گزشتہ دنوں وزیرِ اعظم، شہباز شریف نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں دو کروڑ سے زائد بچّے اور بچّیاں اسکولز سے باہر ہیں۔ اس بات سے قطع نظر کہ اس المیے کی ذمّے داری خود حُکم رانوں پر کس حد تک عاید ہوتی ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ بچّے اور بچّیاں اسکول نہیں جاتے، تو پھر کہاں جاتے ہیں؟ اس سوال کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ یہ معصوم یا تو گھروں میں بے کار بیٹھے رہتے ہیں یا پھر ورک شاپس، ہوٹلز، کارخانوں اور گھروں میں کام کاج کر کے اپنے اُن غریب ماں باپ کا ہاتھ بٹاتے ہیں کہ جو اُنہیں اسکول بھیجنے کی سکت نہیں رکھتے۔
ایک اندازے کے مطابق مُلک بَھر میں 5سے 15سال تک کے تقریباً سوا کروڑ بچّے مختلف معاشی سرگرمیوں کا ایندھن بن رہے ہیں۔ واضح رہے کہ پورے مُلک میں جبری مشقّت کے شکار بچّوں کے حوالے سے مستند اعداد و شمار دست یاب نہیں، کیوں کہ آج تک اس ضمن میں مُلک میں سائنسی بنیادوں پر کوئی سروے ہی نہیں ہوا۔ 2016ء کے ایک سروے میں محنت مزدوری کرنے والے بچّوں کی تعداد 33لاکھ بتائی گئی ، جب کہ بعد ازاں مختلف این جی اوز نے اقوامِ متّحدہ کے ذیلی اداروں کی سروے رپورٹس کے حوالے سے ان کی تعداد ایک کروڑ کے لگ بھگ ہونے کا انکشاف کیا، لیکن ماہرین کے ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت ان بچّوں کی تعداد کسی صُورت بھی پونے دو کروڑ سے کم نہیں۔
گرچہ ہمارے حُکم ران اور متعلقہ اداروں کے افسران وقتاً فوقتاً اپنے بیانات میں چائلڈ لیبر کے شکار بچّوں کا تذکرہ کرتے رہتے ہیں، لیکن اس مسئلے کے حل کے لیے عملی اقدامات نہیں کیے جاتے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ چند دہائیوں کے دوران محنت مزدوری کرنے والے بچّوں کی تعدادخطرناک حد تک بڑھ چُکی ہے، نیز جُوں جُوں مُلک میں غُربت بڑھ رہی ہے، یہ گراف بھی بلند ہوتا جا رہا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میںبچّوں سے جبری مشقّت لینے کی روایت اس قدر عام ہو چُکی ہے کہ اسے ایک سماجی بُرائی کی بہ جائے سماج کا ایک ناگزیر حصّہ سمجھا جانے لگا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے ارد گرد موجود میلے کُچیلے کپڑوں میں ملبوس بچّوں کو محنت مزدوری کرتے دیکھ کر آنکھیں چُرا کر آگے بڑھ جاتے ہیں اور ہم نے کبھی یہ سوچنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی کہ ان ننّھے مُنّے مزدوروں کے گھروں میں روزانہ کیا قیامت برپا ہوتی ہو گی۔ یاد رہے، جبرِ مسلسل کی طرح کٹنے والی ان کی زندگی ہمارے معاشرے کے ماتھے پر کلنک کے ٹیکے سے کم نہیں۔
محرومیوں کی دُنیا
