• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

طوبیٰ احسن

اسماء تکیے پر آنکھیں موندے لیٹی تھی۔ دل بہت اداس تھا، کچھ کرنے کو جی نہیں چاہ رہا تھا۔ اکتاہٹ، بے زاری کا حملہ بہت شدید تھا۔ معاذ پڑوس میں اپنے ہم عُمر بچّوں سے کھیلنے گیا ہوا تھا۔ ”یہ پڑوسی بھی کتنی بڑی نعمت ہیں۔“ اسماء نے سوچا۔ جب سے برابر میں نئے کرائے دار آئے تھے، معاذ کا اُن کے گھر بہت دل لگ گیا تھا۔ اُن کے دو جُڑواں بچے معاذ کے ہم عُمر تھے۔ 

سو، خُوب دوستی ہو گئی تھی۔ ”شُکر ہے، معاذ خوش ہے، ورنہ تو پہلے ”بابا کب آئیں گے، بابا کب آئیں گے؟‘‘ پوچھ پوچھ کے ہی ناک میں دَم کر دیتا تھا۔“ اسماء نے پھرسوچا۔ معاذ کا دل تو لگ گیا تھا، لیکن وہ کیا کرتی، اُس کا دل تو کسی بھی چیزمیں نہیں لگ رہا تھا۔ 

طاہر جب گھر میں ہوتا، تو اسماء تتلی کی طرح اُڑتی پھرتی۔ جلدی جلدی اچھا سا کھانا پکا کر تیار ہو جاتی، صفائی تو ماسی کر کے چلی جاتی تھی۔ محبّت کرنے والا شوہر، صاف سُتھرا گھر، پیارا، ذہین بچّہ، وہ اپنی قسمت پر نازاں رہتی، لیکن جب طاہر ہفتے بھر کے لیے کراچی چلا جاتا، تو اُسے اداسی اور ڈیپریشن کے دورے پڑنے لگتے۔ گھر اوندھا پڑا رہتا۔ ماسی جیسا تیسا کام کر دیتی۔ وہ پژمُردہ، تھکی تھکی، الجھے بالوں، میلے کپڑوں میں پِھرتی رہتی۔

طاہر کے بغیر اُس کی زندگی بالکل بےرنگ، بےرونق ہو جاتی۔ چولھا بھی سُونا پڑا رہتا۔ کبھی نوڈلزبن جاتے، تو کبھی بازار سے پیزا آرڈر کر لیا جاتا اور جس دن طاہر نے آنا ہوتا، ایسا لگتا، جیسے مُردے میں جان پڑ گئی ہو۔ وہ صُبح سےتازہ دَم ہوتی۔ ماسی سے خُوب تفصیلی صفائی کرواتی۔ قسم قسم کی خوشبوئیں کچن سے اُٹھتیں۔ اور پھر وہ خُود استری شدہ کپڑے بدل کر خُوشبو سے مہک کے طاہر کا انتظار کرتی۔ طاہر اور وہ ایسے ملتے، جیسے صدیوں کے بچھڑے ہوئے ہوں۔

پتا نہیں کیوں، کچھ عرصے سے اُسے ایسا لگ رہا تھا، جیسے طاہر کچھ بدل سا گیا ہے۔ اُس کے رویے میں جوش وخروش مفقود تھا۔ وہ تھکا تھکا، الجھا الجھا رہتا۔ ہر وقت کچھ سوچتا رہتا، ذرا ذرا سی بات پر الجھنے لگتا اور معمولی بات پر چراغ پا ہو جاتا۔ اسماء نے تو طاہر کو اپنے دل کی سب سے اونچی مسند پر بٹھا رکھا تھا۔ وہ اُس کی ہر بے رُخی سہ جاتی، لیکن اِس دفعہ تو حد ہی ہو گئی۔ 

