’’علم الوقیع۔‘‘ جی ہاں، یہ نام ایک رسالے کا ہے۔ پرنٹ لائن کچھ یوں ہے۔’’بہ اہتمام لالہ موتی رام کے امرت الیکٹرک پریس میں چَھپا اور اشفاق احمد نے موضع مکیستر سے شائع کیا۔‘‘پرچے میں مضامین، نظمیں اور غزلیں بھی شامل تھیں۔ یہی نہیں، تصاویر بھی شمارے کی زینت تھیں، جو اُس زمانے کے وقیع پرچوں’’ عصمت‘‘،’’ تہذیبِ نسواں‘‘اور ’’خاتون‘‘ سے کاٹ کر’’علم الوقیع‘‘ میں چِپکائی گئی تھیں۔
پرچے کا مُدیر کوئی پُختہ کار شخص نہیں، بلکہ لگ بھگ تیرہ برس کا نوعُمر لڑکا تھا، جس کا نام تھا، اشفاق احمد۔’’علم الوقیع‘‘ کا دوسرا شمارہ شائع نہیں ہو سکا۔ یہ ابتدا تھی ادبی دنیا میں قدم رکھنے کی، ایک ایسے قلم کار کی،جس کے ذہن میں نو عُمری میں اِس بات کی دُھن سما گئی کہ اردگرد شائع ہونے والے پرچوں میں ایک پرچہ اُس کے نام سے بھی جاری ہونا چاہیے۔
ایک بزرگ کی زبانی’’علم الوقیع‘‘ کی اصطلاح سُنی اور اسے منفرد، بھاری بَھر کم جانتے ہوئے اپنے پرچے کے نام کے طور پر پسند کر لیا۔ ہرچند کہ استعمال کی گئی اصطلاح کی ترکیب سے اُس لڑکے کو ہرگز آگاہی نہیں تھی۔علم و دانش کی لگن اور ہمیشہ کچھ نہ کچھ سیکھتے رہنے کا چلن، اُس بچّے کے لیے نیک شگون ثابت ہوا اور قدرت اُس کی نوعُمری کی علمی لگاوٹ دیکھتے ہوئے اُس پر مہربان ہو گئی۔ سو، یہی بچّہ آگے چل کر ادبی دنیا میں اپنے افسانوں اور ڈراموں کے باعث نمایاں شناخت بنانے میں کام یاب ہوا۔
اشفاق احمد 22اگست1925ء میں غیر منقسم ہندوستان کے موضع مکیستر، فیروز پور(پنجاب)میں پیدا ہوئے۔ نوعُمری کے دن فیروز پور ہی میں گزارے۔ ابتدائی اور ثانوی تعلیم اِسی ضلعے کے اسکول و کالج سے حاصل کی۔ اشفاق احمد کے والد، ڈاکٹر محمّد خان تھے۔ اُنہوں نے ایک فیس کریم بھی متعارف کروائی اور’’مینزین‘‘ کے نام سے مارکیٹ میں آنے والی وہ کریم خاصی مقبول بھی ہوئی۔ بڑی بہن اور بڑے بھائی دونوں ہی کو لکھنے پڑھنے کا بے حد شوق تھا۔گھر میں اخبارات کے علاوہ بہت سے ادبی رسائل بھی آیا کرتے تھے۔
صُورت کچھ یوں ہوتی کہ بہن اپنے بھائی کو مولانا ظفر علی خاں کی نظمیں سُنایا کرتیں اور بھائی جوابِ آں غزل کے طور پر بہن کو مولانا ابوالکلام آزاد کی نثر سُناتے۔یوں اشفاق احمد کو کم عُمری ہی سے ادبی نگارشات سے دل چسپی پیدا ہو چلی۔1942ء میں’’توبہ‘‘ کے عنوان سے پہلا افسانہ مولانا صلاح الدّین کے لاہور سے نکلنے والے مشہور پرچے’’ ادبی دنیا‘‘ میں شائع ہوا۔’’بزمِ ادب ‘‘ کے عنوان سے مولانا اس کا اداریہ بھی تحریر کرتے تھے۔’’ توبہ‘‘ کے سلسلے میں اُنہوں نے اداریے میں تعریفی کلمات بھی تحریر کیے۔
افسانے کی ایک موقر جریدے میں اشاعت اور جریدے کے نام وَر مُدیر کی جانب سے حوصلہ افزائی نے اشفاق احمد میں قلم سے ناتا جوڑے رہنے کی کسی حد تک تحریک بھی پیدا کی۔ یہ وہ زمانہ تھا، جب ہندوستان بڑی سیاسی تبدیلیوں سے گزر رہا تھا۔فرنگی قید سے آزادی حاصل کرنے کی لگن بڑھتی چلی جا رہی تھی۔ گاندھی جی اور قائدِ اعظم محمّد علی جناح ہندوؤں اور مسلمانوں کے نمائندوں کے طور پر سیاسی میدان میں پوری طرح فعال تھے۔1942ء ہی میں قائدِ اعظم نے جالندھر، مشرقی پنجاب کا دورہ کیا۔لوگوں کا جمِ غفیر اُن کے جلسے میں موجود تھا۔
