• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

ملی نغمے کا اتا پتا؟

14؍اگست کے جریدے کے لیے ایک ملّی نغمہ ’’وہ میرا وطن ہے، میرا وطن‘‘ ارسالِ خدمت کیا تھا۔ شائع تونہیں ہوسکا۔ کچھ اتا پتا ہی دے دیں۔ (مقبول حسین ہاشمی، ناظم آباد (پنڈورہ) سیٹلائٹ ٹاؤن، راول پنڈی)

ج: ہم کوشش کررہے ہیں کہ ’’ناقابلِ اشاعت ‘‘ تحریروں اور کلام وغیرہ کی فہرست جلد از جلد شائع کردیں۔

سفینہ ڈوب رہا ہے، بتا کہاں جائیں؟

سنڈے میگزین کا 4؍اگست کا شمارہ سامنے ہے۔ سرِورق دیکھ کر شعر یاد آگیا۔ ؎ وہی خدا ہے، وہی ناخدا، کہاں جائیں… سفینہ ڈوب رہا ہے کہاں جائیں۔ کملا ہیرس میدان میں آگئی ہیں۔ جو بائیڈن کے قویٰ جواب دے گئے۔ تاج رئیسانی نے صحیح فرمایا۔ ’’آرٹس کونسل اور سبزی کی دکان میں کوئی فرق نہیں رہ گیا۔‘‘ ٹائٹل کا مصرع بہت ہی پسند آیا کہ ؎ وہ خوش جمال تو شاخِ گلاب جیسا ہے … ’’دوستی کا عالمی دن‘‘ منایا گیا۔

میرے خیال میں تو ایک مخلص دوست حقیقی بھائی سے کم نہیں ہوتا۔ دنیا میں ماں باپ جیسی نعمت کا کوئی نعم البدل نہیں، تو بیوی بچّوں کا رشتہ بھی امر اور اللہ کی عظیم نعمتوں میں سے ایک ہے۔ میری سب کو نصیحت ہے کہ مِل جُل کر رہو اور آپس میں پیار و محبت، خلوص و وفا کا رشتہ استوار رکھو۔ (سیّد شاہ عالم زمرد اکبرآبادی)

ج: آپ کی باتوں کا آپس میں کنیکشن تلاش کرنا ایک کارِ محال ہی نہیں، کارِعَبث ہے۔ سو، بس آپ کی عُمر کا لحاظ کرتے ہوئے خط شائع کیے دے رہے ہیں۔

بذریعہ ڈاک و بذریعہ ای میل

ایک مضمون ’’بھادوں‘‘ کے موضوع پر اور کچھ جواہر پارے ارسالِ خدمت ہیں۔ دیکھ لیجیے گا۔ علاوہ ازیں، 14؍اگست، آزادیٔ پاکستان کے حوالے سے ’’قائدِ اعظمؒ کا پاکستانی قوم سے خطاب‘‘ کے عنوان سے بھی ایک تحریر بذریعہ ای میل و بذریعہ ڈاک ارسال کی تھی۔ اُمید ہے، پسندیدگی کا اظہار فرماتے ہوئے شائع فرمائیں گی۔ (بابر سلیم خان، سلامت پورہ، لاہور)

ج: بھائی! اللہ کے واسطے اِس طرح تھوک کے بھاؤ تحریریں نہ بھیجیں، پھرجو تحریر آپ ڈاک سے بھیجتے ہیں، وہ ای میل بھی کردیتے ہیں۔ ہمارا منحنی سا جریدہ ہے، اِسی لیے متعدد بار گوش گزارکرچُکےکہ جب تک کسی لکھاری کی ایک تحریر کسی فیصلے کی منزل تک نہ پہنچ جائے، دوسری ہرگز ارسال نہ کریں۔ اِس طرح ایک توآپ لوگوں کو لمبے انتظار کی شدید کوفت اُٹھانی پڑتی ہے۔ دوم، ہم بھی مستقل دباؤکا شکار رہتے ہیں۔

