اسلام آباد کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے ڈی چوک احتجاج کیس میں بانیٔ پی ٹی آئی کی بہنوں علیمہ اور عظمیٰ خان کے جسمانی ریمانڈ اور ویڈیو چلانے کی استدعا مسترد کر دی۔
جج نے وکلائے صفائی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا عدالت ایک یو ایس بی کے ریکارڈ پر انحصار کر سکتی ہے؟ آپ نے یو ایس بی پولیس یا تفتیشی افسر کو دی؟ میں جسمانی ریمانڈ میں توسیع کر دیتا ہوں، پولیس یو ایس بی کو چیک کر لیتی ہے۔
وکیل عثمان گِل نے یو ایس بی میں موجود ویڈیو عدالت میں چلانے کی استدعا کی۔
جج طاہر عباس سِپرا نے یو ایس بی میں موجود فوٹیجز کمرۂ عدالت میں چلانے کی استدعا مسترد کر دی۔
وکیل عثمان گِل نے کہا کہ میرے دلائل اس یو ایس بی میں موجود فوٹیجز پر منحصر ہیں۔
جج طاہر عباس سپرا نے پراسیکیوٹر راجہ نوید سے استفسار کیا کہ آپ کو ریمانڈ کیوں چاہیے؟ آپ نے علیمہ خان اور عظمیٰ خان سے 8 روز میں کیا برآمدگی کی؟
پراسیکیوٹر نے کہا کہ جو اداروں کے خلاف سازش کی گئی اس تک پہنچنے کے لیے مزید جسمانی ریمانڈ چاہیے، عظمیٰ خان اور علیمہ خان سے بارود اور دھماکا خیز مواد برآمد کرنا ہے۔
جج طاہر عباس سِپرا نے علیمہ خان کو بولنے سے روکتے ہوئے کہا کہ میں آپ کو بولنے کا وقت دوں گا۔
جج طاہر عباس سِپرا نے پراسیکیوٹر سے کہا کہ جتنا جسمانی ریمانڈ لیں گے اتنا ریکارڈ لکھنا ہو گا۔
جج طاہر عباس سپرا نے علیمہ خان سے کہا کہ علیمہ بی بی آپ کیا کہنا چاہتی ہیں؟
علیمہ خان نے کہا کہ جج صاحب ہمیں صرف انصاف چاہیے۔
جج طاہر عباس سِپرا نے علیمہ خان اور عظمیٰ خان کے مزید جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کر دی،اور انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔
دوسری جانب ڈی چوک احتجاج کیس میں علیمہ خان اور عظمیٰ خان نے اسلام آباد کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں درخواست ضمانتِ دائر کر دی۔
ڈیوٹی جج طاہر عباس سِپرا نے 19 اکتوبر کو پراسیکیوشن سے ریکارڈ طلب کر لیا۔
عدالت نے علیمہ خان اور عظمیٰ خان کی درخواستِ ضمانت پر 19 اکتوبر کو دلائل طلب کر لیے۔
پولیس نے علیمہ خان اور عظمیٰ خان کو کمرۂ عدالت سے باہر لے جانے کی کوشش کی تو پی ٹی آئی وکلاء اور پولیس اہلکاروں کے درمیان تلخ کلامی ہوئی اور اس موقع پر کافی شور بھی مچا۔
جج نے علیمہ خان اور عظمیٰ خان کو کمرۂ عدالت میں اہلِ خانہ سے ملاقات کی اجازت دے دی۔