نوجوان اشفاق احمد سخت سردی میں فیروز پور سے بذریعہ ریل گاڑی جالندھر پہنچ گئے۔اُنہیں قائدِ اعظم کی شخصیت میں جس چیز نے سب سے زیادہ متاثر کیا، وہ اُن کی آواز تھی۔اُنھیں دیگر سیاسی رہنماؤں اور مذہبی شخصیات کی تقاریر سے بھی خُوب لُطف اندوز ہونے کا موقع ملا۔1930ء کے آخری اور 1940ء کے ابتدائی عشرے میں ہندوستان کے ادبی اُفق پر ہل چل مچانے والی’’ ترقّی پسند تحریک‘‘ سے وابستہ ترقّی پسند شاعر اور ادیب، اپنی تحریک کی مقبولیت اور بڑھتی ہوئی لے میں تحریک کے پلیٹ فارم سے باہر رہ کر ادب تخلیق کرنے والے ادباء و شعراء کو کچھ زیادہ خاطر میں لانے کے روادار نہیں تھے۔
یوں متذکرہ صف کے ادبی تخلیق کاروں کو شناخت بنانے میں غیر معمولی محنت کا مظاہرہ کرنا پڑتا۔ تقسیم کے آس پاس کے زمانے میں ایسی غیر معمولی ہمّت و کاوش کرنے والوں میں انتظار حسین، اے حمید اور استاد دامن وغیرہ کے ساتھ ایک نام اشفاق احمد کا بھی تھا۔یہ وہ تخلیق کار تھے، جو اپنی شناخت بنانے کے لیے کسی تحریک سے وابستہ نہ ہوئے۔
تقسیمِ ہند کے بعد مہاجرین کے قافلوں پر قافلے نئی مملکت کی جانب آتے رہے۔ لاکھوں کی تعداد میں آنے والے افراد پاکستان کے دارالحکومت کراچی کے علاوہ لاہوراور مُلک کے دیگر علاقوں میں آباد ہوئے۔اشفاق احمد بھی مہاجرین میں شامل ہوئے اور لاہور کا رُخ کیا،جہاں مشرقی پنجاب سے آنے والوں کو پریشانیوں سے بچانے کا عمل جاری تھا۔
معاشی تگ و دَو کے لیے ملازمت تلاش کی اور پاکستان ریلویز سے اِس سلسلے کا آغاز ہوا،تاہم یہ ملازمت مزاج کو راس نہ آئی، تو چھوڑ کر والٹن کیمپ (مہاجرین کی دیکھ بھال کے لیے قائم کیے گئے کیمپ)میں 65روپے ماہانہ والی ایک ملازمت کا حصّہ بن گئے۔ یہاں کام کرتے ہوئے اُنہوں نے ہجرت کے عمل سے گزرنے والوں کے روزو شب کی تکالیف کا نہ صرف مشاہدہ کیا، بلکہ اُنھیں دُور کرنے کی حتی المقدور کوششیں بھی کرتے رہے۔
والٹن کیمپ میں اُن کی ذمّے داریوں میں رجسٹر پر مہاجرین کے نام درج کرنا بھی شامل تھا۔نام درج کرنے کے دوران وہ لوگوں کی دل جوئی کی خاطر اُن سے خُوب باتیں کیا کرتے، لہٰذا رفتہ رفتہ لوگ اُنہیں پسند کرنے لگے اور اُن کے لیے پسندیدگی کی بات کیمپ کے منتظمِ کار تک بھی جا پہنچی، سو اُس نے اشفاق احمد کو اناؤنسمینٹ کی ذمّے داری سونپ دی، جس کے فرائضِ خاص میں لوگوں کے دِلوں میں حالات سے پیدا ہونے والی مایوسی ختم کر کے، عزم و حوصلہ بڑھانا شامل تھا۔ اشفاق احمد نے یہ فریضہ بہت خوش اُسلوبی سے انجام دیا۔
کچھ وقت بعد وہاں ممتاز مفتی بھی آن پہنچے۔ وہ بطور افسانہ نگار شہرت کے حامل تھے۔ جلد ہی دونوں میں گاڑھی چھننے لگی۔1947-48ء کے آس پاس اُنہیں مصوّری سے دل چسپی پیدا ہوئی اور رنگ، برش، ایزل، کینوس سے رشتہ جُڑ گیا، تصویریں اور تجریدی آرٹ کے نمونے سامنے آنے لگے،تاہم یہ سلسلہ بہت طویل عرصے تک جاری نہ رہ سکا۔
کہانی کہنا شاید اُن کی سب سے بڑی کم زوری تھی، لہٰذا قلم سے افسانے تحریر کیے جانے کا سلسلہ جاری رہا۔’’پاک ٹی ہاؤس‘‘ اور’’ کافی ہاؤس‘‘ میں شاعروں، ادیبوں کی ٹولیاں جمع رہتیں۔راجندر سنگھ بیدی، سعادت حسن منٹو جیسے نابغۂ روزگار ہم صحبتوں کے ساتھ خوش وقتی و خوش بختی کو آواز دیا کرتے۔ رندانِ بلا خیز و زاہدانِ صد سالہ سے لے کر نوواردانِ وادیٔ حرف و لفظ تک از صبح تا شبِ آخر، کبھی نتیجہ خیز اور کبھی بے نتیجہ مباحث میں مشغول رہتے۔نت نئے دوست بنائے جاتے، دائیں اور بائیں بازو کی لکیر کھینچی جاتی، اپنے اپنے جادے اور نظریے کا پرچار کیا جاتا اور بار بار کیا جاتا۔گویا ادب، جسم میں لہو بن کر دوڑا کرتا۔