طاہر، جو ہرماہ صرف ہفتے بھر کے لیے کراچی جاتا تھا، اِس بار15دن ہوگئے تھے اور واپس نہیں لوٹا تھا۔ پہلے وہ خُود ہر روز فون کرتا تھا، لیکن آج اُس کے فون کرنے پہ چراغ پا ہوگیا۔ ”بار بار فون کر کے تم مجھے پریشان کر رہی ہو۔ مَیں بہت مصروف ہوں اور تمہیں پہلے ہی اپنی ساری مصروفیات کا بتا بھی چُکا ہوں۔“ وہ غضب ناک لہجے میں بولا تھا اور اسماء کے اُس کی واپسی سے متعلق سوال پر تو وہ سخت چِڑ گیا تھا۔ 

جواباً اسماء سے کچھ کہا نہ گیا، تو اُس نے فون بند کردیا۔ اور پھر وہ دیر تک روتی رہی۔ اپنا اکیلا پن، تنہائی اُسے ڈس رہی تھی۔ ”میرا کوئی بھی نہیں ہے۔“ اُس نے آہ بَھر کر سوچا۔ ”کتنی اکیلی ہوں میں…“ وہ سخت قنوطی ہو رہی تھی۔ صبح کو جو کھانا تیار کیا تھا، وہ ایسے ہی رکھا تھا۔ 

کچھ ایسا کام بھی نہیں تھا۔ کل اتوار تھا، معاذ کے اسکول کی بھی چُھٹی تھی۔ ”آخر میں کیا کروں، کیسے وقت گزاروں؟“ اُس نے فون اُٹھایا اور پھر رکھ دیا۔ سب اپنی اپنی زندگیوں میں مصروف ہیں، ایک مَیں ہی ہوں، فالتو، بےکار، جس کی کسی کو ضرورت نہیں۔ ”اوہ! آج تو 15دسمبر ہے! آج ہی کے دن تو میری اور طاہر کی ملاقات ہوئی تھی۔“ یہ خیال دل میں آیا تو چہرے پر ہلکی ہلکی مسکراہٹ کِھلنے لگی۔ 

طاہر، بابا کا بزنس پارٹنر تھا۔ وہ اکثر اُن کے گھر آیا کرتا تھا۔ ڈرائنگ روم میں داخل ہوتے یا نکلتے اُس کی اسماء سے ہیلو ہائے ہو جاتی۔ سچ تو یہ ہے کہ طاہر کی شخصیت اتنی جاذبِ نظر، گفتگو ایسی سحر انگیز تھی کہ وہ دل ہی دل میں اُسے پسند کرنے لگی تھی۔ آہستہ آہستہ اُسے اندازہ ہو گیا کہ وہ ہر جمعے کو بابا کے پاس آتا ہے، تو وہ اُس کے آنےسے پہلے اچھی طرح تیار ہونے لگی۔ 

ایک دن تو اُس نے خیری سے کہہ دیا کہ وہ اپنے کوارٹر چلی جائے۔ مہمان کو چائے وہ خُود دے گی۔ خیری نے اُسے حیرانی سے دیکھا، مگر چُپ رہی۔ اُس روز اسماء نے اپنی تیاری پر کافی محنت کی تھی۔ نیا لباس پہن کر، اچھے سے بال بنا کے وہ چائے لے کر چلی آئی۔ مگر بابا کو اچھا نہیں لگا تھا۔ ”خیری کہاں ہے؟ آپ کو چائے لانے کی کیا ضرورت تھی...؟“”بابا! وہ اُس کی طبیعت خراب تھی۔ مَیں نے اُس کو آرام کے لیے بھیج دیا تھا۔“ ”اوہو! بیٹا، تو دستک دے کر مجھے بُلا لیتی، مَیں خُود آکر لے جاتا۔ ‘‘بابا نرم پڑگئے۔ امّی کی وفات کے بعد وہ اسماء کا بہت خیال رکھتے تھے۔

