• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

آبِ حیات کا درجہ

’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں تحمّل و برداشت اور رواداری کے موضوع پر سلطان محمد فاتح کی تحریر بہت جامع، بےحد جان دار تھی۔ ڈاکٹر قمرعباس نے مولانا شبلی نعمانی اور موازنۂ انیس و دبیر کو انتہائی دل کش پیرائے میں بیان کیا۔ کیا ہی اچھا ہوتا، اگر مولانا شبلی نعمانی کے اسلوب کو الگ سے بیان کیا جاتا اور انیس و دبیر کی مرثیہ نگاری کا موازنہ ایک الگ مضمون کی صُورت ہوتا۔ 

حسن عباسی کی کاوش ’’مولانا جلال الدین رومی‘‘ معلومات سے بھرپور تھی، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ادب سے لگاؤ رکھنے والے قارئین کے لیے تو ایسی تحریریں آبِ حیات کا درجہ رکھتی ہیں۔ نمرہ مظفّر کا تحریر کردہ افسانہ ’’شبِ قدر‘‘ بھی بہت عُمدگی سے صفحے کی زینت بنا۔ ساون کے موضوع پر ایک تحریر اور حضرت علیؓ کے عنوان سے کچھ ’’جواہر پارے‘‘ پیشِ خدمت ہیں۔ اُمید کرتا ہوں، جلد سنڈے میگزین کی زینت بنائیں گی۔ اِس دُعا کے ساتھ اجازت کہ جنگ میگزین کا ستارہ اِسی آب و تاب سے چمکتا دمکتا رہے۔ (بابر سلیم، سلامت پورہ، لاہور)

ج: ہمارا مفت مشورہ ہے کہ اپنے مطالعے کو تھوڑی وسعت دیں۔ آپ کو لکھنے لکھانے کا شوق ہے۔ آپ کی کچھ تحریریں اصلاح و سنوار کے بعد شائع بھی کی گئی ہیں، لیکن بیش تر تحریروں کا انداز بالکل سرسری اور معیار کسی حد تک سطحی سا ہوتا ہے۔ کبھی کبھی تو لگتا ہےکہ آپ نے اپنی تحریر کو دوسری بار پڑھنے کی بھی زحمت نہیں کی۔ یوں بھی ہمارے یہاں جب سے صفحات کی تعداد کم ہوئی ہے، ہمیں اپنا میرٹ کچھ اور بھی بلند کرنا پڑگیا ہے کہ اب اولین کوشش یہی ہوتی ہے کہ اُن ہی تحریروں کو ترجیح دی جائے، جو خاصی محنت و ریاضت کے بعد خُوب صُورتی و عُمدگی سے قلم بند کی گئی ہوں۔

خادم ملک کا شُوٹ کیوں نہیں؟

شمارہ ہاتھ آیا۔ سرِورق پر نظر پڑی، دل خوش ہوگیا۔ سامنے شہیدِ کربلا، نواسۂ رسولﷺ کے روضۂ مبارک کا دیدار ہوا۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں پروفیسر ڈاکٹر حافظ حقانی میاں قادری نے واقعۂ کربلا پر شان دار مضمون تحریر کیا۔ اسی طرح مخدوم زادہ حافظ مطلوب احمد چشتی کا مضمون بھی بہترین تھا۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں سلطان محمد فاتح قناعت اور سادگی کا درس دے رہے تھے۔ ’’رپورٹ‘‘ میں محمّد کاشف کی دو معلوماتی رپورٹس موجود تھیں۔ خصوصاً پاکستان اور افغانستان سے متعلق ایسے حقائق سامنے آئے، جو پہلے قطعاً علم میں نہ تھے۔ 

ڈاکٹر ناظر محمود نے ’’احفاظ الرحمٰن ایوارڈ‘‘ کی تفصیل گوش گزار کی۔ ’’شعراء کرام‘‘ بہترین سلسلہ ہے۔ فردوسی کے حالاتِ زندگی عُمدگی سے پیش کیے جارہے ہیں۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں ڈاکٹر پروفیسر غلام علی مندرہ والا نے ہیپاٹائٹس سے متعلق مفید معلومات فراہم کیں، جب کہ ڈاکٹر سید امجد علی جعفری نے گُردوں کی خرابی کی علامات بتائیں۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ حافظ محمّد ثانی کی تحریر سے مرصّع تھا۔ 

