یہ متحدہ پاکستان کے آخری برسوں کی بات ہے غالباََ 1968-69کی، میں سکول کا طالب علم تھا۔ اس زمانے میں تقریباََ ہر اخبارمیں ہفتے میں ایک دن بچوں کا ایڈیشن بھی نکالتا تھا جس میں قلمی دوستی کے عنوان سے نام اور ایڈ ریس بھی شائع ہوتے تھے۔ اسی سلسلے میں میرا ایک قلمی دوست بنا جس کا نام محمد نسیم تھا اور جو میر پور ڈھاکہ کا رہنے والا تھا۔ ہم ایک دوسرے کو خط لکھتے، وہ مجھے ڈھاکہ آنے کیلئےکہتا اور میں اسے لاہور آنے کی دعوت دیتا۔ جب مشرقی پاکستان میں حالات زیادہ خراب ہو گئے تو ہمارا رابطہ ہمیشہ کیلئے منقطع ہو گیا۔ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد میںنے ایک نظم لکھی ’’بنگلہ دیشی بھائیوں کے نام‘‘ جس میں پیغام یہ تھا کہ ملک کے دونوں حصّوِ ں کے عوام حکمرانوں کے ہاتھوں یکساں طور پر مظلوم تھے پھر ہم علیحدہ کیوں ہو گئے۔ جبکہ ہم نے مل کر قائدِ اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں آزادی کی جنگ لڑی تھی۔ میں یہ نظم ڈھاکہ جا کر محمد نسیم کو سنانا چاہتا تھا اور اتفاق سے 2005میں مجھے ڈھاکہ جا کر اپنے بنگلہ دیشی بہن بھائیوں کو یہ نظم سنانے کا موقع تو مل گیا لیکن افسوس محمد نسیم سے ملاقات نہ ہو سکی۔ گزشتہ ماہ 11ستمبر 2024کو یہ خبر پڑھ کر میں خوشی سے حیرت زدہ رہ گیا کہ بنگلہ دیش کے قیام کے بعد پہلی مرتبہ بابائے قوم قائدِ اعظم محمد علی جناح کی برسی منائی گئی۔ اس سے مجھے 2005میں اپنا بنگلہ دیش کا سفر اور اس تقریب کی وہ باتیں یاد آگئیں جو حالیہ برسی کی تقریب میں دہرائی گئیں۔ میرا بنگلہ دیش کا یہ سفر گرامین بینک کی ایک تقریب کے سلسلے میں تھا۔ یہ وہی گرامین بینک ہے جس کے بانی سربراہ ڈاکٹر محمد یونس ہیں جو آجکل بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ ہیں، یاد رہے غریب ہنر مند افراد کو چھوٹے قرضوں کی فراہمی کی اس سکیم نے نہ صرف بنگلہ دیش کی معیشت بدل دی بلکہ ساری دنیا میں بینکنگ کے نظام میں انقلاب برپا کر دیا۔ ڈاکٹر محمد یونس کی انہی خدمات کے پیشِ نظر انہیں ’’امن کا نوبل پرائز‘‘ دیا گیا۔ ڈاکٹر صاحب پاکستانیوں کے ساتھ خصوصی شفقت سے پیش آتے ہیں۔ یہ صرف ڈاکٹر صاحب تک ہی محدود نہیں۔ میں نے بنگلہ دیش میں یہ محسوس کیا کہ 71ء کے فوجی آپریشن اور جنگ کے باوجود عام بنگلہ دیشی بھی پاکستانی عوام کے ساتھ انتہائی محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ انہیں اگر شکایت ہے تو ان ڈکٹیٹروں سے ہے، جن سے مغربی پاکستانیوں کو بھی ہمیشہ کئی شکایات رہی ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ بنگالی ہندوئوں کے ساتھ مسلمان بنگالیوں کے تعلّقات کی تاریخ بہت تلخ ہے۔ جس کا بڑا ثبوت 1905میں تقسیم ِ بنگال ہے۔ جس میں مسلم بنگال کو ہندو اکثریت والے بنگال سے علیحدہ کر دیا گیا تھا۔ اگرچہ ہندوئوں کے پر زور احتجاج کے بعد تقسیم ِ بنگال 1911میں ختم کر دی گئی تھی۔ لیکن اسی تقسیمِ بنگال کو 1947میں ہونے والی تقسیم ِ ہند کی بنیاد سمجھا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تحریکِ پاکستان کی ابتدا مشرقی بنگال سے ہوئی ۔ مسلم لیگ کا قیام بھی تقسیم بنگال کے فوراََ بعد 1906میں ڈھاکہ میں سرسلیم اللہ کی قیادت میں ہوا۔ 1937کے انتخابات میں مسلم لیگ پنجاب اور شمالی ہندوستان میں ناکام ہوگئی مگر بنگال میں اس نے کامیابی حاصل کر لی۔ میرے ڈھاکہ میں قیام کے دوران کچھ بنگلہ دیشی دوستوں نے ایک نجی تقریب کا اہتمام کیا۔ جس میں، میں نے انہی خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اصل پاکستان توآپ تھے کیونکہ آپ نے تقسیمِ بنگال کے ذریعے پہلے بھی آزادی حاصل کرنے کی کوشش کی تھی۔اگر آپ 14اگست 1947کو مشرقی پاکستان کی حیثیت سے آزاد نہ ہوتے تو کشمیریوں کی طرح آج بھی ہندو سامراج سے برسرِ پیکار ہوتے بالکل یہی باتیں حالیہ تقریب میں بھی دہرائی گئیں۔ پرانی تقریب میں ایک دلچسپ بات یہ ہوئی کہ میں نے گِلہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر کسی وجہ سے آپ کو مغربی پاکستان سے علیحدہ بھی ہونا پڑا تھا تو آپ بنگلہ دیش کی بجائے اپنا پرانا نام مشرقی پاکستان بھی بحال رکھ سکتے تھے کیونکہ آج کل شمالی اور جنوبی کوریا بھی دو علیحدہ ممالک موجود ہیں۔ اس کا ایک بنگالی دوست نے بڑا مدلّل جواب دیا کہ اگر ہم نے ایسا نہیں کیا تھا تو آپ لوگ مغربی پاکستان کو مغربی پاکستان ہی رہنے دیتے ۔ آپ نے بھی تو مغربی پاکستان کو پورا پاکستان قرار دیکر یہ ثابت کر دیا کہ ہم پاکستان نہیں تھے۔ بہر حال بنگلہ دیش میں قائدِ اعظم کی برسی کا منایا جانا۔ دونوں ممالک کے تعلّقات میں ایک نیا سنگِ میل ثابت ہو سکتا ہے۔ ’’بنگلہ دیشی بھائیوں کے نام ‘‘ نظم کا ایک بند۔
ظلم تو یہ سب پہ تھا بے امتیاز
ہم سبھی حکاّم کے محکوم تھے
تم ہمیں ظالم سمجھتے کیوں رہے
ہم تمہاری ہی طرح مظلوم تھے