ننّھے محنت کَشوں کی زندگی کا سفر دوسرے بچّوں سے قطعاً مختلف ہو تا ہے۔ صاحبِ حیثیت افراد کے بچے صبح سویرے صاف سُتھرا یونی فارم پہنے، ہنستے کھیلتے کاڑیوں، موٹر سائیکلز، چنگچی رکشوں یا پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے یا پھر پیدل سفر کر کے اکیلے یا اپنے والدین کے ساتھ اسکول جاتے ہیں اور ان کا پورا دن اساتذہ کی شفقت و محبّت کے زیرِ سایہ تحصیلِ علم میں گزرتا ہے اور جب انہیں بُھوک لگتی ہے، تو یہ گھر سے لائے جانے والے لنچ یا اسکول کی کینٹین میں دست یاب اشیائے خورونوش سے اپنا پیٹ بَھر لیتے ہیں، جب کہ اس کے برعکس انہی کے ہم عُمر محنت کَش بچّے علی الصباح منہ دھوئے بغیر ہی میلے کُچیلے کپڑوں میں گھروں کی دہلیز پار کرتے ہیں کہ کہیں لیٹ نہ ہو جائیں۔
اگر رات کا بچا ہوا سالن اور روٹی موجود ہو، تو ماں وہ انہیں کپڑے میں لپیٹ کر دے دیتی ہے۔ اور ان نو عُمر محنت کَشوں کی منزل اسکول یا اکیڈمی نہیں بلکہ کوئی ورک شاپ، ہوٹل، ڈھابا، فیکٹری، دُکان یا کوئی دفتر ہوتا ہے، جہاں انہیں مالکان سے پہلے پہنچ کر حاضری لگوانی ہوتی ہے یا پھر صفائی سُتھرائی کرنی ہوتی ہے۔
ان کا پورا دن مختلف اوزاروں کی صفائی اور جھاڑو دینےہی میں گزرتا ہے ۔ ان کی سماعتیں اسکول کی گھنٹی کی آواز تک سے نا آشنا ہوتی ہیں۔ اسکول جانے والے بچّوں کو غلطی پر استاد کی شفقت آمیز ڈانٹ ڈپٹ سے واسطہ پڑتا ہے، تو ان ننّھے مزدوروں کو معمولی سی بُھول چُوک پر بھی گھنٹوں کان پکڑوائے کھڑا رکھا جاتا ہے اور بعض اوقات تو ’’استاد‘‘ ان پر گھونسوں اور لاتوں کی بارش کر دیتا ہے یا کسی اوزار سے ان کی ہڈیاں بھی توڑ دیتا ہے۔
یہ کون لوگ ہیں؟
گرچہ ہم روزانہ ہی اپنے ارد گرد اَن گنت بچّوں کو محنت مزدوری کرتے دیکھتے ہیں، لیکن ہم میں سے اکثر ان کی الم ناک زندگیوں کے دُکھوں، غموں بے خبرہیں۔ البتہ چائلڈ لیبر کے عالمی دن کے موقعے پر منعقد ہونے والے سیمینارز، تقریبات، اخبارات کے خصوصی ایڈیشنز اور ٹی وی چینلز کی خصوصی نشریات میں ان کا تذکرہ ضرور ہوتا ہے۔ آیئے، چائلڈ لیبر کے شکار چند بچّوں کے حالاتِ زندگی پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
٭…9سالہ رضوان کا باپ رکشا چلاتا ہے۔ اُس نے اپنی بیٹی کی شادی کے لیے 3لاکھ روپے بہ طور قرض لیے تھے،جس کی ادائی اس کے لیے وبالِ جان بن چُکی ہے، کیوں کہ رکشے کی محدود آمدنی سے قرض کی سُود در سُود قسط اُتارنا ممکن نہیں۔ قرض خواہ نے جب گھر آکر دھمکیاں دینا شروع کر دیں، تو اُس نے رضوان کو تیسری جماعت سے اٹھا کر ایک ہوٹل پر ملازم رکھوا دیا اور اب وہ کسی حد تک اس کا کا ہاتھ بٹا رہا ہے۔
٭…12سالہ ناصر 7سال کی عُمر سے ایک موٹر سائیکل میکینک کی دکان پر کام کرتا ہے۔ وہ پانچ بہن، بھائیوں میں دوسرے نمبر پر ہے۔ناصر تعلیم حاصل کرنا چاہتا تھا، لیکن اُسے سرکاری اسکول میں داخلہ نہیں ملا ،جب کہ نجی اسکولوں کی فیس کی ادائی اُس کے والدین کے بس سے باہر تھی۔ اور پھردل کا دورہ پڑنے سے اچانک والد کے انتقال کے بعد اُس کی والدہ نے محلّے داروں کے کپڑے سینا شروع کر دیے اور وہ اپنی ماں کا ہاتھ بٹانے کے لیے ورک شاپ پر کام کرنے لگا۔