اگلی بار، وہ اُس کے آنے پر کھڑکی میں کھڑی ہوگئی کہ ایک نظر اُس کی شکل ہی دیکھ لے۔ جمعہ کس مشکل سے آتا تھا، کوئی اُس کے دل سے پُوچھتا۔ جب اُس نے گاڑی کی آواز سُن کر کھڑکی سے جھانکا، تو طاہر اُسی کی طرف دیکھ کر مُسکرا رہا تھا۔ اُس نے اسماء کو دیکھ کر ہاتھ ہلایا، تو اُس کا دل بُری طرح دھڑک اُٹھا۔ طاہر کو اندازہ تو ہوگیا تھا کہ اسماء اُس میں دل چسپی لے رہی ہے، لیکن ابھی کافی فاصلہ تھا، پھر ایک دن ایسا ہوا کہ وہ بابا کی غیر موجودگی میں آیا۔ اسماء نے اُسے اندر بلا لیا۔ خیری سے چائے بنوائی، پھر آہستہ آہستہ دونوں کی دوستی محبت میں بدلتی چلی گئی۔ اب وہ دونوں اکثر بابا کی غیر موجودگی میں ملنے لگے تھے۔ 

کبھی اسماء کسی سہیلی کے گھر جانے کا بہانہ کرکے اُس سے باہر بھی مل لیتی۔ وہ انتظار میں تھی کہ طاہر کب اُسے شادی کی پیش کش کرے گا، لیکن وہ تو چُپ تھا۔ آخر ایک دن اُس نے خُود ہی بات کی کہ اگر وہ اُس کو پسند کرتا ہے، تو اِس طرح چُھپ چُھپ کے ملنے سے بہتر ہےکہ بابا سے اُس کے رشتے کی بات کرے۔ اور تب طاہر نے وہ دھماکا کیا، جس نے اسماء کے حواس ہی مختل کردئیے۔ ”آہ کاش…!“ اسماء نے گھڑی کی طرف نظر دوڑائی۔ طاہر کے سنگ بیتے لمحات یاد کرنے میں نہ جانے کتنا وقت گزر گیا تھا۔”مجھے معاذ کو پڑوس سے بلا لینا چاہیے، کافی دیر ہوگئی ہے۔“ وہ اُٹھ کر معاذ کو لینے چل دی۔

رات کو معاذ کو بستر پر لٹا کر اُس نے کتاب اٹھائی۔ ”چلو،تھوڑا مطالعہ ہی کرلوں۔“ کہ نیند تو آنکھوں سے کوسوں دُور تھی۔ لیکن کتاب سامنے رکھے وہ پھر طاہر کے بارے میں سوچنے لگی تھی۔ جب اُس نے طاہر سے کہا کہ وہ اپنا رشتہ بھیجے، تو وہ یک دَم خاموش ہوگیا تھا۔ کتنی دیر تک کچھ بولا ہی نہیں۔ ”تم کیا سوچ رہے ہو، کچھ بول کیوں نہیں رہے؟“ اسماء کی بےتابی عروج پر تھی۔ ”تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔ ہمارا اِس طرح ملنا ٹھیک نہیں، لیکن…“ وہ دبے دبے لہجے میں بولا تھا۔ ”لیکن کیا…؟“

اسماء نے کسی قدر خفگی سے کہا۔ ”کہیں تم مجھے چِیٹ تو نہیں کر رہے…“ ”نہیں، خدا کی قسم نہیں! مَیں تمھیں بہت چاہتا ہوں، اُس سے سوگُنا زیادہ، جتنا تم مجھے چاہتی ہو۔“ ”پھر مسئلہ کیا ہے؟“ اسماء کا دل اُس کے اظہارِ محبّت پر جُھوم اُٹھا تھا۔ ”مَیں تمہیں کسی دھوکے میں نہیں رکھنا چاہتا۔ مَیں پہلے ہی تمھیں سب کچھ صاف صاف بتا دینا چاہتا تھا۔“ ”بات کیا ہے؟“اسماء کا اضطراب بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ ”دراصل…“ وہ ہچکچا رہا تھا۔ ”تم وعدہ کرو، مجھ سے ناراض اور بدگمان نہیں ہوگی۔“ ”طاہر! مَیں تمہیں اپنی جان سے زیادہ چاہتی ہوں۔ مَیں تم سے ناراض، بدگمان نہیں ہوسکتی۔ جو بھی بات ہے، آرام سے کہو۔“ ”مَیں پہلے سے شادی شدہ ہوں۔“ ”کیا…؟“ 

