• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محمد واحد

مصنوعی ذہانت(Artificial Intelligence) جسے ’’اے آئی‘‘ بھی کہا جاتا ہے، ایک ایسی ٹیکنالوجی ہے جو انسانوں کی طرح سوچنے، سمجھنے، سیکھنے اور بروقت فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یہ حیرت انگیز ٹیکنالوجی میڈیکل، انجینئرنگ، انڈسٹریز، بینکنگ اور کمپیوٹر سائنس سمیت دیگر شعبوں میں انقلاب برپا کر رہی ہے۔ اس ضمن میں ’’اوپن آے آئی‘‘ نامی امریکی ریسرچ آرگنائزیشن کا تیار کردہ چیٹ بوٹ، ’’چیٹ جی پی ٹی‘‘ چند سیکنڈز میں کسی بھی موضوع پر مضمون لکھنے اور مفید معلومات فراہم کرنے کی حیرت انگیز صلاحیت کا حامل ہے۔ 

چیٹ جی پی ٹی دراصل ایک روبوٹ ہے اور اس کے اجزا، الگورتھم اور پروگرامنگ لاجک اُسے کسی بھی زبان کو سمجھنے اور سوالات کا جواب دینے کے قابل بناتے ہیں۔ مذکورہ چیٹ بوٹ کو کمپیوٹر پروگرامنگ اور ریسرچ کے علاوہ تخلیقی مواد، مختلف تعلیمی پراجیکٹس، مطلوبہ تصاویر یا پورٹریٹس اور کسی بھی موضوع پر مضمون کی تیاری سمیت شاعری، فلم یا ڈرامے کا اسکرپٹ لکھنے اور دُنیا بَھر کی معلومات کے حصول کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

گرچہ حالیہ چند برسوں کے دوران ’’چیٹ جی پی ٹی‘‘ سمیت دیگر چیٹ باٹس اور ’’مِڈجرنی‘‘ جیسے امیج جنریٹرز نے نہایت تیزی سے مقبولیت حاصل کی ہے، مگر آرٹیفیشل انٹیلی جینس یا مشین لرننگ کے ماڈلز کافی عرصے سے موجود ہیں۔ 1950ء کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں مشینی سوچ، سائبر نیٹکس، آٹو میٹا تھیوری اور انفارمیشن پراسیس پر خاصا کام ہوا اور 1956ء میں منعقد ہونے والی ڈاٹ ماؤتھ (Dartmouth) کانفرنس میں اس ضمن میں دُنیا بَھر کے سائنس دانوں کے کام کو ایک جگہ جمع کرنے کا تصوّر پیش کیا گیا، جسے’’ مصنوعی ذہانت‘‘ کا نام دیا گیا۔ 

دُنیا کا پہلا اے آئی بیسڈ پروگرام، ’’Logic Theorist‘‘ تھا، جو معلومات اور اعدادو شمار کا تجزیہ کر سکتا تھا، جب کہ آج ہمیں اپنے ارد گرد کہیں نہ کہیں اے آئی کی جھلک ضرور نظر آتی ہے۔ اس ضمن میں موبائل فون، کمپیوٹر، آواز کے ذریعے دروازے کُھلنا، روبوٹک ویٹرز، روبوٹک شیفس اور کسٹمر سروسز وغیرہ اہم مثالیں ہیں۔

اے آئی کا سب سے بڑا فائدہ اس کی بہت بڑی تعداد میں ڈیٹا جمع کرنے، اس کا تجزیہ کرنے اور اس کی بنیاد پر نئی راہیں متعیّن کرنے کی صلاحیت ہے۔ واضح رہے کہ انسانی ذہن بھی یہ سارے کام بہ خوبی انجام دے سکتا ہے، لیکن اس کے لیے اسے خاصی محنت اور وقت درکار ہوتا ہے، جس کی وجہ سے انسان نہ صرف تھک جاتا ہے، بلکہ اس کا کافی وقت بھی ضائع ہوتا ہے اور پھر غلطی کا احتمال بھی رہتا ہے، جب کہ اے آئی ماڈلز بہت بڑی مقدار میں ڈیٹا کا بہ آسانی تجزیہ کرنے کے بعد نئے ٹرینڈز (رجحانات) کی نشان دہی کرتے ہوئے مناسب تجاویز دیتے ہیں، جن سے فیصلہ سازی میں آسانی ہوتی ہے۔ بینکنگ، انڈسٹریز، ہیلتھ کیئر اور فنانس کے شعبے میں اے آئی کے بڑے پیمانے پر ڈیٹا جمع کر کے اس کا تجزیہ کرنے کی صلاحیت سے بڑی آسانیاں پیدا ہوئی ہیں۔

کسی بھی اے آئی ماڈل کی کارکردگی کا دارومدار ڈیٹا پر ہوتا ہے اور ایسے میں ڈیٹا کی ملکیت اور رازداری سے متعلق سامنے آنے والے مسائل ایک بڑا چیلنج ہیں۔ اس حوالے سے جرمن کمپنی کا تیار کردہ سافٹ ویئر، SAPدُنیا بَھر میں مشہور ہے۔ 