٭…14سالہ فیض کو ابتدا ہی سے پڑھائی میں دِل چسپی نہیں تھی۔ اسکول اسے عقوبت خانہ لگتا تھا۔ وہ دوسری جماعت میں تھا کہ اس کے باپ نے اس کی ماں کو طلاق دے دی۔ پھر ایک دن ٹیچر نے سبق یاد نہ کرنے پر اُسے اتنی سخت سزا دی کہ اس نے آئندہ اسکول جانے سے ہی توبہ کر لی اور پھر چچا نے اُسے اپنی ورک شاپ پر ملازم رکھ لیا اور یوں وہ چائلڈ لیبر فورس کا حصّہ بن گیا۔
٭…9سالہ عاصم ایک فیکٹری میں پیکنگ کا کام کرتا ہے۔ اس کا باپ ایک اسکول میں چوکی دار ہے۔ پہلے وہ اسی اسکول میں پڑھتا تھا، لیکن جب گھر کے اخراجات پورے ہونا مشکل ہو گئے، تو باپ نے اُسے ایک فیکٹری میں بھرتی کروا دیا۔
٭…ایک مڈل کلاس فیملی کے سربراہِ خانہ نے اپنے 15سالہ بیٹے کو 8ویں جماعت سے اُٹھا کر ایک ورک شاپ میں لگوا دیا، جہاں وہ الیکٹریشن کا کام سیکھ رہا ہے۔ اس بچّے کے باپ کا کہنا ہے کہ اُسے کوئی مالی پریشانی نہیں اور وہ بہ خوشی اپنے بیٹے کو الیکٹریشن بنا رہا ہے کہ اس طرح وہ دو چار سال بعد کچھ پیسے کمانا شروع کر دے گا، جب کہ مزید تعلیم حاصل کرنے کا کوئی فائدہ نہیں، کیوں کہ یہاں تو ڈگریوں والے بھی بے کار پِھر رہے ہیں۔
٭…10سالہ شازیہ ایک گھر میں ماسی کا کام کرنے والی اپنی والدہ کا ہاتھ بٹاتی ہے اور اس کا 13سالہ بھائی ایک دُکان پر سیلز مین ہے، جب کہ ان کا باپ کوئی کام کاج نہیں کرتا اور ہر وقت نشے میں دُھت رہتا ہے۔ یوں یہ پورا گھرانا محنت مزدوری کر کے گھریلو اخراجات پورے کرنے کے علاوہ،باپ نشے کے اخراجات بھی اٹھاتا ہے۔
٭… ایک 10سالہ دِہاڑی دار مزدور بچّے کے والد کا کہنا ہے کہ وہ خود راج مزدور سے ترقّی کر کے مستری بنا۔ وہ اپنے بچّے کو پڑھانا لکھانا چاہتا تھا، لیکن جب نوبت فاقہ کَشی تک پہنچ گئی، تو اُس نے اپنے کم سِن بیٹے کو مزدوری پر لگا دیا۔
اس قسم کی اَن گنت کہانیاں قدم قدم پر بکھری پڑی ہیں، لیکن کبھی کسی حکومت نے ان ننّھے محنت کَشوں کے حوالے سے شاید اس لیے کوئی سروے نہیں کیا کہ کہیں یہ درد بھری داستانیں مُلک کی بدنامی کا باعث نہ بن جائیں۔
عالمی اداروں کی تشویش
گرچہ حکومت نے محنت کَش بچّوں کی فلاح و بہبود کے ضمن میں کبھی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا، لیکن انسانی حقوق کے عالمی ادارے، غیر مُلکی این جی اوز اور بچّوں کے حقوق کے لیے خدمات انجام دینے والی تنظیمیں اس سنگین مسئلے سے بے خبر نہیں۔
واضح رہے کہ پاکستان نے بچّوں کے بنیادی حقوق کے تحفّظ کے حوالے سے اقوامِ متّحدہ کے چارٹر پر دست خط کر رکھے ہیں، جس کے مطابق پاکستان2025ء تک ہر شُعبے میں چائلڈ لیبر ختم کرنے کا پابند ہے، جب کہ ہر سال 16جون کو ان’’ محنت کَش بچّوں کا عالمی دن ‘‘بھی منایا جاتا ہے۔
اس روز پاکستان میں بھی ایئرکنڈیشنڈ ہالز میں منعقدہ تقریبات میں حُکم ران محض ایک روز کے لیے اس سنگین مسئلے کو اجاگر کرتے ہیں اور پھر غفلت کی نیند سو جاتے ہیں۔ تاہم، پاکستان کے برعکس دُنیا کے بیش تر ممالک چائلڈ لیبر کے خاتمے کے لیے مسلسل کوشاں ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت دُنیا بَھر میں 16کروڑ سے زائد بچّے محنت مزدوری کر رہے ہیں۔