کیا صُورت ہو سکتی ہے؟؟

لگ بھگ ہرجریدے ہی میں منور مرزا ’’حالات و واقعات‘‘ کے ذیل میں مُلکی وغیرمُلکی حالاتِ رفتہ و آئندہ کا بہترین تجزیہ پیش کرتےہیں۔ اُن کا اندازِ تحریرتو شان دار ہے ہی، ہر موضوع پر کمال گرفت ومعلومات کا بھی جواب نہیں۔ گر عنانِ حکومت اُن کے ہاتھ ہوتی، تو بخدا آج پاکستان اِس حال کو نہ پہنچا ہوتا۔ بہرکیف، عرضِ مدعا یہ ہے کہ21 تا27 جولائی کے شمارے میں رئوف ظفر کا ’’فیچر‘‘، ’’عُمر گزر جاتی ہے، جیون ساتھی نہیں ملتا‘‘ پڑھا، بہت ہی دل فگار تحریر تھی۔

اُس میں مسز روبا ہمایوں سے بھی بہت اچھی بات چیت کی گئی۔ اب آپ سے پوچھنا یہ ہے کہ اگر رئوف ظفر یا مسزروبا سے بات چیت یا خط و کتابت کرنی ہو تو اُس کی کیا صُورت ہوسکتی ہے؟ ایک عدد خط رئوف ظفر کو بھی لکھا تھا، نہ جانے اُن کو ملا یا نہیں۔ خیر، اب آپ کو خط ارسال کر رہا ہوں، اگر آپ کے ذریعے ہی اُن تک رسائی ہوجائے تو بڑی مہربانی ہوگی۔ (ملک محمد نواز تھہیم، سرگودھا)

ج : اِس کے لیے آپ کو جنگ، لاہور کے دفتر فون کر کے شعبۂ میگزین میں رئوف ظفرہی سے بات کرنی ہوگی۔ وہی آپ کی کوئی مدد یا رہنمائی کر سکتے ہیں۔

جانے کیا گزری ہوگی؟

تازہ ’’سنڈے میگزین‘‘ کے’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں ڈاکٹر قمر عباس کا مضمون اور ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا کا تجزیہ پڑھ کر معلومات میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ دونوں ہی لکھاری اپنی اپنی جگہ کمال ہیں۔ ’’رپورٹ‘‘ میں عبدالستار ترین کی تحریر پڑھی اور پڑھ کر بہت دُکھ ہوا کہ اگر بلوچستان کے ایسے ہی حالات ہیں، تو یہ ہم سب کے لیےبہت افسوس کا مقام ہے۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں عالیہ زاہد بھٹّی کی نگارش ’’آزادی، پابندِ سلاسل‘‘ بہت ہی پسند آئی۔ اور سوچ رہا ہوں، ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں شہزادی یاسمین پر، آپ کا جواب پڑھ کر نہ جانے کیا گزری ہوگی۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)

ج: ارے، ایسا بھی کون سا ظلم کا پہاڑ توڑ دیا گیا تھا۔ ہمارے خیال تو میں تو اگر کوئی مستقل جریدہ پڑھنےکا دعوےدار ہے، تو اُسے ہمارے فارمیٹ کا بھی لازماً پتا ہونا چاہیے۔ آپ اپنے خط ہی کے پیچھےچند سطریں لکھیں،اور پوچھیں کہ ہمارا مضمون کب شایع ہوگا، تو آپ کے لیے بھی ہمارا جواب کچھ مختلف نہیں ہوگا۔

حبیب اللہ کا نام بھول گئے؟؟

جنگ، سنڈے میگزین کا بہت پرانا قاری ہوں، اور پہلے بھی خط لکھ چُکا ہوں، لیکن شائع نہیں ہوا تھا۔ عرض یہ ہے کہ ان ابترحالات میں بھی، جب کہ مُلک کا تقریباً ہرشعبہ ہی آمادۂ زوال ہے، ’’سنڈے میگزین‘‘ کا معیار ہنوز بہت بلند ہے۔ ہر اِک سطر سےآپ لوگوں کی محنت عیاں ہوتی ہے۔ گرچہ صفحات بتدریج کم ہوتے چلے گئے، لیکن آپ کی مجبوریوں کا بھی بخوبی احساس ہے۔4 تا 10 اگست کا شمارہ سامنے ہے۔ کئی دوسرے قارئین کی طرح میں بھی بیک سائیڈ سے مطالعےکا آغاز کرتا ہوں اور سب سے پہلے ’’آپ کا صفحہ‘‘ ہی پڑھتا ہوں۔

