روبینہ یوسف
دُور درخت کی سرسبز شاخ پر ایک پرندہ اپنی چونچ میں اِک پتّا دبائے بیٹھا تھا۔ آتی بہار کے دن تھے۔ خزاں کے مارے پودے، اشجار اور بیلیں نودمیدہ کونپلوں سےکھل سے گئے تھے۔ آہ… یہی وہ دن تھے، جب کامران اُن سے دور چلے گئے تھے۔ اِس سفاک دنیا کی بِھیڑ میں کہیں گم ہوگئے تھے۔ نوین دو برس کی تھی اور وہ ابھی زندگی کی صرف 26 بہاریں دیکھ پائی تھی کہ جب یہ سانحہ ہوا۔ اُس کا دل ماننے کو تیار نہیں تھاکہ کامران اتنے غیر ذمّےدار ہو سکتے ہیں کہ گھر کا رستہ ہی بھول جائیں۔
کبھی کبھی وہ گھر سے باہر نکل کر اپنی گلی کے ہر موڑ، ہر مکان، مکانوں کی دیواروں اور دیواروں کی ہر ہر اینٹ کو غور سے دیکھا کرتی کہ شاید کسی طلسمِ ہوش رُبا نےکامران سے اپنے ٹھکانے کی پہچان چھین لی ہو۔ کہیں کچھ بدل نہ گیا ہو، مگر ہر بار مایوسی ہی ہوتی۔ سب کچھ پہلے جیسا ہی تھا۔ وہ اِسی گھر میں بیاہ کر آئی تھی۔ کامران، مُلک کے نامی گرامی صنعت کار تھے۔ نازک سی شجیعہ کےحُسن کا شکار ہو گئے تھے، حالاں کہ وہ کوئی بہت حسین و جمیل نہ تھی۔ ہاں، بانکپن چوں کہ صرف حُسن والوں کی ملکیت نہیں ہوتا، تو جو دِل کو بھا جائے، وہی شہ خوباں ہو جاتا ہے۔
اگر شجیعہ کو پتا ہوتا کہ اُس کے سکون کے دن تھوڑے ہیں، تو وہ اپنے جذبات کو مجسّم کر کے ایسی زنجیر بناتی کہ خوشیاں کبھی اُس سے دُور نہ جا پاتیں۔ ابھی تو اُس کے عروسی دوپٹّے سے کامران کے ہاتھوں کا لمس بھی نہ چُھٹا تھا۔ کبھی کبھی جب اُسے خیال آتا کہ نہ جانے وہ کس حال میں ہوں گے، مصائب کی کون سی بھٹّی اُن کی رگِ جاں کو چھیدتی ہوگی،کون جانے؟؟ تواُس کا دل چاہتا کہ وہ زور زور سے چیخنا شروع کر دے۔
کوئل کی دردناک ’’کوکو، کوکو‘‘سے وہ چونک اُٹھی۔ دھیرے دھیرے چلتی ہوئی کاریڈور سے گزر کر باغ میں آئی۔ وہی باغ، جو اُن دونوں نے مل کر لگایا تھا۔ ایک بات تھی کہ کامران کے لگائے پودے تناور درخت بن کر خُوب بہار دے رہے تھے، جب کہ شجیعہ کے ہاتھ کے پودے جلدی مُرجھا جاتے تھے۔ اب وہ سمجھی قدرت کی مصلحت کہ کامران کا عکس اِن نباتات میں اُتر کر اُن کو محفوظ کررہا ہے، یعنی چھاؤں تو وہ بہرحال اپنی غیر موجودگی میں بھی دے ہی رہےتھے۔ ’’ماما! چائے کے ساتھ کیا لیں گی؟‘‘ نوین کی آواز پر وہ پلٹی۔ ہوبہو باپ کا عکس تھی وہ۔
کم عُمری میں باپ کی جدائی کا سانحہ اُس کے بچپن کو بھی مدبرانہ پیراہن میں ڈھال گیا تھا اور اب تو وہ دو ماہ کی بچّی کی ماں تھی۔ سوگوار مامتا اتنی حسین تھی کہ وہ بے اختیار اُسے دیکھے گئی۔ اِک بیٹی ہی تو اُس کی محرمِ راز تھی۔ جواب دینے کی بجائے اُس نے آگے بڑھ کربیٹی کو گلے لگا لیا۔ ’’میری فکرنہ کیا کرو۔ کاشان کا خیال رکھو۔ عائرہ کو توجّہ دو۔ اُس ننّھی جان کو تمہاری اور کاشان کی زیادہ ضرورت ہے۔‘‘ آخری جملہ کہتے کہتے اُس کی آواز بھرّا گئی۔ کسی کو کیا پتا، زندگی خوشیوں کا تاوان بھی لیتی ہے، مگر ہر کسی سے نہیں۔ یہ بات وہ دل ہی میں سوچ کر رہ گئی۔
نوین واپس پلٹ گئی تھی۔ اور شجیعہ کی نظروں میں وہ دن ایک ایک کر کےگزرنے لگے،جب کامران پھول توڑ کر اُس کے بالوں میں لگایا کرتے تھے۔ جب وہ دونوں سیاہ گلابوں پر اُترتی شام کا ایک منظر ہوا کرتے تھے۔ جب موتیا کے پھول اُس کی کلائیوں میں گجروں کی صُورت مہکا کرتے تھے اور رات کی رانی کی خوشبو دونوں کوسرشار کردیا کرتی تھی۔