تاہم، پاکستان میں جبری مشقّت کے شکار بچّوں کے حوالے سے مصدّقہ اعداد و شمار کی عدم دست یابی اس مسئلے کے حل میں بڑی رکاوٹ ہے، جس کا ذکر کچھ عرصہ قبل ’’انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن‘‘ کے پاکستان میں نمائندے، ظہیر عارف بھی کر چُکے ہیں۔ انہوں نے چائلڈ لیبر کے سہارے چلنے والی صنعتوں اور اداروں کی ایک طویل فہرست پیش کی ہے، جن میں سرجیکل آلات اور کھیلوں کا سامان تیار کرنے والے کارخانے، ماہی گیری، کان کَنی، ہوٹلز، ریسٹورینٹس، نجی دفاتر، دُکانیں اور کئی منزلہ پلازے وغیرہ شامل ہیں۔
گرچہ چائلڈ لیبر کی وبا دُنیا بَھر میں پھیلی ہوئی ہے، لیکن اس حوالے سے کی گئی درجہ بندی میں میانمار پہلے، شمالی کوریا دوسرے، صومالیہ تیسرے، کانگو چوتھے، زمبابوے پانچویں، افغانستان چھٹے، برونڈی ساتویں، پاکستان آٹھویں اور ایتھو پیا نویں نمبر پر ہے، جب کہ ایک ارب سے زائد آبادی کے حامل مُلک، بھارت میں تقریباً ڈیڑھ کروڑ بچّے محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔
ہر چند کہ پاکستان اقوامِ متّحدہ کے چارٹر کی رُو سے محنت کَش بچّوں کے اعداد و شمار اور اس کے تدارک کے لیے کی جانے والی کوششوں سے آگاہ کرنے کا پابند ہے، لیکن پاکستانی حُکّام نے اس سلسلے میں کبھی کوئی سنجیدہ اقدامات نہیں کیے اور نہ ہی اس ضمن میں قوانین پر عمل درآمد کا جائزہ لیا۔
14دسمبر 2022ء کو اسلام آباد میں’’فُوڈ اینڈ ایگری کلچرل آرگنائزیشن‘‘ اور اقوامِ متّحدہ کے ذیلی ادارے، ’’آئی ایل او‘‘ کے اشتراک سے منعقدہ ایک ورک شاپ میں حکومت پر زور دیا گیا کہ زراعت اور ٹیکسٹائل انڈسٹری میں چائلڈ لیبر پر مکمل پابندی عائد کی جائے اور اس ضمن میں تمام شعبوں کو مشترکہ کوششیں کرنی چاہئیں۔
اس موقعے پر ’’انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن‘‘ کے پاکستان میں کنٹری ڈائریکٹر نے کہا کہ ’’پاکستان نے 1919ء میں قائم ہونے والے ادارے، آئی ایل او کی قرار دادوں پر دست خط کیے ہیں، جن میں چائلڈ لیبر کے خاتمے کی سفارش کی گئی ہے۔ پاکستان کو اس اَمر کو یقینی بنانا چاہیے کہ بچّوں کو نہ صرف ابتدائی بلکہ روزگار ملنے تک تعلیم تک رسائی حاصل رہے۔
نیز، غریب بچّوں کو ہر قسم کی سماجی سہولتیں فراہم کی جائیں۔‘‘اس موقعے پر پاکستانی مندوب نے یقین دلایا کہ آئین کے آرٹیکل 25-اےاور 37کے تحت حکومت بچّوں کو مُفت پرائمری تعلیم دینے کی پابند ہے، جب کہ اس کے علاوہ اور بھی کئی یقین دہانیاں کروائی گئیں، لیکن عملی طور پر اس حوالے سے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ دسمبر 2014ء میں امریکی لیبر ڈیپارٹمنٹ نے پاکستان میں بچّوں کی محنت مزدوری کے حوالے سے جو رپورٹ جاری کی، اس میں بتایا گیا کہ 9پاکستانی مصنوعات میں سے 6ایسی ہیں کہ جن میں بچّوں کی محنت مشقّت کا گہرا عمل دخل ہے۔