ڈاکٹر قمر عباس کی تحریر اچھوتی لگی۔ نیز، سید ثقلین علی نقوی نے اشرف عباس کے حالاتِ زندگی خُوب صُورتی سے قلم بند کیے۔ رستم علی خان کراچی میں بڑھتی ہوئی وارداتوں کی طرف توجّہ مبذول کروا رہے تھے، جب کہ سدِباب کے لیے کچھ عمدہ تجاویز بھی پیش کیں۔

’’ڈائجسٹ‘‘ کے صفحے پر ڈاکٹر عزیزہ انجم کی نظم اور لیاقت مظہر باقری کے علامہ اقبال کے منتخب اشعار بہت پسند آئے، البتہ کرن عباس کرن کا افسانہ ’’باغِ بہشت سے بستیٔ بشر تک‘‘ سر سےگزرگیا۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں ہمارا اور ہم سے پہلے خادم ملک کا خط جگمگا رہا تھا۔ دیکھ کے جی خوش ہوگیا۔ واقعی اُن کا خط کسی لطیفے سے کم نہیں تھا۔ ویسے ایک بات ہے، جب مَردوں کی ماڈلنگ شائع ہو سکتی ہے، تو خادم ملک کی کیوں نہیں۔ (سید زاہد علی، شاہ فیصل کالونی نمبر3، کراچی)

ج:خادم ملک کو آفر تو کی ہے کہ اپنا ’’پورٹ فولیو‘‘ بھیج دیں۔ اُنہیں شوٹ وغیرہ میں کوئی دل چسپی نہیں۔ وہ بس اِدھر اُدھر کی ہانک کے قارئین کی توجّہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اکثر و بیش تر اُن کے پاس کہنے کو کوئی بات نہیں ہوتی، علاوہ اس کے کہ ’’ہم خاندنی نواب ہیں‘‘ اور ’’ہمارا شوٹ بھی کروایا جائے‘‘۔ بہرحال، ہماری طرف سے آپ دونوں کو آفر ہے، چاہیں تو "Collaborated Shoot" کرلیں۔

تھکاوٹ دُور کرنے کا نسخہ

’’سنڈے میگزین‘‘ تو گویا ہفتے بھر کی تھکاوٹ دُور کرنے کا ایک کورس، نسخہ ہے۔ مَیں اور اہلِ خانہ اتوار ہی کو پورا جریدہ پڑھ ڈالتے ہیں۔ اور پھر باقی 6 دن اگلےجریدے کے انتظارمیں گزرتے ہیں۔ کسی بھی خط نگار کا ایڈیٹنگ کے بغیر خط کی اشاعت کی فرمائش کرنا ایک حماقت ہی ہے،کیوں کہ خط میں اصل جان تو تب ہی پڑتی ہے، جب اِس پر ایڈیٹر کے قلم کا نشتر چلتا ہے۔ 

ڈاکٹر شاہدہ تبسّم کا خط پڑھ کر بے حد افسوس ہوا۔ کسی معلم کا یہ اندازِ تحریر تو نہیں ہوا کرتا۔ منور مرزا، بنگلا دیش کے ایک اورانقلاب کا بہترین تجزیہ پیش کررہے تھے۔ ’’شعراء کرام‘‘ بھی خاصا معلوماتی سلسلہ ہے۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں مریم شہزاد کی تحریر سبق آموز تھی اور ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں ماڈلز کی جوڑی اچھی لگی۔ (شمائلہ نیاز، دائرہ دین پناہ، تحصیل کوٹ ادّو، ضلع مظفّر گڑھ)

ج: شمائلہ! بارہا استدعا کی ہے کہ خط حاشیہ، سطر چھوڑ کر لکھنے کی عادت ڈالیں۔ ایک تو آپ کا ہینڈ رائٹنگ گنجلک سا ہے، اُس پر ہماری گزارشات کو بھی درخورِاعتنا نہیں جانتیں، تو اِس طرح تو بات نہیں بنے گی۔