کامران آج بھی اُسے گھر کے ہر کونےمیں نظر آتے تھے۔ فرق صرف یہ تھا، جب پہلے وہ اُن کے قریب جاتی تھی، وہ نہال ہوجاتے تھے، اب وہ گریزاں تھے۔ پاس بُلا کے غائب ہوجاتے۔ وہ اپنےآنسو پیتی کمرے میں واپس آگئی۔ ملازمہ چائے کی ٹرے کمرے میں رکھ کرجا چُکی تھی۔ کپ سے اُٹھتی بھاپ میں بھی کامران کا ہیولا تھا۔ وہ جلدی جلدی گرم چائے ہی کے بڑے بڑے گھونٹ بھرنے لگی۔
اگلےہفتےاُسےامریکا میں لاپتا افراد کے حوالے سے منعقدہ ایک کانفرنس میں شرکت کرنی تھی۔ نہ جانے کتنی قراردادیں اور بِلز منظور ہو چُکے تھے، مگر تاحال اُس کی اپنے گم گشتہ نصیبوں تک رسائی نہ ہوسکی تھی۔ رات ہی اُس نے ایک اور سوئیٹر بن کر مکمل کیا تھا۔ کامران کو اُس کے ہاتھ کے بنے ہوئے سوئیٹرز بہت پسند تھے۔ اُن کے جانے کے بعد بھی وہ ہرسرما رُت میں اپنے ہاتھوں سے ایک سوئیٹر بُنا کرتی تھی۔ ہر ڈیزائن کے اِک اِک تار میں اپنی تشنہ محبّت، اپنی اُداسیوں، بےچینیوں کوقید کرتی۔
یوں جیسے کامران یہ سوئیٹرز پہنیں گے، تو اُس کی ساری ناآسودگیوں، محرومیوں اوربےقراریوں کوآپ ہی آپ سمجھ لیں گے۔ یوں بھی اُسے کبھی کامران کوکچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی تھی، اُنھیں جیسے وجدان ہوجاتا تھا۔ اُسے اچھی طرح یاد تھا کہ نوین کی پیدائش پرکتنی خوشیاں منائی گئی تھیں۔ اُس وقت اُس کے ساس سُسر اور ماں باپ دونوں حیات تھے۔ وہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھی اور کامران کی صرف ایک بڑی بہن تھیں، جو آسٹریلیا میں رہائش پذیر تھیں۔ وہ خاص طور پراکلوتے بھائی کو بیٹی کی مبارک باد دینے پاکستان آئی تھیں۔ پھر جب نوین نے پہلا دودھ کا دانت نکالا، تو کامران کی خوشی قابلِ دید تھی۔
’’بھئی بیگم! آج تو ڈنر میں روسٹڈ ران ہونی چاہیے۔‘‘ وہ شرارت سے کہہ رہے تھے۔ ’’بڑے چالاک ہیں آپ، بیٹی کے دانت کی خوشی میں اپنے دانت تیز کرنے کےچکر میں ہیں۔‘‘وہ بہت ہنستے ہوئی بولی تھی۔ اور اُس کی ہنسی پر تو کامران فدا تھے۔ بقول اُن کے، ’’دھیمی دھیمی رفتارسے بہتی ہوئی ندی جیسی تمھاری یہ ہنسی میری ساری تھکن اُتار کے رکھ دیتی ہے۔‘‘پھر اُس دن کی یاد بھی آنکھوں کو نمکین پانیوں سے بھر گئی، جب نوین نے اپنا پہلا قدم اُٹھایا تھا۔ تب اُس کی دادی نے خاص طور پر پاؤنیاں (پیر کی شکل کی مٹھائی) بنوا کر بانٹی تھی۔ اُس نے الماری کھول کراُس میں نفاست سے لٹکے سوئیٹرز پر ہاتھ پھیرا۔ یوں محسوس ہوا، جیسے وہ کامران کے وجود پر ہیں۔
20 سوئیٹرز مکمل ہو چُکے تھے۔ آج بھی ہر شبِ برات وہ اپنے محبوب شوہر کی پسند کا چنے کی دال کا حلوہ بنایا کرتی تھی۔ چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں چاندی کے ورق اور بادام، پِستے سےسجا طشت دسترخوان کی شان بڑھا دیتا تھا۔ رمضان کریم میں ضرورت مندوں میں راشن کے تھیلے بانٹنا، عید پر فطرانے کی رقم اور کپڑوں کی تقسیم۔ سب کچھ وہی تھا، بالکل پہلےجیسا۔ اُن کی نوین کے لیے بہت رشتے آئے تھے۔ وہ خُوب صُورت تھی۔ ایک نامی گرامی صنعت کار کی بیٹی تھی۔ اور پھر شجیعہ نے بڑی ہمّت و محنت سے کامران کے بزنس کو سنبھالنے کی کوشش کی تھی۔