ان میں اینٹیں، قالینیں، چُوڑیاں، چمڑا اور سرجیکل آلات وغیرہ شامل ہیں۔ تب پاکستانی حکومت نے برآمدات پر پابندی کے خوف سے وقتی طور پر مذکورہ صنعتوں میں چائلڈ لیبر پر پابندی عاید کر دی، لیکن پھر کچھ ہی عرصے بعد صورتِ حال پہلے جیسی ہو گئی۔ قبل ازیں، سیال کوٹ کی فُٹ بال انڈسٹری میں بچّوں سے اسٹچنگ کروانے کا معاملہ اُٹھا، تو مذکورہ صنعت کے مخالفین نے بھی اس مسئلے کو کافی ہوا دی اور1997ء میں امریکا سے ایک معاہدے کے تحت فُٹ بال انڈسٹری میں بچّوں سے کام لینے پر پابند ی لگا دی گئی۔ یاد رہے کہ اُس وقت دُنیا بَھر میں 70فی صد فُٹ بال پاکستان سے برآمد کیے جاتے تھے اور سیال کوٹ کی فُٹ بال انڈسٹری میں 5سے 15سال تک کی عُمر کے ہزاروں بچّے روزانہ گیارہ ،گیارہ گھنٹے اسٹچنگ کیا کرتے تھے۔ درحقیقت، سیال کوٹ کی اس انڈسٹری کے مخالفین چائلڈ لیبر کی آڑ میں اس پر پابندی لگوا نا چاہتے تھے۔
تاہم، بروقت اقدامات سے یہ خطرہ ٹل گیا۔ گرچہ یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ اب اس انڈسٹری میں چائلڈ لیبر کا مکمل طور پر خاتمہ ہوچکا ہے، لیکن ماضی کے مقابلے میں آج حالات خاصے بہتر ہیں۔ گرچہ فُٹ بال کی عالمی مقبولیت کے سبب بچّوں سے اسٹچنگ کروانے کا معاملہ عالمی توجّہ کا مرکز بن گیا، لیکن آج بھی پاکستان میں کان کَنی اور گہرے سمندر میں ماہی گیری جیسے خطرناک شعبے سے ہزاروں بچّے وابستہ ہیں، لیکن ان کے لیے کوئی آوازنہیں اُٹھاتا۔ ایک این جی او کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں ایک کروڑ 60لاکھ محنت کَش بچّوں میں سے 70فی صد زراعت، جنگلات اور ماہی گیری کے پیشے سے وابستہ ہیں۔
اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ گزشتہ 10برس میں پاکستان میں چائلڈ لیبر بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں زراعت کے شُعبے سے محنت مزدوری کرنے والے بچّوں کی اکثریت وابستہ ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ دیہات میں پائی جانے والی غُربت، ناخواندگی، جاگیر دارانہ نظام اور بے روزگاری ہے۔ واضح رہے کہ کان کَنی اور ماہی گیری کے بعد زراعت کا شُعبہ بچّوں کے لیے سب سے زیادہ خطرناک قرار دیا جاتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ تمام صوبوں میں کارخانوں، ورک شاپس اور ہوٹلز وغیرہ میں کام کرنے والے بچّوں کے حقوق کی نگہبانی کے لیے محکمہ ٔ محنت کے تحت لیبر انسپکٹرز موجود ہیں، لیکن ان کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پورے مُلک میں 600سے بھی کم لیبر انسپکٹرزہیں اور اس اعتبار سے ایک انسپکٹر کے حصّے میں ایک لاکھ سے زائد ورکرز آتے ہیں۔ چناں چہ یہ لیبر انسپکٹرز اور ان کے اعلیٰ افسران سال میں ایک آدھ مرتبہ چائلڈ لیبر کے خلاف کریک ڈائون کرکے اپنی ذمّے داریوں سے بری الذمّہ ہو جاتے ہیں۔
گھریلو ملازمین کا المیہ