اس کمپنی کی بنیاد 1972ء میں پانچ جرمن انجینئرز نے رکھی تھی۔ اور SAP ایک ایسا سافٹ ویئر ہے کہ جو کاروباری عمل کو بہتر، مؤثر اور مربوط بنانے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ اس کا استعمال مختلف صنعتوں میں کیا جاتا ہے اور دنیا بَھر کے کاروباری اداروں کے لیے یہ ایک اہم سروس کی صُورت اختیار کر چُکا ہے۔ 

مذکورہ کمپنی نے ابتدا میں مختلف اقسام کے کاروباری مسائل حل کرنے کے لیے کئی سافٹ ویئرز تیار کیے۔ 1979ء میں اپنا پہلا تجارتی ای پی آر سسٹم، R/2 متعارف کروانے کے بعد 1992ءمیں R/3لانچ کیا، جو زیادہ جدید اور متوازن سسٹم تھا، جب کہ SAP S/4 HANA انٹرنیٹ کی جدید سہولتوں اور مستقبل کی ضروریات کو مدِنظر رکھتے ہوئے تیار کیا گیا ہے۔ 

بڑی بڑی انڈسٹریز میں استعمال ہونے والا یہ پلاننگ سافٹ ویئر اپنے پیش رَو سافٹ ویئرز سے کہیں زیادہ تیز، متوازن اور مؤثر ہے، جو بزنس انٹیلی جینس اور مشین لرننگ کے جدید ٹُولز کو سپورٹ فراہم کرتا ہے۔ یہ ڈیٹا انٹیگریشن، ریئل ٹائم پراسیسنگ اور کلاؤڈ بیسڈ سلوشنز کے ذریعے کاروبار کے لیے ایک پلیٹ فارم مہیا کرتا ہے، جس کے نتیجے میں ڈیٹا کے استعمال میں بہتری آتی ہے اور فوری فیصلے کرنے اور کاروباری لاگت کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔ نیز، اس کو مینوفیکچرنگ اور مالیات سے وابستہ دُنیا کے بڑے اور معروف کاروباری ادارے اور حکومتیں بھی استعمال کرتی ہیں۔

مصنوعی ذہانت اس قدر وسیع میدان ہے کہ اس کی وسعت و اثرات کا احاطہ کرنا ممکن نہیں۔ اس نے ناممکنات کو ممکنات میں بدل کر رکھ دیا ہے اور زندگی کے ہر شعبے میں ترقّی کے مواقع پیدا کیے ہیں۔ سو، یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اے آئی نے ہماری دُنیا بدل کر رکھ دی ہے اور آنے والے وقت میں اس کی اہمیت بڑھتی ہی چلی جائے گی، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اس کے اخلاقی، قانونی اور سماجی پہلوؤں کو بھی مدِنظر رکھنا ہوگا، تاکہ ہم اس ٹیکنالوجی کو انسانیت کے فائدے کے لیے استعمال کر سکیں۔

دوسری جانب اے آئی کے استعمال سے جہاں کارکردگی میں بہتری آئی ہے، وہیں اس کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو اپنی ملازمتوں سے بھی ہاتھ دھونا پڑے۔ یاد رہے کہ دُنیا میں جب بھی کوئی نئی ٹیکنالوجی متعارف ہوتی ہے، تو اس کا اثر جاب مارکیٹ پر ضرور پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر جب موبائل فون آیا، تو ٹیلی فون آپریٹرز کی نوکریاں ختم ہو گئیں۔ گاڑیاں آئیں، تو گھوڑا گاڑیاں چلانے والوں کا کام ٹھپ ہو گیا۔

کمپیوٹر آیا، تو کاتبوں کے پاس کام نہ ہونے کے برابر رہ گیا۔ اسی طرح اے ٹی ایمز آئیں، تو بینک ٹیلرز کی مانگ میں زبردست کمی واقع ہو ئی۔ تاہم، یہ بھی حقیقت ہے کہ جب پُرانی ملازمتیں ختم ہوتی ہیں، تو نئی جابز کے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ ورلڈ اکنامک فورم کی ’’دی فیوچر آف جابز‘‘ کے عنوان سے شایع ہونے والی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق2025ء تک پوری دُنیا میں اے آئی کی وجہ سے 8.5کروڑ ملازمتیں ختم ہو جائیں گی، لیکن اسی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس مدّت میں اے آئی کے سبب 9.7کروڑ نئی ملازمتیں پیدا ہوں گی۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ ’’اے آئی ملازمتوں کا نہیں، بلکہ جابز کیٹیگریز کے خاتمے کا سبب ہے۔‘‘

مصنوعی ذہانت کا سفر ابھی جاری ہے اور اس میدان میں تحقیق و جستجو کے ذریعے ہم مستقبل میں ترقّی کے نِت نئے مواقع، امکانات تلاش کر سکتے ہیں اور پھر ان کے ذریعے ہم اپنا معیارِ زندگی بھی بہتر بنا سکتے ہیں ، جب کہ جو لوگ مصنوعی ذہانت کا استعمال نہیں سیکھیں گے، وہ پیچھے رہ جائیں گے۔ یاد رہے کہ آنے والے برسوں میں اے آئی نوکری کے حصول کا ایک معیار بن جائے گا کہ جس طرح کسی زمانے میں ٹائپنگ، شارٹ ہینڈ یا کمپیوٹر خواندگی کو ضروری سمجھا جاتا تھا۔

سنڈے میگزین سے مزید