چھوٹی سی بچّی کا ساتھ تھا۔ کامران کی تلاش کے ہر ممکن پہلو پر بھی وہ مسلسل کام کررہی تھی۔ کہیں کوئی موہوم سی اُمید بھی نظر آتی، وہ وہیں پہنچ جاتی۔ بہرکیف، اُس نےنوین کے لیے رشتے دیکھنے شروع کیے، تو ترجیحاً ’’گھر داماد‘‘ ہی کی تلاش شروع کی۔ اور پھر کچھ جاننے والوں کے توسّط سے کاشان مل گیا، جو والدین کی وفات کے بعد اپنی بہن کے ہاں رہ رہا تھا اور بہنوئی کے سرد رویوں کا شکار تھا۔ ہونہار، خُوب صورت اور مخلص سا کاشان ان کا گھر داماد بن گیا۔ اور پھر بزنس کے معاملات آہستہ آہستہ اُس کے سپرد کر کے وہ کافی حد تک مطمئن ہو گئی تھی۔
لاپتاافراد سے متعلق ہونے والی کانفرنس خاصی کام یاب رہی تھی۔ ایک بار پھر نئی اُمیدوں نے اُس کا دامن پکڑا تھا۔ واپسی پر وہ بہت پُرجوش تھی۔ ایک اُمید ہی تو اُسے مرنے نہیں دیتی تھی۔ اگلے روز کاشان اُسے سالانہ چیک اپ کے لیے لےگیاتھا۔ دھیمے لہجے میں بولتا، اُسے حوصلہ دیتا، نوین کے بعد وہ بہت بڑی ڈھارس تھا۔ غیر محسوس طریقے سے بیماریوں نے اُس کی رگوں اور ہڈیوں کے جوڑوں میں جگہ بنانی شروع کر دی تھی۔ واپسی پر وہ عائرہ کے ساتھ کافی دیر کھیلتی رہی۔ اب وہ اُس کی آواز پرجواباً غوں غاں بھی کرنے لگی تھی۔ پھر رات دیر تک کاشان اور نوین اُس کے کمرے میں بیٹھے رہے۔
نوین اُس کا سرسہلاتی رہی اور جانے کب وہ گہری نیند سوگئی۔ پریس کلب میں ایک میٹنگ تھی۔ وہ مقررہ وقت پرپہنچ گئی۔ وہی دل فریب وعدے، کھوکھلے عزم اور بےجان الفاظ، جو آج تک کسی لاپتا کا کوئی سندیس نہ دے سکے تھے۔ وہ گھر پہنچی، تو کافی تھکی تھکی سی تھی۔ اِس کےباوجود اُس نے، وہ اکیسواں سوئیٹر نکال کر بُننا شروع کردیا، جو کچھ ہی روز پہلے، ہواؤں میں خنکی محسوس ہوتے ہی اُس نے شروع کیا تھا۔
اور ہر بار کی طرح اُسے پھر اُمید ہو چلی تھی کہ یہ سوئیٹر مکمل ہوتے ہی کامران ضرور آجائیں گے۔ سوئیٹر مکمل ہونے کے قریب تھا۔ سارا دن اُس کے کان فون یا ڈور بیل ہی کی طرف لگے رہے۔ اور پھر شام ڈھلے اُس نے بڑی احتیاط سےسوئیٹرہینگر میں ڈال کر لٹکادیا۔ رات عشاء کے بعد ذکر اذکار اور تلاوت سے فارغ ہو کر وہ سونے کے لیے لیٹی۔ جانے کون سا پہر تھا، جب فون کی تیز آواز سے اُس کی آنکھ کُھلی۔ ’’اتنی رات گئے فون…‘‘ اُس نے جھپٹ کر فون اُٹھایا۔
علی الصباح وہ اپنے ہاتھ میں سوئیٹر لیے، کاندھے سے ہینڈ بیگ لٹکائے جانے کو تیار کھڑی تھی۔ ’’ماما!! آپ کہاں جا رہی ہیں صبح صبح؟‘‘نوین بھی بچّی کی طبیعت کی وجہ سے صبح سویرے ہی جاگ گئی تھی۔ فوراً پیچھے چلی آئی۔ ’’ اور… یہ سوئیٹر کہاں لےجا رہی ہیں؟؟‘‘ ’’آہ! 21واں سوئیٹر مکمل ہوا اور میرا انتظار بھی پایۂ تکمیل کو پہنچا۔‘‘ وہ اجنبی سی آواز میں جیسے کسی گہرے کنویں سے بول رہی تھی۔ ’’مم…مم… مَیں… سمجھی نہیں…‘‘ نوین کانپتے لہجے میں کچھ کہنا چاہ رہی تھی، مگر اُس نے ہاتھ اُٹھا کراُسے روک دیا۔ ’’20 سال پرانی قبر پر چڑھانے کے لیے میرے پاس اِس سوئیٹر سے بڑا کوئی نذرانہ نہیں۔‘‘