا خط شامل نہیں تھا، کوئی بات نہیں،خوشی اِس بات کی ہے کہ خادم ملک کا خط جگمگا رہا تھا۔ (سید زاہد علی، شاہ فیصل کالونی نمبر3، کراچی)
جواب:عمومی طور پر ہجرت کے ساتھ اُس مقام کا نام آتا ہے، جس کی طرف ہجرت کی جاتی ہے۔ جیسا کہ تاریخ کی معروف ترین ہجرت ’’ہجرتِ مدینہ‘‘ ہے، جو 12؍ ربیع الاول 13نبوی (جو بعد میں پہلا ہجری سال کہلایا) بمطابق 24؍ ستمبر622 عیسوی بروزجمعہ ہوئی۔
بعدازاں، اِسی دن کی مناسبت سےہجری تقویم کا آغاز ہوا۔ اِسی طرح تاریخ کی ایک بڑی اور الم ناک ہجرت ’’ہجرتِ پاکستان‘‘ بھی ہے۔ لیکن یہ ہجرت چوں کہ دوطرفہ تھی، توجو لوگ پاکستان ہجرت کرکے آئے، اُن کے لیے تو یہ ہجرتِ پاکستان ہے، لیکن بھارت کی طرف جانےوالوں کے لیے یہ ہجرتِ بھارت ہی کہلائے گی۔
فی امان اللہ
سلامِ الفت، نرجس جی! ہم اتنا عرصہ غائب رہے، خُوب مزے کیے ہوں گے سب نے۔ خیر، اب ہم واپس آگئے ہیں۔ سو، کانوں پر ہاتھ رکھ لیں یا آنکھوں پرپٹّی باندھ لیں کہ ہم تو اب واپس جانےکے نہیں، برداشت ہی کرنا پڑے گا۔ دل پر ’’کنکر‘‘ رکھ کر ہی سہی۔ ویسے بہت دُور ہے ہم سے، آپ کا کراچی، خیالی سفر کرنے میں بھی بہت وقت لگتاہے، اوپر سے ڈاکٹر خالد لانگو فرما رہے تھے کہ بڑے شہر ’’ہیٹ ویوز‘‘ کے نشانےپر ہیں۔ توبہ کریں ڈاکٹر صاحب، کیوں ڈرا رہے ہیں۔ ہمارا تو پہلے ہی کراچی سے ’’اِٹ کتّے دا بیر‘‘ ہے۔ ہم جو اتنا عرصہ دُوررہے، اپنے میگزین سے، تو آپ کیا سمجھیں کہ ہمیں قید کرلیا گیا تھا۔
ارے، نہیں نہیں، آپ غلط سمجھیں، ایسا ویسا کچھ نہیں تھا بلکہ ایسا کوئی مائی کا لال (پیلا، کالا، نیلا بھی) ابھی پیدا ہی نہیں ہوا، جو مابدولت کو قید کرسکے۔ ہمیں تو اپنے حالات اور کچھ اپنی ہی پریشانیوں نے قید کر رکھا تھا۔ ویسے کبھی کبھی ہم ’’کسی‘‘ سے پوچھ لیتے تھے کہ ہمیں میگزین میں کوئی یاد بھی کرتا ہے یا بھول گئے، مگر ظالم سماج کا جواب ہمیشہ ’’نہیں‘‘ ہوتا۔ پھر ایک دن اتفاق سے میگزین دیکھا، تو میری ایک راج دُلاری شہزادی بہن زلیخا ہمیں یاد فرما رہی تھیں۔
سچ میں نرجس جی! دل باغ باغ ہوگیا، مگر یہ کیا، اُس کے جواب میں آپ نے ہمیں ’’پرانے لوگ‘‘ کہہ کر دل کے اتنے ٹکڑے کیے کہ قسم سے، سچ میں رونا آگیا، لیکن پھر’’کسی‘‘ نے ہمارے کاندھےپر ہاتھ رکھ کرکہا۔ ’’روئیں تیرے دشمن، وہ بھی بلک بلک کر۔ تم تو ہنستی مُسکراتی اچھی لگتی ہو۔‘‘ توہم بھی جھٹ مان گئے۔ ویسے بات بڑی شریکوں والی کی تھی، آپ نے نرجس جی۔ ’’برقی خطوط‘‘ میں ایک بہنا نے ’’مشرقی لڑکی‘‘ کے نام سے کیا کیا نہ کہہ ڈالا۔ ہاہاہا… ویسے آپس کی بات ہے، لگتا ہے، وہ کسی ’’مغربی‘‘ کو یہ جتانا چاہ رہی تھی کہ وہ مشرقی لڑکی ہے۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں بلال بشیر فرما رہے تھے کہ ’’دوست ہوتا نہیں، ہر ہاتھ ملانے والے‘‘ کردی ناں، میرے دل کی بات۔ ہم بھی ہروقت یہی سمجھاتے ہیں دنیا کو، لیکن ہماری کوئی سُنتا ہی نہیں۔ خیر، جانےدیں۔
اب ہمیں کسی سے کچھ منواناہی نہیں ہے۔ ہم خُود اپنی مان لیتے ہیں، یہی کافی ہے۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں ہمیں ’’سب ہی اندازِ حُسن‘‘ کے بجائے ’’سب ہی الفاظِ حُسن‘‘ زیادہ پسند آئے کہ آپ کے یہی الفاظ پڑھ پڑھ کرتوہمیں لکھنا آگیا ہے۔ یوں بھی اگر آپ ہمیں نہ سراہتیں، حوصلہ افزائی نہ کرتیں اور خطوط کی نوک پلک نہ سنوارتیں توہم کبھی ایسی ’’سندیافتہ چٹھیوں‘‘ کےحق دار نہ ٹھہرتے۔ میرے معصوم دل کا کہنا ہے۔ میرے اندر کی فن کاری تیری دریافت ہے صاحب… وگرنہ تو میرے اندر سبھی شاہ کار مرجاتے۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا ٹرمپ کی بہادری کی تعریفیں کر رہے تھے۔
ہاہاہا… ویسے کمال ہی کردیتے ہیں، آپ بھی منور صاحب، آپ کے یہ ’’صاحب بہادر‘‘ صرف پانچ منٹ غزہ کی پٹّی پر جا کر اُن مظلوموں سے اگر اظہارِ یک جہتی نہ سہی، اظہارِ ہم دردی ہی کرلیں، تو ہم بھی انہیں ’’طرّم خان‘‘ مان لیں گے، وگرنہ ’’جہنم میں جائیں سب کے سب‘‘۔ اور ہاں، جاتے جاتے ایک درخواست کرتی جائوں۔ پہلے ذرا آگے پیچھے دیکھ لوں، پردوں کے پیچھے، میز کے نیچے کہ بات ذرا پرسنل ہے۔ وہ کیا ہے کہ نرجس جی! آپ نے نہ سہی، ہم نے آپ کو بہت یاد کیا۔ تو بس، ہمارا دل نہ سہی، عزت ہی رکھ لیں۔
کوئی جذباتی سا جملہ، خوش آمدید یا آتی جاتی رہا کرو وغیرہ وغیرہ کہہ سکتی ہیں۔ سمجھا کریں ناں۔ ’’کسی‘‘ کے سامنےہماری ناک اونچی ہوجائےگی اورہاں، جاتےجاتے ایک راز کی بات بتاتی چلوں، یہ جو ہم ’’کسی‘‘ سے پوچھتے ہیں یا ’’کسی‘‘ نے ہم سے کچھ کہا ہوتا ہے یا ’’کسی‘‘ کے سامنےہم نے اپنی ناک اونچی رکھنی ہوتی ہے، تو اُس ’’کسی‘‘ کا مطلب ہے، ’’مابدولت‘‘ ہاہاہا… (اسماء خان دمڑ، سنجاوی، بلوچستان)
ج: ہاہاہا… تم واقعی’’ کسی‘‘ کے قابو میں آنے والی نہیں۔ تب ہی تو تمھارے آنے سے محفل کی رونق دوچند ہوجاتی ہے۔ سچ کہیں، تو اب ہم اِس ’’آپ کا صفحہ‘‘ سے انتہائی بور ہو چُکے ہیں۔ یوں سمجھو، تمھاری واپسی نے روک لیا، وگرنہ ہم اِس سلسلے سے جان چُھڑانے کی نیّت باندھ ہی چُکے تھے۔