یوں ایک نہ ختم ہونے والے ہاؤ ہو کا سلسلہ جاری رہتا۔ اُن ہی ٹولیوں میں سے کسی نہ کسی میں اشفاق احمد بھی ہوتے۔ کبھی اے حمید کے ساتھ، تو کبھی انتظار حسین کے ہم راہ، تو کبھی ممتاز مفتی کی سنگت میں، تو کبھی ناصر کاظمی کی صحبت میں۔ یہ بھرپور ادبی سرگرمیاں تو جاری رہتیں، تاہم، اُنہوں نے ادبی بیٹھکوں کو غیر ضروری طوالت کا ذریعہ نہ بنایا۔
اردو کے ممتاز ترین افسانہ نگار، سعادت حسن منٹو نے 1949ء میں’’ اردو ادب‘‘ کے نام سے شائع ہونے والے پرچے میں’’تازہ واردان‘‘ کے عنوان سے اشفاق احمد کے حوالے سے اظہارِ خیال کرتے ہوئے اپنے مخصوص نکیلے انداز میں تحریر کیا۔’’نام اشفاق احمد خان۔ جائے پیدائش، سِکھوں کا متبرّک شہر مکتسر۔ تقسیم پر ہجرت کی، تو خان وہیں رہ گیا۔ اب صرف اشفاق احمد۔باپ سلوتری۔ ہارس سینس یعنی اسپی حِس وَرثے میں آئی۔ موجودہ مشاغل، برف سازی اور افسانہ نویسی۔‘‘ گویا، منٹو نے’’ تازہ واردان‘‘ میں تازہ کاری کی اُچھلتی موجیں اُسی وقت محسوس کر لی تھیں۔
گورنمنٹ کالج، لاہور سے 1950ء میں ایم اے (اُردو) کی سند حاصل کی۔1951-52ء میں دیال سنگھ کالج،لاہور میں اُردو کے استاد کے طور پر درس و تدریس کا آغاز کیا۔ محمّد طفیل کے مشہور پرچے’’ نقوش‘‘ کے’’افسانہ نمبر‘‘ میں جب اشفاق احمد کا’’ گڈریا‘‘ پچاس کے اوائل عشرے میں شائع ہوا، تو ایک سرے سے دوسرے سرے تک افسانے کی دُھوم مچ گئی۔ تقسیمِ ہند کے موضوع پر تخلیق پانے والے اور یاد رہ جانے والے ادب میں مذکورہ افسانہ بھی شامل ہے۔’’ گڈریا‘‘ پسند کرنے والوں میں سعادت حسن منٹو بھی شامل تھے، جنہوں نے ایک ملاقات میں افسانے کی تحسین کی۔
تقسیم کے بعد نئی مملکت، پاکستان میں تخلیق پانے والے ادب کے اوّلین عشرے پر ایک نظر ڈالتے ہوئے ممتاز تنقید نگار، ڈاکٹر سیّد عبداللہ نے’’پاکستانی ادب کے دس سال‘‘ کے عنوان سے تحریر کیا ہے۔’’اشفاق احمد نے شفقتوں کی مصوّری کے لیے (جن کی وسعت میں ماں، بیوی، بچّے، ملازم، یتیم اور عام بے کس سبھی سما جاتے ہیں)انفرادی امتیاز پیدا کر لیا ہے، جن کے مؤثر نمونے ’’گڈریا‘‘اور’’بتاشے‘‘ کی صُورت میں پیش ہوئے ہیں۔‘‘
ممتاز مفتی کے تحریر کیے گئے خاکوں کی کتاب’’اوکھے لوگ‘‘ ہے۔وہ اشفاق احمد کے سلسلے میں کچھ یوں گویا ہوتے ہیں۔’’اشفاق احمد نے آج تک اپنے صرف ایک فن سے مالی فائدہ حاصل کیا ہے اور وہ ہے، اسکرپٹ رائٹنگ۔ عرصۂ دراز تک اشفاق کے گھر میں حساب کتاب اسکرپٹس میں ہوتا رہا۔کرایۂ مکان چار اسکرپٹس۔ باورچی خانے کا خرچ آٹھ اسکرپٹس۔
علاج معالجہ ڈیڑھ اسکرپٹ۔لین دین دو اسکرپٹس۔ آج بھی بانو قدسیہ سے پوچھو، یہ صوفہ کتنے میں خریدا تھا؟ تو کہے گی’’اچھی طرح یاد نہیں، شاید تین اسکرپٹس لگے تھے۔‘‘وقت گزرنے کے ساتھ اشفاق احمد کا حلقۂ احباب بڑھتا چلا گیا۔ ملنے جُلنے والے بہتیرے، تاہم قریبی دوستوں میں ممتاز مفتی، قدرت اللہ شہاب، احمد بشیر اور اے حمید وغیرہ شامل تھے، جن سے خُوب خُوب صحبتیں رہتیں۔قرطاس و قلم سے وابستہ افراد و اشخاص میں اشفاق احمد کا نام رفتہ رفتہ اعتبار حاصل کرنے لگا۔چوں کہ قلم ہمہ وقتی مشغلہ تھا، لہٰذا افسانہ نگاری کے ساتھ اُنہوں نے تخلیق کے دیگر ذرایع بھی اپنائے۔
اُسی کا نتیجہ تھا کہ اُنہوں نے1963-64ء میں مشہور رسالے ہفت روزہ’’ لیل و نہار‘‘کی ادارت بھی کی۔افسانہ نویسی اور ڈراما نگاری سے خاص شغف رہا۔ڈرامے سے دل چسپی شاید یوں زیادہ رہی کہ ڈرامے، ریڈیو کے لیے بھی لکھے اور ٹی وی کے لیے بھی۔ ریڈیو کے لیے لگ بھگ پچاس ڈرامے، ساڑھے تین سو کے قریب فیچر اور خاکے تحریر کیے۔ 1965ء میں شروع کیا گیا اُن کا ریڈیو پروگرام’’تلقین شاہ‘‘ مقبول ترین اور لگ بھگ چار عشرے تک چلنے والا ریڈیائی فیچرتھا۔ زندگی کے عام سماجی مسائل و معاملات پر روشنی ڈالنے والا یہ پروگرام، اُس میں چُھپے پیغام کے باعث لوگوں کے دِلوں میں گھر کر گیا۔ ایک ایسا کردار، جو کہتا کچھ اور کرتا کچھ ہے۔چہرے پر نقاب پہننے والا شخص۔