اب کسی بات پر نہیں آتی…

امیدِ قوی ہے کہ شاد و فرحاں ہوں گی۔ ایک طویل غیرحاضری کے بعدحاضر ہوں۔ دراصل جان لیوا گرمی، ہوش رُبا منہگائی، بجلی کی آنکھ مچولی اور سب سےبڑھ کر لوگوں (اپنوں) کے تلخ و تُرش رویّوں نے ہوش و حواس سے بیگانہ کر رکھا تھا۔ کئی دن کی جدوجہد کے بعد گزشتہ رات دس بجےکچھ سُکون ملا تو بکھرے ذہن کو مجتمع کیا اور کاغذ، قلم اُٹھالیا۔ اپنا تو وہ حال ہے کہ ؎ آگے آتی تھی حالِ دل پہ ہنسی… اب کسی بات پر نہیں آتی۔ یہاں ’’کھجوروں کے دیس‘‘ میں توآج کل بادوباراں نےگھیرا ڈال رکھا ہے۔ جن کے درخت ہیں، وہ مصیبت میں ہیں کہ خود کو سنبھالیں یا کھجوروں کو۔ 

مسلسل بارش نے جل تھل ایک کردیا ہےاور پھرجابجا گندگی، کھڑا ہوا پانی۔ وہ کیا ہے کہ ؎ سہمی ہوئی ہے جھونپڑی بارش کے خوف سے… محلوں کی یہ آرزو ہے کہ برسات تیز ہو۔ مَیں تو اپنی ہی رَو میں کہاں سے کہاں نکل گئی۔ بھئی، آپ کے عیدالفطر سے لے کر 14اگست تک کےتمام ایڈیشنز شان دار تھے۔ ہر ایڈیشن اپنے دن کی بہترین عکّاسی کررہا تھا۔ اس بار ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ سے سیراب و فیض یاب ہوتے آگے بڑھے، تو اپنے پیارے قائد کی سندھ سے عقیدت و محبّت کی کہانی بڑی چاہت و الفت سے پڑھی۔ ڈاکٹر مصطفٰی کی تحریر بہت خُوب تھی۔ 

ڈاکٹر قمر عباس نے بھی قائد کی شخصیت کی بہترین تصویر کشی کی۔ اور واہ! کیا بات ہے ؎ مِرا وطن ہے، مِرے شجرۂ نسب کی طرح… بہت خُوب، بہت خُوب صُورت، بے حد دل کش اور سحرانگیز تحریر تھی آپ کی، رُوح تک مسرور ہوگئی۔ ڈاکٹر عزیزہ انجم کی تحریر بھی کم نہیں تھی۔ ارسلان خان نے بھی اپنے جذبات کا اظہار بہت محبّت بَھرے انداز میں کیا۔ عالیہ زاہد بھٹی، زندہ باد!اُن کےافسانے نے تو جھنجوڑ کے رکھ دیا۔ اور اپنے صفحے کی تو بات ہی الگ ہے۔ بڑی زبردست بزم ہے آپ کی اورشرکائے بزم بھی کچھ کم نہیں۔ ماشااللہ ہمیشہ ہی محفل گرما گرم ہی نظرآتی ہے۔ اللہ آپ کو ہمیشہ اِسی طرح چہکتا مہکتا رکھے، آمین۔ (نرجس مختار، خیرپورمیرس)

ج:ارے بھئی، جیسے بھی حالات ہوں، آتی جاتی رہا کرو۔ آج ناموافق حالات کے خوف سے اپنی مَن پسند سرگرمیوں سے کنارہ کشی اختیار کرو گی، تو کل لوگ تم سے زندہ رہنے کا حق بھی چھین لیں گے۔ اور ہمیں تو ویسے ہی بزم میں اِک ہم نام کی موجودگی بہت بھلی لگتی ہے۔