گھروں میں کام کرنے والے بچّے اور بچّیاں بھی چائلڈ لیبر کا ایک بڑا حصّہ ہیں، لیکن بدقسمتی سے سرکاری و غیرسرکاری سطح پر ان کی تکالیف اور مسائل دُور کرنے کی کبھی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی ،جب کہ بعض تنظیمیں توان بچّوں کو چائلڈ لیبر کا ایک ’’بھیانک باب‘‘ قرار دیتی ہیں، جس پر رازداری کے دبیز پردے پڑے ہیں۔ 1990ء میں ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے اپنی رپورٹ میں گھروں میں کام کرنے والے بچّوں، بچّیوں اور دیگر ہوم بیسڈ ورکرز کے ضمن میں جو رپورٹ مرتّب کی، اس میں ان کے حقوق کا ذکر کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ لاکھوں کی تعداد میں موجود ان ورکرز کے لیے نصف درجن سے زائد قوانین ہیں، لیکن ان میں سے کوئی بھی نافذ العمل نہیں۔ نیز، یہ بھی ایک افسوس ناک اَمر ہے کہ چائلڈ لیبر کے اعتبار سے خطرناک شعبوں میں، گھروں میں کام کرنے والے بچّوں کا ذکر کہیں نہیں ملتا، حالاں کہ پاکستان میں کم سِن گھریلو ملازمین پر ہول ناک تشدّد معمول بن چُکا ہے ،خصوصاً گزشتہ چند برسوں کے دوران اس حوالے سے متعدّد خبریں میڈیا کے ذریعے سامنے آئیں۔ اس ضمن میں ایک این جی او کی رپورٹ کے مطابق، گزشتہ ایک دہائی کے دوران ایک سو سے زائد نو عُمر گھریلو ملازم بچّوں کی ہلاکت یا تشدّد سے زخمی ہونے کے واقعات رُونما ہوئے، لیکن صرف چند واقعات کی ایف آئی آرز درج کروائی گئیں۔
اس سلسلے میں راول پنڈی کے ایک جج کی اہلیہ کے اپنی کم سِن ملازمہ پر ہول ناک تشدّد اور غلطی سے پنجرے سے طوطے اُڑانے پر ایک بچّی کی جان لینے سمیت درجنوں ایسے واقعات میڈیا میں رپورٹ ہوئے ، جن سے پتا چلتا ہے کہ کم سِن گھریلو ملازمین کے لیے غلطی کی کوئی گنجائش نہیں۔ کسی غلطی کی پاداش میں جسم کو گرم چمٹے سے داغا جاتا ہے، تو کمروں میں بند کر کے تشدّد کرنا تو معمول کی بات ہے۔ کم سِن ملازمین پر مظالم کے پیشِ نظر ہی نو عُمر اقبال مسیح چائلڈ لیبر کے خلاف ’’باغی‘‘ بن کر اُبھرا، پھر جسے دُنیا بَھر میں پذیرائی ملی، لیکن 1995ء میں اُسے اپنے آبائی گاؤں میں قتل کردیا گیا۔
غُربت بنیادی وجہ
چائلڈ لیبر کے حوالے سے صوبۂ خیبرپختون خوا کو یہ امتیازی حیثیت حاصل ہے کہ یہاں اس ضمن میں 2022ء میں پہلا منظّم سروے کیا گیا، جس کے نتیجے میں پتا چلا کہ صوبے میں 5سے 17سال کی عُمر کے بچّوں کی تعداد تقریباً 80لاکھ ہے، جن میں سے 11فی صد چائلڈ لیبر کا شکار ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر بچّے زراعت، جنگلات اور ماہی گیری سے وابستہ ہیں اور انتہائی نامساعد موسمی حالات میں کام کرتے ہیں۔ سروے رپورٹ میں غُربت، بے روزگاری اور ناخواندگی کو چائلڈ لیبر کے اہم اسباب قرار دیا گیا ہے۔
صوبوں کے حوالے سے مختلف سروے رپورٹس میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ محنت کَش بچّوں کی سب سےزیادہ تعداد (تقریباً 70لاکھ سے زائد) صوبۂ پنجاب سے تعلق رکھتی ہے، جب کہ کے۔ پی۔ کے میں 10لاکھ، بلوچستان میں 3لاکھ اور سندھ میں کم و بیش 17لاکھ محنت کَش بچّے موجود ہیں۔ یاد رہے کہ یہ سرکاری اعدادوشمار ہیں،حقیقتاً اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ چائلڈ لیبر کے حوالے سے سندھ حکومت کی جانب سے کروائے گئے سرویز میں بھی غُربت، بے روزگاری اور جہالت کو بنیادی عوامل قرار دیا گیا ۔