اوپر سے اچھی اچھی باتیں، اندر سے بُری سوچ۔ اپنے سامنے موجود مہمانوں سے ہنس ہنس کر، اچھی اچھی اور نیکی کی باتیں کرنے والا، اُن کے جانے کے بعد اُن کی جی بَھر کر برائیاں کرتا۔ منافقت سے بھرپور شخصیت۔جس بات کی دوسروں کو تلقین کی جا رہی ہے، اُس پر کاربند رہنے سے خود بری الذمّہ، یعنی ’’خود را فضیحت دیگراں را نصیحت۔‘‘ایسے کردار کی عکّاسی کے ذریعے وہ لوگوں کو پیغام دیتے کہ اپنے ارد گرد چلنے پِھرنے والوں کو پہچاننے کی کوشش کریں۔
پی ٹی وی کے لیے اُس کے آغاز ہی سے ڈرامے لکھنے شروع کیے۔ستّر کی دہائی میں اُن کے ڈراموں کے موضوعات سماجی اور رومانی نوعیت کے رہے۔’’ ایک محبّت، سو افسانے‘‘ کے تحت چلنے والے سلسلے میں مذکورہ موضوعات پر متواتر ڈرامے پیش کیے۔ اُس سے اگلی دہائی بھی اُن کی تحریروں سے عبارت رہی۔’’ توتا کہانی‘‘ اور’’ مَن چلے کا سودا‘‘ رومانیت کی دنیا کو خیرباد کہہ کر خود قلم کار کے اندر در آنے والی تصوّف کی لہر کے عکّاس نظر آئے۔’’ زاویہ‘‘ ٹیلی ویژن کا وہ پروگرام تھا، جس کی وساطت سے وہ لوگوں میں کسی حد تک’’ صوفی بابا ‘‘ قرار دیئے جانے لگے۔
وہ تصوّف کہ جسے اُن کی ذات سے منسوب کیے جانے پر لوگوں کی جانب سے ردّ و قبول کے رویّے کا مظاہرہ کیا گیا۔ اشفاق احمد نے پنجابی زبان میں شعر و سخن سے بھی رشتہ قائم کیا، تاہم اسے اپنی مضبوط شخصیت کا بنیادی حوالہ نہیں بنایا۔ داستان سے ایسی اُلفت کہ ادبی پرچہ جاری کیا، تو’’ داستان گو‘‘ کے نام سے۔ جب گھر تعمیر کیا تو’’داستان سرائے‘‘ کی تختی پکار پکار کر کہتی رہی کہ گھر کے مکین کو داستان سے عشق ہے۔ اشفاق احمد ایک داستاں گو ہونے کے ساتھ، ایک داستان بھی قرار پا گئے۔
ایسی داستان، جس میں کردار ہی کردار ہیں اور ہر کردار، داستان کہنے والے کا اپنا رُوپ ہے۔ ڈراما’’مَن چلے کا سودا‘‘ اور گفتگو پر مبنی پروگرام’’ زاویہ‘‘اُن کی شخصیت کے تصوّفانہ رنگ کی عکّاسی کرتا ہے۔ اشفاق احمد نے’’مرکزی اردو بورڈ‘‘ کی، جو آگے چل کر’’اردو سائنس بورڈ‘‘میں تبدیل ہوا، 1967-68ء تا1989ء تک سربراہی کی۔1991ء تا1993ء بھی ادارے کی نگرانی کے اُمور انجام دیئے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں اعلیٰ مناصب پر فائز رہے۔7ستمبر2004ء کو لاہور میں انتقال ہوا۔اُن کے افسانوں اور ڈراموں کے کئی مجموعے سامنے آئے۔
جس طرح’’ گڈریا‘‘ نے افسانہ نگاری کی دنیا میں اشفاق احمد کو امر کر دیا، کچھ ویسی ہی صُورت ناول نگاری میں بانو قدسیہ کے ساتھ پیش آئی کہ 1981ء میں تحریر کیے گئے ناول’’راجا گِدھ‘‘ نے موضوع کی نُدرت اور اظہار کے باعث شہرت و مقبولیت کے کئی ہفت خواں طے کر لیے۔ ایس کے جبین نے اپنی کتاب’’اردو کی خواتین ناول نگار‘‘میں تحریر کیا ہے۔’’مجموعی طور پر بانو قدسیہ کا یہ ناول فکری و فنی اعتبار سے خاصا کام یاب کہا جا سکتا ہے۔
فکری اعتبار سے اس کا مطالعہ موجودہ عہد اور معاشرے سے متعلق نئی جہتوں سے سوچنے کی دعوت دیتا ہے اور فنی اعتبار سے اس کی کام یابی ہمیں یہ احساس دلاتی ہے کہ روایتی موضوعات کی بجائے نئے موضوعات کو فنی سانچوں میں کس طرح پیش کیا جا سکتا ہے۔ یہ گویا پاکستان کی اُس نئی نسل کی کہانی ہے، جس نے ہجرت کا کرب نہیں جھیلا، مگر اپنے ہی تخلیق کردہ معاشرے میں اجنبیت اور تنہائی کے کرب سے دوچار ہے۔اِس اعتبار سے یہ ناول نئے آفاق کی سیر کرواتا ہے۔‘‘