اسماء کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا۔ ”تم مذاق کر رہے ہو ناں۔۔۔؟“ اُس کی آواز میں آنسوؤں کی لرزش تھی۔ ”تنگ کر رہے ہو ناں مجھے؟“ ”نہیں، میری جان…!“ طاہر نے اُس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ ”مَیں تمھیں اندھیرے میں نہیں رکھنا چاہتا، نہ ہی دھوکا دینا چاہتا ہوں۔“ ”طاہر! مجھے یقین نہیں آرہا۔“ اسماء پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی اور طاہر اُسے چپ کروانے میں ہلکان ہوا جا رہا تھا۔ 

وہ دونوں ایک پارک میں بیٹھے تھے۔ ”پلیز! چپ ہوجاؤ، لوگ دیکھ رہے ہیں۔“ ”مَیں مرجاؤں گی طاہر…“ اسماء اپنے ہوش میں نہیں تھی۔ ”مَیں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتی۔“ ”اچھا یہاں سے تو چلو، ہم گاڑی میں بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔“ وہ نہ جانے کتنی دیر اُسے سمجھاتا رہا۔ ”مَیں کب سے تمہیں بتانے کی کوشش کر رہا تھا، لیکن ڈرتا تھا کہ تم ناراض نہ ہوجاؤ۔“ طاہر کی شادی اُس کے والدین کی مرضی سے ہوئی تھی۔ وہ اپنی بیوی کو پسند نہیں کرتا تھا اور اِسی لیے پورا مہینہ کراچی میں رہتا۔ بزنس بھی یہاں سیٹ کر رکھا تھا۔ 

مہینے میں بس ایک ہفتے کے لیے لاہور جاتا، جہاں اُس کا خاندان تھا۔ ”اگر تم یہ کڑوا گھونٹ پی سکو کہ مَیں شادی شدہ ہوں، تو مَیں کل ہی تمہارا رشتہ مانگنے کو تیار ہوں۔“ ”مَیں سوچ کر جواب دوں گی۔“ اُس نے طاہر سے نظریں ملائے بغیر کہا۔ ”تم مجھے گھر چھوڑ دو۔‘‘ اُس نے عہد کرلیا تھا کہ اب وہ نہ تو کبھی طاہر سے ملے گی اور نہ ہی فون پر بات کرے گی۔ لیکن… وہ اپنے عہد پر قائم نہ رہ سکی۔ اُسے طاہر کے بغیر جینا، موت لگ رہا تھا۔ اور پھر اُس نے خُود ہی طاہر سے رابطہ کیا۔ دونوں نے مل کر ایک لائحہ عمل ترتیب دیا۔ 

طاہر نے اپنے بڑے بھائی کو اعتماد میں لیا اور وہی طاہر کے رشتے کی بات کرنے آئے۔ شاید اُن کا رشتہ آسمانوں پر طے تھا، تب ہی سب کچھ آرام سے ہوگیا اور آج معاذ بھی آٹھ سال کا ہوچُکا ہے۔ ”اور ابّا کو تو دیکھو…“ اُس نے وال کلاک پر نگاہ ڈالتے ہوئے سوچا۔ ”اُنھیں میری شادی کے بعد کیا شوق چرایا کہ فوراً ہی خُود بھی دوسری شادی کرلی، حالاں کہ دس سال ہوچُکے تھے، امّی کے انتقال کو، لیکن میری شادی کے بعد اچانک ہی اُنھیں تنہائی نے گھیر لیا۔ 