مذکورہ سروے رپورٹ کے مطابق اکثر والدین کا ماننا ہے کہ ان کے بچّوں کی بقا کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ پڑھائی کی بہ جائے کوئی ہُنر سیکھ کر اپنی روزی کمائیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 38فی صد آبادی غُربت کا شکار ہے اور 9کروڑ سے زائد افراد خطِ غُربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔
ایک اور رپورٹ میں بتایا گیا کہ سندھ میں زراعت کے شُعبے سے وابستہ کم سِن بچّوں کی حالت غلاموں سے بھی بدتر ہے، جب کہ حیدر آباد میں نو عُمر محنت کَشوں کی اکثریت کارپٹ انڈسٹری سے وابستہ ہے۔ سندھ میں بچّوں سے جبری مشقّت کے خلاف بِل 2015ء میں اور بچّوں کی ملازمت کے خلاف بِل 2017ء میں پاس کیا گیا تھا، لیکن یہ بھی محض کاغذی کارروائی ہی ثابت ہوئی۔
قانون کی بے بسی
سندھ کی طرح پنجاب میں بھی چائلڈ لیبر کے خلاف متعدّد قوانین بنائے گئے، جن کی بنیاد آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 11(3)کا یہ تقاضا ہے کہ 14سال سے کم عُمر بچّوں کو کسی بھی طرح کی پبلک یا پرائیویٹ انڈسٹری میں ملازم نہیں رکھا جاسکتا۔ ان میں سے چند قوانین یہ ہیں، فیکٹری ایکٹ 1934ء ویسٹ پاکستان شاپس اینڈ اسٹیبلشمنٹ ایکٹ 1969ء، دی بانڈڈ لیبر سسٹم ابالشن ایکٹ 1992ء، دی پنجاب کمپلسری ایجوکیشن ایکٹ 1994ء۔ ان قوانین کے علاوہ صوبوں نے اپنے طور پر بھی چائلڈ لیبر کے تدارک کے لیے کئی قوانین وضع کیے، لیکن بدقسمتی سے آج تک کسی پر بھی عمل درآمد نہیں ہوا اور اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ ان قوانین کو بیوروکریٹس، جاگیرداروں اور عوامی نمائندوں ہی نے نافذ کرنا ہے، جن کے گھروں، کارخانوں، جاگیروں اور دیگر اداروں میں کم یہ سِن افرادی قوّت کام کرتی ہے۔
تو وہ کیسے چاہیں گے کہ ایک نو عُمر محنت کَش قلیل تن خواہ اور دیگر سہولتوں سے محرومی کے خلاف آواز بلند کرے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری عدالتیں بھی اس معاملے پر بالکل خاموش ہیں۔ اس ضمن میں راول پنڈی میں شازیہ نامی کم سِن ملازمہ کا کیس ایک مثال ہے، جس میں ایک جج کی اہلیہ نے اپنی ملازمہ پر ہول ناک تشدّد کیا ، لیکن اس مقدّمے کا آج تک فیصلہ نہیں ہو سکا۔
پاکستان میں چائلڈ لیبر کے انسداد کے لیے چند این جی اوز بھی کام کر رہی ہیں، لیکن ان کا دائرہ کار صرف بھاری بھرکم رپورٹس کی اشاعت اور سیمینارز ہی تک محدود ہے۔ دوسری جانب دورانِ ملازمت کم سِن محنت کشوں کی حادثاتی اموات کی خبریں بھی سامنے نہیں آتیں اور اگر کبھی غلطی سے کوئی خبر سامنے آ بھی جائے، تو مالکان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔
اقبال مسیح، کم سِن مزدوروں کا مسیحا
پاکستان میں مختلف اوقات میں چائلڈ لیبر کے خلاف تحریک کے حوالے سے کئی لیڈرز سامنے آئے، جن میں 4فٹ قدوقامت کا حامل ،اقبال مسیح بھی شامل ہے۔ یہ لڑکا نو عُمری میں لیڈر بنا، تو اس کے احتجاج کی بازگشت پوری دُنیا میں سُنی گئی۔ اقبال مسیح 1983ء میں مریدکے، ضلع شیخوپورہ میں پیدا ہوا۔ غُربت کی زنجیروں میں جکڑی اس کی ماں ایک قالین ساز فیکٹری میں دِ ہاڑی دار ملازمہ تھی۔ اُس نے مالک سے 600روپے قرض لیا تھا اور جب وہ قرض ادا نہ کرسکی، تو مالک نے اُس کے 4سالہ بیٹے، اقبال کو اپنا یرغمال بنا لیا اور اس سے 11,11 گھنٹے مسلسل کام کرواتا۔