’’راجا گدھ‘‘تحریر کرنے والی بانو قدسیہ18نومبر 1928ء کو فیروز پور، پنجاب میں پیدا ہوئیں۔نام قدسیہ بانو چٹھہ تھا، جسے آگے چل کر اشفاق احمد نے بانو قدسیہ کر دیا۔بانو قدسیہ کو نوعُمری ہی سے لکھنے پڑھنے اور کہانی سُننے سُنانے میں لُطف آتا۔گھر کی فضا نے اس شوق کو یوں مہمیز کیا کہ والد چوہدری بدر الزماں چٹھہ،جو زمیں دار تھے اور زراعت یا ایگری کلچر میں بیچلرز ڈگری کے حامل تھے، انتہائی وسیع المطالعہ شخص تھے،تاہم زیادہ نہ جی سکے اور بانو قدسیہ کو کم عُمری ہی میں یتیمی کا سامنا کرنا پڑا۔
والدہ، ذاکرہ بیگم تعلیم یافتہ خاتون تھیں۔ گھر میں اخبارات و رسائل بھی آیا کرتے، یوں تحریر سے شغف دھیرے دھیرے بڑھنا شروع ہو گیا۔بود و باش کے لیے جس جگہ سکونت اختیار کی، وہ بھی روشن خیالی کی ایک الگ ہی دنیا تھی۔ لگ بھگ پانچ ہزار کی آبادی پر مشتمل دھرم سالہ1937ء کے آس پاس بھی بجلی سے روشن تھا۔
یہی نہیں پکّی سڑک، اسپتال اور لڑکے لڑکیوں کے لیے دسویں جماعت تک اسکول بھی قائم تھا، جسے ایک انگریز ہیڈ ماسٹر کی نگرانی میں چلایا جا رہا تھا۔ اور تو اور، سینما گھر کے ساتھ ایک کلب بھی موجود تھا،جہاں مغربی تہذیب کے پروردہ مختلف کھیلوں کا انعقاد کرتے۔ چھوٹی سی جگہ کے لیے اتنی مراعات کا سبب دراصل ایک فوجی چھاؤنی تھی، جس میں گورکھا اور فرنگی فوج رہا کرتی۔
شاید تعلیم کا پانچواں ہی درجہ تھا کہ کچّے ذہن کی ناپختگی نے ایک ڈراما تحریر کرنے پر اُکسایا۔ اردگرد کی فضا بڑی سیاسی تبدیلیوں کی زَد میں تھی اور متاثر ہونے والے افراد میں سرِفہرست وہ لوگ تھے، جو جُنوں کی حکایاتِ خوں چکاں قلم بند کرنے میں مصروف تھے۔1947ء میں ہندوستان کی تقسیم ایک ایسا عمل تھا، جس نے برّصغیر کے کروڑوں افراد کی زندگیوں میں تغیّرات کو جنم دیا۔ متاثر ہونے والوں میں بانو قدسیہ کے افرادِ خانہ بھی شامل تھے، جو فیروز پور سے ہجرت کر کے لاہور آگئے۔
لاہور آنے کے بعد نئے سرے سے زندگی کا آغاز ہوا۔بانو قدسیہ نے لاہور کے مشہور تعلیمی ادارے،Kinnaird College سے گریجویشن کیا۔کالج کی زندگی میں بھی ادبی سرگرمیاں جاری رہیں اور کالج سے شائع ہونے والے میگزین کے لیے گاہے گاہے کچھ نہ کچھ لکھنے کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ گریجویشن کے بعد جس تعلیمی ادارے میں ایم اے، اُردو کے لیے داخلہ لیا، وہ برّصغیر کے چند قابلِ فخر سمجھے جانے والے اداروں میں سے ایک’’گورنمنٹ کالج، لاہور‘‘تھا،جہاں سے 1950ء میں مذکورہ سند حاصل کی۔ پچاس کے اوائل میں افسانے تحریر کرنے شروع کیے۔
لاہور سے شائع ہونے والے مشہور رسالے’’ ادبِ لطیف‘‘ میں 1951-52ء کی اشاعت میں اُن کا تحریر کردہ افسانہ’’درماندگیٔ شوق‘‘ شائع ہوا۔افسانے کا موضوع قدیم اور جدید تہذیب کے ٹکراؤ، ایک طرف حد سے بڑھتی آزادی اور دوسری طرف شدّت پسندی کی حد تک قدامت پرستی اور ان سب کے نتیجے میں جنم لینے والے ازدواجی، گھریلو اور سماجی تضادات تھے۔ دراصل، یہیں سے بانو قدسیہ نے اپنے لیے ایک متعیّن راہ کا انتخاب کیا اور اُس پر ثابت قدمی کے ساتھ جادۂ پیما ہو چلیں۔