مختلف مسائل، پریشانیوں سے دوچار

’’سنڈے میگزین‘‘ میں میری دُعا شائع کرنے کا بہت بہت شکریہ، نوازش عنایت، مہربانی۔ مَیں پچھلے کئی ماہ سے مختلف قسم کے مسائل، پریشانیوں کا شکار تھا۔ بڑا بیٹا متعدد امراض کا شکار ہونے کےبعد دو ہفتے وینٹی لیٹر پر گزار کے خالقِ حقیقی سے جاملا۔ بمشکل ہمّت مجتمع کی ہے، دوبارہ سنڈے میگزین کا مطالعہ شروع کیا اور شعر و شاعری کا سلسلہ بھی۔ آپ سے اور قارئین سے دُعاؤں میں یاد رکھنے کاملتمس ہوں۔ (سخاوت علی جوہر، کورنگی، کراچی)

ج:اللہ رب العزت آپ کو صبر و استقامت دے۔ گرچہ دنیا میں اولاد کے صدمے سے بڑا صدمہ کوئی نہیں ہوسکتا، لیکن اگرمالکِ کون و مکاں نے اپنے کسی بندے کو ایسی آزمائش کے لیے منتخب کیاہے، تو یقیناً وہ اُس کی ہمّت و طاقت سے بھی بخُوبی آگاہ ہے۔ ہم تہہ دل سے دُعاگو ہیں کہ اللہ پاک آپ کو اور اہلِ خانہ صبرِجمیل عطا فرمائے۔

معلومات میں بے حد اضافہ

سنڈے میگزین میں منور مرزا نے ’’حالات و واقعات‘‘ میں جو تحریر عنایت کی، پڑھ کر اندازہ ہوا کہ دنیا میں مسلم اُمّہ کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ ’’متفرق‘‘ میں شاہ ولی اللہ جنیدی نے کراچی کے غیر مسلم کرکٹرز پر مضمون لکھ کر ہماری تو معلومات میں بہت ہی اضافہ کردیا۔ ’’نئی کتابیں‘‘ میں اِس مرتبہ ’’موت کی واپسی، خدا کی بستی اور مَیں نے بھی ڈھاکا ڈوبتے دیکھا‘‘ پر تبصرہ بے حد پسند آیا۔ اور ’’ناقابلِ فراموش‘‘ سلسلے میں محمد اسحاق قریشی کا واقعہ دل چسپ اور سبق آموز تھا۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)

                      فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

شمارہ موصول ہوا۔ سرِورق پر دو خوش جمال ماڈلز کا حُسنِ نو بہار دیکھتے آگے بڑھ گئے۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا، بنگلا دیش کے انقلاب کا تجزیہ کررہے تھے کہ معاشی ترقی کے باوجود حسینہ واجد کے خلاف عوم کا غم و غصّہ اُن کی 16سالہ طویل حُکم رانی بہا لے گیا۔ معلوم یہ ہوا کہ صرف معاشی ترقی ہی اقتدار کی ضمانت نہیں، آمرانہ طرزِ حکومت اور مخالفین کو طاقت کے ذریعے کچلنے سے بھی عوام میں بغاوت کے آثار نمایاں ہوتے ہیں۔ ہمارے یہاں بھی ایسے طالع آزما گزرے ہیں، اوراُن کاجوانجام ہوا، سب کو پتا ہے۔ مگر تاریخ کہتی ہےکہ’’تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھتا‘‘۔

’’رپورٹ‘‘ میں نعیم احمد ناز جنوبی پنجاب حکومت کی ’’کتاب گاڑی‘‘ جیسی دل چسپ، انوکھی کاوش کا ذکر کررہے تھے۔ حکومتیں مخلص ہوں، تو اِس طرح بھی تعلیم کو فروغ دیا جاسکتا ہے، مگردوسری طرف دیہات میں ان گنت سرکاری اسکولز بند بھی پڑے ہیں اور اساتذہ اور دیگر اسٹاف گھر بیٹھا تن خواہیں لے رہا ہے، خصوصاً سندھ میں تو صورتِ حال بہت ہی ابتر ہے۔ جب سےسیاسی بھرتیاں شروع ہوئی ہیں، تعلیم کا بیڑہ ہی غرق ہوگیا ہے۔ بھٹو دورتک نظام پھر بھی بہتر تھا، نیشلائزیشن کے بعد تو زوال ہی شروع ہوگیا۔ 