اِدھر میری شادی کی، اُدھر مہینے بھر بعد خود بیاہ رچالیا۔ اور مجھ سے ایسے بیگانے ہوگئے، جیسے مَیں اُن کی بیٹی نہیں، کوئی دور پرے کی رشتے دار ہوں۔ مِلے، تو حال احوال پوچھ لیا۔ نہیں، تو نہ سہی۔ اور اب یہ طاہر، ابھی ہماری شادی کو نو سال ہوئے ہیں اور وہ اپنی بیٹی کی شادی کر رہا ہے۔

کتنے سال کی ہوگی، اُس کی بیٹی؟‘‘ وہ حساب لگانے لگی۔ ”جب ہم ملے تھے، اُس کی شادی کو 10سال ہوچُکے تھے، بقول اُس کے۔ اُس کی تو تعلیم بھی مکمل نہیں ہوئی تھی کہ زبردستی شادی کردی گئی۔ اُس کی آپا کا رشتہ اُس کے ماموں کے ہاں اِسی شرط پر طے ہوا تھا کہ ماموں کی بیٹی سے طاہر کی شادی ہوگی اور اسی لیے وہ اپنی بیوی کو چھوڑ بھی نہیں سکتا تھا۔ خیر،جو بھی ہو، مجھے کیا۔ مجھے طاہر سے غرض ہے۔ بس، شادی کی تقریب ختم ہو اور وہ میرے پاس آئے۔“ سوچتے سوچتے نہ جانے کتنا وقت بیت گیا۔ تین بج رہے تھے۔ وہ دُعا پڑھ کر سونے کی کوشش کرنے لگی۔

طاہر پورا مہینہ ہی گزار کر واپس آیا۔ اُس وقت تک اسماء کی حالت دیوانوں سے بھی بدتر ہوچُکی تھی۔ آتے ہی اُس پر جھپٹ ہی پڑی۔ ”کہاں چلے گئے تھے تم، کتنے دن لگا دیئے۔“ وہ اُس کا گریبان پکڑ کر جھنجھوڑ رہی تھی۔ ”کیا ہوگیا ہے تم کو؟“ طاہر حیران ہو رہا تھا۔ ”تمہاری حالت کیا ہورہی ہے۔ پیلی رنگت، آنکھوں کے گرد حلقے۔“ ”طاہر! تمہیں پتا ہے، مَیں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتی۔“ اب وہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی۔ ”اسماء… اسماء!! یہ تم نے اپنی کیا حالت بنا لی ہے، کتنی کم زور ہو رہی ہو تم…“ وہ اُسے پچکار رہا تھا، مگر وہ کسی طور سنبھلنے میں نہیں آرہی تھی۔ ”تم15 دن کا کہہ کرگئے تھے، پورا مہینہ گزار آئے؟“ ”کیا کرتا، بیٹی کی شادی کوئی آسان کام ہے۔ 

خاندان میں دعوتیں چل رہی تھیں۔“ وہ بستر پر نیم دراز تھا۔ ”یار! تم کوئی مصروفیت تلاش کرو۔ کوئی کورس، کہیں جاب کرلو۔“ ”کیوں؟“ اسماء کے کان کھڑے ہوگئے۔ ”تاکہ تم مصروف رہو، ورنہ اِس طرح تو اپنی صحت برباد کرلو گی۔ ویسے بھی…“وہ چُپ ہوگیا تھا۔ ”ویسے بھی کیا…؟“ اسماء بےتابی سے اٹھ بیٹھی۔ ”کچھ نہیں۔“ وہ ٹال گیا۔ ”کوئی تو بات ہے۔“ اسماء اُس کا ہر انداز سمجھتی تھی۔ ”ہم لوگ کراچی سے اپنا بزنس وائنڈ اَپ کر رہےہیں۔“ ”کیا…!“ اسماء پر تو جیسے بجلی گرگئی۔ ”لیکن کیوں؟“ ”بس، یہاں کاروبار میں کوئی خاص فائدہ نہیں ہورہا۔ بڑے بھائی کہہ رہے ہیں کہ لاہور ہی میں بزنس کو آگے بڑھائیں گے۔“ ”تو تم پھر میرے پاس نہیں آؤگے؟“ وہ جیسے خواب کی سی کیفیت میں بول رہی تھی۔ ”آؤں گا، آؤں گا کیوں نہیں؟“ طاہر کے لہجے میں بلا کا اطمینان تھا۔ ”تم پریشان نہ ہو۔ لیکن اپنے لیے کوئی مصروفیت تلاش کرلو، تو اچھا ہے۔ 