جس افسانے سے شہرت ملی، اُس کا عنوان’’کلّو‘‘ تھا۔تعلیمی زندگی کی تکمیل کے دَوران ہی اُن کی ملاقات اشفاق احمد سے ہوئی تھی۔ اوّلین ملاقات، اگلی ملاقاتوں کی تمہید قرار پائی اور بالآخر1956 ء میں یہ ملاقاتیں ازدواجی زندگی کی تشکیل کا سبب بن گئیں۔ اُن کی شادی کو صحیح معنوں میں’’قِراُن السّعدین‘‘(دو اچھے ستاروں کا ایک بُرج میں جمع ہونا بہ حوالہ نسیم اللغات از نسیمؔ امروہوی)قرار دیا جا سکتا ہے۔
اگرچہ دونوں ہی نے اس رشتے کی بِنا ڈالنے کے لیے اپنے اپنے خاندانوں کی مخالفت مول لی اور نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ اشفاق احمد پر اُن ہی کے گھر کے دروازے بند کر دیئے گئے۔ ازدواجی رشتے میں بندھنے والے میاں، بیوی نے اپنے گھر میں جس ساز و سامان سے زندگی کا آغاز کیا، وہ چند سنہری اُصول تھے اور جن میں سب سے مقدّم’’ قلمی روزگار‘‘ تھا۔
شادی کے ابتدائی دنوں کی بات ہے کہ ایک روز قدرت اللہ شہاب، اشفاق احمد سے ملاقات کے لیے اُن کے گھر پہنچے۔مالی حالات کچھ بہتر نہ تھے۔ جب قدرت اللہ شہاب دروازے تک پہنچے، تو گھر کے باہر کا نلکا، جو اُن دنوں عموماً سارا سارا دن کُھلا رہتا، مستقل پانی بہنے کے باعث کیچڑ کی شکل اختیار کر چکا تھا، سو اُنہیں کیچڑ سے گزرنا پڑا، تو جوتے اُس میں لتھڑ کر رہ گئے اور اُنہوں نے مناسب جانا کہ اشفاق احمد سے باہر چل کر بیٹھنے کو کہا جائے۔1957ء کے آخر میں’’ داستان گو‘‘ کے نام سے ایک پرچے کا اجراء کیا گیا۔ پرچہ اگرچہ معیاری تھا، تاہم معیار کے ساتھ، سرمائے کی ضرورت بھی ہوتی ہے اور جس کا قلم کار میاں، بیوی کے پاس کافی حد تک فقدان تھا۔
بانو قدسیہ کے ساتھ دُہری مشکل تھی۔ بچّوں کی پرورش اور وہ بھی تنگ دستی کے ساتھ، کوئی آسان کام نہ تھا۔ بچّوں کی ضروریات، خانگی اُلجھنیں اور تحریر سے ناتا جوڑے رکھنے کی لڑائی شدّو مد سے لڑی جا رہی تھی۔تاہم، بانو قدسیہ نے ہمّت نہ ہاری اور جدوجہد جاری رکھی۔1958ء میں افسانوں کے تین مجموعے ’’بازگشت‘‘، ’’امر بیل‘‘اور’’ کچھ اور نہیں‘‘ کے عنوانات سے سامنے آئے اور نقّادانِ فن سے خُوب داد سمیٹی۔
زندگی سخت ترین جدوجہد کا مطالبہ کر رہی تھی اور بانو قدسیہ نے بھی اس مطالبے کی تکمیل میں وقت کا ہر لمحہ صرف کر دیا۔1967ء میں’’ شہرِ بے مثال‘‘ کے عنوان سے سامنے آنے والے ناول نے بھی شائقین سے داد سمیٹی۔ مذکورہ ناول میں مصنّفہ نے اُس دَور کے دیگر ناولز کے اسلوب سے قدرے گریز کرتے ہوئے بنیادی کہانی کے اندر مختلف مقامات پر مختلف حکایات بیان کی ہیں۔
اساطیری انداز پر مبنی یہ حکایتیں اصل کہانی کے لُطف کو بعض مقامات پر دوبالا کر دیتی ہیں، لیکن کہیں کہیں اصل کہانی کو بوجھل بھی کرتی ہیں۔دراصل، اِسی ناول سے بانو قدسیہ کو اپنے شاہ کار ناول’’راجا گدھ‘‘کو خُوبی سے برتنے کا راستہ ملا، جس کے فلیپ پر اشفاق احمد نے لکھا کہ ’’راجا گدھ اردو زبان میں ایک اور طرح کا ناول ہے، جو آئندہ لکھنے والوں کے لیے سوچ کی نئی راہیں کھولے گا اور ایک ذہین قاری کو ایسے مقام پر لے جائے گا، جہاں مکوڑے کی بینائی طائر کی نظر میں تبدیل ہو جاتی ہے۔‘‘یہ بات حتمی تھی کہ بانو قدسیہ نے قلم سے کبھی نہ ٹوٹنے والا رشتہ استوار کیا تھا۔
زندگی میں انتہائی نامساعد حالات کا سامنا کرنے کے باوجود، جو امر اُن کی تحریر کے جذبے کو شکست نہ دے سکا، وہ اُن کا جاوداں عزم و استقلال تھا کہ کچھ بھی ہو جائے، قلم کو رواں رکھنا ہے۔1999ء میں اُن کے تین افسانوی مجموعے’’ امر بیل‘‘،’’باز گشت‘‘، ’’کچھ اور نہیں‘‘ سنگِ میل پبلی کیشنز نے لاہور سے شائع کیے، تو بانو قدسیہ نے کتاب کا انتساب اپنے بچّوں’’انیق احمد، انیس احمد، اثیر احمد کے نام‘‘ کیا کہ ایک ماں کی شاید سب سے بڑی آرزو یہی ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچّوں کا مستقبل روشن دیکھے اور روشن مستقبل کی سب سے مضبوط کڑی، علم کا حصول ہے اور علم کی جوت جگانے کے لیے لفظ سے اُلفت بہت ضروری ہے۔2005 ء میں’’ حاصل گھاٹ‘‘ کے نام سے ناول تحریر کیا، جو اپنے پلاٹ، موضوع اور اسلوب کے باعث خاصا مشہور ہوا۔اُنہوں نے افسانے، ڈرامے، ناول کی اصناف میں قلم اٹھایا۔