اِس دفعہ نواب زادہ خادم ملک (عرف بےکار ملک) نے اپنے خط میں کچھ پرانے لکھاریوں کے نام لکھے، جو کہ کبھی ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی زینت ہوا کرتے تھے، لیکن اب کہیں کھوگئے ہیں، تو اُن میں وہ ایک نام لکھنا بھول گئے، اور وہ نام ہے، حبیب اللہ کا۔ جو کبھی جیل سے خط لکھا کرتے تھے اور اُن کےپہلے ہی خط کے جواب میں آپ نے لکھا تھا کہ ’’آپ کو یہاں نہیں ہونا چاہیے تھا۔‘‘ بہرحال، بعدمیں وہ رہا ہوگئے۔ (غالباً اِس میں آپ کی بھی کوئی کوشش شامل رہی ہوگی) تو کہنا یہ تھا کہ اُن کا بھی کچھ پتا کریں کہ وہ کہاں ہیں کہ وہ بہت اچھے لکھاری تھے۔ 

دوسری وجہ خط لکھنےکی یہ بنی کہ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں ایم۔ آر شائق نے ایک واقعہ ’’اسمِ الٰہی کا ورد‘‘ تحریر کیا، تو چوں کہ مجھے بھی اِسی اسمِ الٰہی کےذریعے دوماہ پہلے ایک نہایت ہی پریشان کُن واقعے سے نجات ملی، تو سوچا، کیوں نہ مَیں بھی قارئین سےاپنا تجربہ شیئر کر دوں کہ ایک بڑی پریشانی سے نجات کے لیے، ایک اللہ والے نے اسمِ الٰہی ’’یا ذوالجلال ولا کرام‘‘ پڑھنے کو کہا اور تعداد 1400دفعہ بتائی۔

یقین کریں، اِدھرپڑھنے کی دیرتھی کہ اللہ تعالیٰ نے پریشانی سےنجات دے دی۔ اور ہاں، پچھلے کسی میگزین میں ’’احفاظ الرحمٰن ایوارڈ‘‘سے متعلق بھی پڑھا، تو سوچا کہ شاید آپ کا نام بھی ایوارڈ حاصل کرنے والوں میں ہو، کیوں کہ احفاظ صاحب کی وفات پر آپ نے جومضمون لکھا تھا، بخدا میں نےویسی تحریر پھرنہیں پڑھی۔ 

وہ ہر لحاظ سے ایک بہترین کاوش تھی، خاص طور پر وہ جملہ کہ ’’گئے تو کیا تِری بزم خیال سے بھی گئے‘‘۔ حالات و واقعات، ہیلتھ اینڈ فٹنس، نئی کتابیں، سرچشمۂ ہدایت اور پیارا گھر آپ کےسبھی سلسلے بہترین ہیں، خاص طور پر ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ پرآپ کی تحریرکی توکیا ہی بات ہے۔ مَیں خاص طور پرمنتخب شاعری پڑھ کر حیران رہ جاتا ہوں، ایسے لگتا ہے، جیسے شاعر نے ماڈل کو سامنے رکھ کرہی کلام لکھا ہو۔ آج عرصۂ دراز بعد خط لکھ رہا ہوں، کئی پرانی یادیں بھی تازہ ہوگئیں، جب کبھی اپنے دُور دیس بسنے والے پیاروں کو خط لکھ کےجواب کا انتظارکیا کرتے تھے۔ اب تو بس، سب کچھ ایک کلک پرآگیا ہے۔ اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو۔ (محمّد صادق، شاد باغ کالونی، پشاور)

ج: حیرت ہے، اگر آپ نے کبھی بھی خط لکھا تھا، تو وہ کیوں شایع نہیں کیا گیا۔ اچھا خاصا طرزِنگارش ہےآپ کا۔ اور صحیح نشان دہی کی آپ نے، حبیب اللہ بھی اچھے لکھنے والوں میں شامل تھے۔ اِسی طرح ایک، محمّد حسین ناز صاحب بھی تھے اوراِن دونوں صاحبان میں قدرِ مشترک، خُوب صُورت ہینڈ رائٹنگ تھی۔ وقت کی دبیز دھول میں کیا کیا کچھ نہ چُھپ گیا۔ ہم کہاں کہاں اور کسے کسے ڈھونڈیں۔ بہرکیف، اب آپ آتے جاتے ہی رہیے گا۔