حالت یہ ہے کہ ہم خطّے میں افغانستان کے سوا سب سے پیچھے ہیں۔ سری لنکا جیسا دیوالیہ مُلک بھی 90 فی صد تعلیم یافتہ ہے۔ خیر، ’’رپورٹ‘‘ میں سلیم اللہ صدیقی ’’بجلی کی کہانی‘‘ میں آئی پی پیز کے کے معاہدوں کی بابت بتارہے تھے۔ یہ انکشافات بھی اب ہورہے ہیں کہ بیش ترکمپنیاں ہمارے حُکم رانوں اوراشرافیہ کی ہیں، یا اُن کے شیئرز ہیں، تو پھر عوام تو یہی کہیں گے ؎ وہی قاتل، وہی شاہد، وہی مُنصف ٹھہرے… اقرباء میرے کریں، قتل کا دعویٰ کس پر۔ تب ہی تو جماعتِ اسلامی کے علاوہ کسی کو احتجاج کی بھی توفیق نہیں ہوئی۔ 

پی ٹی آئی کی ساری توجّہ صرف اپنے لیڈر کو جیل سے رہا کروانے پہ مرکوز ہے کہ جسے جیل میں بھی دنیا جہاں کی سہولتیں میسّر ہیں، حتیٰ کہ جیل سے بیٹھ کے روزانہ فتہ و فساد پر مبنی بیانات شائع کیے جا رہے ہیں، خصوصاً جنرل فیض کی گرفتاری کے بعد سے تو زیادہ ہی شعلہ بیان ہوگئے ہیں، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دال میں کچھ نہ کچھ کالا تو ضرور ہے۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں ایڈیٹر صاحبہ کا قلم جوبن پر تھا، اشعار کی وہ موسلا دھار بارش ہوئی کہ دل و دماغ گرج، چمک کی روشنی میں نہا گئے۔ مزاج کا موسم تک خوش گوار ہوگیا۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں فرّخ شہزاد نے بلوچستان کے ڈاکٹر ہدایت اللہ سے بہترین بات چیت کی، جو مخیّر افراد سے بلوچستان میں کینسر اسپتال کےقیام استدعا کررہے تھے۔ 

ویسے تو وہاں کے سردار الیکشن میں کروڑوں روپے خرچ کرکے پھراربوں کماتے ہیں، تو اُنہیں بھی اپنے پس ماندہ لوگوں کا کچھ خیال کرنا چاہیے۔ ’’شعراء کرام‘‘ میں حسن عباس عُمر خیام کے حالاتِ زندگی اور رباعیات کا ذکرِ خیر کررہے تھے۔ یہ پڑھ کے حیرت ہوئی کہ ’’ٹائی ٹینک‘‘ میں امیتابھ بچن کے دادا کی مدھوشالا کا مترجم نسخہ بھی غرق ہوگیا تھا۔

ویسے وہ ٹائی ٹینک میں لے کر کون جارہا تھا۔ ’’متفرق‘‘ میں ڈاکٹر معین نواز واٹس ایپ کے کمالات کا ذکر لائے، تو حافظ بلال بشیر ’’عالمی یومِ انسانیت‘‘ پر غزہ کے مظلوم مسلمانوں کی بربادی کا نوحہ بیان کرکے، انسانیت کے علم برداروں کے ضمیر جھنجھوڑنے کی کوشش کررہے تھے، مگرعالمِ اسلام کی خاموشی بھی توسوالیہ نشان ہے۔

’’پیارا گھر‘‘ میں مریم شہزاد بچّوں کی تربیت سے متعلق تجاویز دے رہی تھیں، حالاں کہ اگر ہم ’’بچّے، دو ہی اچھے‘‘ والے نسخے ہی پر عمل پیرا ہوجائیں، تو تعلیم وتربیت آسان ہوسکتی ہے۔ ایم شاہد آلو بخارے کی اہمیت بیان کررہے تھے، تو ’’ڈائجسٹ‘‘ میں کرن نعمان نے دادی کی زبانی تحریکِ پاکستان کے دوران مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم کے الم ناک واقعات بیان کیے۔

بلاشبہ ہمیں پاکستان کسی نے طشتری میں رکھ کے پیش نہیں کیا تھا، یہ لاکھوں لوگوں کی قربانیوں ہی کانتیجہ ہے۔ اورہم پورے خلوص و دیانت سے اس کی تعمیر و ترقی میں حصہ لے کر ہی شہداء کی رُوحوں کو مسرور کرسکتے ہیں، حالاں کہ ہو اس کے برعکس ہی رہا ہے۔ بخدا ہم تو شہداء کے ساتھ قائدِاعظم کی رُوح سے بھی سخت شرمندہ ہیں کہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والے مُلک میں ہر کام ہی اسلامی تعلیمات کے برخلاف ہورہا ہے۔ (شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی، میرپورخاص)

ج: اور بخدا ہم بھی…

گوشہ برقی خطوط

* منور مرزا نے حالات وواقعات کا عُمدہ تجزیہ کیااورمضمون میں اہم سوال بھی اُٹھایا کہ ایرانی صدراتنا قدیم ہیلی کاپٹر کیوں استعمال کر رہے تھے، جب کہ وہاں سے جدید ڈرونز، میزائلز، خلائی راکٹس تک بنانےکے دعوے سامنے آتے ہیں، تو جواب یہ ہے کہ ڈرونز،میزائلز اور ہوائی جہاز، ہیلی کاپٹرز کی ٹیکنالوجی یک سرمختلف ہے۔ کوئی مُلک جدید ڈرونز بنارہا ہے تو ضروری نہیں کہ ہوائی جہازسازی کی مکمل ٹیکنالوجی بھی رکھتا ہو۔ 

اِس وقت امریکا، روس یاچند دیگر مغربی ممالک ہی انجن سازی میں کسی دوسرے مُلک کےمحتاج نہیں۔ پاک، چین کوششوں سے تیارکردہ جنگی JF-17Thunder میں بھی روسی ساختہ انجن استعمال ہوتا ہے۔ ٹیکنالوجی میں بہت ایڈوانسمنٹ کے باوجود چین آج تک اِس قابل نہیں ہوا کہ جنگی جہاز میں اپناتیارکردہ انجن نصب کر سکے۔بھارت کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے،اُس نے اپنا جنگی جہاز تیجاس بنایا، توایڑی چوٹی کازورلگایا کہ کسی طرح اُس میں بھارتی انجن نصب کرلے، لیکن بالآخر امریکی ساختہ انجن استعمال کرنے پر مجبورہوا۔ یہاں تک کہ ٹیکنالوجی کا چیمپئن،اسرائیل بھی امریکی ساختہ جنگی جہازہی استعمال کرتاہے۔ (محمّد کاشف)

* سب سےپہلے’’اسٹائل‘‘ کےصفحےپہ چھلانگ لگائی۔ سیاہ لباس پہ رنگ برنگ گل دستوں کا پرنٹ عجیب سا لگا۔ ریچھ، کتے کی لڑائی کا پڑھ کے خون کھول گیا۔ معصوم جانوروں پہ اتنا ظلم!ایسے مضامین لکھوایا کریں تاکہ حضرتِ انسان کےکارنامے سامنے آتےرہیں۔ امریکا کے سفرنامے میں لکھا تھا’’پیسیفک اوشین بندرگاہ پر دنیا کا سب سے بڑا بحری جہاز(کروز) لنگر انداز تھا۔ ارے بھئی، کروز تو ہر اُس سمندری جہاز کو کہتے ہیں، جو چند دن کی سمندری تفریح پہ لے جاتا ہے۔ ہم توکروز کا سفر کرتےہی رہتے ہیں۔ افسانے میں ذکر تو تاج محل کا تھا، پر تصویر کسی قلعے کی لگائی گئی، حالاں کہ تاج محل کی تصویر ڈاؤن لوڈ کرنا کیا مشکل ہے۔ (قرات نقوی، ٹیکساس، امریکا)

ج : ’’کروز‘‘ سے متعلق آپ کی تصحیح بالکل درست ہے۔ البتہ افسانہ ’’سیلانی‘‘ شاید آپ نے بغور نہیں پڑھا، اُس میں تاج محل نہیں، شیش محل (شاہی قلعے) کا ذکرتھا کہ ساری کہانی ہی پرانے لاہور کی تھی۔سو،اسکیچ بھی شاہی قلعے ہی کا لگایا گیا۔

قارئینِ کرام !

ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk

سنڈے میگزین سے مزید