علامتی اندازِ تحریر پر مبنی’’راجا گدھ‘‘ کے تیس سے بھی زاید ایڈیشنز شائع ہوئے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی کا تحقیقی مقالہ’’ اُردو ناول کے اسالیب‘‘ کے عنوان سے پٹنہ، بہار (ہندوستان) سے شائع ہوا۔ وہ لکھتے ہیں۔’’بانو قدسیہ کا ناول’’راجا گدھ‘‘ (1981ء) ایک علامتی ناول ہے۔
جو کام انتظار حسین نے اپنے ناولز میں ہندی دیو مالا، اسلامی تاریخی کرداروں، جاتکوں اور ڈائری کے اوراق سے قصّے کی معنویت کی تعمیر کے لیے لیا ہے، وہی کام بانو قدسیہ راجا گدھ، مینا، سیمرغ، الّو، بلبل، چیل وغیرہ کی عدالت کے مناظر سے لیتی ہیں، جس کی جان وہ مکالمے ہیں، جو انسان کے گناہوں اور اس کے شر کے حوالے سے بہت اہم ہیں۔‘‘اگرچہ چند آوازیں ناول کی مخالفت میں بھی بلند ہوئیں، تاہم اکثر نقّادانِ فن نے’’راجا گدھ ‘‘ کو فکر کی نئی راہیں کھولنے والا ناول قرار دیا۔بانو قدسیہ نے ناول اور افسانوں میں شناخت بنانے کے بعد ٹیلی ویژن ڈراموں میں بھی اپنی انفرادیت قائم کی۔
محض چند نام پیش کیے جاتے ہیں۔آدھی بات، آتشِ زیرِپا، ایک دن، تماثیل، ہوا کے نام، فُٹ پاتھ کی گھاس،چھوٹا شہر، بڑے لوگ، دوسرا قدم، سورج مکھی۔ماڈل ٹاؤن، لاہور میں اُن کی قیام گاہ’’داستان سرائے‘‘ متواتر منعقد کی جانے والی ادبی نشستوں کے باعث جلد ہی تاریخی اور تہذیبی شہر، لاہور کی چند معتبر ادبی بیٹھکوں میں شمار ہونے لگی۔
شاعر، ادیب، صحافی، دانش وَر، اساتذہ اور طلبہ علم و ادب کی پیاس لیے آتے اور سیراب جاتے۔میاں، بیوی دونوں ہی کو بہت سے حکومتی اعزازات و انعامات سے نوازا گیا، مگر اُنھیں ملنے والا حقیقی انعام دراصل وہ عزّت و تکریم اور خلوص و محبّت تھا، جو اُنہیں عوام کی جانب سے مسلسل موصول ہوتا رہا۔
افسانے، ناول اور ڈراما نگاری کی دنیا میں نام وَری اور پہچان رکھنے والے اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کی اولاد بھی اپنے والدین کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے حصولِ علم کی راہ پر پوری لگن اور ثابت قدمی سے گام زن رہی۔ اُن کی اولاد میں تین صاحب زادے ہیں۔ 18اکتوبر 1957ء کو سمن آباد، لاہور میں پیدا ہونے والے سب سے بڑے صاحب زادے، انیق احمد نے گورنمنٹ کالج، لاہور سے ایم ایس سی کلینیکل سائیکالوجی میں امتیازی حیثیت سے کام یابی حاصل کی۔
تدریس کے شعبے سے وابستگی کا آغاز مرے کالج، سیال کوٹ سے ہوا۔اُس کے بعد ایف سی کالج، لاہور سے وابستگی اختیار کی۔انیق احمد نے مزید اعلیٰ تعلیم کے حصول کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔1987ء میں وہ اپنے اہلِ خانہ کے ہم راہ امریکا پہنچے، تو مقصد حصولِ علم ہی تھا۔کینسز اسٹیٹ یونی ورسٹی سے ایم ایس سی سائیکالوجی کی سند نے میڈیسن وسکانسن یونی ورسٹی میں پی ایچ ڈی میں داخلے کی راہ ہم وار کی۔ماں باپ کی طرح ہر دَم محنت پر یقین رکھنے والے انیق احمد نے متعیّن وقت میں اعلیٰ ترین سند حاصل کی، تو امریکا کے’’ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ اینڈ ریسرچ سینٹر‘‘ میں سائنٹسٹ کے عُہدے پر فائز ہوئے۔
یہاں تین، چار برس کے دَوران کئی ریسرچ پیپرز تیار کیے اور اۃنھیں مختلف ممالک میں منعقد ہونے والے سیمینارز میں پیش کیا۔اُن کا اگلا پڑاؤ’’آرکنسٹ اسٹیٹ یونی ورسٹی ‘‘ قرار پایا، جہاں پہلے اسسٹنٹ پروفیسر، پھر پروفیسر اور اس کے بعد چیئرمین آف دی ڈیپارٹمنٹ قرار پائے۔آخر الذکر عُہدہ تدریسی سے زیادہ تنظیمی اُمور سے تعلق رکھتا تھا۔ انیق احمد نے کچھ وقت تک تو یہ ذمّے داری نبھائی، تاہم طلبہ سے دُوری گوارا نہ ہوئی اور اُنہوں نے وائس چانسلر کو درخواست دی کہ اُنہیں براہِ راست تدریسی ذمّے داریاں تفویض کر دی جائیں تاکہ وہ طلبہ کے قریب رہ سکیں۔ وائس چانسلر نے اُن کی درخواست منظور کرلی۔
انیق احمد اب تک یہ فرائض خوش اسلوبی سے ادا کر رہے ہیں۔انیق احمد کی تین صاب زادیاں ہیں اور تینوں ہی نے امریکا میں تعلیم پائی ہے۔سب سے بڑی بیٹی ایم ایس سی انگلش لٹریچر ہیں۔دوسری صاحب زادی نے کرمنالوجی میں پی ایچ ڈی کی ہے، جب کہ سب سے چھوٹی صاحب زادی نے گریجویشن کیا ہے اور اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے کوشاں ہیں۔
منجھلے صاحب زادے انیق احمد خاں16 اکتوبر 1958ء کو پیدا ہوئے۔ پنجاب یونی ورسٹی سے پبلک ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کیا۔کچھ وقت پی آئی اے میں ملازمت کی۔ اس کے بعد پاکستان کے ایک دوا ساز ادارے میں اعلیٰ عُہدے پر کام کرتے رہے، یہاں تک کہ وائس چیئرمین کی ذمّے داریاں سنبھال لیں۔انیق احمد 14جنوری 2018ء کو انتقال کر گئے۔ اولاد میں ایک بیٹا اور بیٹی شامل ہے۔ بلال ان دنوں دبئی کے ایک ادارے میں اعلیٰ عُہدے پر فائز ہیں۔بیٹی کا نام فاطمہ ہے، جنہوں نے کولمبیا یونی ورسٹی سے انڈر گریجویشن کیا ہے اور فی الحال خانگی اُمور میں مصروف ہیں۔
سب سے چھوٹے صاحب زادے، اثیر احمد خاں نے گورنمنٹ کالج، لاہور سے گریجویشن اور پھر ایم اے اکنامکس میں شان دار کام یابی حاصل کی۔ اوّل اوّل بینک میں ملازمت اختیار کی اور ترقی کرتے ایس ای وی پی کے عُہدے تک جا پہنچے۔ کچھ وقت بعد یہاں سے استعفا دے کر ایک مقامی شیئرز کمپنی میں ڈائریکٹر کے عُہدے پر فائز ہوئے۔ اثیر احمد آج کل رئیل اسٹیٹ کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔ اُن کی اہلیہ اُمنیہ خاں نے یونی ورسٹی آف ویسٹرن، آسٹریلیا سے پی ایچ ڈی کی ہے اور اِن دنوں اُسی یونی ورسٹی سے منسلک ہیں۔
اثیر احمد کا بیٹا اویس احمد اور بیٹی مرحا اِن دنوں اعلیٰ تعلیم کے لیے آسٹریلیا میں مقیم ہیں۔مرحا وہاں رہتے ہوئے ایم ایس سی کلیریکل سائیکالوجی سے منسلک ہیں۔ انیق احمد نے ماں باپ کی تخلیقی صلاحیتوں کو سامنے رکھتے ہوئے خود بھی تخلیق سے رشتہ جوڑا۔ ریڈیو پروگرامز کے لیے اسکرپٹ رائٹنگ کی۔اس کے علاوہ’’ آب و دانہ‘‘ کے عنوان سے ایک کھیل تحریر کیا۔ معاصر روزنامے میں لگ بھگ دو سے ڈھائی برس بینکنگ اور اقتصادیات کے موضوع پر کالم تحریر کرنے کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔
اگرچہ اشفاق احمد اور بانو قدسیہ دونوں نے ٹیلی ویژن کے لیے متعدّد یادگار ڈرامے پیش کیے اور تادمِ آخر ڈرامے تحریر کرنے کا سلسلہ جاری رکھا،تاہم جو بات دونوں شخصیات کو ممتاز مقام کا حامل ٹھہراتی ہے، وہ یہ ہے کہ ایک نے افسانہ نگاری کی دنیا میں منفرد حیثیت رکھنے والے ادیبوں اور نقّادوں سے خود کو تسلیم کروایا، تو دوسرے نے ناول نگاری کے میدان میں اپنا لوہا منوایا۔