کیا خُوب سماں باندھا

نظامِ تعلیم کی تشکیل میں قرآن وسنّت سے رہنمائی کے ضمن میں شان دار مضمون قلم بند کیا گیا۔ جب تک ہم، آپ ﷺ اور صحابہ کرامؓ کے اسوہ سے استفادہ نہیں کریں گے، کام یابی تو دُور کی بات، ہماری بقا بھی ناممکن ہے۔ بہترین مضمون کی صُورت، سلطان محمّد فاتح نے کیا خُوب سماں باندھا۔ پھر قائدِاعظم کی زندگی کے چند خُوب صورت گوشوں سے روشناس کروایا، ڈاکٹر قمر عباس نے، تو محمّد اقبال شاکر بھی قائد کے پاک سرزمین سے تعلق کی نسبت کچھ دل گداز واقعات لے کر آئے کہ انھوں نے کیسے ریفوجیز کیمپ سے ایک روٹی لے کر اُسے چیک کیا۔ 

آپ کی سرسبز سی بزمِ رنگ و انداز نے تو سارا ماحول ہی ہَرا بَھراکردیا۔ میرا دل بھی باغ و بہار ہوگیا۔ بھارت کے دفاعی بجٹ سے متعلق منور مرزا کی تحریر چشم کُشا تھی۔ اور’’آپ کا صفحہ‘‘ میں بابر سلیم خان، شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی، رونق افروز برقی، شہزادی یاسمین، ڈاکٹرحمزہ خان اور اس ہفتے کی چٹھی کے حق دار، ضیاءالحق کےخطوط ہمیشہ کی طرح، بصد شوق پڑھے۔ مجموعی طور پر جریدہ لاجواب تھا۔ (شمائلہ نیاز، دائرہ دین پناہ، تحصیل کوٹ ادّو، ضلع مظفّر گڑھ)

مرغا بننے کا مقابلہ

دیکھیں، آپ ہمیں اور ہماری باتوں کو بہت سیریس لیا کریں اور قارئین کو بھی یہ درس ہرگز نہ دیں کہ وہ ہمیں سنجیدہ نہ لیں۔ آخر ہم ایک نواب زادے ہیں، ہماری کچھ تو قدر کریں، ہم ایک عظیم خاندان سےتعلق رکھتے ہیں۔ ارشد ندیم کو مبارک باد کہ انہوں نے جیولین تھرو میں گولڈ میڈل لیا، لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ اِس کمرتوڑ منہگائی، ٹوٹی پھوٹی سڑکوں، لوڈشیڈنگ اوراسٹریٹ کرائم سےمرصّع پاکستان میں گزارہ کرنے پر اولمپک ایسوسی ایشن کو ہمیں بھی ایک گولڈ میڈل عنایت کرنا چاہیے۔

ایک ہماری بیگم صاحبہ ہیں، جو بلاناغہ ہمیں روزانہ آدھے آدھے گھنٹے کے لیے مرغا بنا کے رکھتی ہیں اور ہم اُن کے سامنے چون و چرا بھی نہیں کر سکتے۔ یقین کریں، اگر اولمپکس میں مرغا بننے کا مقابلہ ہو، توہم ہی گولڈ میڈل حاصل کریں۔ اِس لیے آپ سے درخواست ہے کہ ہمیں سنجیدہ لیا کریں۔ یوں بھی ہم آپ کے جریدے کے دیرینہ قاری ہیں۔ (نواب زادہ بےکار ملک، سعید آباد، کراچی)

ج: جریدے کے مندرجات پر تو کبھی خال ہی آپ نے کوئی تبصرہ فرمایا ہے، زیادہ تر تو اونگیاں بونگیاں ہی مارتے رہتے ہیں، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اِس بزم میں آپ کے ہم دردوں، چاہنے والوں کی بھی پوری کھیپ موجود ہے، تو مجبوراً آپ کی ساری ’’چوَلیں‘‘ شایع ہی کرنی پڑتی ہیں۔ غالباً قارئین اِن سے لطائف کی کمی پوری کرتے ہیں۔ وگرنہ یہ کوئی بات ہے کہ جسے بیگم آدھا آدھا گھنٹہ مُرغا بنائے رکھے، اُسے نہ صرف ہم بلکہ باقی دنیا بھی سنجیدہ لے۔