مصروف رہوگی تو یوں پریشان نہیں ہوگی۔“ اسماء بس اس کو دیکھ کرہی رہ گئی۔ اور پھر کچھ ہی مہینوں میں اُس نے اپنا سارا بزنس کراچی سے، لاہور شفٹ کرلیا۔ اب وہ زیادہ وقت لاہور ہی رہتا۔ چند دن کے لیے کراچی آتا، تو اُس کے لیے بھی اُسے گھر میں مختلف بہانے تراشنے پڑتے۔ اسماء اس صورتِ حال کے لیےتیار نہ تھی۔ دراصل اُس کی محبّت میں بہت شدّت تھی، جب کہ طاہر کے مزاج میں اب ٹھہراؤ آچُکا تھا۔ 

وہ اُسے بار بار کراچی منتقل ہونے پر مجبور کرتی، لیکن اب وہ کسی صُورت واپس آنے پر آمادہ نہ تھا۔ ”میری بیٹی کی شادی ہوچُکی ہے۔ اب مَیں اپنی زندگی میں کوئی طوفان نہیں لانا چاہتا۔ مَیں تم سے کہہ رہا ہوں کہ تم کوئی مصروفیت تلاش کرلو۔ جتنا پیسا چاہیے، مجھ سے لے لو، لیکن مجھے پریشان نہیں کرو۔“ آخر ایک دن اُس نے فون پرصاف صاف کہہ دیا۔ اسماء سخت ذہنی دباؤ کا شکار ہوگئی۔ نہ جانے کتنی دفعہ تو وہ بےچارے معاذ کو پیٹ چُکی تھی، جوکہ ماں، باپ کی اس جنگ میں بُری طرح پِس رہا تھا۔ اور پھر اسماء نے ایک اہم فیصلہ کرلیا کہ وہ بھی ویسی زندگی گزارنے پر راضی نہ تھی، جیسی طاہر اُس کے لیے پسند کررہا تھا۔

اسماء کی آنکھ کُھلی تو وہ اسپتال میں تھی۔ اُس کی حالت دیوانوں سے بھی بدتر تھی۔ ’’آخر کیوں، مجھے کیوں بچایا…؟“ وہ بلک بلک کر رو رہی تھی۔ اسپتال کے درو دیوار، کھڑکی سے نظر آتا چاند، قریب کھڑی نرس سبھی اُس کی طرف ترحم آمیز نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ ”مجھے یہ زندگی نہیں چاہیے۔ مجھے ایسی زندگی کی ضرورت نہیں۔“ وہ چِلّا رہی تھی۔ ’’اور وہ کہاں ہے؟“ اُس نے وحشت سے نرس کی طرف دیکھا۔ ”وہ کون؟“ نرس کو اندازہ تھا کہ وہ کس کا پوچھ رہی ہے۔ ’’میرا بیٹا معاذ… وہ ٹھیک ہے؟“ ”ہاں، ٹھیک ہے۔

آپ سوجائیں، کل ملیے گا، آپ اپنے بیٹے سے۔“ نرس نے اُس کو انجیکشن لگا دیا تھا۔ جلد ہی وہ گہری نیند میں چلی گئی۔ نرس نے تاسف سے اُس کی طرف دیکھا۔ ”کیسی بے وقوف عورت ہے، خُود تو زہر کھا کر اپنی جان لینے کی کوشش کی ہی، ساتھ اپنے معصوم بیٹے کو بھی زہر دے دیا۔ اور اب خُود تو بچ گئی ہے، مگر وہ معصوم تو موت کی گہری وادیوں میں اُترگیا۔‘‘

سنڈے میگزین سے مزید