گزشتہ دنوں ایران کی جانب سے اسرائیل پر بڑے پیمانے پر میزائل حملوں کے بعد خطے میں بڑی جنگ کے خطرات منڈلانے لگے ہیں۔ ایران نے گزشتہ ہفتے اسرائیل کی مسلسل اشتعال انگیزی کے ردعمل میں اسرائیل پر 200 سے زائد بیلسٹک میزائل داغے اور یہ موقف اختیار کیا کہ ایران نے 31 جولائی کو حماس سربراہ اسماعیل ہنیہ، 27 ستمبر کو حزب اللہ سربراہ حسن نصر اللہ کو قتل کئے جانے کا بدلہ اور غزہ اور لبنان پر اسرائیلی حملوں کا حساب چکتا کردیا ہے۔ ان بڑے حملوں کے بعد اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے اپنے ردعمل میں اسے ایران کی سنگین غلطی قرار دیا اور کہا کہ ایران کو ان حملوں کی بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔ موجودہ صورتحال میں ایران، اسرائیل تنازع نے مشرق وسطیٰ کو ایک بڑی جنگ کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔ ایسے میں یہ بات خارج از امکان نہیں کہ اسرائیل کسی وقت بھی ایران پر حملہ آور ہوسکتا ہے۔ دوسری طرف ایران بھی اسرائیلی حملے کا منتظر ہے اور اس نے تنبیہ کی ہے کہ اگر اسرائیل نے دوبارہ حملے کی جرات کی تو ایران کا ردعمل پہلے سے زیادہ سخت اور شدید ہوگا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایران پہلے ہی یہ ثابت کرچکا ہے کہ وہ بیک وقت 200 سے زائد میزائل، اسرائیل کی جانب فائر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اسرائیل اس وقت مشرق وسطیٰ میں کئی محاذوں پر تصادم میں مصروف ہے۔ غزہ کی پٹی، مغربی کنارے اور یمن میں حوثیوں کے خلاف اسرائیل نے محاذ کھول رکھے ہیں جبکہ لبنان میں بھی اسرائیل نے فضائی اور زمینی جارحیت شروع کررکھی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ایران کا نیوکلیئر پروگرام اسرائیل، امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کی نظروں میں شروع دن سے کھٹک رہا ہے۔ ان ممالک کی پوری کوشش ہے کہ ایران کسی بھی طرح ایٹمی طاقت نہ بن سکے مگر ایران نے عالمی پابندیوں کا جوانمردی سے مقابلہ کرتے ہوئے اپنے نیوکلیئر پروگرام کو جاری رکھا ہوا ہے۔ میں اپنے گزشتہ کالم میں تحریر کرچکا ہوں کہ اسرائیل کی ایران کے خلاف مسلسل اشتعال انگیزی کا مقصد ایران کو اسرائیل پر حملے اور جوابی انتقامی کارروائیوں کیلئے اُکسانا ہے تاکہ امریکہ اور اسرائیل کو ایران کی فوجی اور ایٹمی تنصیبات پر حملوں کا جواز مل سکے۔ ایران کے حالیہ حملے نے اسرائیل کو یہ جواز فراہم کردیا ہے اور اب وہ ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کرکے اسے تباہ کرنے کی تیاریوں میں مصروف عمل ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ایران جوہری ہتھیاروں کے حصول میں کوشاں ہے اور ایسی صورتحال میں ایران، اسرائیل کیلئے ایک وجودی خطرہ بن چکا ہے۔ اسرائیل کی یہ کوشش بھی ہے کہ وہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کو نشانہ بنائے تاکہ ایران میں حکومت کی تبدیلی (Regime Change) کا خواب پورا ہوسکے۔ یاد رہے کہ اسرائیل پر ایران کے میزائل حملوں سے چند روز قبل اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے یہ انکشاف کیا تھا کہ ایرانی عوام کو حکومت سے بہت جلد چھٹکارا مل جائے گا۔
اسرائیل پر ایران کے حالیہ حملوں کو حزب اللہ سربراہ حسن نصر اللہ اور حماس سربراہ اسماعیل ہنیہ کی شہادتوں کے ردعمل کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔موجودہ صورتحال میں اگر ایران اور اسرائیل کے درمیان بڑھتی محاذ آرائی ایک بڑی جنگ کی صورت اختیار کرتی ہے تو اس سے پاکستان بھی متاثر ہوگا۔ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں150 سے 200 ڈالر سے تجاوز کرسکتی ہیں جس سے پاکستان کی معیشت شدید متاثر ہوگی اور 1.1 ارب ڈالر کی جو رقم آئی ایم ایف سے حاصل ہوئی ہے، وہ چند مہینوں میں تیل کی قیمتوں میں اضافے کی نذر ہوجائے گی۔ دوسری طرف پاکستان میں اسرائیل مخالف اور ایران کی حمایت میں مظاہروں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجائے گا اور ایران، اسرائیل ممکنہ جنگ کی صورت میں ایرانی پناہ گزین پاکستان میں پناہ لینے پر مجبور ہوں گے جس کا پاکستان متحمل نہیں ہوسکتا۔
اسرائیل، اسلامی ممالک کے ایٹمی پروگرام کو اپنے وجود کیلئے ایک بڑا خطرہ تصور کرتا ہے۔ ماضی میں اسرائیل، عراق کے ایٹمی ری ایکٹرز کو فضائی حملے کرکے تباہ کرچکا ہے۔ پاکستان اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت ہے اور پاکستان کا ایٹمی پروگرام شروع دن سے ہی اسرائیل اور بھارت کی آنکھوں میں کھٹک رہا ہے۔ ماضی میں اسرائیل، بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کی ایٹمی تنصیبات پر حملے کی منصوبہ بندی کرچکا ہے۔ اس مقصد کیلئے پاکستان کے ایٹمی دھماکوں سے قبل اسرائیلی طیارے بھارت پہنچ چکے تھے مگر آخری وقت میں پاکستان کی بھارت پر حملے کی دھمکی کے نتیجے میں اسرائیل اپنے مذموم منصوبے میں کامیاب نہ ہوسکا۔ مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورتحال میں اگر ایران، اسرائیل ممکنہ جنگ شدت اختیار کرگئی اور اسرائیل، ایران کی ایٹمی تنصیبات تباہ کرنے میں کامیاب ہوگیا تو اس سے نہ صرف اسرائیل کی حوصلہ افزائی ہوگی بلکہ یہ پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام کیلئے خطرے کی گھنٹی ثابت ہوگی۔