                                  فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

شمارہ موصول ہوا، سرِورق پرایک فیملی جشنِ آزادی منا رہی تھی، پرچم اور لباس یک رنگ تھے۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں سلطان محمّد فاتح نے نظامِ تعلیم کی تشکیل میں قرآن و سنّت سے رہنمائی کی افادیت بیان کی۔ نبی کریم ﷺ پرپہلی وحی میں بھی پڑھنے ہی پر زور دیا گیا ہے، مگر یہ کیسا المیہ ہےکہ ہم دن بہ دن تعلیم سے دُور ہی ہوتے جا رہے ہیں۔ 

مغرب، زیورِ تعلیم سے آراستہ ہوکرستاروں پرکمندیں ڈال رہا ہے، نت نئی ایجادات سامنےآرہی ہیں اور ہم ہیں کہ تمام تر معاملاتِ زندگی میں دوسروں کے محتاج ہو کے رہ گئے ہیں۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں ڈاکٹر غلام مصطفٰی سولنگی، قائدِاعظم کی سندھ سے محبّت وعقیدت کی بابت آگاہ کررہے تھے۔ ’’قرار دادِ پاکستان‘‘ سب سے پہلے سندھ اسمبلی میں پاس ہوئی۔ 

قیامِ پاکستان کے بعد سب سے زیادہ مہاجر بھی سندھ ہی میں آئے اور پھر سندھی بھائیوں نے جیسی پذیرائی اورخدمت کی، انصارِ مدینہ کی یاد تازہ ہوگئی۔ اِسی وجہ سے قائدِاعظم نے کراچی کو پاکستان کا دارالخلافہ بنایا۔ ’’رپورٹ‘‘ میں عبدالستار ترین بلوچستان کے پانچ اضلاع کی گرین بیلٹ اُجڑنے، امن وامان کی بگڑتی صورتِ حال پرنوحہ کُناں تھے۔ خدارا! اربابِ اختیارکچھ ہوش کےناخن لیں۔ اُن سےووٹ لیتے ہیں، تو مسائل بھی حل کریں۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں ڈاکٹرقمرعباس، قائدِاعظم کی صلح جوئی، تدبر و دُور اندیشی پر روشنی ڈال رہے تھے، تو گاندھی کی تنگ نظری، تعصّب ومنافقت بھی واضح کی۔ 

خُود کانگریس کےکئی انصاف پسند رہنماؤں نے قائد کی حکمت وفراست کی تعریف کی۔ وہ سروجنی نائیڈو نے کیا خُوب تبصرہ کیا کہ ’’اگر سو گاندھی مسلم لیگ میں ہوتے، اور ایک جناح کانگریس میں ہوتا، تو پاکستان نہیں بن سکتا تھا۔‘‘ ؎ یوں دی ہمیں آزادی کہ دنیاہوئی حیران…اے قائدِاعظم! تیرا احسان ہے، تیرا احسان۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘میں ایڈیٹرصاحبہ نے پاکستان سے دلی محبّت و اُلفت کے جذبات و احساسات کو نہایت عُمدگی سے رائٹ اَپ میں سمویا، تو سُود وزیاں سے آگہی اور تعمیروترقی کےضمن میں کچھ صائب مشوروں سےبھی نوازا۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا بھارت کے دفاعی بجٹ میں اضافے اور عزائم کی تفصیلات سامنے لائے۔ 

دراصل بھارت بڑی مکّاری سے امریکا کو چین سے مقابلےکا دھوکا دے کرہتھیار حاصل کرتا ہے اور پھر اُنھیں ہمارے خلاف استعمال کرتا ہے۔ 62ء میں بھی اِسی طرح ہتھیار اکٹھے کیے گئے، جوپھر 65ء اور 71ء میں ہمارے خلاف استعمال ہوئے۔ ’’شعراء کرام‘‘ میں حسن عباسی نے عُمر خیام کے حالاتِ زندگی بیان کیے۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں ڈاکٹر عزیزہ انجم اہم نکتہ سمجھا رہی تھیں کہ مُلک کی تاریخ کی حفاظت بھی جغرافیے کی طرح ضروری ہے، مگر دانش ورانِ قوم کو کم ہی اس مسئلےکا ادراک ہے۔ 

عالیہ زاہد بھٹّی ’’آزادی، پابند سلاسل‘‘ کے عنوان سے نصیحت آموز افسانہ لائیں، توخیام الپاک ظفر، جاوید اقبال کےنغمات محبّت بَھرے تھے۔ اور ہمارے صفحے پرضیاء الحق قائم خانی کی چِٹھی کو اعزاز سے نوازا گیا، بہت مبارک ہو بھئی۔ (شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی، میرپورخاص)