* حالیہ شمارہ بہترین صُورت میں پایا کہ اس میں مائوں کو بہت ہی خُوب صُورت انداز میں خراجِ تحسین پیش کیا گیا۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کے مضمون نے تو رونگٹے کھڑے کر دیئے۔ مسلم امّہ کے حُکم رانوں پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ (خضر حیات، کراچی)
* مئی کے پہلے شمارے میں ایک صاحب نے آپ سے اپنے افسانے کے متعلق رائے چاہی، تو آپ نےوجہ بیان کی کہ اُن کی تحریر، اندازِ بیاں موزوں ہونے کے باوجود اُس جریدے کے لیے مناسب نہ تھی، تو ذہن میں سوال اُبھرا، کیا آپ کے پاس اتنا وقت ہوتا ہے کہ ای میل کی کاٹ چھانٹ کے جھنجھٹ میں پہلے آپ ڈھونڈ ڈھانڈ کروہ تحریرپڑھیں اورپھر ای میل کا جواب دیں؟ یا پھراگر وہ افسانہ آپ کو پڑھے بغیر یاد تھا تو ہمارے لیے بھی حافظہ تیزکرنے کا کوئی نسخہ تجویز کردیں۔ (مشرقی لڑکی، الرحمان گارڈن، لاہور)
ج: لڑکی!تم اکثر ہی ہماری صلاحیتوں پر شک کرتی پائی جاتی ہو۔ یقین کرو، تمھاری ہر بات کابہت مدلّل اورتفصیلی جواب ہمارےپاس موجود ہوتا ہے، بس جگہ کی تنگی آڑے آتی ہے۔ ہم زیادہ بڑی بات تونہیں کرتے، لیکن اگر ایک بار توجّہ سےکوئی تحریرپڑھ لیں،توسالوں ذہن سے محو نہیں ہوتی اور اکثر یوں بھی ہوتا ہے کہ ای میل کا جواب ہولڈ پہ رکھ کے متعلقہ صفحہ انچارج سے تحریر نکلوا کے، پڑھ کے، جواب دیا جاتا ہے۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ ہمیں پوری ایمان داری سے کام کرنے کا خبط ہے۔
* مَیں نے8 ستمبر2023 ء کو ایک افسانہ بعنوان ’’رخصتی‘‘ بھیجا تھا۔ ابھی تک اُس کا نام ناقابلِ اشاعت کی لسٹ میں شامل ہوا ہے اور نہ ہی وہ شائع ہوا ہے۔ کیا آپ اُس افسانے کے اسٹیٹس سے متعلق کچھ بتا سکتی ہیں؟ (آسیہ پری وش، حیدرآباد)
ج: دراصل پچھلے کچھ عرصے میں کچھ ایسی اکھاڑ پچھاڑ ہوتی رہی کہ ’’ناقابلِ اشاعت‘‘ تحریروں کی فہرستیں بروقت مرتّب اور شایع نہ ہوسکیں۔ اب ہم نےخاصا کام اَپ ڈیٹ کرلیا ہے۔ آپ کا افسانہ ناقابلِ اشاعت تھا اور اب تو فہرست بھی شایع ہو چُکی ہے۔
قارئینِ کرام !
ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔
نرجس ملک
ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘
روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی
sundaymagazine@janggroup.com.pk