اقبال کے لیے یہ ایک بھیانک خواب تھا۔ نتیجتاً، وہ اس تعفّن زدہ ماحول سے بغاوت پر اُتر آیا اور آخر کار 7سال کی عُمر میں 1990ء میں اس عقوبت خانے سے بھاگ نکلا ۔ بعدازاں، سڑکیں اس کا مقدّر بن گئیں، لیکن اُس کی یہ آزادی عار ضی ثابت ہوئی۔ پولیس نے اس ’’آوارہ گرد‘‘ کو دوبارہ قالین ساز فیکٹری کے مالک کے حوالے کردیا۔
اقبال مسیح نے جبری مشقّت سے نکلنے کے لیے ایک برس بعد دوسری کوشش کی اور اس مرتبہ وہ خوش قسمتی سے بچّوں کے بنیادی حقوق کے لیے خدمات انجام دینے والی ایک تنظیم کے عُہدے داران کے ہاتھ لگ گیا، جنہوں نے نہ صرف اس کی حوصلہ افزائی کی بلکہ اس کے زخموں پر مرہم بھی رکھا، جس کے بعد وہ چائلڈ لیبر کے خلاف مزاحمت کی علامت بن کر اُبھرا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے دُنیا بَھر میں بچّوں کے حقوق کی تحریک کا ایک استعارہ بن گیا۔
اس دوران 10سالہ اقبال نے پورے پاکستان کا دورہ کیا اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے تعاون سے 3ہزار سے زائد بچّوں کو، جن میں زیادہ تعداد بھٹّوں پر کام کرنے والے نو عُمر مزدوروں کی تھی، جبری مشقّت سے آزاد کروایا۔ نیز، ’’بانڈڈ چائلڈ لبریشن‘‘ نامی تنظیم کی بنیاد رکھی۔ اقبال مسیح نے امریکا اور کینیڈا کے متعدّد دورے کیے اور کینیڈا میں آج بھی اس کے نام سے ایک چائلڈ ویلفیئر فنڈ قائم ہے۔ 1994ء میں اُسے ’’ری بوک یوتھ اِن ایکشن‘‘ کے ’’چائلڈ ہیرو‘‘ کے اعزاز سے نوازا گیا اور اس وقت بھی امریکا، کینیڈا اور یورپ میں اس کے نام سے کئی ایوارڈز موسوم ہیں۔
ان میں امریکی لیبر ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے جاری کردہ بین الاقوامی ایوارڈ بھی شامل ہے، جو ہر سال چائلڈ لیبر کے خلاف خدمات کے صلے میں دیا جاتا ہے۔ رواں برس یہ ایوارڈ مصر کی ایک سول سوسائٹی، ’’وادی ال نیل‘‘ اور دوسرا گھانا کے ایک ٹریڈ یونین لیڈر، اینڈریوناگوائی کو دیا گیا۔
اقبال مسیح کو مختصر عرصے میں ایک نو عُمر ہیرو کے طور پر پوری دُنیا میں پذیرائی ملی اور وہ دُنیا بَھر میں چائلڈ لیبر کے خلاف تحریک کی علامت بن گیا، لیکن اپنی جائے پیدائش، پاکستان میں اُسے ایک بھیانک انجام سے دو چار ہونا پڑا۔ 1995ء میں جب اس کی عُمر صرف 12سال تھی اور وہ کچھ عرصہ قبل ہی امریکا سے واپس آیا تھا، اُسے مریدکے کے قریب واقع اپنے ہی گائوں میں گولی مار کر قتل کردیا گیا ، جب کہ اُس کے قاتلوں کا آج تک پتا نہیں چل سکا۔ گرچہ اقبال مسیح اپنی آنکھوں میں جبری مشقّت میں لتھڑے لاکھوں بچّوں کی آزادی کا خواب سجائے اس دُنیا سے رخصت ہوگیا، لیکن آج بھی اُس کی تحریک کے نتیجے میں دُنیا بَھر میں ہر سال ہزاروں بچّے جبری مشقّت سے نجات پا رہے ہیں۔