ج: آپ کو بھی بہت مبارک ہو۔ جوں جوں لوگ چَھٹتے جارہے ہیں، آپ کاستارہ روشن سے روشن تر ہو رہا ہے۔

گوشہ برقی خطوط

* آپ کو مَیں نے ایک خط ای میل کیا تھا، کانٹریکٹ ملازمین سے متعلق۔ اگر ہو سکے تو ’’متفرق‘‘ یا خطوط کے صفحے پر شائع کردیں۔ شاید حکّامِ بالا کی نظر پڑجائے اور ادارے کے کانٹریکٹ ملازمین کا کچھ بھلا ہوجائے۔ (شجاعت حمیدی، گلستانِ جوہر، کراچی)

ج: سوری۔ آپ کا خط ہمارے صفحے کے فارمیٹ کے مطابق نہیں ہے اور ’’متفرق‘‘ کے لیے بھی غیر موزوں ہے۔

* مَیں نے آپ کو اتوار والے دن بھی ای میل کی تھی کہ میری ریسیپی لال لوبیے کی چاٹ میں میرے نام کی بجائے کسی اور کا نام لکھا تھا۔ یہ میرے ساتھ دوسری بارہوا ہے کہ ترکیب پر میرا نام نہیں لکھا گیا۔ (قراۃالعین فاروق، حیدر آباد)

ج : آپ کی ای میل شایع تو ہوگئی تھی۔ معذرت بھی کی تھی، جواب بھی دیا تھا کہ متعلقہ صفحہ انچارج کی خاصی کھنچائی کی ہے اب اور بتائو، کیا کریں، کان پکڑوا کے کھڑا کردیں۔

* جنگ، سنڈے میگزین کے لیے کتنی ہی لاجواب تحریریں (بزعمِ خود) میرے دل و دماغ میں رہ جاتی ہیں، روایتی سُستی کے سبب کسی صفحے پرمنتقل نہیں ہوپاتیں۔ جو ایک آدھ تحریر لکھ ہی بیٹھوں، تو اُسے بھیجنا، پھر اُس کے قابلِ اشاعت ہونے، نہ ہونے کے فیصلے کا انتظار، بےصبری یہ بھی نہیں کرنے دیتی۔ سو، جھٹ اپنی فیس بُک دیوار پر سجا لیتا ہوں۔ 

کئی بارخُود سے کہا کہ میاں یا تو صبر کی عادت ڈال لو، یا پھر دو تحریریں لکھ لیا کرو، ایک سنڈے میگزین کو بھیجا کرو اور ایک سوشل میڈیا پر، لیکن خشک تخلیقی سوتے جھنڈی دِکھا دیتے ہیں۔ ایک بار آپ سے ذکر کیا کہ کتابیں پڑھتا ہوں، تو کیا اُن کا خلاصہ یا اُن میں درج کسی اہم واقعے سے متعلق کوئی تحریر بھیج سکتا ہوں۔ آپ نے جواب دیا کہ کتابوں پر تبصرے کے لیے ایک صفحہ پہلے ہی مختص ہے، تومَیں کیا مختلف کروں۔ صرف اپنی بات کی وضاحت کےلیےایک کتاب کا تعارف پیش کررہا ہوں۔ تحریرطویل ہے، آپ کے پاس وقت کم ہوتو ابتدائی سطریں ہی پڑھ لیجیے گا۔ (عمیر محمود)

ج : آپ کی تحریرکی چند سطریں نہیں، پوری تحریر ہی پڑھ دیکھی۔ بلاشبہ، آپ کا اندازِ تحریر اچھا ہےاور یہ بات غالباً ہم آپ کو پہلے بھی بتا چُکے، لیکن تحریر کا صرف اچھا ہونا ہی کافی نہیں، ہمارے صفحات کے فارمیٹ پر پورا اُترنا بھی ضروری ہوتا ہے، تو فی الوقت تو اِس طرح کسی ایک کتاب پر تبصرے کی اشاعت ممکن نہیں کہ پہلے ہی ہمارا ایک پورا صفحہ’’ نئی کتابیں‘‘ سلسلے کے لیے مختص ہے۔

قارئینِ کرام !

ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk